سید منظور عالم، نیو ایج اسلام
3، مئی 2013
(انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ 'آزادی' کا تصور روشن خیالی کے جنم لینے کے بعد ایک حالیہ واقعہ ہے ۔ آزادی کا تصور روشن خیالی کی پیداوار نہیں ہے بلکہ مختلف قدیم تحریروں میں اس کی گہری جڑیں ہیں۔ آزادی روشن خیالی کی اجارہ داری نہیں ہے، اور یہ کہ دوسری ثقافتیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ یہ ایک غلط فہمی ہے، ایک ایسی غلط فہمی جسے درست کئے جانے کی ضرورت ہے ۔
آزادی کی جڑیں ہندوستان (اور نیپال) میں ہے۔ قدیم ہندوستان میں، ابتدائی ہندو کتابوں میں ، خاص طور پر اپنشدوں اور بھگود گیتا میں آزادی کا تصور بیان کیا گیا ہے، جسےدو معنوں میں متعین کیا گیا ہے، اور وہ دونوں معانی ایک لفظ پر مشتمل ہے۔وہ لفظ'سوراج' ہے جسےہندو استعمال کرتے ہیں ۔ "راج" کا مطلب حکومت کرنا ہے، اور "سوا" کا مطلب، خود ہے۔ لیکن یہ لفظ دو طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔
ایک طرف فلسفیوں نے لفظ سوراج کو بالکل سیاسی معنوں میں لیا ہے: جس کا مطلب کسی کی اپنی زمین یا علاقے یا جائیداد پر حکمرانی کرنا ہے۔ لہٰذا ،اس معنی میں اگر آپ کےاپنے ملک میں کسی اور کی نہیں بلکہ خود آپ کی حکمرانی ہے تو آپ آزاد ہیں۔ اس معنی میں، سوراج کا مطلب کسی شخص کی اپنی سرزمین پر حکمرانی کرنا ہے، یہ اس معنیٰ میں آزادی ہے کہ، آپ کسی اجنبی کی حکمرانی سے آزاد ہیں۔
اس تصور کا استعمال ایک دوسرے طریقے سے بھی کیا جاتا تھا۔ سوراج کو ایک روحانی یا نفسیاتی لحاظ سے بھی سمجھا گیا ہے: یعنی کسی شخص کی خودی یا روح پر حکمرانی کرنا۔ خودشناسی کے ذریعے انسان ایک خاص قسم کی روحانی آزادی حاصل کرتا ہے۔ انسان آزاد ہو جاتا ہے، جہالت اور فریب سے آزاد اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ انسان خوف سے آزاد ہو جاتا ہے ۔
شعور کی بلند ترین سطح وہ ہے کہ جب ہماری انفرادیت ایک ہی وقت میں اجتماعیت کے ساتھ ہو ، اور تمام موجودات کے اس اتحاد کے شعور میں ، روحانی آزادی آتی ہے۔ سب سے آزاد شخص وہ ہے جو تمام انسانوں کو خود میں اور خود کو تمام انسانوں میں دیکھتا ہے۔
آزادی کا دوسرا نظریہ عیسائی نظریہ تھا۔ آزادی کے تمام عیسائی تصور کا خلاصہ بائبل کے ان بیانات میں کیا جا سکتا ہے: ‘‘تمہیں سچائی کو جاننا چاہئے اور سچائی تمہیں آزادی عطا کرے گی’’اور "جو شخص گناہ کا ارتکاب کرتا ہے وہ گناہ کا غلام ہے" ۔
آزادی کے اس نظریہ کو سینٹ آگسٹین کے ذریعہ پہلے ہی پیش کیا گیا تھا جنہوں نے یہ لکھا کہ "مرضی حقیقی معنوں میں آزاد ہے، اگر وہ بدی ، جذبات اور گناہوں کی غلام نہیں ہے " ۔
ہندو اور مسیح دونوں کے لئے آزادی کا مطلب خدا کا علم ہے، جس کا علم بے چینی، مشکلات اور پریشانیوں سے آزادی کی وجہ ہے،ا ور خدا کا علم روحانی آزادی کی بھی وجہ ہے ۔
اسلام میں ہم اپنی مرضی کو خدا کے سپرد کر کے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلامی معنوں میں آزادی کا مطلب ایسے اعمال کرنا ہے ،جو خدا ہم سے کروانا چاہتا ہے۔ ہم اس کے احکام پر عمل کر کے روحانی آزادی حاصل کرتے ہیں ۔
اسلام میں آزادی کا ایک اور بہت اہم نظریہ یہ ہے: "دین میں کوئی جبر نہیں ہے، حق باطل سے واضح ہو گیا"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا طریقہ منتخب کرنے میں آزاد ہیں اور ہمارے ذریعہ اختیار کردہ راستہ ہمارے اعمال کا تعین کرے گا ۔ یہ تقریبا ایک علت اور رشتے کے نتیجہ کی طرح ہے۔
سچائی کے ان تصورات کے درمیان یقیناً فرق ہے، کیونکہ آزادی کے ان نظریات میں اختلافات ہیں۔ لیکن مماثلت اختلافات پر بھاری ہے۔ یہ تینوں نظریات آزادی کے ادنیٰ اور اعلی معیار کے درمیان فرق پیدا کرتے ہیں، خوف اور جہالت سے بڑی آزادی وہ آزادی ہے جو ہمیں عظیم سچائی کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دیتی ہے کسی کی خواہشات کے مطابق عمل کرنے سے بڑی آزادی۔
(نوٹ:- آزادی کے متعلق افلاطون کےنظریہ کو دانستہ طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے)
URL for English article:
https://newageislam.com/interfaith-dialogue/basic-concept-freedom-hinduism,-christianity/d/11401
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/basic-concept-freedom-hinduism,-christianity/d/11788