امام سید شمشاد احمدناصر، نیو ایج اسلام
قرآنی نصائح
قرآن کریم نے متعدد جگہ ظلم کی اور ظالموں کی مذمت بیان فرمائی ہے اور ظالمین کا لفظ ہی قرآن کریم میں 91 جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم کو پسند نہیں فرماتا۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ ظالموں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جہنم ٹھکانے کے لحاظ سے بہت بری جگہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ
اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ۔ (الحج 22:54)
اور یہ بھی فرمایا ہے کہ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ۔ (الحج 72: 22)
یہ بھی فرمایا: فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔ (المومنون 23:42)
یہ بھی فرمایا :وَاَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا۔ (الفرقان38:25)
یہ بھی فرمایا: فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ۔ (القصص 28:41)
یہ بھی فرمایا: اِنَّا مُھْلِکُوْا اَھْلَ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ اِنَّ اَھْلَھَا کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ (العنکبوت29:32)
یہ بھی فرمایا: یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُھُمْ وَلَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْءُ الدَّارِ (المومن 40:53)
اب ان آیات کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
ظالم لوگ ہر خدائی بات کی شدید مخالفت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔
ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہو گا۔
ظالموں کے لئے خدا کی لعنت مقدر کر دی گئی ہے۔
ہم نے ظالموں کے لئے دردناک عذاب تیار کر چھوڑ اہے۔
اگلی آیات میں فرعون کا ذکر ہوا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اس نے بھی یعنی فرعون نے اور اس کے لشکروں نے بھی ملک میں بغیر کسی حق کے تکبر سے کام لیا اور خیال کیا کہ وہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں جائیں گے پس ہم نے اس کو بھی اور اس کے لشکروں کو بھی پکڑ لیا اور ان کو سمندر میں پھینک دیا۔ پس دیکھ! کہ ظالموں کا انجام کیسا ہوا؟
اللہ نے فرمایا: ہم اس بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ اس کے باشندے ظالم ہیں۔ جس دن ظالموں کو ان کا عذر کوئی نفع نہیں دے گا اور ان پر خداتعالیٰ کی لعنت نازل ہو گی۔ اور ان کا بہت برا گھر ہو گا۔
مندرجہ بالا آیات جو پیش کی گئی ہیں یہ ان کا آسان ترجمہ ہے۔ جس سے اس مضمون کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی کہ
خداتعالیٰ کسی قسم کا ظلم پسند نہیں کرتا اور خدا فساد پیدا کرنے والوں کو بھی پسند نہیں کرتا اور خد انے ظالموں کا ٹھکانہ جہنم رکھا ہے جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پیارے آقا نے فرمایا ہے کہ کسی کو بھی آگ کا عذاب مت دو۔ حتّٰی کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ چیونٹیوں کے بھٹ کو بھی آگ سے نہ جلاؤ۔ اگر کسی کا کوئی ایسا فعل ہی ہے جسے پر اسے آگ کی سزا دینی ہے تو وہ خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ گویا کسی دوسرے کو آگ کی سزا دینے کی اجازت نہیں۔ یہ سزا کلیۃً خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور جو اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ ایک عرصہ سے دنیا کے مختلف اخبارات، کالم نویس، تجزیہ نگار اور ملک کے شرفاء دہشت گردی کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ اگرچہ دہشت گردوں کے واقعات پہلے بھی ہوتے تھے مگر وہ شاذ و نادر کے طور پر اور اکّا دکّا۔ مگر اب تو ہر جگہ یہی حال ہو رہا ہے اور مسلم ممالک اس کی زد میں زیادہ ہیں۔ خدا معلوم کہ ان دہشت گردوں کے مقاصد کیا ہیں؟
لیکن ابھی پہلی تحریروں کی نہ ہی سیاہی خشک ہوتی ہے اور نہ ہی نوحہ گروں کے آنکھوں کے آنسو خشک ہوتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں پھر کسی نہ کسی اقلیت پر وطن عزیز میں بموں کے گولے برسا کر مزید آنکھوں کو اشکبار کر دیا جاتا ہے۔
حال ہی میں پھر لاہور کے ایک نواحی جگہ یوحنا آباد میں عیسائی فرقہ کی عبادت گاہوں میں بم دھماکے کر دیئے گئے۔ خواتین کا رونا، بچوں کا یتیم ہو جانا، سہاگوں کا مٹ جانا، املاک کو جلا دینا، عوام کے آنسو اب تو دیکھے نہیں جاتے۔ ظلم کی انتہا یہاں تک ہو گئی ہے کہ ہوش کی بجائے اندھے جوش میں آکر انسانی جانوں کو آگ میں زندہ جلا دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جارہا اور یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات وطن عزیز میں متعدد بار ہو چکے ہیں۔
میں نے خداتعالیٰ کے احکامات ظلم کے بارے میں اور آنحضرت ﷺ کی حدیث مبارکہ لکھ دی ہے۔ ہمارا کام تو پیغام حق کو پہنچا دینا ہے۔ اخلاقی گراوٹ کی بھی حد ہوتی ہے، سفاکی کی بھی حد ہوتی ہے، بربریت کی بھی کچھ حدود ہوں گی مگر یہاں تو دل ایسے سخت معلوم ہو رہے ہیں کہ زمانہ جاہلیت یاد آرہا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بعثت سے پہلے لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔
ایک دفعہ اس قسم کا واقعہ ایک شخص نے جو کہ خود والد تھا اور اپنی بیٹی کو زندہ درگور کر چکا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ تو آپؐ اس کے واقعہ کو سن کر رو رہے تھے، آنسو رخسار مبارک سے ڈھلک رہے تھے اور آپؐ نے اس سے پوچھا کہ جب وہ بچی ابا ابا کہہ رہی تھی تو تمہارے دل میں پھر بھی اس کے لئے رحم اور درد پیدا نہیں ہوا؟
میں اس بات کو دوہرانے میں بالکل جھجک محسوس نہیں کرتا ہر بار یہی عرض کروں گا کہ دہشت گردی کو ملک میں اس حد تک پہنچانے کا کون ذمہ دار ہے؟
انہوں نے وطن عزیز میں ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جن سے اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اور پھر اوپر سے کوئی اخلاقی تعلیم نہیں دی جاتی۔
مجھے تو ان قوانین پر ہنسی آتی ہے کہ کس قدر مضحکہ خیز یہ قوانین اور آئین میں ترمیم ہے۔ جبکہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ 1974ء میں پارلیمنٹ نے فرقہ احمدیہ کو غیرمسلم قرار دیا۔ یہ شروعات تھیں اس ظلم کی۔ جس کی انتہاء اور بلندیوں کو آج ہم چھو رہے ہیں۔ میں نے یہ بتایا ہے کہ یہ قانون اور ترمیم مضحکہ خیز تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ کیا دنیا کی کسی پارلیمنٹ، حکومت اور طاقت یا ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کے مذہب میں دخل دے؟ چونکہ دخل دیا گیا تو پھر اس قانونی ترمیم کے غلط نتائج آج نکل رہے ہیں اور قوم بھگت رہی ہے۔ ریاستی اور حکومتی سطح پر جب یہ ظلم اختیار کیا گیا تو وہ خدا کو پسند نہیں آیا۔
اگر یہ قانون اور ترمیم ٹھیک تھی اور خدا کے منشاء کے ماتحت تھی تو خدا کو خوش ہو کر اس قوم پر انعامات کی بارش کرنی چاہئے تھی نہ کہ ان کو عذاب پر عذاب ملتا۔ کیا خدا جس پر خوش ہو اس کے حالات ایسے ہی ہوا کرتے ہیں؟
حضرت عیسیؑ ٰ اگر پاکستان گئے تو انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا
ایک اور مضحکہ خیز بات جو اس قانونی ترمیم سے ہو گی وہ یہ ہے کہ اس ترمیم کی رو سے حضرت عیسیؑ ٰ جب بقول ان کے آئیں گے، تو پھر وہ پاکستان نہیں آسکتے کیونکہ ترمیم یہ کہتی ہے کہ اب کوئی شخص مصلح ہونے کا، ریفارمر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ جو کرے گا اسے جیل میں ڈالنے کے علاوہ جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا وہاں پر عیسیٰ کو مستثنیٰ قرار نہیں د یا گیا۔
اب جب حضرت عیسیٰ بقول ان کے تشریف لائیں گے تو کیا وہ یہ نہیں کہیں گے کہ میں خدا کی طرف سے آپ کے لئے مصلح ہو کر آیا ہوں۔ میں آپ کی ریفارمیشن اور اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ ان کو تو اس کی وجہ سے پاکستان کی حکومت ویزہ ہی شاید نہ دے اور اگر وہ چپکے سے داخل بھی ہو گئے تو تبلیغ نہ کر سکیں گے؟ پھر ان کے آنے کا فائدہ کیا ہو گا؟
پھر قرآن کریم نے تو حضرت عیسیٰ کے لئے فرمایا ہے کہ رَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ کہ وہ اپنی قوم سے کہیں گے کہ میں تو بنی اسرائیل کا رسول ہوں۔ قرآن نے تو یہی فرمایا ہے۔ مگر امت مسلمہ کہہ رہی ہے کہ نہیں وہ ہماری بھلائی اور ہمیں تبلیغ کرنے اور ہمیں سدھارنے کے لئے آئیں گے۔ تو یہ عقیدہ قرآن کے احکام کے خلاف پڑا ہوا ہے؟
کیونکہ قرآن کریم نے تو یہی فرمایا ہے کہ وہ یہودیوں (بنی اسرائیل) کے رسول ہیں۔ مگر مسلمان کہہ رہے ہیں کہ نہیں وہ مسلمانوں کی اصلاح کے لئے آئیں گے۔ قرآن کریم تو یہ بات نہیں کہتا۔ اب قرآن کی بات مانی جائے یا آپ کے عقیدہ کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ ع
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
عجیب بات ہے کہ اسرائیل کا وجود تو ماننے کو تیار نہیں۔ اسرائیلی نبی کو اپنی اصلاح کروانے کے لئے ماننے پر تیار ہیں؟ خدا کے لئے ان باتوں پر غور کرو۔ دھیان دو اور سوچو اندھی مخالفت سے باز آجاؤ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عجز و انکسار
حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص آپؐکے پاس لایا گیا تو وہ شخص آپ کی ہیبت سے کانپنے لگا۔ آپؐ نے اس کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ تو کیوں ڈرتا ہے؟ میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں۔ قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی۔ بتا تیری کیا حاجت ہے؟ اس نے مطلب عرض کیا۔ آپؐ نے اس کی حاجت روائی کی اور فرمایا:
اے لوگو! میرے پاس اس مضمون کی وحی آئی ہے کہ تم لوگ تواضع کرو اور کوئی شخص کسی پر فوقیت نہ دے۔ اور فخر نہ کرے کیونکہ تم سب خدا کے بندے ہو باہم بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ (حکایات کا انسائیکلو پیڈیا صفحہ29)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maybe-words-sink-heart-/d/102076