طارق انور
20 دسمبر، 2012
یہ کہنا کہ‘ کوئی بھی ملک
انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزام سے محفوظ نہیں ’ ۔ کہنے میں تو بہت آسان ہے، لیکن
انسانی حقوق کی پامالی کے سبب جو سنگین نتائج سامنے آتے ہیں ان کے عواقب و مضمرات
پر غور کرنے کے بعد جو تصویر سامنے آتی ہے ، اسے دیکھ اور محسوس کر کے ہر اُس انسان
کا کلیجہ منھ کو آنا لازمی ہے، جس کے اندر انسانیت نام کی کسی بھی شئے کا شبائبہ تک
پایا جائے ۔
انسانی حقوق کیا ہیں ؟ ان کی ادائیگی کتنی ضروری ہے ؟ یہ اور ان
جیسے ہزاروں سوالوں کا جواب قرآن مجید کے 28 ویں پارہ کی ‘سورۃ الحشر’ کی آیت سے
بہ آسانی مل سکتا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ‘مومن وہ ہیں جو دوسروں کے فائدے کو اپنی
ذاتی فائدہ کا مقصد رکھتے ہیں باوجود اس کے کہ اس میں ان کا کوئی خسارہ ہی کیوں نہ
ہو’ ۔ اس آیت کے مفہوم پر اگر وسیع النظری کے ساتھ غور و فکر کیا جائے تو یہ حقیقت
اظہر من الشمّس ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ ‘ ہماری زندگی کا ذاتی نہیں ، بلکہ انسانیت
کی فلاح و بقااور اس کی بالیدگی و نشو و نما ہونی چاہئے ۔ کیونکہ اگر ہمارے سامنے ہمارا
ذاتی فائدہ مقدم ہوگا تو اس سے پڑوسی گاؤں یا محلے والوں کو بھی فائدہ پہنچے یہ ضروری
نہیں ہے،لیکن اگر پڑوسی ،گاؤں او رمحلے والوں کو خوشی ہوگی تو اس بات کا قوی امکان
ہے کہ اس میں ہمارا فائدہ مضمون مضمر ہو۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ بغیرکسی واجب گناہ
کے ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور ایک نفس کا احیا پوری انسانیت
کو زندگی عطا کرنے کے مترادف ہے ۔
ہم بات کررہے ہیں انسانی حقوق
اور اس کی کھلے عام ہورہی پامالی اور پھر اس کی خاموش حمایت کی ۔ انسانی حقوق کے لئے
از حد ضروری ہے کہ ہم اقوام متحدہ کا عمومی اعلامیہ برائے حقوق انسانی کا مطالعہ کریں
۔ اقوام متحدہ کے عمومی اعلامیہ برائے انسانی حقوق میں اس بات کی واضح صراحت ہے کہ
‘‘سبھی لوگ آزاد اور مساوی ہیں ۔ کسی بھی قسم کی تفریق نہیں ہوگی۔ سب کو یکساں طور
پر جینے کا حق حاصل ہے ۔ کسی کی غلامی نہیں ہوگی ۔ کوئی تشدد نہیں ۔ خواہ کہیں بھی
جائیں حقوق محفوظ ہیں ۔قانون کی نظر میں سبھی یکساں ہیں ۔ انسانی حقوق کو قانونی تحفظ
حاصل ہوگا ۔ غیر منصفانہ گرفتاری ہوگی ۔ ٹرائل کا حق ہوگا ۔ الزام جب تک ثابت نہ ہو
تب تک ملزم بے قصور ہوگا ۔ پرائیویسی کا حق حاصل ہوگا ۔ آمد و رفت کی آزادی اور رہنے
کے لئے محفوظ جگہ تلاش کرنے کا حق حاصل ہوگا ۔ قومیت کے حق کے ساتھ ہر بالغ انسان کو
شادی کرنے اور اپنا گھر بسانے کا حق حاصل ہوگا ۔ نظریات کی آزادی کے ساتھ اظہار رائے
کی آزادی کا حق حاصل ہوگا او رکسی کو کسی کی چیز پر قبضہ کرنے کی قطعی اجازت نہیں
ہوگی ۔ مزدوروں کے حقوق کا احترام، سماجی تحفظ اور جمہوریت کے حق کے ساتھ عوامی اجلاس
کا بھی حق حاصل ہوگا ۔ تعلیم کا حق، سبھی کے لیے غذا او رپناہ کا حق، کاپی رائٹ کا
حق اور ایک صاف ستھری اور آزاد دنیا کا حق حاصل ہوگا۔ ذمہ داری کے حق کے ساتھ اس بات
کا بھی حق حاصل ہوگا کہ ہم اپنے انسانی حقوق کی حفاظت کریں اور کوئی بھی ہمارے حقوق
نہیں چھین سکتا ۔’’
اقوام متحدہ کا عمومی اعلامیہ
برائے انسانی حقوق کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد اگر اس کے تمام نکات سے قطع نظر
صرف چند نکات پر ہی گفتگو کی جائے تو یہ کہنا صد فیصد صحیح ہوگا کہ ‘ انسانی حقوق کے
تحفظ کا دعویٰ محض خانہ پرُی ہے ’ ۔ کئی ایک ملک بشمول ہندوستان اقوام متحدہ کے ‘‘
یو نیور سل ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس’’ کے چار ٹر پر دستخط کنندگان ہیں، لیکن دیکھنے
کی چیز یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں اقلیتوں کے انسانی حقوق
کی صورتحال کیا ہے؟ کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کی حقیقی صورت حال کیا ہے ۔ یہ
وہاں کی اقلیتوں بشمول سماج کے پسماندہ طبقات کی حالت زار کا پتہ لگا کر کسی اہم نتیجہ
تک بہ آسانی پہنچا جاسکتا ہے اور ہمارے ملک میں سرکاری اعداد وشمار ہی کسی نتیجے تک بہ آسانی پہنچا سکتے ہیں ۔ ملک میں
بڑھتے فرقہ وارانہ تشدد اور اقلیتوں بالخصوص مسلم طبقے کے نوجوانوں کی دہشت گردی کے
الزام میں بے جا گرفتاری اور سسٹم میں فرقہ وارانہ سوچ کی بڑھتی دخل اندازی کے نتیجے
میں ہوتی ہے ۔ انسانی حقوق کی پامالی اور اس کے سبب کسی قوم کو حاشیہ پر لاکھڑا کرنے
کی شر پسندوں کی ناکام کوشش کے نتیجے میں سماج کی جو تصویر کشی عالمی منظر نامے میں
ہوتی ہے، وہ ہمیں دنیا کی نظروں میں مخدو ش تو بناتی ہی ہے، ساتھ ہی اس کے نتائج دیر ہی سہی مگر ملک و ملت کے لیے سم قاتل ہیں۔ ہم اقلیتی دوش
بھی منائے جارہے ہیں ۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ ہم اقلیتی دِوس کیوں اور
کس کے لئے منارہے ہیں ۔ حکومت کو وزیر اعظم کے اس بیان پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا
چاہئے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے ۔
سچر کمیٹی اور مشرا کمیشن کی سفارشات کے سامنے آجانے کے بعد
ابھی مسلم سماج اپنی صورتحال کو پٹری پر لانے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ اس کے ماتھے
پر دہشت گردی کالیبل چسپاں کرنے کے لئے اس بات کی تشہیر شروع کردی گئی کہ ‘ مسلمان
دہشت گرد نہیں ہوتا ہے، بلکہ دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے ۔’ باوجود اس کے کہ حقائق یہ
بتاتے ہیں کہ لوگوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے، مگر بری ہونے والے
مسلمان ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے عمومی اعلامیہ برائے انسانی حقوق کے ان
نکات پر گفتگو از حد ضروری ہے ،جن میں یہ کہا گیا ہے کہ قانون کی نظر میں سب سے یکساں
ہیں اور سبھی کے انسانی حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور کسی کی غیر منصفانہ گرفتاری
ہوگی اور جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے ، تب تک ملزم کو بے قصور مانا جائے گا۔
انسانی حقوق کی اتنی واضح
صراحت کے باوجود آج جس قدر ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے، اس کے نتائج
مستقبل میں کسی بھی نظریے سے ملک کے لیے بہتر
نہیں کہے جائیں گے۔ انسانی حقوق کا تحفظ کر کے ملک کے 99 فیصد مسائل پر نہ صرف بہ آسانی
قابو پایا جاسکتاہے ، بلکہ ایک ایسی فضا اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل بہ آسانی کی
جاسکتی ہے، جہاں صرف اور صرف امن و امان اور شانتی کا ہی دور دورہ ہو۔ اس کے لیے یہ
بھی ضروری ہے کہ حکومت یکساں مواقع کمیشن کی تشکیل کے اپنے وعدے کو بھی فوری طور پر
پورا کرے، کیو نکہ انصاف میں تاخیر کو بھی ناانصافی ہی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ آج جس
طرح غیر منصفانہ گرفتاریاں او راس پر میڈیاں ٹرائل کا ایک منظّم ڈھنگ سے سلسلہ شروع
کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی طرح ملک کے لیے بہتر نہیں ہے۔ آج کوئی ملزم بالخصوص مسلمان
دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کی عدلیہ میں پیشی سے قبل ہمارا مین اسٹریم
میڈیا جو جمہوریت کا چوتھا ستون ہے ، وہ اسے
دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کی شکل میں پیش کرتا ہے ۔ مگر اپنے ناکردہ گناہوں کی برسہا
برس سزا کاٹنے کے بعد جب معزور عدالتوں کے ذریعہ اس مظلوم کی رہائی ہوتی ہے تو ان مظلوموں
کو پھنسا نے والے پولیس افسران اور طاقت کا غیر معمولی استعمال کرنے والے میڈیا اہلکاروں
سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ اقوام
متحدہ کے اعلامیہ کی وہ شق ، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘جرم جب تک ثابت نہ
ہو ،ملزم بے قصور ہے، آپ نے صریحاً خلاف ورزی کی ہے اور اب آپ کے خلاف جرم ثابت ہوگیا
ہے، لہٰذا آپ کو کیا سزا دی جائے ۔
حکومت کو انسانی حقوق کے تحفظ
کا ایک مکمل لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے یہ طے کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے چوتھے ستون اور
شرپسند پولیس اہلکار جو ملک کے ماتھے پر بد نما داغ بنتے جارہے ہیں ، کو انسانی حقوق
کی پامالی کی کھلی چھوٹ دیناچاہتی ہے یا ان پر کسی طرح کی کوئی نکیل کسنا چاہتی ہے
۔ کیونکہ بہت سے معاملات میں یہاں تک سامنے آیا ہے کہ عدالتیں پولیس کو بے قصور وں
کو ملزم بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے پر شدید پھٹکار بھی لگا تی ہیں ۔ ابھی
حال ہی میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو ٔ بینچ نے ایڈیشنل ضلع و سیشن جج منوج کمار
شکلا سے سبھی عدالتی اختیارات واپس لینے کی ہدایت دی، کیونکہ ایک سینئر جج ہوتے ہوئے
ان پریہ الزام لگا کہ انہوں نے ملزم راجو کی جگہ بے قصور محرم علی کو جیل بھیج دیا
اور اس کی بوڑھی ماں کی فریاد تک نہیں سنی ۔ ظاہر ہے کہ عام آدمی عدالت کو فرشتہ تصور
کرتا ہے ۔ عام آدمی کی غلطی کی اصلاح تو ہوسکتی ہے ، لیکن فرشتے کی غلطی کی اصلاح
نا ممکن ہے، ایسے میں عدالت عالیہ کا فیصلہ سیکولرزم کے لیے تاریکی میں کسی قندیل سے
کم نہیں ہے ۔
سماج کے پسماندہ طبقات میں
شامل دلتوں پر مظالم کس قدر اندوہناک ہیں، اس کا اندازہ وزارت داخلہ کی رپورٹ سے لگایا
جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قتل ، زنا، اغوا، لوٹ پاٹ او ربندھک بنانے کے معاملے
2006 میں 266650، 2007 میں 29825 اور 2008 میں 33365 ہیں اور یہ تب ہے جب اکثر و بیشتر
دلت ظالم کے خوف کے سبب ظلم کو چپ چاپ برداشت کر لیتے ہیں ۔ جہاں تک سوال عیسائی مخالف
تشدد کا ہے تو 1990 کی دہائی میں اس میں اضافہ ہوا اور 1999میں اڑیسہ میں پادری گراہم
اسٹینس کو بچوں سمیت جلانے کے واقعہ اور 2008کے کندھمال واقعہ نے اس تشدد کو انتہا
تک پہنچا یا ، اس لیے ہماری حکومت کے لیے ضروری
ہے کہ ایک صالح معاشرہ کے قیام کی جانب ایمانداری سے پیش قدمی کرے اور یہ تبھی ممکن
ہے جب انسانی حقوق کی پامالی پر قدغن لگائی جائے ، ورنہ اگر انسانی حقوق کی پامالی
میں اسی طرح روز بروز اضافہ ہوتا رہا تو ہمیں خود ا سکے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا
چاہئے ، کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور وہ ظالم کو ایک مدت تک ہی ڈھیل دیتا
ہے ۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی ظالم کی کھلی حمایت ہے ۔
طارق انور مرکزی وزیر برائے
زراعت و خوراک و رسد ہیں
20 دسمبر، 2012 بشکریہ : روز
نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: