تنویر قیصر شاہد
5 ستمبر، 2012
یکم ستمبر 2012 کی دوپہر کے
ستمگر لمحات ایک بار پھر ہزارہ مسلمانوں پر ہلاکت خیز بجلی بن کر گرے۔ایک بار پھر کئی
معصوموں کے لاشے زمین پر گرے۔ ایک بار پھر بلوچستان کے دارالحکومت کی سڑکیں بے
گناہ انسانی خون سے لالہ زار بن گئیں ۔ ایک بار پھر قاتل فرار ہونے اور چھپنے میں کامیاب
ہوگئے۔ ایک بار پھر صوبائی اور وفاقی حکومت کے حکمران زبانی کلامی اس خونی سانحہ کی
مذمت کر کے خاموش ہوگئے ۔ یکم ستمبر کی دو پہر کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی کی سبزی منڈی
سے ہزارہ مسلمان کمیونٹی کے لوگ پھل اور سبزیاں خرید کر گھروں کو لوٹ رہے تھے کہ ناگہا
قاتل نمودار ہوئے ، گولیاں برسائیں اور ہوا ہوگئے ۔ یہ ٹارگٹ کلنگ تھی جس کا سارا ہدف
ہزارہ مسلمان کمیونٹی کے نوجوان بنے ۔ پلک جھپکتے میں نصف درجن سے زائد نوجوانوں کے
بے روح بدن کٹے ہوئے تنوں کی مانند زمین پر بکھر ے پڑے تھے۔ یہ خونخوار اور خونریز
واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا سانحہ نہیں جس میں ہزارہ مسلمان، جو ایک خاص مسلک کے پیروکار
ہیں، قتل عام کا شکار ہوئے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا اور ہماری ریاست کے کار پر دازغالباً
جاننا بھی نہیں چاہتے کہ اس خونریز المیے سے قبل اس مسلک کے حامل کتنے ہی لوگوں کو گولیوں سے اُڑادیا گیا۔ ایک پرُ اسرار
بے بسی ہے جس نے سب کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہزارہ مسلمان کمیونٹی کی بے بسی سب سے
سوا ہے۔ ایسے میں ہمیں حنیف صاحب کی لکھی گئی ایک تازہ سچی کہانی یاد رآرہی
ہے جس میں اس بے کسی کو الفاظ میں شکل میں مجسم کردیا گیا ہے۔ اور اس سے پہلے کہ ہم
ہزارہ مسلمانوں کے بارے میں یہ دل دہلا دینے والی کہانی پڑھیں ، مناسب معلوم ہوتا ہے
کہ محمد حنیف کو بھی پہلے یاد کرلیا جائے۔
اڑتالیس سالہ محمد حنیف صاحب
او کاڑہ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان ائیر فورس اکیڈمی سے وہ پائلٹ بن کر نکلے لیکن جنگی
جہاز اڑانے میں دل نہ لگا۔ فوراً اس سے پنڈ چھڑا کر صحافت کے خار زار میں اُترے ۔ آغاز
میں کراچی سے شائع ہونے والے ماہنامہ انگریزی
جریدے ‘‘نیو ز لائن’’ سے وابستہ ہوئے۔ قلم رواں ہوا اور اس کا اعتبار بھی جمنے
لگا تو امریکہ کے ممتاز اخبار ‘‘واشنگٹن پوسٹ’’اور بھارت کے نمایاں ترین نیوز میگزین
‘‘انڈیا ٹوڈے’’ میں بھی اُن کی تحریریں شائع ہوکر شہرت حاصل کرنے لگیں۔ اِسی دوران انہوں نے انگلستان کی ‘‘یونیورسٹی آف ایسٹ
ان جلیا’’ سے بھی تعلیم حاصل کی، لندن جاکر ‘‘بی بی سی’’ میں ملاز مت اختیار کی اور پھر رفتہ رفتہ بی بی سی اردو سروس
کے سربراہ بن گئے۔ صحافت کے ساتھ ساتھ وہ ڈرامہ اور ناول نویسی کے میدان میں بھی رواں
ہوگئے۔ اُن کے تحریر کردہ اسٹیج ڈرامے The
Dictator’s Wife نے لندن میں دھومیں مچادیں۔آج سے تقریباً چار سال قبل محمد حنیف صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے طیارے کی تباہی کے پس منظر میں ایک ناول لکھا اس کا نام تھا :A
Case of Exploding Mangoes
اس ناول کے بالکل انوکھے پلاٹ اور جاذب نظر اسلوب نے مشرق و مغرب
میں دھومیں مچادیں او رمغربی دنیا سے، حتیٰ
کہ بھارت سے بھی حنیف صاحب نے کئی اعلیٰ ادبی انعام پائے ۔گزشتہ برس انہوں نے Our
Lady of Alics Blatti کے نام سے ایک نیا ناول لکھا
جس کی باز گشت ہمیں اب بھی چاروں اور سنائی
دے رہی ہے۔ محمد حنیف صاحب کوئٹہ کے آس پاس بسنے والے مظلوم ہزارہ مسلمانوں کے ایک
بچے سے ملے۔ اُس کے کتھا سنی ۔ خود بھی خون کے آنسوروئے اور ہمیں بھی اداس کر گئے ہیں۔
محمد حنیف لکھتے ہیں : ‘‘
اس سال کے آغاز میں میں ایک چودہ سالہ ہزارہ لڑکے سے کراچی سے بینکاک جانے والی ایک
پرواز کے دوران ملا۔ مذاق مستی کے موڈ میں
پاکستانی تاجروں کا ایک گروہ اس لڑکے پر چینی زبان آزمانے کی کوشش کرنے لگا۔(کیونکہ
اُس کے خدوخال چینیوں کی طرح تھے) لڑکے نے پریشان ہوکر مجھے کہاکہ یہ لوگ کون سی زبان
بول رہےہیں ؟ میں نے احتیاط کے ساتھ اُس گروہ کو بتایا کہ یہ لڑکا پاکستانی ہے۔ تاجر
اس بات پر حیران رہ گئے کہ چینی نظر آنے والا یہ بچہ روانی کے ساتھ اردو کیسے بول لیتا ہے ؟ کچھ دیر بعد انہوں نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا اور وہ آپس میں بینکاک کے قحبہ
خانوں پر باتیں کرنے لگے۔ میں نے لڑکے سے پوچھا
: ‘‘اکیلے ہی چھٹیوں پر جارہے ہو؟’’
میرے سوال پراُس نے کہا :
‘‘ میں نویں جماعت میں ہو۔’’ وہ خود کو بچہ نہیں کہلوانا چاہتا تھا۔
‘‘تو اسکول کیوں نہیں جاتے
؟’’ میں نے پوچھا ۔
پھر جو کہانی اس نے سنائی
، وہ میرے لئے نئی نہیں تھی، تاہم ایک بچے کے نقطہ نظر سے میں نے پہلی بار سنی تھی۔
اس نے کہا : ‘‘میرے ابو کچھ عرصے سے گھر میں ہم سے عجیب برتاؤ کررہے ہیں ۔’’ اس نے دھیمی آواز کے
ساتھ بتایا کہ (کوئٹہ کی ) سریاب روڈ پر ان کی ایک بہت بڑی دکان ہے ۔ پہلے ابا وہاں
روز جایا کرتے تھے تاہم اب وہ زیادہ تر گھر پر ہی رہتے ہیں ۔ لڑکے نے بتایا کہ پہلے
ابو مجھے اسکول جانے سے روک دیا، پھر باہر
جانے پر بھی پابندی لگادی او رپھر انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بینکاک جارہا
ہوں۔ اُس لڑکے کو ا س بات کا اندازہ نہ تھا کہ اس کی (ہزارہ مسلمان ) برادری کس قسم
کے (سنگین ) حالات کا سامنا کرر ہی ہے۔ اس کے والد کوئٹہ کے ان تاجروں میں سے ایک ہیں
جنہیں اپنے کام پر جاکر مرجانے یا گھر پر رہ کر زندہ رہنے کے بیچ انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ لڑکے کو اس بات پر یقین تھا
