امام سید شمشاد احمدناصر، نیو ایج اسلام
ویسے تو دنیا کا رخ تباہی کی طرف بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس تباہی کو اگر روکنا ہے تو پھر ہمیں دعوت الی اللہ کرنا پڑے گی تباہی اس وقت آتی ہے جب انسان خداتعالیٰ سے اور اس کی عبادت سے غافل ہو جائے، خداتعالیٰ کی پرواہ نہ کرے اور اس کے احکامات کو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھے اور پھر جب خداتعالیٰ اپنے صفت المنتقم سے کام لیتا ہے پھر وہ نہیں دیکھتا کہ یہ کون ہیں؟
انفرادی طو رپر اور اجتماعی طور پر وہی قومیں خدا کو پیاری ہیں جو اس کے احکامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری کرتی ہیں اور پھر وہ لوگ جو اس بات کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دین اسلام کی طرف منسوب کرکے رسول اللہ ﷺ کا کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں ان کی ذمہ داری دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ حقوق اللہ بھی بجا لائیں اور حقوق العباد بھی!
خاکسار ہر دو امور کے بارے میں متعدد مرتبہ عرض کر چکا ہے یاددہانی کے طور پر بھی بار بار لکھا جاتا ہے اس خیال سے کہ ع
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
ابھی گزشتہ سانحات کے آنسو خشک نہیں ہونے پاتے کہ پھر لوگوں کے دلوں کو زخمی کر دیا جاتا ہے۔ پھر سہاگ اُجاڑ دیئے جاتے ہیں، پھر بچوں کو یتیم کرنے کی خبریں آجاتی ہیں۔ پھر ملکی امن اور گھروں کے امن کو برباد کر دیا جاتا ہے اور ارباب حل و اقتدار دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ پھر کچھ پاکستان وطن عزیز کے قوانین بھی ایسے ہیں جن سے ایسے لوگوں کو مزید شہ ملتی ہے۔
قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ کسی کی نہ عزت محفوظ نہ جان محفوظ، نہ مذہب اور عبادت گاہیں اور کتب محفوظ۔ یہ سب باتیں خداتعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک وقت تک یہ سب کچھ دیکھتا ہے مگر جب اس کا غضب بھڑکتا ہے تو پھر اس سے کوئی بچا بھی نہیں سکتا۔
کیا یہ دلوں کو چھلنی کرنے والا واقعہ نہیں ہوا کہ کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ کر کے 45 لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
بی بی سی اردو کی خبر کے مطابق کراچی میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بس پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 45 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ بدھ کی صبح صفورا چورنگی کے قریب پیش آیا جب تین موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آوروں نے ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا۔ ہلاک ہونے والوں میں 27مرد اور 16خواتین شامل ہیں۔زخمی ہونے والوں میں بھی خواتین شامل ہیں۔ متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے یہ تمام لوگ الاظہر گارڈن سے عائشہ منزل پر واقع اسماعیلی جماعت خانے کی جانب جا رہے تھے۔
حملہ آور فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جائے وقوعہ سے جو پمفلٹ ملے ہیں ان کے مطابق یہ ضرور کہا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ کا آغاز ہو چکا ہے اور رافضی سنگین نتائج کا انتظار کریں۔ یہ حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس تھے۔
دہشت گردوں کی جانب سے پر امن مسلک کے خلاف دہشت گرد کارروائی ایک بہت بڑا سانحہ ہے!
اس سے قبل بھی اقلیتوں کے ساتھ ایک عرصہ دراز سے یہی سلوک کیا جارہا ہے اور حکومت نے اس طرف بالکل توجہ نہ کی بلکہ ایسے قوانین بنائے گئے جن سے دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کئے گئے۔
ابھی حال ہی میں چند دن ہوئے لکھا پنجاب حکومت نے جماعت احمدیہ کی ایک مسجد بیت الحمد جو کہ چکوال ضلع کے ایک شہر پچند تلہ گنگ کے نزدیک واقع تھی کے منارے، محراب اور دیوار کو شہید کروا دیا۔ اور یہ کام پولیس نے کیا جس سے حکومتِ پنجاب کا احمدیوں کے خلاف واضح تعصب عیاں ہے۔ اب پولیس کا کام یہی رہ گیا ہے وہ قاتلوں کو تو گرفتار نہیں کر سکتی۔ امن کے قیام میں اس کا کردار صفر ہے۔ شہریوں کی حفاظت کا کام سرانجام نہیں دے سکتی، لوٹ مار کرنے والوں پر تو ہاتھ نہیں ڈال سکتی، آخر اس نے کچھ تو کرنا ہی ہے تو یہی موقع غنیمت تھا کہ احمدیوں کی مسجد کو شہید کر دیں۔ جو تصاویر مسجد کے مینارے، دیواریں اور محراب گرانے کی موصول ہوئی ہیں ان میں ایک تصویر میں قرآن شریف کی بھی انہوں نے بے حرمتی کی ہو ئی ہے اس پر تفسیر صغیر لکھا ہوا تھا۔
جس ملک میں عبادت گاہوں کا یہ احترام ہو۔ جس ملک میں عبادت تک کرنے کی اجازت نہ ہو اس ملک کا انجام اور کیا ہو سکتا ہے۔ نشے میں چور ارباب حل و اقتدار کو شاید یہ سمجھنے میں دیر لگ رہی ہے کہ ایسے کاموں کا انجام ٹھیک نہیں ہوتا۔ جماعت احمدیہ تو امن پسند جماعت ہے اس کے کسی شخص نے آج تک حکومت کے خلاف نہ قدم اٹھایا نہ تقریر کی نہ دھرنا دیا نہ ریلیاں نکالیں۔ خاموشی کے ساتھ صبر کے ساتھ ہر تکلیف اور ہر دکھ برداشت کر رہی ہے۔ لیکن حکومت اور ملاں ان سے ان کے جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں۔
حالیہ خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے افراد کو صبر اختیار کرنے اور دعائیں کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :
’’جیسے بھی حالات ہوں ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ اس کی ضرورت ہے نیز فرمایا کہ پنجاب حکومت نے حضرت مسیح موعود کی کتب اور الفضل پر پابندی لگا دی ہے مگر خداتعالیٰ کی مدد اچانک آئے گی۔ پس اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں، خداتعالیٰ سے تعلق جوڑے رکھیں اور اپنے ایمانوں کی مضبوطی کے لئے بھی دعائیں کرتے رہیں، سورج طلوع ہو گا اور ضرور ہو گا اور خداتعالیٰ کی مدد بھی ضرور آئے گی۔‘‘
پنجاب حکومت نے جماعت احمدیہ کی کتب جن میں بانی جماعت احمدیہ کی ساری کتب اور حضرت مرزا بشیرالدین محمود کی ایک کتاب Way of the Seekersپر اور الفضل کی اشاعت پر پابندی لگا دی ہے۔
جب تک ملک میں اس قسم کے حالات رہیں گے امن کیسے قائم ہو گا۔ جب حکومت بھی تعصب کا شکار ہو کر فریق بن جائے تو پھر امن نہیں ہو سکتا حکومت کا کام تو بلا امتیاز ہر کسی کی حفاظت کرنا اور ان کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہے۔ پھر 1974ء اور 1984ء میں انہوں نے خدا بن کر دین میں دخل اندازی کی اور انہیں بنیادی شہری حقوق سے بھی محروم کیا اور یہ سب کچھ جس سے آج ملک دو چار ہے اس کی وجہ سے ہے۔ کاش یہ بات سمجھ آجائے!
فتاویٰ کفر کی حیثیت
کیا کسی حکومت کا یا کسی پارلیمنٹ کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار دیا ہے کہ کسی دوسرے کے مذہب میں دخل اندازی کرے۔ یا اس کے مذہب اور اعتقادات کو تبدیل کر دے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص خود کو مسلمان کہلاتا ہے وہ مسلمان ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو عیسائی کہلاتا ہے وہ عیسائی ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنے آپ کو ہندو کہلاتا ہے یا یہودی کہلاتا ہے وہ وہی کچھ ہے جس کا وہ اقرار کرتا ہے۔ کیونکہ مذہب بندے اور خدا کے درمیان ہے، کوئی پارلیمنٹ کسی کو نہ ہی مسلمان ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر سکتی ہے اور نہ ہی غیر مسلم ہونے کا!
اس لئے علماء کو، پارلیمنٹ کو، حکومتوں کو اس قسم کے فتاویٰ سے اجتناب کرنا چاہئے اور اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ جو دین وہ چاہیں اپنے لئے پسند کریں اختیار کر لیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔
اسلام میں اتنی کشش ہے کہ اگر مسلمان صحیح طور پر اپنے رسول کی اتباع کریں تو وہ لوگوں کے دلوں کو جیت سکتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان فتاویٰ کفر کی کیا حیثیت ہے اور کیا کوئی عالمِ دین انفرادی حیثیت سے یا اپنے فرقہ کی نمائندگی میں کسی دوسرے فرد یا فرقہ پر کفر کا فتویٰ دینے کا مجاز ہے یا نہیں اور ایسے فتاویٰ سے امت مسلمہ کی اجتماعی حیثیت پر کیا اثر پڑے گا؟
جماعت احمدیہ کے نزدیک ایسے فتاویٰ کی حیثیت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض عقائد اس حد تک اسلام کے منافی ہیں کہ ان عقائد کا حامل عند اللہ کافر قرار پاتا ہے اور قیامت کے روز اس کا حشر نشر مسلمانوں کے درمیان نہیں ہو گا۔ اس لحاظ سے ان فتاویٰ کو اس دنیا میں محض ایک انتباہ کی حیثیت حاصل ہے اور جہاں تک دنیا کے معاملات کا تعلق ہے کسی شخص یا فرقے کو امت مسلمہ کے وسیع تر دائرہ سے خارج کرنے کا اہل یا مجاز قرار نہیں دیا جا سکتا یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے روز جزا سزا کے دن ہی ہو سکتا ہے دنیا کے معاملات میں ان فتاویٰ کا اطلاق امت مسلمہ کی وحدت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کسی فرقے کے علماء کے فتویٰ کے پیش نظر کسی دوسرے فرقہ یا فرد کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہ موقف کہ ایک فرقہ کے کفر کے بارہ میں اگر باقی تمام فرقوں کا اتفاق ہو جائے تو ایسی صورت میں دائرۂ اسلام سے اس فرقہ کا اخراج جائز قرار دیا جا سکتا ہے اس بناء پر غلط اور نامعقول ہے کہ عملاً مسلمانوں کے ہر فرقہ میں کچھ نہ کچھ اعتقادات ایسے پائے جاتے ہیں جن کے متعلق اکثر فرقوں کا یہ اتفاق ہے کہ ان کا حامل دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور یہ صور تحال آسمانی حکم و عدل کا تقاضہ کرتی ہے۔
اگر آج بعض اختلافات کی بناء پر جماعت احمدیہ کے خلاف دیگر تمام فرقوں کا اتفاق ممکن ہے تو کل اہل تشیع کے خلاف ان کے بعض خصوصی عقائد کے بارے میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔ اور اہل قرآن الموسوم چکڑالوی یا پرویزی کے متعلق بھی ایسا ہو سکتا ہے اور اہل حدیث، وہابی یا دیوبندیوں کے بعض عقائد کے متعلق بھی دیگر فرقوں کے علماء کا عملاً اتفاق ہے۔ پس سوادِ اعظم کا لفظ ایک مبالغہ آمیز تصور ہے۔ کسی ایک فرقہ کو خاص طور پر مدنظر رکھا جائے تو اس کے مقابل پر دیگر تمام فرقے سوادِ اعظم کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور اس طرح باری باری ہر ایک فرقہ کے خلاف بقیہ سوادِ اعظم کا فتویٰ کفر ثابت ہوتا چلا جائے گا۔
ہمارے نزدیک یہ فتاویٰ ظاہر پر مبنی ہیں اور فی ذاتہا ان کو جنت کا پروانہ یا جہنم کا وارنٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جہاں تک حقیقت اسلام کا تعلق ہے حضرت بانئ سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں ہم حقیقی مسلمان کی تعریف درج کرتے ہیں:
’’اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہ اَجْرُہ عِنْدَ رَبِّہ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ یعنی مسلمان وہ ہے جو خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خداتعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خداتعالیٰ کا ہو جاوے۔ ۔۔۔
سو یہ عظیم الشان للّٰہی طاعت و خدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حقیقت تامہ سے بھری ہوئی ہے یہی اسلام اور اسلام کی حقیقت اور اسلام کا لُبّ لباب ہے جو نفس اور خلق اور ہوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ57-62)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/extreme-brutality-minorities-pakistan-/d/103037