By Syed Mansoor Agha
(Excerpts translated from Urdu by Arman Neyazi, NewAgeIslam.com)
Tehreek e Taliban Pakistan came into being under the patronage of Baitullah Mahmood in December 2007. It has declared two objectives of it at that time. First, it wanted to establish a Shariah-based order in Pakistan and secondly, to fight NATO in Afghanistan. Although Mahmood got killed in an army attack in 2009 this organization kept getting stronger with every passing day. Tehreek e Taliban Pakistan activities include, killing of Benazir Bhutto, Lal Masjid incident in which 105 people were killed, attack on Police Academy, Lahore, attack on Charsadda Military Academy in which 120 cadets lost their life and now the biggest attack on Mehran.
The most important question is: who is organising such fine training that they have started attacking not only the civil government but the Military itself? The region which is said to be their home is the one where America is engaged in Drone attacks. Availability of such master trainers does not seem possible there. So who is patronizing them and on whose orders these attacks are being made. None of the two declared objectives of the organistion seem to be getting fulfilled with what they are doing.
The situation at the moment after Abbottabad incident in Pakistan is that of a civil war. The whole of Pakistan is nothing but a battlefield, at the moment. The situation in Pakistan is like that of Iraq, Afghanistan, Libya, Yemen, Bahrain, Tunisia and Egypt where a battle is being fought in every street. What is their objective? Whose government do they wish to establish in the Islamic world? From every point of view, this fight is for the benefit of America and its western allies whom Pakistan takes as its compassionate friends since 1948. Pakistan has perhaps forgotten that international alliance is based on mutual benefit and not on emotions. If you yourself are not strong and powerful, friendship does not mean anything.
There are various groups of warriors, call Jihadist warriors, in Pakistan. Army and ISI take some of them as their allies, specially the groups which are active in Kashmir and Afghanistan. These groups are not a headache for them. But, the military has to take action, though unwillingly, against Tahreek e Taleban and other such groups which are active in the country as suicide bombers (fidayeen).
My plea is that terrorism of every kind is evil. Using it as a policy for achieving strategic objectives is dangerous. This will have to be abandoned.
After the killing of Osama bin Laden, ISI Chief, Shuja Pasha unnecessarily tried to hide his failures by highlighting his enmity against Indian. Pakistan threatened America as well. It said that it will take action if Drone attacks are not stopped. There is an India bashing in Pakistan media also. They try to involve India in these kinds of acts, without any proof. Pakistan is not going to get anything from such irrelevant and unnecessary propaganda. Mr. Pasha’s statements are unwise and incorrect from diplomatic point of view. On the very first day of Abbottabad, India had made it clear that it has no intention of making an Abbottabad like attack. President Obama has clearly expressed his views that if needed America will again do an Abbottabad.
After 2nd of May, Pakistan army and ISI’s capabilities or lack of them have been exposed with the Taliban-e-Pakistan attacks on various places especially at Mehran.
Now for Pakistan it is better to concentrate on its own trade and economy rather that boasting of its prowess in front of its neighbors. Pakistan should end its dependence on other countries. As far as India is concerned it has already made it clear that a stable Pakistan is in its interest. India is focused on achieving this goal.