کہ اس کے والد کچھ عجیب طرح سے برتاؤ کررہے
تھے۔ میں نے اس لڑکے سے پوچھا کہ کیا تم کبھی بینکاک پہلے جا چکے ہو اور تمہارے خاندان
کا کوئی فرد وہاں موجود ہے؟ اس نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا: ‘‘ نہیں ، میں کبھی کہیں
نہیں گیا ۔ میری ساری بہنیں کوئٹہ میں ہیں
اور میں ان کا اکلوتا بھائی ہوں۔ میں بینکاک میں انکل مرزا کے ساتھ رہنے جا رہا ہوں۔’’پھر ٹھیٹ لڑکپن کے جوش کے جوش
کے ساتھ اس نے مجھ سے سوال کیا : ‘‘ کیا آپ انکل مرزا کو جانتے ہیں ؟ بینکاک میں انہیں
تو سب جانتے ہیں ۔’’ کچھ دیر بعد پتا چلا کہ انکل مرزا ان کے خاندانی دوست ہیں لیکن
یہ لڑکا اُن سے کبھی نہیں ملا تھا۔ مجھ میں یہ کہنے کا حوصلہ نہیں تھا کہ میں کسی انکل مرزا کو نہیں جانتا اور میں یہ بھی تصور نہیں کر پا یا کہ اس بچے کی بینکاک
میں زندگی کیسی ہوگی۔’’ محمد حنیف مزید لکھتے
ہیں : ‘‘رواں سال ہزارہ برادری کے ایک رہنما عبدالقیوم چنگیزی میتیں اٹھانے کے خوف
سے مجھے کہنےلگے : ‘‘ وہ حکومت کو ایک مشورہ دینے والے ہیں کہ ان کی تمام جائیداد ،
اُن کا گھر، کاروبار، دکانیں اور تمام جمع پونجی
لے کر حکومت انہیں کسی جہاز میں بٹھادے
اور کسی ایسے ملک بھیج دے جو انہیں قبول کرنے کو تیار ہو۔’’
عالمی شہرت یافتہ ناول نگار
، ڈرامہ نویس اور صحافی محمد حنیف کی لکھی
گئی یہ دل شکن کہانی، جو اگست 2012 ء کے وسط میں ایک انگریزی معاصر میں شائع ہوئی ہے،
پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں مقیم ہزارہ مسلمان برادری کس
طرح کے بے پناہ خوف اور کرب کا شکار ہے۔ اُن پر آئے روز کے قاتلانہ حملوں نے اُن کی
امیدوں اور حوصلوں کے چراغ بجھادیے ہیں۔ اچانک نمودار ہونے والے قاتلوں کا خوف اُن
کے دل و دماغ میں برف کی قلم بن کر بیٹھ گیا ہے۔ گویا اپنے وطن میں رہتے ہوئے وہ اجنبی بنادیے گئے ہیں۔ بینکاک روانہ ہونے والے لڑکے کی
کہانی سے ہم یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہزارہ مسلمان برادری اپنی اولاد کو محفوظ بنانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پر مجبور ہے۔ ہم بھارت میں آسامی
اور برما میں روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت پر آنسو بہارہے ہیں، اُن کی بے بسی پر ہم
بہت پریشان ہیں لیکن حیرت ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے ہزارہ برادری کے مسلمانوں پر ڈھائے
جانے والے مظالم نظرنہیں آرہے ہیں نہ اُن
کا مسلسل بہتا ہوا خون ہمارے دل نرم کررہا ہے۔ کیا کوئی اس کی وجہ بتا سکتا
ہے؟
5 ستمبر ، 2012 بشکریہ : روز
نامہ ایکسپریس ، پاکستان
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sheer-helplessness-stanger-boy-/d/8664