امام سید شمشاد احمدناصر، نیو ایج اسلام
قرآنی نصیحت
گزشتہ تحریر میں خاکسار نے بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ ظلم کو کسی رنگ میں بھی پسند نہیں کرتا اور ظالموں کے لئے سخت قسم کا عذاب خدا کے ہاں مقدر ہے۔ آج کی تحریر میں قرآن کریم کی ایک اور نصیحت درج ذیل ہے اور وہ ہے کہ ’’کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرو‘‘
چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر191 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ (2:191)
سورۃ مائدہ میں یوں ارشاد ہے:
وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ (5:88)
حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناًاللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ سورہ یونس کی آیت 75 میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔
کَذٰلِکَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ۔ (10:75)
اسی طرح ہم حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔
ان آیات کے مضمون سے بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قسم کی زیادتی بھی پسند نہیں کرتا اور جو لوگ حد سے بڑھ جاتے ہیں اور اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے پھر خدا تعالیٰ ان سے حساب لیتا ہے اور ان کی سرکشیوں اور زیادتیوں کی وجہ سے انہیں سزا بھی دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بڑی حکیمانہ نصیحت
آپؐ نے فرمایا ہے اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُوْمِنِ کہ حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے جہاں سے بھی اسے ملے لے لینی چاہئے۔
پس آج کے مضمون میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکیمانہ بات کی طرف توجہ دلا کر مختلف ذرائع سے جو خبریں اور اداریہ اور مضامین ملے ہیں ان سے میں مختصراً آپ کے فائدہ کے لئے لکھ دیتا ہوں اس امید سے کہ ع
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں مری بات
سب سے پہلے میں وطن عزیز کے ایک نامور شہرت یافتہ اور بہت منجھے ہوئے کالم نگار اور تجزیہ نگار مکرم نذیر ناجی کے ایک مضمون سے کچھ لکھتا ہوں جس کا عنوان ہے ’’چڑھ جاتے ہیں نالے‘‘
انہوں نے یہ حال ہی میں لکھا ہے اور اس میں کئی قسم کی نصائح اور حکمت کی باتیں پوشیدہ ہیں شاید آپ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔
’’یوں تو پوری پاکستانی قوم ہی دہشت گردوں کی درندگی کا نشانہ ہے، لیکن ہماری قوم کے کچھ طبقے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اقلیتیں سرفہرست ہیں۔ ان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی علیحدہ ہے۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد، اجتماعی دہشت گردی کا شکار تو ہوتے ہی ہیں، جیسے مارکیٹوں، بازاروں اور عام اجتماعات میں ہونے والی دہشت گردی، جہاں ہر طبقے کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اس دہشت گردی میں مسلمان، عیسائی، شیعہ، ہندو، احمدی سب اہل وطن کے ساتھ قربانی دیتے ہیں، مگر اس کے بعد انہیں علیحدہ علیحدہ بھی دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور یہ اکہری دہشت گردی نہیں، ہفت پہلو ہوتی ہے۔ مثلاً عیسائی، ہندو اور احمدی سماج کی ہر پرت کا علیحدہ علیحدہ نشانہ بنتے ہیں۔ ان سب کی بدنصیبی مختلف سمتوں سے ان پر یلغار کرتی ہے۔ مثلاً انتظامیہ خصوصاً پولیس کی امتیازی بدسلوکی، ان کے ساتھ جداگانہ ہوتی ہے۔ معاشرہ انہیں الگ سے اچھوتوں کی طرح بیگانگی سے دیکھتا ہے۔ انہیں اپنی قوم کا حصہ نہیں سمجھتا۔ ان کے بنیادی حقوق دینا پسند نہیں کرتا۔ انہیں برابری کا مقام نہیں دیتا۔ ان کے کاروبار نہیں چلنے دیتا۔ انہیں اچھی ملازمتوں سے محروم رکھا جاتا ہے اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے، تو انتظامیہ اسے خاص اہمیت نہیں دیتی۔۔۔۔عیسائیوں کے گھروں کو آگ لگانا تو کٹھ ملاؤں کا مشغلہ بن چکا ہے۔ ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ جب یہ اپنا سب کچھ آگ کی نذر کر کے اور افراد خاندان کو زندہ جلتا ہوا چھوڑ کر، جان بچانے کے لئے بھاگتے ہیں تو انہیں پناہ دینے والا کوئی نہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ جلے ہوئے گھروں سے بچ کر نکلنے والوں کو حکومت کی طرف سے کوئی پناہ گاہ دی گئی ہو؟ یا انہیں بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہو؟ گوجرہ کے ایک گاؤں میں جب عیسائیوں کے گھر جلائے گئے، تو ان میں سے جو چند صاحب حیثیت تھے، اس طبقے میں صاحب حیثیت ہونے کا مطلب چالیس پچاس ہزار سے زیادہ کی حیثیت نہیں ہوتی۔ ایسے ہی لوگ جب اپنی پونجی لے کر شہروں میں آئے، تو وہ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں تین چار ہزار روپے ماہانہ کرائے پر، ایک کمرہ بھی لینے گئے، تو مسلمان غریبوں نے، عیسائی غریبوں کو اپنے علاقے میں بسانا پسند نہ کیا۔ مالک مکان کو جونہی پتہ چلتا ہے، وہ یہ کہہ کر کمرہ یا کھولی دینے سے انکار کر دیتا ہے کہ ہم عیسائیوں کو گھر نہیں رکھتے۔ کوئی خوانچہ یا ریڑھی لگاتا ہے تو اردگرد کے خوانچے ریڑھی والے، گاہکوں سے کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ’’یہ ہے تو عیسائی، مرضی ہے تو سودا اس سے لے لو‘‘ اور اہل ایمان کی اکثریت اپنی دانست میں، ایمان بچا کر مسلمان خوانچے ریڑھی والے سے سودا خریدنے لگتی ہے اور وہ بیچارا، منڈی سے جو سبزیاں اور پھل لے کر روزی کمانے نکلتا ہے، اپنی ڈوبی ہوئی رقم پر آہیں بھرتا، واپس چلا جاتا ہے، جہاں اس نے بال بچوں کو چھوڑا ہوتا ہے۔ ‘‘
اس کے بعد بی بی سی اردو (لندن) آن لائن سے جو خبر شائع ہوئی ہے 18 مارچ 2015ء کو اس میں سے اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔
’’بھارتی پولیس کے ایک سابق اعلیٰ اہل کار جولیو ر بیرد نے کہا ہے کہ ملک میں ہندو قوم پرست تنظیمیں بنیاد پرستی کے راستے پر آگے بڑھ رہی ہیں جو جنرل ضیاء الحق نے اپنے دو رمیں پاکستان میں دکھایا تھا اور جس کا نتیجہ آج کے پاکستان میں نظر آرہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے مذہبی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور قوم پرست جماعتوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان نے جو راستہ اختیار کیا تھا اس کا نتیجہ آج اس کے سامنے ہے اور بھارت کو اس راستے پر چلنے سے روکنا ہو گا۔ (یاد رہے کہ پاکستان میں 1974ء میں ایک فرقہ احمدیہ کو پارلیمنٹ نے غیر مسلم قرار دیا اور 1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے اس فرقہ کو کینسر قرار دے کر انہیں اپنی ہر قسم کی مذہبی آزادی سے محروم کر دیا تھا۔ نہ وہ مسجد کو مسجد کہہ سکتے ہیں نہ اسے شہید کہہ سکتے، نہ کوئی اسلامی عبادت بجا لا سکتے ہیں۔ اور اسلامی احکامات کی غیرمناسب تشریح کی گئی اور اقلیتوں کے حقوق کو پامال کیا گیا اور مذہبی تشدد کو روا رکھا گیا۔ ناقل)
اس کے ساتھ اب میں ایک اور ہفت روزہ اخبار بدر انڈیا کی 19فروری کی اشاعت کے اداریہ سے کچھ حصہ درج کرتا ہوں جس میں اسی قسم کا ایک مضمون اس عنوان سے شائع کیا گیا ہے کہ
’’ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں‘‘
’’مورخہ 27جنوری کو جناب براک اوبامہ نے سری فورٹ آڈیٹوریم ٹاؤن ہال میں ڈیڑھ ہزار احباب و خواتین سے خطاب فرمایا۔ آپ کے اس خطاب کو پورے ملک نے غو رسے سنا۔ اپنے اس خطاب میں پریذیڈنٹ براک اوبامہ نے جہاں صحت، تعلیم، روزگار، جدید آلاتِ کاشتکاری بہتر آب و ہوا، سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون کی بات کی وہاں عوام اور رہنماؤں کو ایک قیمتی نصیحت بھی کی۔ انہوں نے فرمایا:
’’ہمارے دونوں ملکوں میں مذہب کی آزادی کو یقینی بنانا نہ صرف حکومت کی بلکہ تمام لوگوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ہر شخص کو اپنے مذہب اور عقیدے پر عمل کرنے کا حق ہے۔ ‘‘
ہماری گفتگو کا موضوع دراصل براک اوبامہ کی یہی نصیحت ہے۔ ایک طبقہ کو جہاں یہ نصیحت کچھ اچھی نہیں لگی وہاں ایک طبقہ اس نصیحت سے خوش ہوا۔ ۔۔۔ حکمت کی بات کہیں سے بھی ملے لے لینی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب براک اوبامہ نے جو بات کہی وہ قابل غور اور قابل قدر ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز بھارت میں ہر شخص کو اپنے عقیدے اور مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق اور پوری پوری آزادی ہے۔ یہاں ہر مذہب اور فرقہ کے لوگ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں بغیر کسی خوف اور ڈر کے اپنے اپنے طور طریق کے مطابق عبادات بجا لاتے ہیں۔ لیکن اگر کہیں اِکّا دُکّا واقعہ بھی فرقہ وارانہ تنافر و و تصادم کا ہو جائے تو وہ ایک کلنک ہوتا ہے اور ملک کی سفید چادر پر ایک بدنما داغ۔ پس ہر محب وطن کو کوشش کرنی چاہئے کہ کہیں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہ ہو جس سے ہمارے ملک کی عظمت اور رواداری کو دھبہ لگے۔
اتحاد و اتفاق میں ہی ہر قوم اور ملک کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔ ایکتا میں بڑی برکت ہے۔ نفرت، حقارت، لڑائی جھگڑے اور خانہ جنگی، ملک کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں۔ وطن عزیز بھارت میں بسنے والے مختلف مذہب کے لوگوں کی مثال ایک گلدستے کی ہے جس میں قسما قسم کے رنگ برنگے خوشنما پھول ہوں جنہوں نے گلدستے کی خوبصورتی میں خوب اضافہ کر دیا ہو۔ اگر ہمارے دیش واسی اتحاد و اتفاق اور پیار و محبت سے رہیں تو بھارت ترقی کی شاہراہوں پر گامزن رہے گا۔
کہتے ہیں کہ مثال سے بات جلد اور اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہمارے پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیں جب وہاں پر ایک فرقہ کے حقوق کو غصب کرنے کے لئے اور ان پر مظالم ڈھانے کے لئے حکومت نے باقاعدہ قانون سازی کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظلم و بربریت اور قتل و غارت گری نے آہستہ آہستہ پورے ملک کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ لیا۔ یہ نحوست پورے ملک میں پھیل گئی۔ اب کوئی فرقہ بھی وہاں محفوظ و مامون نہیں۔ کسی کی بھی زندگی سلامت نہیں۔ پورا ملک نفرت و دہشت گردی کی آماجگارہ بن گیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ معصوم بچے بھی اس ظلم و بربریت سے باہر نہ رہ سکے۔ اس ملک کی بدقسمتی کی انتہا ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شیعہ ماہرین کو چن چن کر ہلاک کیا گیا۔ شیعوں نے سنیوں کو مارا۔ پس یہ مثال ہمارے لئے بہت سبق آموز ہے کہ ہم پیار و محبت اور اتحاد و اتفاق کے مضبوط دھاگے میں باندھے جائیں اسی میں ہماری بقا ہے۔ اسی میں ہماری ترقی ہے۔ اسی سے پوری دنیا میں ہمارا نام روشن ہو گا اور پوری دنیا کے لئے ہم ایک مثال ہوں گے۔‘‘
ایک اور بڑی دردمندانہ نصیحت اور حکمت کی بات
اَے ہم وطنو! وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو۔ اور نہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو۔ ہمارے خدا نے کسی قوم سے فرق نہیں کیا۔ مثلاً جو جو انسانی طاقتیں اور قوتیں آریہ ورت کی قوموں کو دی گئی ہیں وہی تمام قوتیں عربوں اور فارسیوں اور شامیوں اور چینیوں اور جاپانیوں اور یورپ اور امریکہ کی قوموں کو عطا کی گئی ہیں۔ سب کے لئے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے اور سب کے لئے اس کا سورج اور چاند اور کوئی اور ستارے روشن چراغ کا کام دے رہے ہیں۔ اور دوسری خدمات بھی بجا لاتے ہیں۔ اس کے پیدا کردہ عناصر یعنی ہوا اور پانی اور آگ اور خاک اور ایسا ہی اس کی دوسری تمام پیدا کردہ چیزوں اناج اور پھل اور دوا وغیرہ سے تمام قومیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پس یہ اخلاقِ ربانی ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بنی نوع انسانوں سے مروت اور سلوک کے ساتھ پیش آویں اور تنگ دل اور تنگ ظرف نہ بنیں۔۔۔
یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ اتفاق ایک ایسی چیز ہے کہ وہ بلائیں جو کسی طرح دور نہیں ہو سکتیں اور وہ مشکلات جو کسی تدبیر سے حل نہیں ہو سکتیں وہ اتفاق سے حل ہو جاتی ہیں۔ پس ایک عقلمند سے بعید ہے کہ اتفاق کی برکتوں سے اپنے تئیں محروم رکھے۔
(پیغام صلح روحانی خزائن جلد23 صفحہ439-443)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/do-oppress-anyone-/d/102282