New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 03:07 AM

Urdu Section ( 7 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Abbreviated Letters in the Quran قرآن مجید میں مخفف خطوط

 

سید منظور عالم،  نیو ایج اسلام

( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)

مخفف خطوط کوالمقطعات  کے طور پر جانا جاتا ہے۔ عربی زبان میں 29 حروف ہیں (حمزہ اور الف کو دو حروف کے طور پر لیتے ہوئے ) ۔ قرآن مجید کی 114 میں سے  29 سورتیں بھی ان مخفف حروف پر مشتمل ہیں ۔ کبھی کبھی یہ انفرادی طور پر پائے جاتے ہیں اور کبھی کبھی یہ دو ، تین ، چار اور زیادہ سے زیادہ پانچ حروف کے مجموعہ میں پایا جاتا ہے ۔

جب ہم اس کا تجزیہ کرتے ہیں تو  ہم یہ پاتے  ہیں کہ  تین سورتوں صاد  (38) ،  قاف (50) ،  نون یا قلم (68)میں فرداً فرداً آیا ہے ۔ دس مختلف سورتوں میں دو  کے مجموعہ کے  طورپر آیا ہے ، جیسا کہ طٰہٰ (20)، طٰس (27) یٰس (36) اور حٰم سات سوروں میں پایا جاتا ہے، اور وہ سب کے سب متواتر  ہیں: سورۃ غافر (40) ، فصلت (41) ، شوریٰ (42) ، زخرف (43) ، دخان  (44) ، جاثیۃ  (45)، احقاف (46)۔

الف لام میم  چھ سورتوں میں پایا جاتا ہے : بقرہ (2) ، عمران (3) ، عنکبوت ( 29) ، رم (30) ، لقمان (31) ، سجدہ (32) : سورت 10 سے 15میں الف لام میم  مسلسل پایا جاتا ہے : یونس (10)، ہود (11)، یوسف (12)، رعد ( 13)، ابراہیم (14)، الحجر (15)۔

اس کے معانی کو واضح کرنے کی کوشش میں ان مخفف حروف پر جلدوں میں کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کچھ الفاظ کی  ایک مخفف شکل ہے، مثال کے طور پر 'نون' نور ' کی ایک مخفف شکل ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ اللہ کی ایک نشانی ہے ، کچھ کا  کہنا ہے کہ یہ اللہ کی ایک مخفف شکل، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ سورہ کے عنوان کا ایک نام ہے ، جیسے یٰس ؛ کچھ لوگوں کا  کہنا ہے کہ یہ قافیہ کے لئے استعمال کیا گیاہے  تاکہ قرآن کو  مزید سحر انگیز  بنایا جا سکے؛ کچھ لوگوں کا کہنا ہے ان حروف کو عددی حیثیت مل گئی ہے اور یہ ایک عددی کوڈ کی طرف اشارہ کرتا ہے؛ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ  ان مخفف حروف کا استعمال حضرت محمد (صلی وللہ ولیہ وسلم ) کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جبرائیل کے ذریعہ کیا گیا تھا اور آج قرآن کے قارئین اور سامعین کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔

مولانا محمد علی کے مطابق قرآن مجید میں ان حروف کے مندرجہ ذیل معانی ہیں :

الف (ا): انا کا  مخفف (أنا، میں ہوں) ہے۔

حا  (ح): الحمید(الحميد، جس کی تعریف کی گئی )، کا  مخفف ہے ۔

را (ر): دیکھنے کا مخفف ہے ۔

سین (س) یا تو آدمی کا مخفف ہے یا السمیع '(السميع، سننے والا) کا  مخفف ہے۔

صاد  (ص): الصادق (الصادق، سچا)، کا مخفف ہے ۔

طا (ط): یا تو مہربان  کا مخفف ہے یا  عام بول چال میں او کی طرح  رموزواوقاف کا مخفف ہے ۔

 عین (ع): العلیم (العليم، سب کچھ جاننے والا) کا  مخفف ہے ۔

قاف (ق): القادر (القادر، قادر مطلق) ، کا مخفف ہے ۔

کاف (ك): الکافی  (كافي، کافی) ، کا مخفف ہے ۔

لام (ل): اللہ (دوسرا خط کا  استعمال کرتے ہوئے الله) ،کا  مخفف ہے  

میم (م): یا تو العلیم (آخری خط کا استعمال کرتے ہوئے العليم، سب کچھ جاننے والا) کامخفف ہے یا المجید (المجيد، با عظمت) ، کا مخفف ہے ۔

نون (ن): کا معنیٰ سیاہی دان ہے ۔

ہا (ه): یا تو  الہادی (الهادي، رہنماں ) ، کا مخفف ہے یا عام زبان میں آدمی کا  مخفف ہے ۔

یا (ي): 1. O کے برابر رموزواوقاف ہے۔

اس کے بہت سارے وجوہات بیان کئے گئے ہیں لیکن سب سے بہترین اور قابل قبول وجہ وہ ہے جو  ابن کثیر، زمخشری اور ابن تیمیہ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے  اور ان کا اس  پر اتفاق ہے۔ قرآن ( 7 :3)  میں  فرماتا ہے ۔

" وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں "۔

مثال کے طور پر "فرما دیجئے: خدا واحد و یکتا ہے " بنیادی طور پر واضح ہے، اس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ کچھ آیات اچھی طرح واضح نہیں ہیں مثلاً 'الف لام میم ، یٰس، طٰس ، قاف (ق) وغیرہ، لیکن قرآن مجید  17: 54 میں بیان کرتا ہے :

" اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟ "

لہٰذا وہ تمام غیر  واضح آیات کے معانی قرآن کی دیگر واضح آیات  اور دیگر بنیادی واضح آیات پر مبنی ہیں  ۔ قرآن مجید کی سب سے بہترین تفسیر خود قرآن ہے۔ ان گہر ے واضح آیات کا جواب قرآن مجید میں کہیں اور بھی تلاش کیا جا سکتا ہے ۔

ابن کثیر، زمخشری ش اور ابن تیمیہ   کے ذریعہ بیان کی گئی توجیہ یہ  ہے کہ  جب قرآن مجید نازل کیا گیا تھا اس وقت  عربی زبان اپنے عروج پر تھی ۔ عربوں کو ان کی زبان پر بہت فخر تھا ۔ عربی اپنے نقطہ عروج پر تھی ۔ لہٰذا  اللہ فرماتا ہے  'الف  لام میم ، ' طٰس '، ' یٰس' وغیرہ، جس طرح (انگریزی میں) ہم  وغیرہ کہتے ہیں  للہ ان (عرب) سے کہ رہا ہے کہ یہ تمہارے  حروف ہیں، یہ عربی آپ کی زبان ہے، تمہیں  اس پر اتنا فخر ہے ۔

 اللہ نے متعدد مقامات پر واضح آیات میں ایک قرآن بنانے کا چیلنج پیش  کیا ہے، جن کے معانی بنیادی طور پر واضح ہیں  اس (17:88) ، پھر اس کے بعد  11:13 میں قرآن کی طرح صرف 10 سورتیں بنانے کا چیلنج پیش کر کے اسے آسان کر دیا گیا ، اور  پھر آخر (10:38) اور  24 - 23 :2 میں اس جیسی ایک آیت بنانے  کا  چیلنج  پیش کر کے اسے اور بھی آسان بنا دیا گیا :

اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو ۔

لیکن اگر (ایسا) نہ کر سکو اور ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے (اور جو) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ "

لہٰذا  اللہ  یہ فرماتاہے کہ ہم نے تمہارے  (عربی) حروف کے ساتھ ایک قرآن بنایا ہے ، اللہ قرآن کی طرح  ایک سورۃ بنانے کے لئے  عربوں کو چیلنج پیش کرتا  ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی  ان  مخفف حروف کا استعمال کیا گیا ہے ، اس کے فوراً بعد ہی قرآن کے کچھ معیار کا ذکر کیا گیا ہے  ۔ مثال کے طور پر2 - 1 :2 میں:

"الف لام میم "

یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے ۔

چ1 : 14 میں:

" الٓرٰ۔ (یہ) ایک (پُرنور) کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاؤ (یعنی) ان کے پروردگار کے حکم سے غالب اور قابل تعریف (خدا) کے رستے کی طرف ۔ "

یہ تمام انسانی دماغ کےمفروضات ہیں ۔ بہترین جواب یہ ہے کہ  'اللہ سب سے بہتر جانتا ہے۔ ان آیات سے ایک اور نتیجہ نکالا  جا سکتا ہے: اور وہ یہ ہے کہ اللہ بالواسطہ طور پر ہمیں یہ یاد دلا رہا ہے کہ  خدا کی مشیت  کو سمجھنے کے لئے انسان کے اندر ایک  محدود صلاحیت ہے ۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہم سب  کچھ جانتے ہیں لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے، اللہ ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہمیں کسی بھی چیز میں  سخت نہیں ہونا چاہئے (اللہ ہمارے  ذہن میں یہ لانا چاہتا ہے کہ انتہاء پسندی سے بچو  "اپنے دین میں غلو نہ کرو")۔ اور قرآن کہتا ہے  "  تم میں سے کوئی ایک دوسرے کا مذاق نہ بنائے اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں " ۔ بہت سے مسلمان بڑے وثوق کے ساتھ  کہتے ہیں کہ غیر مسلم جہنم  میں جائیں گے اس سے کوئی فرق نہیں پرتا کہ مندرجہ بالا آیت  ذہن میں کیا خوشی  پیدا کرتی ہے کہ ، " ہو سکتا ہے کہ دوسرا پہلے سے بہتر ہو " ۔ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے اندر جھانکنا  چاہئے۔

http://en.wikipedia.org/wiki/Muqatta'at

URL for English article

https://newageislam.com/islam-spiritualism/the-abbreviated-letters-quran/d/12228

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-abbreviated-letters-quran-/d/12956

 

Loading..

Loading..