URL: https://newageislam.com/urdu-section/happened-pakistani-navy-taliban-mehran/d/4721
سید منصور آغا
طالبان اور القاعدہ کا گڑھ سمجھے جانے والے قبائلی سرحدی خطے سے کوئی ایک ہزار کلو میٹر دور کراچی کے پاس بحریہ کے مشتر پاک نیو ایر اسیٹشن مہران (پی این ایس) پر 22مئی کی شب طالبانی حملہ 2مئی کی رات ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن سے کہیں زیادہ سنگین اور پاکستانی افواج کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن کا علم تو حکام کو اس وقت ہوا جب امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان میں ملٹری اکیڈمی سے صرف آٹھ سو گز کے فاصلے پر واقع اپنے ہدف پر کارروائی پوری کر کے واپس سرحد پار چلے گئے۔کہا یہ گیا کہ یہ جدید قسم کے ہیلی کاپٹر تھے جو رڈار پر نظر نہیں آئے اور رات کی تاریکی میں جاس آلات کے سہارے پہاڑی وادیوں میں نیچے اڑتے ہوئے آئے اور چلے گئے ۔ یہ حیرت کی بات ضرور ہے کہ ڈرون میزائلوں کو نشانہ بنتے رہنے کے باوجود افغان سرحد سے متصل علاقوں میں بھی فوج اس قدر ہے خیرسوتی ہے، تاہم یہ باور کرنے کی گنجائش تھی کہ حملہ آور ہیلی کاپٹر س کو یہ کامیابی اعلیٰ ٹکنالوجی کی بدولت ممکن ہوسکی۔ لیکن تحریک طالبان پاکستان کے اس حملے کی ایسی ہی کوئی لنگڑی لولی ،وضاحت آئی ایس آئی اور پاکستانی افواج کیلئے ممکن نہیں ہوگی۔ یہ دونوں ناکامیاں صریحاً فوج ، آئی ایس آئی او رمحکمہ خفیہ کے کھاتے میں جاتی ہیں ۔جس پر قومی بحث کا ایک خطیر حصہ (تقریباً 600ارب روپیہ)خرچ ہوتا ہے۔ فوج کے مطالبات پورا کرنے کیلئے قومی اہمیت کے ترقیاتی منصبو بوں ، حتیٰ کے شعبہ تعلیم تک پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
مہران نیول ایر اسٹیشن پر اس حملے میں یہ بات اہم نہیں کہ دس فوجی اور چار حملہ آور مارے گئے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ بھاری اسلحہ کے ساتھ کم سے کم چھ حملہ آوروہاں پہنچ گئے ۔( طالبان ذرائع نے ان کی تعداد 15اور ڈان نے 20بتائی ہے) انہوں نے خار دار تاروں کی حفاظتی باز کو کاٹ ڈالا اور سیڑھیا لگا کر پی این ایس کی بلند چہار دیواری کو پھاند کر اندر داخل ہوگئے۔ (ظاہر ہے سیڑھیاں بھی وہ ساتھ لائے تھے)اندر داخل ہوکر وہ تقریباً دو کلو میٹر اندر کھڑے ہوئے طیاروں تک پہنچ گئے اور بم دھماکوں سے وہ ‘پی تھری سی اور یون ’ (P-3C Orion) طیاروں کو تباہ کردیا۔ ایر اسٹیشن کے حملے کو ان کی موجودگی کا پتہ چلا جب بم دھماکوں کی آوازسے سارا علاقہ گونج اٹھا اور تباہ شدہ طیارہ سے شعلے بلند ہونے لگے ۔ اربو ڈالر کے یہ جاسوسی طیارے بحریہ کا اہم اثاثہ تھے ۔امریکہ نے یہ نئے طیارے حال ہی میں اس لئے فراہم کئے تھے تاکہ افغانستان میں ناٹو کیلئے رسد لانے والے بحریہ کے جہاز وں کو پاکستانی خطے میں کوئی گز ندنہ پہنچا نے پائے ۔ یہ طیارے سمندر میں آب دوزوں اور دیگر جہازوں کی آمد وفت پر نظر رکھتے تھے۔
جہازوں کو تباہ کر کے حملہ آوروں نے ایک عمارت پر قبضہ کرلیا اور اگلے 16گھنٹے تک کمانڈوز کو الجھا ئے رکھا ۔ بحریہ کے سربراہ نعمان بشیر نے کارروائی کے بعد اطلاع دی کہ چار حملہ آوروں کی لاشیں ملی ہیں جب کہ غالباً دوفرار ہوگئے۔ بحریہ کے ترجمان عرفان الحق نے بتایا کہ نیوی کے ہیلی کاپٹر براد چکر لگاتے رہے اور ٹرینگ کنٹرول نادر پر نشانے باز تعینات کئے گئے ۔ انہوں نے کہا ‘‘خدا کا شکر ہے کہ اسٹیشن حملہ آوروں سے پاک ہوگیا اور آپریشن مکمل ہوگیا’’۔
یہ آپریشن اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہ حملہ آور راکٹ لانچرس ،خود کار اسلحہ اور گولا بارود کے ساتھ کہا ں سے آئے تھے اگر یہ مقامی تھے تو کیا طالبان پاکستان نے سندھ میں بھی اپنے قدم جمالئے ہیں اور کراچی یا اس سے متعلق کسی مقام پراپنا محفوظ اڈا بنا لیا ہے ؟اور اگر کسی سرحدی اڈے سے آئے تھے تو مہران تک کا طویل سفر انہوں نے اسلحہ کے ساتھ کس طرح طے کیا اور انتہائی حساس خطہ ہونے کے باوجود وہ کسی چیک پوسٹ پر پکڑے کیوں نہیں گئے ؟دھماکہ ہوتے ہی سینکڑوں کمانڈوز نے پورے خطے کو گھیر لیا ۔ہیلی کاپٹر بھی گشت لگاتے رہے ۔ٹریفک کنٹرول نادر پر نشانہ باز متعین کردئے گئے ۔ ایسی صورت میں کم از کم دو حملہ آور کیسے بچ نکلے ’’۔
اس حملے سے ایک بات یہ صاف ہوگئی کہ سرکاری خفیہ نظام اور پی این ایس کا حفاظتی نظام قطعاً ناکام ہوگئے جب کہ تحریک طالبان پاکستان کی سراغر سانی انتہائی چوکس ہے۔ ان کومعلوم تھا کہ کس راستہ سے پی این ایس کمپاؤنڈ تک پہنچنا ہے اور کس سمت سے اندر داخل ہونا ہے ؟ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ میلوں میں پھیلے ہوئے احاطہ میں ‘اوریون ’طیارے کس جگہ کھڑے ہیں اور رات کی تاریکی میں ان تک کیسے پہنچا جائے؟ کیا ان کا اس طرح اندر آنا ہوائی جہازوں تک پہنچ جانا اور بعض کا بھاگ نکلنا بغیر اندر کی امداد کے ممکن ہے؟ ان عناصر نے 26اور 28اپریل کو بحریہ کے بسوں کو نشانہ بنا کر اپنے ارداے ظاہر کردیئے تھے۔ اس کے باوجود پی این ایس کی نگرانی میں یہ لاپرواہی فوج کی نا اہلی ،عیش کوشی اور کوتا نظری کو بیان کرتی ہے۔ کاش فوجی افسران سیاست میں دلچسپی لینے اور ہوس زر میں مبتلا رہنے کے بجائے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کرتے ۔ ان کو اپنے گھر کے دشمن نہیں دکھائی دیتے بس ایک دشمن ہندوستان ہی نظر آتا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان دسمبر 2007میں بیت اللہ محسود کی سربراہی میں وجود میں آئی ۔ اس وقت کے دومقاصد بیان کئے گئے تھے ۔پاکستان میں نظام شریعت کا قیام اور افغانستان میں ناٹو افواج کا مقابلہ ۔اگر چہ محسود 5اگست 2009کو ایک فوجی کارروائی میں مارے گئے مگر یہ تحریک روز بروز مضبوط ہوتی رہی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ،لال مسجد کا واقعہ جس میں 105افراد جاں بحق ہوئے ،لاہور میں پولیس اکیڈ می پر حملہ، صوبہ سرحد کے ضلع چار حدو میں پیرا ملٹری اکیڈمی پر حملہ جس میں 120 کیڈٹ جاں بحق ہوئے اور اب یہ مہران کا حملہ اسی تحریک طالبان پاکستان کی کارروائی ہیں۔
ایک اہم سوا ل یہ ہے کہ کون ان کو اتنے فنڈ اور ایسی تربیت وسپورٹ فراہم کررہاہے جس کے بل بوتے وہ نہ صرف سول حکومت کو بلکہ فوج کو بھی گچہ دینے لگے ہیں ؟ جو خطہ اس تحریک کا مرکز کہا جاتا ہے جس کو امریکہ ڈرون میزائلوں کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اس میں داخلی طور پر اسے مالی وسائل اور تربیت دینے والے ماہرین کی دستیابی ممکن نہیں ۔ پھر کون ہے تو جو اس تحریک کے پس پشت ہے اور کس کے مفادات کی اس کے ذریعہ تکمیل ہورہی ہے ان کی کارروائیوں سے تحریک کے اعلان شدہ دونوں مقاصد میں سے کسی ایک کی بھی راہ ہموار ہوتی نظر آتی ۔گزشتہ چند ماہ سے خصوصاً ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان میں جو صورت ابھر کر سامنے آرہی ہے وہ داخلی یا مدتی جنگ کی ہے ۔ پورا پاکستان میدان جنگ بن گیا ہے ۔ یہ جنگ بالکل ایسی ہے جیسی عراق، افغانستان ،لیبیا ،یمن ،بحرین ،تیونس ،مصر اور شام کے گلی کوچوں میں لڑی جارہی ہے ۔ان کا مقصد کیا ہے ؟ یہ عالم اسلام میں کس کی استعماریت قائم کرنے کیلئے لڑی جارہی ہیں؟ یہ ساری مبقلیس مختلف عنوانات سے اسی امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کی مقاصد کی تکمیل کیلئے ہیں جن کو پاکستان 1948سے اپنا مہربان دوست قرار دیتا ہے ۔افغانستان میں روسیوں کے خلاف امریکی مہم میں مہرہ بن کراس نے روس کے ساتھ اپنے رشتوں کو منقطع کرایا اور امریکا پر کئی انحصار کی غلط حکمت عملی اختیار کرلی۔ اب وہ ایک دوسری غلطی کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ ایک دوسری بڑی طاقت پر کھلی انحصار پاکستان کے پالیسی ساز شاید یہ بھول گئے بین الاقوامی رشتوں میں اشتراک اور اختلاف کی بنیاد مشترکہ سیاسی ، معاشیاور حربی مفادات ہوتے ہیں جذبات نہیں ہوتے۔اگر آپ خود مضبوط نہیں تو دوستی کا مطلب کچھ نہیں ہوتا۔اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنی معیشت وصنعت اور تجارت کو مستحکم کرنے کے بجائے بیرونی امداد پر انحصار ،بڑی طاقتوں کے درمیان غیر جانبدار رہنے کے بجائے کسی ایک طاقت پر انحصار کی پالیسی پاکستان کیلے تباہ کن ثابت ہورہی ہے ۔پاکستان کی افراحی طاقت اور لیاقت جاپان ،کوریا، تائیوان اور جرمنی سے کم نہیں ۔پھر وہ اپنے پیروں پر کھڑا کیوں نہیں ہوسکتا ؟
پاکستان کی موجودہ صورت حال پر ایک پہلو سے اور غور کرنا ہوگا۔ افغانستان پر امریکا کے حملے اور اس جنگ میں پاکستان کی معاونت کے باوجود اس کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔پاکستان کے داخلی خود مختاری کو نظر انداز کرکے اس کے فوجی کارروائیوں سے باہم شکر رنجیاں بڑھ رہی ہیں ۔امریکا کی طرف سے یہ تناتنی بلاوجہ نہیں ۔ اس کی نظر پاکستان کی نیوکلیائی صلاحیت پر ہے ۔اب یہ بات کھل کر کہہ سکتی ہے کہ اگر طالبان نے اپنے قیام کے چار سال کے اندر اس قدر رسالی اور صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ وہ بحریہ کے اڈے کو بھی یرغمال بنالے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے وہ نیوکلیائی ایندھن تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے جس کو ‘ڈرنی بم ’ کے طور پر استعمال کرنا آسان کام نہیں ہے ۔ اندازہ کیجئے کہ ایک تولہ جوہری مواد اگر کسی دریا کے دہانے میں ڈال دیا جائے تو اس سے کیسی بھیانک تباہی پھیلے گی؟ اب پاکستان لاکھ کہتا رہے کہ اس کی نیوکلیائی تنصیبات محفوظ ہیں لیکن کل کو اگر امریکہ سلامتی کونسل میں اس اندیشے کو لیکر پہنچ جائے اور مطالبہ کرے کہ پاکستان کے نیوکلیائی اثاثوں کو ‘بین الاقوامی نگرانی’ میں لینےکے لئے کارروائی کی اجازت دی جائے تو کیا اس کو اسی طرح یہ اجازت نہیں مل جائے گی ،جس طرح لیبیا پر ‘نوفلائی زون’ کے قیام کے عنوان سے مل گئی ہے اور جس کو بہانا بنا کر اسے تباہ وبرباد کیا جارہا ہے؟
پاکستان میں جنگجوؤں کے کئی گروپ میں آئی ایس آئی اور فوج ان میں سے بعض کو اثاثہ تصور کرتی ہے۔ مثلاً وہ گروپ جو کشمیر میں یا افغانستان میں سرگرم رہے ہیں۔ ان کی سرکوبی پر وہ آمادہ نہیں ۔ لیکن تحریک طالبان اور اسی طرح کے جو دوسرے گروپ اندرون ملک فدائی حملوں اور خون خرابے میں مصروف ہیں ان کے خلاف جبراً قہر کارروائی کی جاتی ہے ۔ ہمارا عندیہ یہ ہے کہ ہر طرح کی دہشت گردی ایک لازمی عفریت ہے۔ کسی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے اس کا استعمال ایک خطرناک نظریہ ہے جس کو ترک کرنا ہوگا۔اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا نے اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے بلاوجہ اس کا رخ ہندوستان دشمنی کی طرف موڑنا چاہا اور امریکہ کو بھی یہ دھمکی دے ڈالی کہ اگر اس نے ڈرون حملے بند نہیں کئے تو پاکستان کارروائی کرے گا ۔ پاکستانی میڈیامیں بھی ہند کے خلاف مہم بازی ہوتی ہے اور بلا ادنا شہادت اس طرح کے حملوں پر ملوث کرنے کی بیہودہ کوشش کی جارہی ہے۔ مسٹر پاشا کے یہ دونوں بیانات سفارتی نقطہ نظر سے دانشمندانہ نہیں ہیں ۔ ہندوستان نے روز اول ہی یہ واضح کردیا تھا کہ اس کا کوئی ارادہ ایبٹ آباد جیسے حملے کرنے کا نہیں ہے ۔ صدر امریکا اوبامہ نے یہ جواب دے دیاہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو امریکا پھر ایسے ہی حملے کرے گا ۔2مئی کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے بدبختانہ حملوں سے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے بڑبولے پن کی قلعی کھل گئی ہے۔ اب پاکستان کیلئے بہتر راہ یہی ہے اور وہ بشمول افغانستان اپنے پڑوسیوں کے معاملات میں دلچسپی پر قابو پائے اور خود اپنے وجود کی بقا کیلئے اپنی صنعت وتجارت پر توجہ مرکوز کرے اور بیرونی انحصار ختم کرے ۔ ہندوستان کی قیادت بار بار یہ واضح کرچکی ہے کہ ایک مستحکم پاکستان ہی ہندوستان کے حق میں ہے اور اسی کےلئے وہ کوشاں بھی ہے۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/happened-pakistani-navy-taliban-mehran/d/4721