New Age Islam
Tue Dec 10 2024, 09:20 PM

Urdu Section ( 2 Feb 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Where did Swami Vivekananda's India Go? کہاں گیا سوامی وویکانند کا ہندوستان؟

پروفیسر طاہر محمود

13 جنوری ، 2021

آج ۱۲  جنوری کی تاریخ ہندوستان کی مشہور و معروف اور آج تک عوام میں بے انتہا مقبول مذہبی شخصیت سوامی وویکانندکا یوم پیدائش ہونے کے باعث ملک کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ ۱۸۹۳میں اپنی بیسویں سالگرہ کے موقع پر وہ امریکہ کے شہرشکاگو میں تھے اور وہاںمنعقد ہونے والی مذاہب عالم کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ایک دن قبل کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں انھوں نے ایک معرکۃ الآرا تقریر کی تھی جس کے الفاظ کو آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ کانفرنس کے مذاکرات کے حوالے سے امید ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’ دنیا کے ہر مذہب کے پرچم پر بہت جلد نفاق کے بجائے تعاون، بربادی کے بجائے ہم آہنگی اور اختلافات کے بجائے امن لکھا ہوگا‘۔بنی نوع انساں کی بد قسمتی سے ہندوستان کے اس نوجوان اور جوشیلے مذہبی فلسفی کے یہ الفاظ بے اثر رہے تھے اور اقوام عالم نے ان سے کوئی سبق نہیں لیا تھا۔ اگلے پچاس برسوں کے اندر دو عالمی جنگیں ہوئیں جن کے اثرات نے انسانی دنیا کے امن چین کو بربادکرڈالا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد مختلف ملکوں کے بعض امن پسند رہنمائوں کی کوششوں سے انسانی دنیا کو مزید بربادیوں سے بچانے کیلئے ’اقوام متحدہ‘ کے نام سے ایک عالمی تنظیم قائم ہوئی جس نے تین سال بعد ’حقوق انسانی کا عالمی منشور‘ جاری کیا ۔

سوامی وویکانند

------- 

ہمارے وطن عزیز میں ایک طویل مدّت سے انگریزوں کی غاصبانہ حکومت سے نجات حاصل کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں اور بالآخردوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے دوسال بعدانھیں یہاں سے بھاگنا پڑا تھا۔ ۱۹۴۸ میں جب حقوق انسانی کا عالمی منشور جاری ہواتھا اس وقت آزاد ہندوستان کا آئین تیار ہو رہا تھا اور ا س کی تشکیل کرنے والی سعید روحوں نے اس مقدس دستاویز کے تقاضوں کو نئے آئین کے مسودے میں پوری طرح شامل کرلیا تھا۔ چنانچہ آئین کے تمہیدی کلمات میں یہ مقدس عہد کیا گیا تھا کہ ہندوستان ایک آزاد، خود مختار اور جمہوری مملکت ہوگا جس کے تمام شہریوں کے لئے ’سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف اور خیال ،اظہار ، عقیدے، مذہب اور عبادت کی آزادی ‘کے علاوہ  ’حیثیت اور مواقع کی مکمّل برابری‘ کو بھی یقینی بنایا جائے گا اوران کے درمیان انفرادی وقاراورآپسی بھائی چارے کوہر طرح فروغ دیا جائے گا۔ تمہیدی کلمات کی ان ضمانتوں کی صراحت کیلئے آئین میں ’بنیادی حقوق‘ کے عنوان سے ایک مکمّل باب قائم کیا گیا تھا جس کی مختلف دفعات میں انکے تقاضوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔

آئین کے نفاذ کے ۲۶ سال بعد اس کی تمہید میں ایک نہایت اہم ترمیم کے ذریعے ملک کے سیکولر ہونے کی صرا حت کی گئی تھی اوراس میں ’شہریوں کے بنیادی فرائض‘ کی ایک نئی دفعہ بھی شامل کی گئی تھی۔ اس دفعہ میں مذکورشہریوں کے جن بنیادی فرائض کی خاص اہمیت ہے ان میں ’آئین کے احترام اور پابندی‘ کے علاوہ’ملک کے تمام باشندوں کے درمیان مذہبی، لسانی، علاقائی اور ہم آہنگی اوربرادرانہ بھائی چارے کو فروغ دینا‘ اور ’ ملک کی مخلوط ثقافت کا احترام اور تحفظ‘ بھی شامل ہیں اور’سائنسی مزاج، انسانیت اور تحقیق و اصلاح کا جذبہ قائم کرنا‘ بھی۔ قابل ذکر ہے کہ اس پوری دفعہ کا لازمی اطلاق کسی مذہبی، لسانی یا علاقائی تفریق کے بغیر سبھی شہریوں پر نافذ ہوتی ہے، عوام و خواص پر بھی اور ہر دور میں ملک کے اقتدار پر قابض ہونے والے حکمرانوں پر بھی خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا کسی بھی نظریے سے ہو۔

آئین ہندکے تمہیدی کلمات اور شہریوں کے حقوق و فرائض کے ابواب میں ملک کے تمام شہریوں کی بلا تفریق مذہب و ملّت اور غیرمشروط برابری کے علاوہ سبھی کےلیے عقیدے، مذہب اورعبادت کی آزادی کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے اس میں ہمیں سوامی وویکانند کے ان الفاظ کی عکّاسی نظر آتی ہے جو انھوں نے ۱۸۹۳ میں شکاگو میں ہونے والی مذاہب عالم کی مذکورہ بالا بین الاقوامی کانفرنس میں کہے تھے۔ اپنی معرکۃ آرا تقریر میں انھوں نے زور دے کر کہا تھا کہ ’ تنوع میں اتّحاد قدرت کا نظام ہے‘ اور یہ بھی کہ ’بدعقیدگی انسانیت کی بہت بڑی دشمن ہے لیکن مذہبی شدّت پسندی اس سے بھی بڑی دشمن ہے‘۔ مذاہب عالم کی اس کانفرنس میں اپنے عظیم نمائندے کی ان بیش قیمت نصیحتوں کو بھی ہم نے آزاد ہندوستان کے آئین کی کسی نہ کسی دفعہ میں شامل ضرور کردیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سوامی جی کے مذکورہ نظریات ہوں یا ان کی عکّاسی کرنے والی آئینی دفعات، ان پر آج ہمارا عمل کتنا ہے؟ ۔ کہاں ہیں محترم سوامی جی کے وہ زرّیں خیالات و نظریات، کہاں ہیں ملکی آئین کی وہ دفعات جن میں مذہبی مساوات اور ہم آہنگی، مخلوط ثقافت کے تحفّظ، سائنسی مزاج اور جذبۂ انسانیت وغیرہ کی بات کی گئی ہے؟

 ہمارے وطن عزیز کے اس عظیم رہنما نے شکاگو کانفرنس کے اپنے تاریخی خطاب میں مزید کہا تھا کہ مجھےـ فخرہے کہ میں ایک ایسے ملک کا باشندہ ہوں جس نے تمام مذاہب والوں کیلئے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ہیںاورایک ایسے قدیم مذہب کا پیرو ہوں جس نے دنیا کو رواداری اور عالمی بھائی چارے کے سبق پڑھائے ہیں‘۔ ان کے یہ فخریہ الفاظ اس وقت کے ملکی حالات سے پوری طرح مطابقت رکھتے تھے اور دنیا بھر سے کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے ہوئے مختلف مذاہب کے نمائندوں میں سے کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کی تردید کرسکتا ۔ مگر اب ؟ کیا آج بھی ہندوستان کا کوئی معتبر اور حق گو نمائندہ کسی بین الاقوامی مذاکرے میں ان کے ان مقدس کلمات کا بلا خوف تردید من و عن اعادہ کر سکے گا؟ اب سے چند برسوں پہلے تک ہم خود اپنے وطن کی اس لائق صد احترام شخصیت کی زبان سے مدّتوں قبل نکلے ہوئے یہ الفاظ بیرونی ممالک میں ہونے والے علمی مذاکرات میں اکثر بڑے فخر سے دہرایا کرتے تھے، لیکن گزشتہ چند سالوں میں تنقید کی بوچھاروں کے خوف سے اسکی ہمّت نہیں کرسکے۔

 آج بڑے تزک و اہتمام سے یوم جمہوریہ کی تقریبات کا انعقا د ہوگا جو کہ ہر سال آئین کے نفاذ کی تاریخ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کیا واقعی ہمیں اس مبارک موقع پر بجا طور پر خوشیاں منانے کے ساتھ ہی خود احتسابی کی چنداں ضرورت نہیں ہے؟ لازم ہے کہ ملک کے عوام و خواص اور حکمران وقت سبھی ملکی آئین کی ایک ایک دفعہ پر مکمل طور عمل پیرا ہونے کا عہد کریں کہ ہمارے وطن کے سوامی وویکانند نامی عظیم سپوت کو یہی سچّا خراج عقیدت و تحسین ہوگا۔

proftahirmahmood@gmail.com

13 جنوری ،2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/where-swami-vivekananda-india-go/d/124200


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..