New Age Islam
Sat Jan 18 2025, 07:35 PM

Urdu Section ( 12 Jan 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

EWS to felicitate the education of poor children غریب والدین بچوں کی تعلیم کے لئے EWSاسکیم کا فائدہ اٹھا ئیں

طارق انور

10 جنوری، 2013

رگوں میں دوڑ تے خون کو منجمد کرنے والی جنوری کی سردی کاقہر جاری ہے۔ آسمان سےبرف کےاولے برس رہے ہیں ۔ لوگ سردی سےنجات کے لیے جگہ جگہ آگ کے  الاؤ جلارہے ہیں ، مگر سردی ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ شمالی ہند پوری طرح سردی کی زد میں ہے۔ کئی مقامات پر درجۂ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے  چلا گیا ہے اور فی الحال راحت کا کوئی امکان بھی نہیں ہے ۔ ایسے وقت میں ملک کی راجدھانی دہلی میں نرسری میں داخلوں کے لیے فارم کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ساتھ داخلہ جاتی عمل کی تاریخ کا بھی اعلان ہوچکا ہے۔نر سری میں داخلے صرف راجدھانی دہلی یا دہلی حکومت کے ماتحت چلنے والے صرف سرکاری ، نیم سرکاری و پرائیویٹ اسکولوں میں  نہیں  ہوں گے، بلکہ نرسری میں داخلے کشمیر سے لے کر کنیا کماری  تک اور وہاں کے بچوں کے ہوں گے ۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ کہلاتی ہے ، اس کے بعد بچے کی باہر کی دنیا کی پہلی درسگاہ نرسری کی کلاسیز ہوتی ہیں، یہ وہ وقت ہوتا ہے جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ۔

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ  میں مینا  اسی کا ہے

یعنی اگر اس وقت والدین نے  آرام و آسائش کی زندگی  نہ کاٹنے  کا عہد کر کے پوری توجہ بچے کی تعلیم و تربیت پر دی، اس کو اسکول میں داخلہ دلانے کو صرف ناکافی سمجھتے  ہوئے پوری لگن  اور محنت و ایمانداری کے ساتھ اس کی ایک ایک حرکت پرنگاہ رکھی ، بچے  کو ایمانداری  سے اسکول بھیجنے  کی کوشش کی، اس کی ہاں میں ہاں اور اس کی نہ میں نہ ملا کر مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کے وقتی نہیں، بلکہ دائمی آسائش کے مد نظر جو اس کے لیے بہتر ہے کرنے کی اگر کوشش کی ، کسی بھی طرح کی غفلت اور تساہلی سے قطع نظر تو مجھے امید ہے  کہ آج کی یہ تھوڑی  سی پریشانی کل بچے اور والدین دونوں کے لیے سامان راحت ہوگی ۔ اگر ہمارے بچے آج اسکول نہیں گئے ، لہو ولعب میں لگے رہے اور ہم نے لاڈ و پیار میں ان کی چیخ  و پکار کو برداشت نہ کر کے انہیں ان کے  حال پر چھوڑ دیا اور ان کی اصلاح کی کوشش نہیں  کی تو یہی  بچے بڑے ہوکر ماں باپ کی آنکھ کی ٹھنڈک اور اس کا تارا بننے کی بجائے ان کی بدنامی اور بد مزگی کا ذریعہ بنیں گے ۔ پھر سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ اور نہیں ہوسکا ۔ اس لیے تمام  والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول اور مدرسہ لائیں، انہیں اعلیٰ سے اعلیٰ دینی اور دینوی تعلیم دلائیں ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ بچہ بڑا ہوکر دین کے چکر میں دنیا کوبھول جائے یا دنیا کے چکر میں دین کو بھول کر مشرق تہذیب سے قطع نظر مغرب کا دیوانہ ہوجائے ۔

جو والدین اپنے بچوں کو اپنی مفلسی  اور غربت کے سبب خطیر رقم  خرچ کر کے معیار ی تعلیم نہیں  دلاسکتے ہیں ، ان کے لئے ضروری  ہے کہ وہ پاس پڑوس کے سرکاری یا امداد یافتہ یعنی نیم سرکاری  اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخلہ دلائیں  چہ جائیکہ وہ اپنی قسمت  کا قدرت سے شکوہ کریں اور پڑوس کے بچوں کی معیاری اور عمدہ ڈریس او رمعیاری اسکولوں کی تعلیم کو دیکھتے ہوئے حوصلہ شکنی کاشکار ہوکر اپنے بچے کو تعلیم نہ دلائیں  ۔ امیر و غربت  کی کھائی کے اعتراف کے ساتھ  ہمارا امیر والدین کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے پاس پڑوس یا ملنے جلنے والے ان والدین کے بچوں کے ناز ونخرے کا خیال رکھیں، جو غریب یا پسماندہ ہیں۔ امیر والدین کے لئے بھی  ضروری ہے کہ وہ اپنی دولت پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اسے شراب نوشی، جوے بازی یا دیگر فضول اور لایعنی  جگہوں پر خرچ نہ کر کے ان جگہوں پر خرچ کریں، جو ان کے لیے سامان راحت ہوں اور میرے خیال میں سب سے بہترین سامان راحت‘‘خدمت خلق’’ یعنی انسانوں کی خدمت ہی ہے ۔

آؤچلو اسکول چلیں کا نعرہ دینے کے بعد میر ا والدین کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کے لئے عز مصمم کریں اور اس بات کا عہد کریں کہ خود بھوکے رہیں ، مگر بچوں کو معیاری تعلیم دلا ئیں گے یعنی ‘‘آدھی روٹی کھائیں گے، مگر بچے کو پڑھائیں گے’’۔ غریب والدین جو اپنے بچے کی معیاری تعلیم کے لیے معیاری اسکول کی فیس برداشت نہیں کرسکتے وہ ‘‘حکومت کی جانب سے جاری  ‘EWS’ یعنی اکنامک ویکر سیکشن اسکیم سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ وہ اسکیم جس کے تحت بچے کو مفت او رلازمی تعلیم  دینا اسکولوں کی اخلاقی  اور آئینی ذمہ داری ہے۔ کوئی بھی اسکول اپنی اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں  ہوسکتا ہے۔ غیر سرکاری  یعنی معیاری پرائیویٹ اسکولوں کے لیے  ضروری ہے کہ وہ مذکورہ اسکیم کے تحت 25 فیصد سیٹیں  ان بچوں کے لیے محفوظ کریں اور ان کومفت تعلیم کے ساتھ ساتھ کتابیں اور ڈریس مہیا کرائیں  اور ان کی شناخت پوری طرح سے پوشیدہ رکھیں، جو اقتصادی طور سے پسماندہ اور کمزور ہیں ، مگر اس اسکیم کا فائدہ غریب والدین تبھی اٹھا سکتے ہیں ، جب ان کے پاس ‘‘ EWS’’ سرٹیفکیٹ ہو۔ خبروں کے مطابق مذکورہ سرٹیفکیٹ  کے بنانے میں افسران کافی اڑچنیں  اور رخنہ ڈال رہے ہیں ، لیکن تمام طرح کی دقتیں  او رپریشانیوں کے اعتراف کے باوجود اگر والدین کے ارادے اور عزائم بلند ہیں تو  میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس سرزمین پر نا ممکن کچھ بھی نہیں ہے او رممکن  سب کچھ ہے ۔ یعنی والدین ای ڈبلیو ایس سرٹیفکیٹ  بنوانے میں ضرور کامیاب ہوں گے او ربچے  کو معیاری اور اعلیٰ تعلیم دلانے کا ان کا خواب ضرور بہ ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اگر کسی طرح  سے کچھ والدین کو مذکورہ سرٹیفکیٹ بنوانے میں پھر بھی دقتیں آتی  ہیں تو وہ اپنے منتخب نمائندے اور سماج کے معزز لوگوں کے  پاس جائیں اور پیار محبت  سے ان کے تعلقات کو استعمال  کرتے ہوئے مذکورہ سرٹیفکیٹ  بنواکر بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں ۔

اس کے ساتھ ہی سرکار کے لیے بھی  ضروری  ہے کہ وہ اس طرح کے سرٹیفکیٹ اور شناخت کے بنوانے میں آنے والی دقتوں کا حتی  المقدور فوری ازالہ کرے اور اس بات کی وضاحت کرے کہ معیاری اسکولوں میں ‘‘رائٹ آف چلڈ رن ٹوفری اینڈ کمپلسری ا یجوکیشن ایکٹ ۔ 2009’’ کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کامستقبل  کیا ہے؟ یہ بچے مذکورہ قانون کے تحت تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے حصول کے لیے کہاں جائیں گے؟ کیوں کہ ابھی تک اس طرح کی کوئی گائڈ لائن  نہیں ہے، جو اس بات کی وضاحت کرلے کہ مذکورہ قانون کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کامستقبل کیا ہوگا، اس کو یوں سمجھئے  کہ اگر کوئی بچہ مذکورہ قانون یعنی  مفت لازمی تعلیم قانون ایکٹ کے تحت DPS میں تعلیم  حاصل کررہا ہے، جس کی فیس سے لے کر ساری چیزیں معاف ہیں، اگر وہ 8 ویں جماعت پاس کر لیتا ہے ، اس کے بعد حکومت کے پاس اس کے لیے  آگے کا کوئی پلان نہیں ہے کہ آگے بچے  کی تعلیم کیسے جاری رہے گی اور وہ تعلیم کے حصول کے لیے کیا  کیا طریق کار اختیار کرے گا۔ اس کے والدین کیسے اس کی فیس کا انتظار کریں گے۔ ‘‘لہٰذا ہم سب کے لیے ضروری  ہے کہ اس طرف سرکار کی توجہ مبذول کرائیں، تاکہ سرکار وقت پر ایسے بچوں کے مستقبل  کو بگڑ نے سے بچائے ۔ مگر قانون بنانے والوں کی بھی ذمہ دار ی کہ وہ کسی بھی قانون کے بنانے سے قبل اس کے پیچ و خم اور نشیب  و فراز کا ضرور جائزہ لیں اور حال نہیں بلکہ  مستقبل  پرنظر رکھیں تاکہ قانون وقتی  نہیں بلکہ دائمی طور پر فائدہ مند ہو اور لوگوں کے لیے سامان رحمت بنے۔

ابتدائی تعلیم اور اس کے نشیب  و فراز اور والدین و سرکار کی ذمہ داریوں پر اجما لاً گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ میرا اقلیتوں کی ہمدردی کا دعویٰ بھرنے والی تنظیموں  ، جماعتوں اور پارٹیوں کو بھی مشورہ  ہے کہ وہ اب میمورنڈم اور قرار داد کی  سیاست سے اوپر اٹھ کر بچوں کو اسکول تک لائیں اور یہ سمجھ لیں کہ ‘‘ Each one teach one’’ میں ہی غنیمت  ہے، کیوں کہ کامیابی  کی منزل تک جانے والا ہر راستہ تعلیم سے ہوکر گزرتا ہے ۔ ملت کےبہی  خواہوں کے لیے یہ بھی ضروری  ہے کہ وہ پلاننگ  کمیشن کی اسٹیئرنگ کمیٹی کی اس رپورٹ پر بھی از سر نو غور کریں جو اس بات کا آئینہ دکھاتی ہے کہ 65.31 فیصد مسلم بچے اسکول جاتے ہیں، مگر ڈپلومہ لیول تک جاتے جاتے  یہ اعداد شمار 0.41 کیوں رہ جاتی ہے ۔

----------

طارق انور وزیر مملکت برائے زراعت و خوراک و رسد اور آل انڈیا قومی تنظیم کےقومی صدر ہیں

10 جنوری، 2013   بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/ews-felicitate-education-poor-children/d/9969

Loading..

Loading..