سید منظور عالم، نیو ایج اسلام
24 اگست ، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )
جیسا کہ گزشتہ مضمون میں گفتگو کی گئی کہ پہلے قسم کےحملوں کی تاریخی حقائق پر کوئی بنیاد نہیں ہے وہ مکمل طور پر باطل ہے ۔ حملوں کی دوسری قسم مسخ شدہ سچائیاں ہیں ۔ وہ تمام جھوٹ نہیں ہیں، ان میں سے کچھ حقائق پر مبنی ہیں ، لیکن اس کے بعد بعض عناصر اس میں مخل ہیں ، اصطلاحات پیدا کرنے کے لئے چند چیزوں کی اس میں آمیزش کی گئی ہے – کچھ ایسے ذائقے اس میں ملائے گئے ہیں جس نے پورا مزا ہی خراب کر دیا ہے ۔
ہمیں اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ کسی حقیقت کو پیش کرنے کا ہمیشہ ایک منفی طریقہ رہا ہے ۔ سب سے بہترین مثال جو اس معاملے میں موزوں ہے اس عورت کی ہے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئی : ایک عورت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آتی ہے اور ان سے شکایات کرتی ہے کہ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو میرا شوہر مجھے پیٹتا ہے، میرا روزہ توڑنے پر مجھے مجبور کرتا ہے معمولاً فجر کی نماز ترکرتا ہے۔
لہٰذا حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس کے شوہر کو بلایا اور انہوں نے صرف ایک فریق کی بات سننے کے بعد ہی اپنا فیصلے نہیں دیا، اور انہوں نے صرف ایک فریق کی باتوں پر اپنے فیصلے کی بنیاد نہیں رکھی ۔ اس کا شوہر آیا اور کہا کہ ائے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں ایک نوجوان آدمی ہوں میں سارا دن کام کر کے گھر آتا ہوں اور میری بیوی نماز میں کھڑی رہتی ہے میں چاہتا ہوں کہ رات کا کھانا تیار ہو، تو میں اسے نماز کم کرنے کے لئے کہتا ہوں ۔ اور وہ ہر ایک دن روزہ رکھتی ہے اور میں کبھی کبھی اس کا شوہر بھی بننا چاہتا ہوں اور اسے ہر دن روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ رکھ سکتی ہے اسی لئے میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ طویل نماز ادا کرے اور اضافی نفلی روزے رکھے " ۔
اس شخص نے یہ بھی کہا " ائے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہماری فیملی کو سونے کی پریشانی ہے لہٰذا بیماری کی وجہ سے فجر میں اٹھنے میں بڑی پریشانی ہوتی ہے " ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ نے جواب دیا کہ وہ جیسے ہی جاگے اسے نماز بھی پڑھ لینی چاہئے ۔
دوسرے فریق کی بھی بات سننے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا شوہر حق بجانب ہے اور تمہیں نماز میں سوۃ بقر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے تم سورۃ اخلاص بھی پڑھ سکتی ہو۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر کی طرف داری کی ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیوی نے جھوٹ بولا ؟ جواب ہے نہیں ۔ بیوی بالکل سچی تھی، لیکن یہ نقطہ نظر کا معاملہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف تعصب رکھنے والے، لوگوں کو اسے پیچیدگی کے ساتھ دیکھنے پر مجبور کریں گے ۔
اسی طرح کی ایک عام مثال جو ہم بہت ساری اسلام مخالف ویب سائٹس پر پاتے ہیں ، یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی مدنی ادوار میں شاہراہ پر چوری کا سہارا لیا ہے ۔ وہ اپنے صحابہ کے ساتھ سڑک کے کنارے چھپ جاتے اور جب بھی کوئی قافلہ گزرتا تو وہ اس پر حملہ کرتے اور اسے لوٹ لیتے اور ان کے تمام مال و اسباب جھین لیتے ۔ یہ کہنا کہ وہ قافلے پر حملہ کرتے تھے مکمل طور پر جھوٹ ہے بلکہ در اصل یہ بھی مسخ شدہ سچائیوں کی کے ہی زمرے میں آ سکتا ہے ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب نے کبھی بھی اچانک حملہ نہیں کیا؛ دوم یہ کہ وہ قطعاً قافلوں پر کوئی حملہ نہیں تھا۔ بلکہ قریش پر تھا۔ قافلوں اور قریش کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے۔ ہاں قریش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حملہ کیا تھا، اس لئے نہیں کہ نبی اور ان کے صحابہ خون کے پیاسے تھے بلکہ ان کے ذریعہ 13 سال کے جبر و تشدد اور ان کے مادر وطن سے باہر نکال دئے جانے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ ان کا ساز و سامان ان کے ذریعہ قرق کر لیا گیا تھا ۔ مسلمانوں کے پاس مال و اسباب نہیں تھے اس لئے وہ اپنی زندگی کو بچانے کے لئے مجبور تھے ورنہ وہ ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے ہوتے اور انہوں نے ایسا اس آیت کے نزول کے بعد کیا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے ‘‘ تمہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہےاس لئے کہ انہوں نے تمہارے ساتھ ظلم کیا ہے ’’ " لہٰذا مسلمانوں نے صرف بدلہ لیا ۔ لہذا مسلمانوں کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ وہ صرف ان کو پلٹ کر جواب دیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کبھی بھی دیگر قبائل کے قافلوں پر حملہ نہیں کیا ، صرف قریش کے قافلوں پر حملہ کیا گیا تھا۔ اصل ماجرا یہ ہے، لیکن اسے ایک منفی معنی دینے کے لئے توڑ مروڑ دیا گیا ہے۔
اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ کے یہودیوں کے لئے خاص طور پر بنی قریضہ کے قتل عام کا منصوبہ پیش کیا تھا ۔ ہاں یہ سچ ہے کہ بنو قریزہ کے یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا لیکن کو ئی بھی آپ کو اس بات کی تفصیلات فراہم کرتا ہےکہ ایسا کیوں ہوا ؟
یہودیوں پر غداری کا الزام تھا ، ان پر شہر میں جنگ خندق میں مسلمانوں کا تختہ الٹنے کے لئے سازش کی کوشش کا الزام تھا۔ یہ غداری ہے، اور کسی بھی ملک میں، یہاں تک کہ نام نہاد " سیکولر، جمہوری " ممالک میں بھی اس کی سزا انتہائی سخت ہے ۔ جب وہ (مسلمان) دس ہزار قریش کے کافرافواج کے نرغے میں آ گئے اور مدینہ کے اندر اچانک بنو قریضہ نے بغاوت کر دیا ۔ بنو قریضہ نے اندرونی طور پر غداری بھڑکانے کی کوشش کی اور وہ تقریباً کامیاب بھی ہو جاتے اگر اللہ ان کی سازش کو ظاہر نہیں کرتا ۔
یہ یہودیوں کی غداری کا نتیجہ تھا جو کہ جنگ کے دوران کسی بھی ملک کے لئے سب سے بڑی غداری ہے۔ لہٰذا انہیں اس لئے سزا نہیں دی گئی کہ وہ یہودی تھے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے غداری کا ارتکاب کیا تھا جس کا ان کی نسل یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دوسری بات یہ بھی ذہن میں رکھی جانی چاہیے کہ یہ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ صاد ابن معاذ کا فیصلہ تھا جنہوں نے ان کے خلاف سزا کا حکم دیا تھا ۔ یہ ہے یہودیوں کے قتل کی حقیقت، لیکن امر واقع مختلف ہے ! امر واقع کو حقیقت محضہ سے خلط ملط نہ کریں ۔
ایک اور نیم حقیقت یہ ہے کہ ابتدءاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں اور عیسائیوں سے لگاؤ تھا لیکن بعد میں انہوں نے ان کی توہین و تحقیر کی ۔ یہ ایک امر واقع ہے لیکن سچائی صرف تفصیلات جاننے کے بعد ہی سامنے آتی ہے۔ ابتدائی دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں اور عیسائیوں سے لگاؤ تھا اس لئے کہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ یہ لوگ اہل کتاب ہیں اس لئے وہ اس بات کی امید میں تھے کہ وہ لوگ ایک نبی کے طور پر انہیں قبول کر لیں گے اور یہ کہ وہ ان کی پیروی کریں گے ۔
اس کے بجائے جب انہوں نے انہیں تین سے زیادہ مواقع پر مارنے کی کوشش کی، جب پوری شدت کے ساتھ ان کے پیغام کو مسترد کر دیا اور جب انہوں نے یہ کہا جیسا کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے ‘‘تم ان لوگوں سے زیادہ اچھی طرح سے ہدایت یافتہ ہو جو صرف خدا کی عبادت کرتے ہیں’’ ۔ تو ان تمام کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ تمام تعلقات کو منقطع کر لیا ۔
لہٰذا یہ تمام نیم سچائیاں یا مسخ شدہ سچائیاں ہیں۔ یہ نقطہ نظر کا معاملہ ہے اور نقطہ نظر سچائی کے خلط ملط کے ساتھ تقریبا ہمیشہ ایک منفی تاثر دیتا ہے، جب تک کہ سیاق و سباق بیان نہ کیا جائے اور ہم اشیاء کی تاریخ میں نہ جائیں ۔ صرف اسی صورت میں ہم امر واقع کے پیچھےحقیقت محضہ کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا کام صرف انہیں سیاق و سباق میں رکھنا اور اسے استصواب کا ڈھانچہ عطا کرنا ہے ۔
URL of Part 1: https://newageislam.com/urdu-section/defending-prophet-muhammad-introduction-(part-1/d/13212
URL of Part 2: https://newageislam.com/islamic-personalities/defending-prophet-muhammad-introduction-(part-ii/d/13163
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-personalities/defending-prophet-muhammad-introduction-(part-iii/d/13174
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/defending-prophet-muhammad-introduction-(part-iii/d/13326