طارق انور
19 مئی، 2016
گزشتہ کچھ دنوں سےملت اسلامیہ میں ایک اضطراری کیفیت ہے ۔ اس کیفیت کے لئے کوئی اور نہیں بلکہ اپنے ہی کچھ لوگ ذمہ دار ہیں۔ مسئلہ تین طلاق، تعدد ازدواج اور یکساں سول کوڈ کا ہے۔ اس سےبڑا مسئلہ مسئلہ کے حل کا کریڈٹ لینے کا ہے۔ میں کوئی اسلامک اسکالر نہیں ہوں، نہ ہی میں کوئی جید عالم دین ہوں لیکن مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کے ناطے ،مسلم ملکوں کا ماحول اور اسلام کے بنیادی مبادی سے واقف ہونے اور دنیا دیکھنے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ بات میں چاہتاہوں کہ قوم کے سامنے رکھی جائے ۔ میں ہر گز یہ نہیں چاہتا ہوں کہ سر جھکاکر میری بات تسلیم کرلی جائے۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا ہوں کہ میری بات بالکل مسترد کردیاجائے بلکہ میں ضرور چاہتاہوں کہ اس پر غور و خوض ہو اور کسی منطقی انجام تک پہنچا یا جائے۔
‘‘27 اپریل 2016 کومجھے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں یہ کہا گیا کہ ‘‘حال ہی میں ہوئے سپریم کورٹ کےایک فیصلہ سے مسلمانوں میں عموماً ایک بے چینی ہے۔ جس کےمطابق فاضل جج نے یہ رائے دی ہےکہ چونکہ ایک نشست میں تین طلاق اور تعددازدواج کے معاشرتی نتائج مسلم معاشرے کےلئے انتہائی تکلیف دہ ہیں اس لئے یونیفارم سول کوٹ کے نفاذ کی شدید ضرورت ہے ۔ نیز ممبئی ہائیکورٹ نے ایک فیصلہ میں کورٹ سے باہر دی گئی طلاق کو ماننے سےہی انکار کردیا ہے۔ اسی طرح عائلی معاملات میں بہت سے دارالقضاء کے فیصلوں کوبھی بعض عدالتوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یہی نہیں ایک عدالتی فیصلہ میں مرد کی آدھی جائیداد کی مالک اس کی بیوی کو بنا دیا گیا ۔ اس سلسلہ میں سیما قاضی کی ایک رپورٹ چند اعداد و شمار پیش کرتی ہے جو اس اہمیت کی حامل ہے ۔ جس کے مطابق تعدد ازدواج کے معاملہ مسلمانوں میں چوتھے نمبر پر آتے ہیں ۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ دوسری اقوام کے ... جبکہ مسلمانوں سے متعلق ہر مسائل کومیڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہیں ۔ ہم چونکہ نبی کریم کی امت میں ہیں اور آپ نےاپنے علم کا علماء کو وارث قرار دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر مشکل وقت میں ہم ان سے رہنمائی حاصل کر کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں’’۔
خط کا دوسرا پیرا گراف کچھ اس طرح ہے :۔ ‘‘ یہ بات ہم سب جانتےہیں کہ نہ تو یہ الزامات ہی نئے ہیں اورنہ ہی یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش۔ البتہ آج کے حالات قدرے مختلف ہیں کیونکہ اب حکومت اور مقنّنہ دونوں مل کر یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ پر سنجیدگی سےغور کرنے لگے ہیں ۔ یہ بات سپریم کورٹ کےمسلم وکلا ء کے لئے بھی تشویش کا باعث ہے اور ان حضرات سے حال ہی میں کی گئی ایک میٹنگ کے بعد ہم سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سلسلہ میں مسئلہ کا کوئی خاطر خواہ حل حکومت کےسامنے پیش کردیا جائے۔ جس کے ذریعہ شریعت او رملکی مقنّنہ کو متصادم ہونے سے بچا یا جاسکے ۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمان شریعت کے حامی ہیں ۔ او رمسلم پرسنل کو عدلیہ میں شامل کرنےکےلئے ہمیشہ سےکوشاں رہے ہیں۔ اس لئے آل انڈیا پرسنل لا ءبورڈ کا قیام عمل میں آیا اور شہروں میں دارالقضاء کا قیام عمل میں آیا ....’’
خط کے مضمون پرمکمل غور کرنے کے بعد بہت سے سوالات کا اٹھنالازمی ہے لیکن سوالوں کا حل بھی ہی ڈھونڈھنا ہوگا ۔ اس کے لئے نہ باہر سےلوگ آئیں گے او راگر آبھی جائیں تو شاید ملت ان کے فیصلوں کو قبول نہ کرے۔ ہماری ملی قیادت مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کےلئے کس قدر سنجیدہ ہے اور علماء کرام مسلم مسائل کو لےکر کس قدر حساس ہیں خاص طور سے مسلم پرسنل لا ء اور اس سے وابستہ ادارے کہ آزادی کے 60 سالوں کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کوئی ایسا مضبوط اور مستحکم حل ہم پیش نہیں کرسکیں ہیں جو عدالتوں کے سامنے ہوں ۔ جب ہم اپنی بات عدالت کے سامنے رکھ نہیں سکتے ۔ ہم وکلاء کی مضبوط او رمستحکم ٹیم تیار کرکے اپنے مسائل کی پیروی خود نہیں کرسکتے تو ہم یہ کیسے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ انصاف ہوگا کیونکہ انصاف ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔
ہماری عدالتیں کس قدر چاک و چوبند ہیں کہ ابھی ہم نے گزشتہ روز ہی اتر اکھنڈ کےسیاسی ماحول میں دیکھا کہ جب وہاں صدر کے فیصلہ کو چیلنج دیا گیا تو نینی تال ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کس قدر تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ صدر کافیصلہ کوئی راجہ کا فرمان نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے آگے اپنے تبصرہ میں کہا کہ ججوں سےبھی غلطی ہوئی ہے اور ان کے فیصلہ میں از سر نو غور کرنے کی گنجائش موجود ہے۔’’ شاید اسی لئے ہمارے آئین کے معماروں نےسیشن کورٹ، لور کورٹ سےلے کر ہائی کورٹ او رپھر سپریم کورٹ تک کی تجویز رکھی ہے او ربہت سےمعاملوں میں ان سب کے باوجود صدر کو خصوصی اختیارات دئے گئے ہیں ۔ یہ سب اسی لئے ہے تاکہ غلطیوں کو سدھار ا جاسکے ۔ جہاں تک شرعی قوانین میں عدالتوں کی مداخلت کی بات ہے تو اس کےلئے پوری طرح سےقوم ذمہ دار ہے۔ اور قوم کو اس کی ذمہ داری لینی ہی ہوگی کہ اس نےاس سمت میں وہ کام نہیں کئے جو اسے کرنے چاہئے تھے ۔ نہ اس نے عدالتوں کےسامنے اپنے موقف اور قوانین پر مشتمل کوئی ٹھوس ثبوت او ردلائل رکھے او رنہ ہی قوم نے اس سلسلہ میں وکلا کی مضبوط ٹیم تیارکی۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی میٹنگ میں شریک ہوئے نہایت ہی معتبر اور حساس ذہن کےمالک مجتبیٰ فاروق نے میڈیا کو جو بیان دیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں سپریم کورٹ کےفیصلہ کا انتظار کرنے کےبجائے ایسا قدم اٹھانا ہوگا جو ہماری سوچ کامظہر ، معاملہ کا حل اور عدالت کو قابل قبول ہو’’۔ ان تین باتوں پر اگر ملت سنجیدگی سےغور کرلے تو بہت سارے مسائل کا ازالہ ہوسکتاہے ۔ عدالت میں بات تین طلاق کی ہے۔ جہاں تک تین طلاق کامعاملہ ہے تو یہ بہت نازک ہے اور اس سلسلہ میں مسلم اسکالر نہ ہوتے ہوئے بھی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ذرا آپ تصورکریں ایک لڑکی جس کےماں باپ نے اس کو پیدا کیا۔ پال پوس کر بڑا کیا اور اس کے بعد آپ کےحوالہ کردیا صرف ایجاب و قبول کےبعد ۔ چونکہ نکاح اللہ کے نبی کی سنت ہے او رنکاح سے پہلے کسی بھی اجنبیہ کے ساتھ اسلام نے خلوت کو حرام قرار دیا ہے لیکن نکاح سے وہ خلوت جائز ہوجاتی ہے ۔ آپ اس لڑکی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں ۔ اچانک زندگی میں کوئی ایسا موڑ آجاتا ہے جس کے بعد آپ اس سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں یا وہ آپ سے علیحدگی اختیارکرنا چاہتی ہے اس کےدد شکلیں ہیں یا طلاق کامعاملہ ہو یا پھر خلعکی صورت، لیکن تین طلاق بیک وقت آپ دے دیتے ہیں اور دے کر اس عورت سے خود کو الگ کر لیتےہیں یہ کیسے درست ہوسکتا ہے۔
جہاں تک میں اسلام کو جانتا ہوں اور اسلام کے ماننے والوں سےمیر ی بات چیت او رملاقات ہے ایک مجلس میں آپ کسی عورت کو تین طلاق دے کر خود سےالگ نہیں کرسکتے ہیں ۔ آپ پہلے اس عورت کو ایک طلاق دیں گے اور پھر اس کو عدت کی مدت گزارنے کا مو قع دیں گے ۔ اس عدت کے مدت کے درمیان اگر آپ اس عورت سے رجوع نہیں کرتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ طلاق واقع ہوجائے گی اور عورت آپ سے جدا ہوجائے گی ، لیکن عدت کی مدت کے دوران اگر آپ رجوع کرتےہیں اور آپ کےدل میں اللہ اس کی محبت دوبارہ ڈال دیتے ہیں تو یہ ایک طلاق تو واقع ہوجائے گی لیکن آپ اس عورت کے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ اس بات کو ہر گز نہیں درست ٹھہرایا جاسکتا کہ کسی عورت کو آپ ایک مجلس میں تین طلاق یعنی طلاق طلاق طلاق کہہ کر الگ کردیں اور اس کی زندگی اجاڑ دیں پھر طہر کی بات اور عدت کی مدت کی بات کا مطلب کیا ہوگا اس پر امت کو سنجیدگی سےاسے ناک کامسئلہ بنائے بغیر سوچنے کی ضرورت ہے۔ پھر اگر اس دوران عورت حاملہ نکل جاتی ہے تو اس کی مدت کیا وضع حمل نہیں ہوگی اس سے کون انکار کرسکتا ہے ۔ جہاں تک تعدد ازدواج کا مسئلہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کانہیں ہے لیکن ملت کو ‘ری ایکشن ’ کے بجاے ایکشن کی پالیسی پرچلنا ہوگا کیونکہ جب جب ملت کی جانب سے ری ایکشن ہوا ہے تو فرقہ پرستوں نے اس کا فائدہ اٹھاکر ملت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا تعدد از دواج کامطلب صرف کنواری لڑکیوں سےشادی کرنا ہے یا پھر ان بیوہ عورتوں کے سندور کی حفاظت کرنی ہے جو اپنی زندگی کو حسین خوابوں سے محروم ہوچکی ہیں ۔ اس سوال پر بھی ملت کو سنجیدگی سےغورکرناہوگا ۔ رہی بات یکساں سول کوڈ کی تو اس مسئلہ کو اگرملت کی جانب سے اٹھایا گیا تو نقصان ملت کاہوگا ۔ شاید ہمیں یہ نہیں معلوم کہ بھارت جیسے کثیر جہتی ملک میں ہر ایک نیا الگ الگ پرسنل لا ء اور ان کے اپنے ایکٹ ہیں ۔ اس قانون کا نفاذ مشکل ہی نہیں ناممکن ہیں ۔ اس کے باوجود ملت کی طرف سے اس مسئلہ پر آواز بلند کرنابات سمجھ سے باہر ہے ۔ ملت کو ایسے نازک مسائل کے لئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی او رگھر کی بات کو گھر میں ہی حل کرنا ہوگی اگر کوئی بات چور اہے پر آئے اور آپ یہ سمجھیں کہ شور نہ ہوتو یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس نازک مسائل پر ملت کو غور کرنا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکساں سول کو ڈ کی طرح یکساں مسلم کوڈ بھی منظور نہیں
مکرمی
حقیقت یہ ہےکہ طلاق سےمتعلق کورٹ کےایک فیصلہ کےتناظر میں چند دنوں قبل معروف قانون داں اور جید اسلامی اسکالر پروفیسر طاہر محمود کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے قرآن و حدیث کے حوالے سے کہا تھاکہ ‘‘تین طلاق کا اثر صرف ایک طلاق تک ہی محدود ہوگا’’اس سادہ بیان سےحلقہ علماء میں کہرام سا مچ گیا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ روز روشن کی طرح واضح حقیقت کا اعتراف نہ کر کے ہٹ دھرمی اور دریدہ دہنی کامظاہرہ ہورہا ہے اور تحریف و تلسبیس کا سہارا لیاجارہا ہے ۔ پہلے قبلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابولقاسم نعمانی کا بیان آیا، پھر امیر الہند صدر جمعیۃ العلماء ہند اور استاذ دارالعلوم دیوبند نے اس کی حامی بھری۔ حفیظ نعمانی صاحب نے اس کے سر میں سر ملا یا اس کے بعد فقہ اکیڈمی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری حضرت مفتی خالد سیف اللہ رحمانی نے تو حد ہی کردی او رانہوں نے پروفیسر طاہر محمود صاحب کو نہ صرف اپنے طعن و تشنیع کا مورد ٹھہرایا بلکہ حقیقت کو یکسر پلٹتے ہوئے فرمادیا کہ ‘‘حالانکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ فقہاء او رمحدثین کی غالب اکثریت کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار کی گئی ہیں ’’ نیز اسی طرح حضرت مولانا قاری عثمان صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا ‘‘ یکبارگی تین طلاقیں اور ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں ، فقہ کے چاروں ائمہ کا یہی مشہور و مستند مذہب ہے۔
واجد علی سہر وردی
بلیماران ، جامع مسجد، دہلی
19 مئی، 2016 بشکریہ : راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL: