On the youme-e-Shahadat (Martyrdom Day) of Hadhrat Ali (R.A.) Syed Qaiser Reza pays his tributes to the greatest philosopher and scholar of Islam about whom the Prophet (PBUH) famously said,” I am the city of knowledge and Ali is its door”.
Source: Sahafat, New Delhi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/founder-islamic-philosophy—hazrat-ali/d/3374
سید قیصر رضا
اللہ کی لامحدود قدت کا احاطہ
کرنا ممکن ہی نہیں ہے نہ اس کی کوئی ابتدا ہے او ر نہ آخر ۔وہ جب چاہے جہاں چاہے کچھ
بھی کرسکتا ہے۔ یہ کائنات جہاں جہاں تک پھیلی ہوئی ہے وہاں وہاں تک اسی کا نظام قائم
ہے۔ جس طرح آج وہاںتک اسی کا نظام قائم ہے۔جس طرح آج تک کائنات کی کوئی حد مقرر نہ
کرسکا اسی طرح اللہ کی لامحدود قدرت کا بھی کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اللہ اپنی لامحدود
قدرت اور اختیارات کا مظاہرہ اس طرح بھی کیا ہے کہ کبھی حضرت آدمؑ اور حواّ کو بغیر
ما ں باپ کے پیدا کیا تو کبھی حضرت عیسیٰؑ کو بغیر باپ کے ۔حضرت عزیر کو تیس برس تک
بغیر رزق کے نیند کی حالت میں زندہ رکھا ۔اصحاب کہف جیسی مخلوق بھی اس کی قدرت کا کرشمہ
ہے۔کبھی آگ کو گل وگلزار بنایا تو کبھی زلیخا کی جوانی پلٹائی ۔کبھی پغمبر آخر اور
اس کے وصی کی فرمائش پر سورج کو پلٹا یا تو کبھی چاند کے دوٹکڑے کئے ۔ اس طرح کے بے
شمار عجائبات قرآن کریم میں موجود ہیں۔
ان غیر معمولی کرشمات کے ذریعہ
شاید یہ مقصد ہوکہ دنیا یہ نہ سمجھے کہ یہ نظام کائنات ایک مقررہ نظام کے تحت قائم
ہے یا کوئی NATURAL PROCESS ہے بلکہ اللہ کے ارادے اور اس کے حکم کا محتاج ہے
اسی طرح جملہ مفکسرین ، فلسفی وددانشور اپنی ناقص عقل کی بدولت اس بات پر متفق ہیں
کہ دنیا کی وہ تمام صفات جو ا نسان کی عظمت کو اجاگر کرسکتی ہیں کسی فرد واحد کے ا
ندر یکجا نہیں ہوسکتیں ،لیکن عہد عباس کا مشہور شاعر ابونو اس سوچ سے متفق نہیں اور
کہتا ہے کہ اللہ کے واسطے یہ امر واقعی مشکل نہیں کہ وہ عالمین کی صفات حمیدہ کو ایک
فرد واحد میں یکجا کردے، کیونکہ اس کی نظرمیں مولائے کائنات حضرت علیؑ کی معجزاتی شخصیت
بھی تھی ۔ اس معصوم اور روحانی شخصیت میں اللہ نے انسانی عقل وفہم میں آنے والے تمام
اوصاف حمیدہ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ یکجا کردیئے تھے۔حضرت علیؑ کی صفات میں سب سے
نمایاں صفت ان کے عالمانہ حکیمانہ اور خلفسیانہ اقوال ہیں۔
حالانکہ قبل از اسلام بے شمار
فلسفی گزرے ہیں جن میں بطلیموس، بقراط، لقمان اور افلاطون کے نام خاص طور پر لئے جاسکتے
ہیں ،لیکن مولائے کائنات کا کما یہ ہے کہ آپ نے فلسفہ کو اپنی جہت عطا کی اور فلسفہ
کو مذہبی تناظر میں پیش کرنے کا بڑا کارنامہ انجام دیا ۔علما، وحکما، اور دانشوروں
نے فلسفہ کی تشریح اس طرح کی ہے قدرتاً ہر انسان ایک چھوٹا سا فلسفی ہے لیکن اگر وہ
فکر ونظر کے صحرا میں حقائق کو تلاشتا ہو اور دور تک نکل جائے تو فلسفہ کی کتابوں میں
اس کی نظریات درج ہونے لگتے ہیں ۔ فلسفی کائنات پر ایک خاص مقصد کہ تحت نظر ڈالتا ہے۔
اسباب وعلل کے گتھیاں سلجھاکر وہ ذرہ سے سورج تک ہر مخلوق پر مرکزی قانون کے تحت مجموعی
طورپر نظر ڈالتا ہے۔زندگی کا مفہوم ومقصد مقرر کرنا، وجود وعدم وجود، روح وجسم ، خوش
بختی وبدبختی ،افلاس ودولت ،صحت ومرض ،زندگی بعد از مرگ ،خیر وشر ،جبر واختیار سے بحث
کرنے کا نام ہی فلسفہ ہے۔
اصول فلسفہ کے اسی تناظر میں اگر
مولائے کائنات کی زندگی ، ان کے اقوال وتجربات وتحقیقات کا بغور مطالعہ کیا جائے جو
ان کی تصانیت میں موجود ہیں تو اس میں وہ سب کچھ مل جائے گا جو ا یک فلسفی میں ہونا
چاہئے۔چنانچہ نہج البلاغہ میں نہ صرف انسانی نفسیات اور زندگی کے معاملات درج ہیں بلکہ
زمین کی خلفت سے لے کر فلکیات یہاں تک کہ چمگادڑ ،چنونٹی، ٹڈی وغیرہ کی جسمانی بناوٹ
نیزان کے معمول زندگی تک کے حالات بہت تفصیل سے درج کئے گئے ہیں۔مولائے کائنات کے اوصاف
حمیدہ اور ان کی فلسفانہ زندگی کی تشریح کرنے ہوئے جناب مسعود انور علوی کو کوردی اس
طرح رقم طراز ہیں: حضرت علیؑ کے اوصاف حمیدہ پر نظر ڈالی جائے تو فہم وفراست وتدبرہویا
عقل ودانش ،زہد وتقویٰ ہویا عفت وپاکیزگی حلم وبردباری ہو یا ضبط وتحمل ،فصاحت وبلاغت
ہو یا تقریر وخطابت ،فقہ واجتہاد ہو یا معاملات خلق نیز ایثار وقرانی ، صبر وشکر، قناعت،
عدل وانصاف ،خلوص وصداقت ،فن سیاست وفن حرب و جہاد مع النفس ہو یا جہاد مع الا عداغیرت
وحمیت ہو یا توکل وشرافت غرض کسی بھی معاملہ میں حضرت علیؑ کی صفات حسنہ جامع کا ممکن
نہیں ہے۔ امام محمد باقر ؑ کے حوالے سے حضرت علیؑ کا یہ قو ل اصول کافی میں اس طرح
نقل کیا گیا ہے: ‘‘امیر المؤمنین نے کبھی اپنی عقل کو پیمانہ بنا کر کسی سے بات نہیں
کی بلکہ آپ کا ارشاد تھا کہ گردہِ انبیا، کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ وہ مخاطب کے فہم
کا اندازہ لگا کر بات کریں۔ (اصول کافی)۔
مسروق جو پہلی صدی ہجری کے
مشہور تابعی اور نقاد ہیں وہ درگاہِ رسالت کے فاضل طالب علموں کے فضل وکمالات کے مراتب
پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے سبھی طالب علموں کا سرچشمہ ذات علیؑ ابن ابی
طالب کو پایا ۔ یہی مسروق ایک ا ور موقع پر فرماتے ہیں کہ میں درگاہ رسالت کے طالب
علموں کے ساتھ بیٹھتا رہاہوں ۔ میں نے ان کو ایک نہر کی مثل پایا کوئی ایسی نہر جو
دو آدمیوں کو سیراب کردے اور کوئی ایسی نہر جو دس آدمیوں کو سیراب کرے۔ اورکوئی سوکو
اور کوئی نہر ایسی تھی کہ اگر کل اہل زمین اگر اس سے سیراب ہونا چاہیں تو وہ سیراب
کردے۔ اور وہ چشمہ جس سے سارا عالم پیاس بجھانا چاہے تو وہ اپنے علم وحکمت کے سمندر سے سب کو سیراب کردے۔
وہ چشمہ حضرت علیؑ کی ذات مقدسہ ہے۔’’حضرت علیؑ درگاہ رسالت کے سب سے پہلے اور سب سے
ممتاز فلسفی ،عالم وفاضل اور بے مثل مفکر جس نے فلسفہ اور دین میں ہم آہنگی پیدا کی۔
مذہبی فلسفہ کے خالق جنہوں
نے دل ودماغ میں دوستی کرائی کیونکہ دنیا کے تمام معاملات کا تعلق انسان کے دل ودماغ
سے ہوتا ہوا ۔دل ودماغ کے تضاد سے ہی سماج میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ مولا علیؑ کا
سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے دل ودماغ کو ایک دوسرے کا مددگار بنا کر خوش بخشی
۔دماغ آسائش اور روحانی اطمینان کو مخفی کائنات کا سراغ بتایا اور سماج کے واسطے ایک
پاکیزہ ،منصفانہ اور ترقی پرور نظام چھوڑا جس پر چل کر دنیا معصومین کی دنیا بن سکتی
ہے۔قبل از اسلام تمام ادیان فلسفہ کو گناہ ومکر وہ تصور کرتے تھے اور مذہب سے تعلق
رکھنے والے کسی بھی انسان کو فلسفہ کے تعلق سے غور وفکر کرنے کی اجازت نہ تھی لیکن
حضرت امیر المؤمنین علیؑ ابن ابی طالب کا نظریہ اس سے مختلف تھا۔ حضرت کا مندرجہ ذیل
قول ان کے خزانہ حکمت کی کنجی ہے جس سے ان کے مذہب اور فلسفہ سے متعلق نظریات کا علم
ہوتا ہے۔ مولا فرماتے ہیں :
اگر کسی انسان میں ایک فضیلت
بھی اعلیٰ درجہ پر ہو اور دیگر صفتیں نہ بھی ہو ں تو میں اس پر راضی ہوجاؤ ں گا، لیکن
دو کمزوریوں سے چشم پوشی میرے لئے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ عقل ودین کا نقصان میں کسی
طرح برداشت نہیں کرسکتا، کیونکہ اسی پر پورے
نظام زندگی دارو مدار ہے۔ بے دینی امن وعالم کی دشمن ہے اور لامذہبیت کے ساتھ زندگی
خوشگوار نہیں ہوسکتی ۔مولافرماتے ہیں کہ مذہب زندگی کو اعلیٰ اصولوں کے تحت بسر کرنے
کا نام ہے اور بے عقلی سے سماج کر ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے اور عقل کا نقص پوری زندگی
کو ناکارہ بنادیتا ہے ۔آپ نے دین اورعقل کے ارتباط اور احتیاج کی ہر موقع پر تشریح
فرمائی ہے۔ مولا فرماتے ہیں جہلات سے زیادہ کوئی افلاس نہیں ہے اور عقل سے زیادہ کوئی
سود مند دولت ہے۔ (اصول کافی)
باب مدینٖۃ العلم کی نظر میں
علم کی تقسیم اور تہذیب وتمدن کی اشاعت ایک انسانی فرض تھا۔ مولا اس بات کے قائل نہ
تھے کہ پیاسے کنوئیں کے پاس جانا چاہئے بلکہ وہ عالم ومتعلم دونوں میں کسب فیض وعلم
وبخشش علم کے سلسلہ میں یکساں تشنگی اور بے چینی دیکھنا چاہئے تھے ۔ اصول کافی میں
مولائے کائنات کا یہ قول بھی امام محمد باقر ؑ کے حوالے سے اس طرح نقل کیا گیا ہے
‘‘ کہ اللہ نے جاہلوں سے تحصیل علم کا عہد نہیں لیا جبکہ علما، سے اشاعت کا پیمان لیا
گیا’’(اصول کافی)اسی فرض کا احساس اور بے چینی تھی جو خلش بن کر کبھی کبھی آپ کو آہ
کراہ پر مجبور کردیتی تھی ۔ اسی سلسلہ کی ایک روایت مناقب بن شہر آشوب میں مختلف راویوں
کے حوالوں سے نقل کی گئی ہے جس میں مولا فرماتے ہیں۔‘‘ دیکھو سینہ میں کس طرح علم کاکوئی
طلب گار پاتا ۔مجھے گم کرنے سے پہلے جو پوچھنا چاہو پوچھ لو ۔ یہ سینہ علم وحکمت کا گنجینہ ہے۔ میرے
پاس اولین وآخرین کا علم ہے ۔اگر میرے واسطے اطمینان کی مسند بچھادی جائے تو رات کو
تو رات سے اہل زبور کو زبور سے اور اہل انجیل کو انجیل سے اور اہل قرآن کو قرآن سے
زندگی کے مسائل وفلسفہ سمجھا تا اور ہر اہل کتاب یہ پکا راٹھتا کہ علیؑ نے وہی فیصلہ
کیا ہے جو منشاایزدی کی تشریح کرتا ہے ۔ ’’ حضرت علیؑ کے حالات زندگی پر غور وفکر کرتے
وقت ہر ذی شعور ودانشور وفلسفی نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ بوعلی سینا کو یہ کہتے ہوئے
سنا گیا کہ علیؑ کے سوا تاریخ عالم میں کوئی دوسری ذات نہیں ملتی جو شجاعت اور علم
ددنوں کا مرکز ہو۔
فلسفی آ پ کے فلسفہ سے ۔
ادیب آپ کے ادب سے ، علما آپ کے فقہی مسائل سے اور جدید سائنس آپ کے انکشافات کی
روشنی میں راستہ طے کررہے ہیں ۔عمر بن بحر جاحظ (225ہجری ) جو تیسری صدی ہجری میں ادب
کا سب سے بڑا امام مانا جاتا ہے علیؑ کے ایک ایک فقرے پر سردھنتا ہے اور یونان وردما
اور ہندوستان کے ذخیرۂ فکر کو ان کے سامنے سبق سمجھتا ہے۔ سفیان ثوریؒ کا قول ہے کہ
وہ عہد جس میں کتوں سے پیٹ پالے جاتے تھے لیکن انسانوں کو امان نہ تھی۔وہیں مولائے
کائنات نے اپنے دل ودماغ اور بازوؤں کی قوت کو عوام کی غربت دور کرنے کےلئے وقف رکھا
تھا۔ امیر المؤمنین کی حیات طبیہ سے زبردست سبق یہ ملتا ہےکہ شہرت وعزت وقبولیت ،علم
وہنر ،ہر دلعزیز ی بلند کردار واعلیٰ خدمات سے وابستہ ہے اور وہ بغیر دولت کےبھی ممکن
ہے۔ محنت ومشقت سے روزی کمانا اور ایک بڑی سلطنت کا نظم ونسق قائم رکھنا اسی کے ساتھ
مستقبل کے حالات کا ایک دفتر چھوڑ جانا ہر دماغ کا کام نہیں ہے۔نہج البلاغہ جس میں
مولاکے 242خطبے ،78مراسلات اور 498 اقوال درج ہیں جو اپنی افادیت کے اعتبار سے دنیا
کی قسمت سنوارنے کے واسطے کافی ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ کا منظوم دیوان ۔
دستور معالم الحکم ، غررا
الحکم ومستد رک اور صحیفۂ علویہ آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب
مدینہ میں صرف 17لوگ ہی پڑھے لکھے تھے۔ایسے جہالت کے دور میں علم کے ہرشعبہ میں اپنی
مہارت پیش کرنا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔اسی ضمن میں علامہ مجتبیٰ حسن کامو
نپوری مرحوم فرماتے ہیں کہ ‘‘ ٹالسٹائی اور کارل مارکس کے ناقص نظریہ مساوات کی ہمیں
کوئی ضرورت نہ ہوتی اگر ہم علوی اقتصادیات اور اصول زندگی سے واقف ہوتے۔مسلمانوں نے
اقلیم عالم کے اس فاتح اعظم کو مقامی ومناظر انہ اور فرسودہ مسائل سے آگے نہ بڑھنے
دیا۔ حضرت علیؑ کو جس زمانے میں پیدا ہوناچاہئے تھا وہ اس سے ہزاروں سال پہلے پیدا
ہوئے۔ اس وقت ان کی تعلیمات کو سمجھنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ اپنے زمانے کے لوگوں کے
لئے ایک معمہ تھے۔
اسی ناسمجھی اور جہالت کا
نتیجہ تھا کہ ایسے عالم ،فقیہ ،فلسفی، عابد، شجاع، سخی، یتیموں اور بیواؤں کے سیحا
، مزدور اور صابر اور ولی اللہ کو ایک مسلمان ابن ملجم نے ہی شہید کردیا۔ اور وہ بھی
ماہ رمضان حالت روزہ ونماز ،شب قدر، مسجد کوفہ ،بوقت سحری، حالت سجدہ ،حالانکہ علیؑ
جیسے جری وسورما کو قتل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ نے پیغمبرؐ اسلام کے
زمانے میں ہی 80جنگوں کو اپنے بل بوتے پر فتح کیا۔وہ ہمیشہ میدان جنگ سے فاتح کی حیثیت
سے پلٹے ۔ دشمنان علیؑ بھی جانتے تھے کہ علیؑ کو میدان جنگ یاعام حالات میں قتل کرنا
ناممکن ہے لہٰذا دشمن نے وہ حربہ استعمال کیا جس کا تجربہ اسے جنگ احد میں اس وقت ہوگیا
تھا کہ جب علیؑ کی ران میں تیر پیوست ہوگیا تھا۔ تیر اس حد تک پیوست ہوگیا تھا کہ طبیب
بھی پریشان تھاکہ آخر تیر کیسے نکالا جائے ۔لہٰذا پیغمبر اسلام نے مشورہ دیا کہ اگر
علیؑ کی ران سے تیر نکالنا ہے تو صرف حالت نماز میں ہی نکا لا جاسکتا ہے ۔
کیونکہ حالت نماز میں علیؑ
اس قدر محور ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنے ارد گرد کی خبر تک نہیں رہتی ۔مولا علیؑ کی اس
کیفیت سے جہاں ان کے چاہنے والوں کو خوشی محسوس ہوئی وہیں ان کے دشمنوں کو یہ نسخہ
بھی حاصل ہوگیا کہ اگر علیؑ کو قتل کرنا ہے تو صرف حالت نماز میں ہی قتل کیا جاسکتا
ہے۔ لہٰذا اس مکروہ عمل کے واسطے ابن ملجم جیسے شقی کا انتخاب کیا گیا۔ جس نے 19 رمضان
کی صبح مسجد کوفہ میں بحالت سجدہ مولا علیؑ کے سرپر ایسی ضرب لگائی کہ آپ زخم کی تکلیف
سے صحت یاب نہ ہوسکے۔اور چونکہ ضربت زہر میں بجھائی گئی تھی جس کا اثر یہ ہوا کہ
21 رمضان کی صبح امیر المؤمنین کی روح اقدس مالک حقیقی کی بارگاہ کو پرواز کرگئی۔تاریخ
کی سبھی کتابوں میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ جب آپ کے سر پر ضربت لگی تو آپ کی زبان
سے یہ جملہ جاری ہوا کہ رب کعبہ کی قسم علیؑ کامیاب ہوا ۔اس کے بعد آپ نے زمین اور
آسمان کی طرف دیکھ کر کہا کہ اے آسمان وزمین گواہ رہنا کہ میری ذات سے کسی ذی روح
کو تکلیف نہ پہنچی ۔کسی کی حق تلفی یا ناانصافی نہیں ہوئی ۔
میری زبان سے ایک بھی حرف
ایسا جاری نہ ہوا کہ کسی کے دل شکنی ہوئی ہو۔ میری تلوار سے کوئی بے گناہ قتل نہ ہوا
۔کوئی سائل میرے در سے خالی ہاتھ نہیں پلٹا ۔میری زندگی کا ہر لمحہ اللہ ورسول ؐ اور
اسلام کی نصرت میں بسر ہوا۔ میں نے ہمیشہ حلال روزی پر توکل کیا۔ ہمیشہ مظلومین کی
حمارت کی اور ظالمین کو سزا دلوائی۔میرے دن حلال روزی کمانے اور راتیں تکبیر الہٰی
میں بسر ہوتی تھیں۔کبھی غیر اللہ کے آگے نہ جھکایا۔ ہمیشہ سچائی اور حق کی حمایت میں
آواز بلند کی۔ اپنی زندگی میں کبھی اسلام اورقرآن پر آنچ نہ آنے دی اورقیامت تک
کے واسطے ایسی نسل چھوڑرہا ہوں جو ہمیشہ اپنی جان ومال کی قربانی دے کر اسلام کی حمایت
کرتے رہیں گے۔حقیقت میں علیؑ کی زندگی کی یہی وہ صفات تھیں جن کی کامیابی کا اعلان
وہ بعد ضربت کررہے تھے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/founder-islamic-philosophy—hazrat-ali/d/3374