نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
26مارچ،2024
گزشتہ چند برسوں میں دینی
معاملات میں عام مسلمانوں کی بیداری کی وجہ سے انہوں نے تنقیدی فکر کا مظاہرہ کیا ہے
اور سوالات اٹھانے لگے ہیں۔ کچھ روشن خیال اور غیرروایتی علماء نے دین کے صحیح تصور
کو عام کرنا شروع کیا ہے اس کے نتیجے میں اب روایتی علماء کو بھی مجبوراً دین کے معاملات
میں برسوں سے چلی آرہی غیر ضروری روایات پر زبان کھولنی پڑرہی ہے۔ مثال کے طور پر جب
محمد علی مرزا نے کہا کہ صرف فرض نمازیں پڑھ لینا کافی ہے تو دیوبندی مفتی اور عالم
دین مولانا طارق مسعود نے بھی اپنی ایک تقریر میں کہا کہ عشاء کی 17 رکعتیں مولویوں
نے بڑھائی ہیں۔ عشاء کی صرف 4 رکعتیں اور 3 وتر پڑھ لینا کافی ہے۔ اسی طرح شب براءت
پر بھی اب مولانا طارق مسعود اور دیگر علماء بھی کہنے لگے ہیں کہ اس کی کوئی مستند,روایت
موجود نہیں ہے۔
اب تراویح کے متعلق بھی مسلمانوں
کے ایک طبقے نے احادیث کے حوالے سے بیس رکعت پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
بیس رکعت تراویح رسول اللہﷺ نے نہیں پڑھائی اور حضرت ابوبکر کے زمانے تک نماز تراویح
کی روایت موجود نہیں تھی۔یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے شروع ہوئی ہے۔ حضورپاک
ﷺ نے رمضان اور غیر رمضان میں رات کو صرف 8 رکعت نفل پڑھی ہے اور 3 رکعت وتر۔حضرت عائشہ
نے بھی ایک روایت بیان کی ہے جس میں انہوں کہا ہے کہ نبی پاک ﷺ رمضان ہو یا غیر رمضان
رات کو 11 رکعت سے زیادہ کبھی نہیں پڑھی ۔
انہی روایتوں کی بنا پر اب
مسلمانوں کا ایک طبقہ تراویح کو سنت نہیں مانتا کیونکہ سنت اس عمل کو کہا جاتا ہے جس
کو نبی پاکﷺ نے ادا کیا ہو۔ روشن خیال مسلمان اب تراویح نہیں پڑھتے بلکہ سنت پر عمل
کرتے ہوئے رات کو 11 رکعت نفل ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس پر روایت پرست علماء ایسے لوگوں
پر تنقید کررہے ہیں اور طرح طرح کی تاویلیں پیش کرکے بیس رکعت کی تراویح کو ہی درست
بلکہ سنت ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
سعودی عرب حکومت نے بھی کووڈ
لاک ڈاؤن کے اٹھنے کے بعدسے حرمین شریفین میں سنت پر عمل کرتے ہوئے بیس رکعت کی تراویح
کے بجائے 8 رکعت اور 3 رکعت پڑھانے کا حک جاری کیا ہے۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے دارالعلوم
دیوبند نے 2022ء میں سعودی عرب کی حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے
ایک خط لکھا تھا اور اس پر اپنی برہمی کا اظہار کیا تھا اوربیس رکعت تراوہح کو بحال
کرنے کی اپیل کی تھی
علمائے دارالعلوم دیوبند کی
جانب سے سعودی حکومت کو خط کے ذریعہ اہیل کی گئی تھی کہ حرمین شریفین میں 20 رکعت نماز,
تراویح کی سنت کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کے قائم مقام مہتمم
مولانا عبدالخالق مدراسی کی دستخط شدہ اپیل میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ دارالعلوم
دیوبند اس بات سے فکر مند اور برہم ہے کہ حرمین شریفین میں نماز تراویح کی 20 رکعت
کے بجائے 10 رکعت با جماعت پڑھائی جارہی ہے۔
مکتوب میں کہا گیا تھا اب
ساری دنیا کووڈ بحران سے نکل چکی ہے، ہر جگہ پابندیاں اور تحدیدات کا سلسلہ ختم ہوتا
جا رہا ہے۔ سعودی عربیہ میں بھی کووڈ کی تمام پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں اس کے باوجود
حرمین شریفین میں 20 رکعات تعامل کے بجائے 10 رکعات نماز تراویح پڑھائی جانے کا سلسلہ
جاری ہے جو بلاشبہ سوہانِ روح ہے۔ حرمین شریفین میں دیگر حق پرست مسالک اور مکاتب فکر
کا خیال نہ رکھنا اور صرف کسی ایک سخت رخ پر عمل پیرا ہونا کسی بھی طرح مناسب نہیں
ہے۔ اسلئے ہم سعودی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ سابقہ معمول کے مطابق حرمین میں 20 رکعات
نماز تراویح کی سنت کو فوری طور پر جاری کیا جائے۔
امسال دیوبندکے ہی مسلک سے
وابستہ طالبان نے افغانستان میں 8 رکعت تراویح پڑھنے اور پڑھانے والوں کے خلاف قانونی
چارہ جوئی کا حکم جاری کیا ہے۔ خبروں کے مطابق اگر کسی کے خلاف 8 رکعت تراویح پڑھنے
کی خبر ملے گی تو اسے انٹلی جنس ایجنسی کی تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے خلاف
قانونی کارروائی کی جائیگی۔ واضح ہو کہ اس طرح کے معاملات کو اسلامی حکومتوں میں فساد
فی الارض کے تحت لایا جاتا یے جس کی سزا سخت ہے حتی کہ موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
یہ بھی واضح ہو کہ افغانستان
میں شیعہ فرقے کے لوگ بھی آباد ہیں ۔ ان کےعقیدے کے مطابق بھی تراویح کی روایت ثابت
نہیں ہے۔لہذا ، شیعوں کو بھی طالبان حکومت کے عتاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دارالعلوم دیوبند نے سعودی
عرب کو لکھے گئے مکتوب میں کہا تھا کہ حرمین شریفین میں کسی دیگر حق پرست مسالک کا
خیال نہ رکھنا اور کسی ایک رخ پر عمل کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے لیکن افغانستان میں
طالبان کے ذریعہ دیگر حق پرست مسالک اور مکاتب فکر پر اپنا مسلکی عقیدہ تھوپے جانے
پر دارالعلوم خاموش ہے۔دارالعلوم نے 20 رکعت کی تراویح کوسنت کہا ہے جبکہ سنت 8 رکعت
ہے اور وہ بھی قیام اللیل کی نماز ہے۔ تراویح کی اصطلاح نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی احادیث
میں ۔
تراویح کے مسئلے پر طالبان
اور دیوبند کا رویہ انتہا پسندانہ ہے۔ تراویح ایک نفل عبادت ہے اور نفل عبادت کی کوئی
مقدار متعین نہیں ہوتی۔ لہذا تراویح کی نماز میں مقررہ رکعت پر اصرار کرنا اور اس پر
عمل پیرا نہ ہونے والے کو فساد یا دہشت گردی کے قوانین کے تحت سخت سزا دینا اور اس
کے پیچھے انٹلی جنس ایجنسی کو لگانا خارجیوں کا طرزعمل تو ہو سکتا ہے مسلمانوں اور
قران اور سنت کے پیروکار ہونے کا دعوی کرنے والوں کا نہیں۔
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism