سمت پال، نیو ایج اسلام
19 اپریل 2022
ہمیں اپنی بھلائی اور
ذہنی سکون کے لیے انتسابی سنڈروم سے بچنا چاہیے۔ ایک مومن کو کبھی یہ نہیں بھولنا
چاہیے کہ ہماری تقویٰ شعاری اور اخلاق کا جوہر خود ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی اس
پر اثر انداز نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ نام نہاد شیطان بھی نہیں۔
سامی مذاہب اور تہذیبوں
کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے مجھے ہمیشہ تینوں مذاہب، یعنی یہودیت، عیسائیت اور
اسلام کے پیروکاروں کے 'منفی جنون' کے بارے میں کافی تجسس رہی ہے۔ مجھے خوف ہے،
اسلام اس جنون میں سرفہرست ہے۔ کسی مسلمان فرد یا پوری امت پر جب بھی کچھ ناگوار
واقعہ گزرتا ہے،وہ بلاتامل اسے ابلیس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں گویا کہ وہ ہمیشہ
کسی مسلمان کو ہی گمراہ کرنے کے فراق میں بیٹھا رہتا ہے۔ اگرچہ ہو سکتا ہے کہ یہ
کوئی مذہبی اور شرعی عقیدہ ہو، لیکن ہر بات کا ٹھیکرا شیطان کے سر پھوڑنے سے اردو
کی اس کہاوت کی تصدیق ہوتی ہے ، "طبلے کی بلا بندر کے سر"۔ نفسیاتی طور
پر یہ ایک انتسابی سنڈروم ہے۔ ہم اکثر ہندی اور اردو میں ایک محاورہ استعمال کرتے
ہیں: "ناچ نہ جانے، آنگن ٹیڑھ"۔ ایک فرد خواہ وہ مسلمان ہو یا کسی دوسرے
مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اپنے ہر اچھے برے اعمال کا مکمل خود ہی طور پر ذمہ دار ہے۔
حدیثوں میں یہ تعلیم بھی
دی گئی ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے عقل سلیم کا استعمال کرنا چاہیے اور نیک راستے
پر چلنا چاہیے (صحیح البخاری)۔
اگر ہمیشہ کسی کو نیک
راستے پر ہی چلایا جائے تو پھر اس کی رہنمائی کی انفرادی قوت ارادی کہاں گئی؟ اس
کی آزاد کہاں گئی؟ مزید برآں، شیطان کی ہمیشہ مذمت کرنا ایک مسلمان کے لیے روزمرہ
کا ایک معمول معلوم ہوتا ہے۔ رابعہ بصری نے بجا طور پر یہ پوچھا، "میں شیطان
سے نفرت کیسے کر سکتی ہوں جب کہ میرے دل میں نفرت کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے؟ میں صرف
اور صرف محبت ہی جانتی ہوں۔"
اپنی ایک شاندار تمثیل
میں، لبنانی-امریکی مصنف، شاعر اور فنکار خلیل جبران نے ایک ہمدرد آدمی کی کہانی
بیان کی ہے جو رمی الجمارات (شیطان کو سنگسار کرنے کی عربی اصطلاح) سے انکار کر
دیتا ہے۔ یاد رہے کہ اس رسم کے دوران مسلمان مکہ کے بالکل مشرق میں واقع منیٰ
میں’جمرات‘ نامی تین ستونوں پر کنکریاں پھینکتے ہیں۔ مزدلفہ میں گزاری گئی رات کے
دوران، حجاج 10 ذوالحجہ، یعنی حج کے دن شیطان کے نام سے کھڑے تین ستونوں کو مارنے
کے لیے 70 پتھر جمع کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شیطان کو پتھر مار کر خود کو
نیچا نہیں کر سکتا تھا، خواہ وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو۔ یہ بالکل سچ ہے۔ فرید
الدین عطار نے پہلوی (فارسی کا مجموعہ کلام) میں لکھا ہے: (ترجمہ: میں سب کا یکساں
احترام کرتا ہوں اور اس میں شیطان بھی شامل ہے)۔
اپنے مذہبی صحیفے پر چلنے
والے ایک اوسط مسلمان کو یہ بات سراسر توہین آمیز لگ سکتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
جب ہم ہمیشہ کسی بھی چیز یا کسی انسان، یا شیطان کی مذمت کرتے رہتے ہیں، تو ہمارے
دل میں نفرت بھر جاتی ہے اور نفرت سے بغض پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی بھلائی اور ذہنی
سکون کے لیے اس سے بچنا چاہیے۔ ایک مومن کو کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے
تقویٰ شعاری اور اخلاق کا جوہر خود ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی اس پر اثر انداز
نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ نام نہاد شیطان بھی نہیں۔ اپنے اعمال اور تقدیر کے ذمہ
دار آپ خود ہیں، شیطان نہیں۔ اپنی غلطیوں اور اخلاقی برائیوں کو تسلیم کریں، اپنا
جائزہ لیں محاسبہ کریں، ان کی اصلاح کریں اور انہیں کبھی بھی شیطان یا اپنی
بدقسمتی پر نہ ڈالیں۔ یہ ایک شکست خوردہ ذہنیت ہے جو آپ کی شخصیت کے نازک تانے
بانے کو ظاہر کرتی ہے۔
اسلام کے ایک نابینا مصری
مفسر ڈاکٹر طحہ حسین نے لکھا ہے کہ 'شیطان ایک روحانی علامت ہے، اور قدیم ترین
اسلامی علامات میں سے ایک ہے، یہ منفیت اورگمراہیت کی علامت ہے۔ وہ کوئی مردود
فرشتہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے خود کی محرومی کا
مظہر ہے۔ کوشش کریں کہ ہم اعلیٰ ترین اخلاقی معیار سے نہ گریں اور اللہ ہم پر
مہربان ہو جائے. کاش تمام مسلمان اس پر عمل کر لیں۔ اور صرف مسلمان ہی کیوں، اس کی
پیروی ان تمام لوگوں کو کرنی چاہیے جن کی اخلاقی سالمیت بیرونی طاقتوں اور من گھڑت
باطنی افکار، کتابوں اور کرداروں سے محفوظ ہے۔
English
Article: The Attribution Syndrome: Muslims Should Use Their
God-Given Prudence And Acquire Piety Rather Than Constantly Blaming Shaitan For
Their Shortcomings
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism