سید منظور عالم، نیو ایج اسلام
7 اکتوبر ، 2013
اب اس آخری مضمون میں ہم دوسرے پہلؤوں کا جائزہ لے سکتے ہیں ۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے تعلق سے مسلمانوں کازاویہ نظر بائبل کی زبردست تنقید سے مختلف ہے ۔ جب 19ویں صدی میں بائبل (پرانے اور نئے دونوں عہد ناموں) کی صداقت کی تصدیق کرنے کے زبردست تنقید کا ایک سلسلہ شروع ہواتو ان کی صداقت کی تصدیق کا واحد راستہ اس کے مسودات تھے ۔ اور چونکانے والی بات یہ ہے کہ وہ مسودات بھی اصل زبان میں نہیں تھے ۔
مثال کے طور پر حضرت عیسی علیہ السلام آرامی زبان بولتے تھے لیکن آج تک اس زبان میں اس کا اصل مسودہ نہیں مل سکا جو زبان حضرت عیسی علیہ السلام بولتے تھے ہمارے پاس اس کا ترجمہ ہے۔ عیسائی دنیا ڈینگیں مارتی ہے کہ ان کے پاس بائبل کے چوبیس ہزار مسودات ہیں لیکن کوئی بھی ایک جیسے نہیں ہیں۔ عہد نامہ قدیم اصل میں عبرانی زبان میں تھا اور عہد نامہ جدید یونانی اور اس کے کچھ حصے آرامی زبان میں تھے، تاہم ہمارے پاس پرانے عہد نامے کے اصل عبرانی مسودات نہیں ہیں ۔
لہٰذا یہودی اور عیسائی اسکالرس کے پاس بائبل کا معروضی مطالعہ کرنے کا واحد راستہ وہ مسودات تھے (یاد رکھیں کہ وہ مسودات اصلی نہیں ہیں) جو عجائب گھروں میں دستیاب تھے ، آثار قدیمہ کی کچھ تحقیقات ان کی تصدیق یا اس کی نفی بھی کر سکتی ہیں لیکن بحث و مباحثہ جاری ہے ۔ یہ جاننا تعجب کی بات ہے کہ مغربی اسکالرس قرآن کے معاملے میں بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اگر قرآن کے تمام نسخوں کو تباہ کر دیا گیا ہوتا تو بھی قرآن حافظہ کے ذریعہ انوکھے طور پر محفوظ ہی رہتا ۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس بات سے آگاہ نہ ہوں کہ قرآن مجید کی تدوین کے وقت جو مسودہ استعمال کیا گیا تھا اس میں حروف کو ایک دوسرے سے متمیز کرنے کے لئے نقطے نہیں تھے ۔ مثال کے طور پر اگر نیچے ایک نقطہ ہو تو وہ ' ب' ہے اور اگر اوپر نقطہ ہے تو وہ ' ن ' ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں امتیازی نشانات نہیں تھے ۔ مثال کے طور پر اب ہمارے قرآن مجید میں فتحہ ، کسرہ وغیرہ کے نشانات ہیں جن کے ذریعہ ہم قرآن پڑھتے وقت کلمات کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں ۔ لہٰذا اہم مسئلہ یہ ہے کہ تمام صحیفوں کی درجہ بندی کسی ایک زمرے میں نہیں کی جا سکتی ، کچھ کی کی جا سکتی ہے لیکن سب کی نہیں اور خاص طور پر تو قرآن کی بالکل ہی نہیں ۔ بائبل کی طرح قرآن مجید کو زبردست تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا اس لئے کہ قرآن مجید اور بائبل دو مختلف کتابیں ہیں جن کے اسلوب مختلف ہیں اور ان کی تاریخیں بھی بہت مختلف ہیں ۔
اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےدور کے پورے قرآن (میرا مطلب ہے مسودات) کو پیش کر دے بھر بھی یہ قرآن کو محفوظ کرنے کے لئے کافی نہیں ہوگا اس لئے کہ آپ اس کا تلفظ نہیں جانتے ۔ تقریبا مسلسل 1500 سالوں سے حفظ قرآن کا سلسلہ کیا ہی منفرد ہے ۔
لیکن چونکہ بعض لوگوں کو یہ ناممکن لگتا ہے کہ قرآن مجید کی تمام آیات کو ذہن میں رکھنے کے لئے کس طرح کوئی انسان لوگوں کی یادداشت پر انحصار کر سکتا ہے ، اس کے علاوہ ہم سب سے پہلے اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ اگر چہ قبل از اسلام کے عرب (زمانہ جاہلیت )میں عرب لکھنا جانتے تھے لیکن عربوں کی اکثریت یاد داشت پر ہی انحصار کرتی تھی۔ انہوں نے اپنی تاریخ کو ذہن میں رکھنے کے لئے یاد داشت پر انحصار کیا اور شاعری کے لیے بھی انہوں نے یاداداشت پر ہی انحصارکیا وغیرہ وغیرہ۔
میں ایک کہانی پیش کرتا ہوں ہو سکتا ہے کہ اس میں مبالغہ ارآئی ہو لیکن یہ کہانی ان لوگوں کی قوت حافظہ کی ماہیت کو اجاگر کرتی ہے : ایک شخص اپنے دوست کے گھر 100اشعار پر مشتمل اپنا ایک تازہ ترین "طویل " نظم سنانے کے لئے آیا دوست نے کہا ‘ ٹھیک ہے مجھے سناؤ’ ۔ نظم پوری ہو جانے کے بعد اس نے دوست سے پوچھا ؟ کیا اس نظم کو تم نے لکھا ہے اس نے جواب دیا "ہاں" ۔ اس کے دوست نے کہا "یہ تمہارا نہیں ہے ، میں نے اسے پہلے بھی سنا ہے " اور پھر اس نے بعینہٖ اس نظم کےسو اشعار پڑھ دئے !پھر اس نے اپنی بیوی کو بلایا اور اس نے بھی وہ نظم سنا دیا ( وہ پردے کے پیچھے اس نظم کو سن رہی تھی) ، پھر اس نے اپنے خادم کو بلایا اس نے ان اشعار کو تین بار سنا اس نے بھی ان اشعار کو لفظ بہ لفظ سنا دیا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ دوسرے مقدس کلام کے برعکس جن تک بنیادی طور پر مذہبی سربراہان اور ان کے کونسل کو ہی رسائی حاصل تھی قرآن ہمیشہ ایک عوامی ملکیت رہا ہے ۔ حالیہ دور میں بھی کیتھولک عیسائی اصول میں عام لوگوں کے لئے خود سے بائبل پڑھنا صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا اس لئے کہ علامتیت کی وجہ سے انسان الجھن کا شکار ہو سکتا تھا ۔ جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں کافی مشہور ہے مارٹن لوتھر وہ پہلا انسان تھا جس نے اس مسئلے کو اٹھایا کہ ہر عیسائی کو خود سے بائبل پڑھنا چاہیے اور عام لوگوں کی ذاتی مذہبی معاملے میں چرچ کو ولی نہیں بننا چاہئے۔
قرآن کا معاملہ مختلف ہے یہ ایک نجی کمرے میں نازل نہیں کیا گیا یہ مواقع کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سفر کرتے ہوئے ، کلام کرتے ہوئے ،اٹھتے بیٹھتے اور جنگ وغیرہ کرتے ہوئے نازل کیا گیا تھا اور اسے نازل ہوتے ہوئے ہر شخص نے سنا اور دیکھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن سکھانا ایک مذہبی فریضہ اور پورے قرآن کو حفظ کرنا ایک مستحسن عمل قرار پایا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ " تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھتا اورسکھاتا ہے " ۔
یادداشت پر نفسیاتی دریافت کے مطابق اگر کوئی چیز قسطوں میں سیکھی جائے تو ہم اسے زیادہ بہتر یاد کر سکتے ہیں بالکل یہی معاملہ قرآن کے ساتھ ہے۔ یہ 23 سال کے عرصے میں نازل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے حفظ کرنا بہت آسان ہو گیا تھا۔ آج بھی چھوٹے بچے ( ذاتی طور پر میں دو بچوں کو جانتا ہوں وہ میرے رشتہ دار ہیں) 3سے 5 سالوں میں مکمل قرآن مجید حفظ کرنے کے قابل ہیں۔
ایک اور بات یہ ہے کہ قرآن کی روزانہ تلاوت کی جاتی تھی خاص طور پر ہر روز لوگ قرآن کی دن میں پانچ مرتبہ تلاوت کرتے ہیں اور رمضان المبارک کے مہینہ میں پورا قرآن پڑھا جاتا ہے ۔ متعدد احادیث میں یہ مروی ہے کہ کئی صحابہ صرف ایک رات میں پورے قرآن کی تلاوت کرلیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دنوں سے کم میں قرآن مجید ختم کرنے سے اپنی امت کو منع فرمایا ہے ۔
قابل ذکر چونکانے والی بات یہ ہے کہ یاد داشت کے تعلق سے مشینیں اور گوگل کی وجہ سے پیدا ہونے والے بڑے مسائل کے باوجود 7 سے 8 سال کی عمر کے ایسے چھوٹے بچھے بھی پورے قرآن کو لفظ بہ لفظ بالکل صحیح رموز و اوقاف اور تلفظ کے ساتھ حفظ کر لیتے ہیں جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے اور ہر سال قرات قرآن کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں اکثر بچوں پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے اور یہ پیشن گوئی پوری بھی ہو چکی ہے :
"اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟ (54:17, 32, 40)
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
URL of Part 2:
URL for English article:
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/preservation-quran-objective-probe-(part-3/d/13916