طارق المعینہ
3 فروری 2016
دہشت گردی کا ایک اور مذموم عمل اس وقت ظاہر ہوا جب تکفیری نظریے پر عمل کرنے والوں نے چند روز قبل مشرقی صوبے میں مہاسن میں الاحساء کے پڑوس میں ردا مسجد میں بمباری کی۔ اس مسجد میں نماز ادا کرنے والے چار افراد اس حملے میں جان بحق ہو گئے جبکہ 18 افراد بری طرح زخمی ہو گئے۔ اس مسجد میں شیعہ مسلمان اکثر نماز ادا کرتے ہیں۔
اس کے بعد میڈیا فرقہ واریت کی بنیاد پر انجام دیے جانے والے تازہ ترین حملوں کی مذمت اور گرفتار ہونے والے دیگر دہشت گردوں کی مذمت سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن یہ صرف ہمارے مقامی دہشت گرد نہیں ہیں جو خبروں کی شہ سرخی بنے ہوئے ہیں۔ داعش، القاعدہ اور دیگر چھوٹے گروہوں جیسی حملہ آور تنظیمیں بھی ہیں جن کے لیڈر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے ظلم و ستم کی اشاعت اخباروں کی شہ سرخی میں کر رہے ہیں۔ ایسا کر کے انہوں نے صرف غیر مسلموں کے درمیان اسلام کی متشدد تصویر کو فروغ دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
تو کیا اسلام اور مسلمان یہی سب کچھ ہے؟ تباہی، قتل اور بے گناہوں پر پر بم حملے؟ کیا اسلام کا کوئی دوسرا چہرہ بھی ہے؟ آپ کو مسلمانوں کے دوسرے چہرے کا مطالعہ کرنے اور ان لوگوں کو جاننے کے لیے جنہوں نے اس عظیم مذہب کی صحیح تعلیمات کو جاننے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی اور جو اپنے تقوی کی وجہ شہ سرخی کی خواہش نہیں رکھتے گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر مائیک غوث جیسے مسلم افراد بھی ہیں جو امریکہ میں ایک کمیونٹی کنسلٹنٹ، ماہر سماجیات، مفکر، مصنف، نیوز میکر، اور اسلام اور مغربی دنیا سے متعلق بے شمار مسائل پر ایک ماہر خطیب بھی ہیں۔ وہ متحد معاشرے کی تعمیر کے لئے مصروف عمل ہیں اور روز مرہ کے مسائل پر تکثیریت پسند حل پیش کرتے ہیں اور دیگر مذاہب کے درمیان روابط کو مضبوط کرنے میں سر گرم ہیں۔
مسلم دنیا میں معروف ماہر بشریات اکبر احمد بھی ایک ایسے ہی فرد ہیں جن کے مختلف منصوبوں نے مسلمانوں اور مغربی دنیا کے درمیان تعلقات پر معاصر افکار کی تشکیل میں اپنا اہم تعاون پیش کیا ہے۔ پروفیسر اکبر احمد واشنگٹن ڈی سی کے امریکی یونیورسٹی میں اسکول آف انٹر نیشنل سروس میں شعبہ اسلامیات کے ابن خلدون چیئر ہیں۔ انہوں نے بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں غیر رہائشی سینئر فیلو کے طور پر خدمات انجام دی ہے اور ایناپولس، ایم ڈی کے امریکی نیول اکیڈمی میں مشرق وسطی اور اسلامک اسٹڈیز کے سب سے معزز صدر ہیں۔
معاشرے میں ایسے معزز افراد اور ان کے مثبت شراکت کی فہرست طویل ہے لیکن داعش کے رہنما ابو بکر البغدادی اور ان جیسے دہشت گردوں کی خونریز سرگرمیں ان کی شخصیت اور ان کی خدمات پوشیدہ ہو چکی ہیں۔ اور ان کے علاوہ ایسے دیگر نسبتا نامعلوم مسلمان بھی ہیں جنہیں حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے اور ان کی خدمات اس قابل ہیں کہ جن کا ذکر کیا جائے۔ اگر چہ ان کی شہرت متاثر کن نہیں ہے، لیکن اپنی بے لوث خدمات کی بنیاد پر وہ یقینا ہر جگہ مسلمانوں کے لئے ایک قابل فخر مینارہ ہدایت ہیں۔
ایسے ہی ایک فرد سڈنی میں پیدا ہونے اور نسلی مسلمان جناب علی بنات ہیں جنہیں ابھی حال ہی میں معلوم ہوا کہ انہیں کینسر ہے اور وہ صرف سات ماہ تک ہی زندہ رہنے والے ہیں۔ ایک کامیاب کاروباری ہونے کے ناطے انہوں نے وہ سب کچھ حاصل کیا جس کی خواہش انہیں ہوئی۔ اپنی قسمت کا سامنا کرتے ہوئے علی نے تمام اثاثوں کو خرچ کرنا شروع کر دیا اور اس کا استعمال انہوں نے ضرورت مندوں کی حاجتوں کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لیے کرنے کا فیصلہ کیا۔
اپنے ایک منصوبے کے لیے علی نے ٹوگوم افریقہ کا سفر کیا جہاں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ وہاں کے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ انہوں نے وہاں MATW افریقہ پروجیکٹ کا قیام کیا جس میں 200 سے زیادہ بیواؤں کو گھر فراہم کیا جائے گا اور جس کے تحت 600 یتیموں کو گھر اور اسکول فراہم کیا جائے گا۔ مقامی لوگوں کی حمایت کرنے کے لیے ایک طبی مرکز اور کاروباری اداروں کو بھی قائم کیا جائے گا۔ اس مطلوبہ رقم کا نصف حصہ رضاکارانہ صدقات و خیرات کے ذریعے جمع کیا جا چکا ہے۔ علی کا کہنا ہے کہ : "اگر کوئی آپ سے کہتا ہے یا آپ کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ بیمار ہیں یا آپ کی زندگی میں زیادہ وقت نہیں ہے تو مال و دولت ہی ایک ایسی آخری چیز ہے جس کا آپ پیچھا کرنا چاہیں گے اور اسی طرح ہمیں ہر روز کی زندگی گزارنی چاہئے۔ یہ لوگ غلط مقاصد کے حصول میں زندگی گزار رہے ہیں؛ جب آپ کو یہ احساس ہو گا کہ آپ بیمار ہیں اور آپ کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ ان سب چیزوں سے کسی بھی طرح آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ان سب کی شروعات اس وقت ہوئی جب میں ایک جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے قبرستان گیا اور اس وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ آپ کے بعد وہاں آپ کے اعمال صالحہ کے علاوہ آپ کی مدد کے لیے کوئی بھی نہیں ہے نہ کوئی ماں ہے، نہ کوئی باپ ہے، نہ کوئی بھائی ہے اور نہ ہی کوئی بہن ہے۔ میری زندگی کے اس مرحلے میں الحمد للہ، اللہ نے مجھے پورے جسم میں کینسر سے نوازا اور میں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی مدد کرنے کے لئے وقف کر دی ہے۔ یہ ایک تحفہ ہے کیونکہ اللہ تعالی نے مجھے ایک موقع اور خود کو بدلنے کے لئے کچھ وقت عطا کیا ہے۔ "
زمین پر علی کی زندگی کے ایام کم رہ گئے ہیں اس لیے کہ کینسر نے ان کے جسم کو پھاڑنا شروع کر دیا ہے۔ پھر بھی ان کاموں کو انجام دینا ان کا خواب بن گیا ہے اور ٹوگو کا منصوبہ اسی میں سے ایک ہے۔ وہ ایک مسلمان ہیں اور دہشت گرد نہیں ہیں۔
ماخذ:
saudigazette.com.sa/opinion/%e2%80%aawhy-does-terrorism-dominate-%e2%80%ac-%e2%80%aathe-headlines%e2%80%ac/
URL for English article: https://newageislam.com/islam-media/terrorism-dominate-headlines/d/106215
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/terrorism-dominate-headlines-/d/106235