سید منصور آغا
’لوگ اسلام کیوں قبول کرتے ہیں ؟‘ عنوان سے راقم الحروف کے مراسلے پر محترم ندیم الواجدی کے عالمانہ مکتوب (جدید خبر ۔۲۲؍جون) کے لئے شکر گزار ہوں کہ موصوف نے میری معروضات کو لائق اعتناجانا اور اپنی گرانقدر تحریر سے نوازا۔ جزاک اللہ ۔ اس میں موصوف نے اس موقف کا اعادہ فرمایا ہے کہ عیسائی اپنے عقیدہ تثلیث کے باعث مشرک ہیں۔
یہ نازک موضوع ہے اور اس پر اظہارخیال کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔لیکن عالم کے سامنے اپنے اشکال کا اظہار ایک طالب علم کے لئے جائز ہی نہیں ، واجب ہے۔ حضرت شیخ بایزیر بسطامی کا قول ہے: علم کے معاملے میں اختلاف باعث برکت ہے کہ اس سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں : علم میں اختلاف نہ ہوتو دل اکتا جائے اور جینا دوبھر ہوجائے، ۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اختلاف کے فتنے سے محفوظ فرمائے اور اس کی برکات سے ہماری رہنمائی فرمائے۔آمین۔
عقیدے اور عمل میں شرک کا معاملہ بڑا نازک ہے۔ اپنے تئیں انسان کیسا ہی راسخ العقیدہ موحد کیوں نہ ہو، کب چیونٹی حالانکہ ہماری نظر میں دوکافر ہے، مشرک ہے کہ نہ تو اس کا ایمان مکمل ہے اور تااعمال اسلامی ہیں۔ایک طرف تو رحمت خداوندی کا امنڈتا ہوا یہ ساگر ہے اوردوسری طرف ہم بند گان خدا کا شوق گردن پیمائی !
میری اس خامہ فرسائی کے پس منظر میں میرا یہ وقف ہے کہ عقیدہ تثلیث کی گمراہی کے باوجود عیسائی موحد ہیں جس کی محترم مولانا ندیم الواجدی مدظلہ نے تردید فرمائی تھی ۔ تاہم موصوف نے اپنے مضمون بعنوان مذاہب شادیاں (۲۵جو) میں بجاطور پر یہ لکھا ہے کہ دور نبویؐ میں عیسائی موحد تھے ۔حالانکہ ا س وقت بھی قرآن کی وہ شہادت موجود تھی جس کو جناب نے سورۃ المائدہ(۱۱۶) سے راقم الحروف کے مراسلہ کے جواب میں نقل فرمایا ہے اور جس میں عیساؤں کے حضرت عیسیؑ اور حضرت مریم ؑ کو خدا کے علاوہ معبودقرار دینے پر تنبیہ فرمائی گئی ہے (ترجمہ اور جب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو بھی خدا کے علاوہ دومعبود قرار دو۔(عیسیٰ فرمائیں گے) میں آپ کو شرک سے منزہ سمجھتا ہوں۔
تثلیث کے باوجود عیسائیوں کو (بلکہ تمام اہل کتاب کو ) موحد سمجھنے کا ایک قرینہ خود قرآن پاک میں موجود ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ جیسا کہ اوپر مثالیں پیش کی گئیں ، یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ موحد کسی ایسے فکر یا عمل میں گرفتا ہوجائے ، جس میں شرک کا پہلو نکلتا ہو، لیکن یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ کسی کو بھی وہ ان ثمرات سے محروم نہیں کرے گا جو موحد کے لئے مخصوص ہیں۔ دین محمدی ہمیں حسن ظن کی تلقین (محصنات) بھی تمہارے لئے حلال ہیں، خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔
سورہ البقرہ(۲۲۱)میں حکما مشرک عورتوں سے نکاح سے روک دیا گیا ہے اور المائدہ (۵) میں ان اقوام کی محصنات کو ’پاک‘ قرار دے دیا گیا ہے، جن کو نزول قرآن سے پہلے کتاب دی گئی ہے اوران سے نکاح کی رخصت مرحمت فرمادی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ اہل کتاب کی ان عورتوں کو جو ہماری نظر میں مشرکہ (ناپاک) ہیں، اگر قرآن حکیم صاف الفاظ میں ’پاک‘ اور ’محصنات‘ قرار دے رہا ہے ، تو ہماری اس جرأت اصرار کا کیا جواز اور کیا مطلب ہے جو ان کے مشرکہ ہونے کے بارے میں کیا جاتا ہے؟ کیا اس رخصت سے یہ واضح نہیں ہورہا ہے کہ چاہے اہل کتاب اپنے فکر وہ عمل میں کتنے ہی گمراہ کیوں نہ ہوگئے ہوں، ان کا شمار دیگر مشرکین (مثلاً مشرکین عرب یا مشرکین ہند) کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا؟ ( اور ان کو یہ شرف صرف اس لئے حاصل ہے کہ اصلاً دوموحد ہیں۔)
آیت مبارکہ میں عرب اہل کتاب یہوداور نصاری کی قید نہیں لگائی گئی ہے بلکہ ان تمام اقوام کی محصنات اس رخصت میں شامل ہیں، جن کو قرآن سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور مسخ ہوجانے کے باوجود جن کی تعلیمات میں توحید کا اثبات موجود ہے۔ اس کی ایک مثال ’’ویدک دھرم‘‘ہے، جس میں مورتی پوجا ممنوع قرار دی گئی ہے اور جا بجا توحید کی زمزمہ سنجیاں موجود ہیں اور متعدد مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے ۔ زمین پھر زندہ ہواٹھتی ہے ۔( سورۃ انعام :۹۹) اتنا ہی نہیں بلکہ اس خطے سے گزرکر آنے والی ہوائیں ،جہاں تک پہنچتی ہیں، وہاں تک زندگی کی رمق اپنی پوری جولانیوں کے ساتھ دوڑ جاتی ہے ۔ اس کا منظر دل نواز اور اس کے برگ وبار ،پھل و اشجار حیات بخشہوتے ہیں ۔ آپ آسمان پر بادلووں کو غور سے دیکھئے ،اپنی تمام تر لطافتوں اور افادیتوں میں تسلسل کے باوجود ان کی حد بندی نہیں کی جاسکتی ۔ ہو ہر لمحہ ہوا کہ دوش ایک نئی صورت اور نئے روپ میں جلد بکھیرتے ہیں اور مخلوقات خداوندی کو سیراب کرتے چلے جاتے ہیں۔اس کے مقابلے آپ اس کے پانی کو قانون کی مضبوط فصیل میں بند کردیجئے ۔ اس کا تغیر پذیری جمود میں ،تازگی فرسودگی میں اور قوت نمو اضمحلال میں بدلتی چلی جائے گی اور ایک وقت وہ آئے گا کہ اس کا پانی اپنی حیات بخش ہونے کے تاثیر سے محروم ہوجائے گا۔
اس ضمن میں آخری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارا وجدان یہ کہتا ہے اور ہمارا ایمان اس کی گواہی دیتا ہے کہ خدا کی حکمت بالغہ ہر گز اس بات کو پسند نہیں کرسکتی کہ ایک مومون کی آئندہ نسل غیر موحد، مشرکہ غیر صالح کی گود میں پلے۔اس نے مومنات صالحات کے علاوہ کتابیات محصنات کے ساتھ بھی نکاح کی اجازت دے کر دونوں کے پاک اور موحد ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ رہا یہ رویہ کہ ہم مومنات کو چھوڑ کر کتابیات کی طرف دوڑ پڑیں ،وہ اس لئے قرین مصلحت نہیں کہ مومنات کے لئے بہر حال مومون مرد کی شرط ہر چند کہ ہمارے معاشرے میں عورت ذات کے مقابلہ مرد ذات کو بڑی فوقیت دی جاتی رہی ہے،مگر یہ دور جاہلیت کی نفسیات کا اثر ہے اور ہمارے دین میں اس کی کوئی اصل نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر صرف ’قوام‘ مقرر کیا ہے، اس سے زیادہ اس کو عورت ذات پر کوئی فضیلت نہیں دی ہے۔ اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ اس نے عورت کو مرد کی غلامی اور ملکیت سے نکال کر ایک آزاد ہستی کا درجہ دے دیا ہے اور اعمال واجر میں اس کو مرد کے ہم سرکردیا ہے۔ اس کو یہ مقام قرآن کے اس انقلاب آفریں اعلان کی بدولت حاصل ہوا،فمن نعمل مثقال ذڑۃ عبرابرہ ومن بعمل مثقال ذرہ شرابرہ:جو(عورت یا مرد ) زرہ برابر نیکی کرے گا اسے (وہاں) پالے گا اور جو (عورت یا مرد) ذرہ برابر برائی کرے گا اسے بھی وہ دیکھ لیگا(لزلزلال:۷:۸)اس چھوٹی سی آیت مبارکہ نے انسانی سوچ میں ایک انقلاب عظیم برپا کردیا ہے اور ماقبل اسلام کے اس مفروضہ کو مع دین سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے کہ عورت ذات ازلی ارڈل اور معصیت کا پتلا ہے ۔ اس اعمال بشارت کی تفصیل ہورۃ احزاب (آیت ۳۵) میں بڑے ہی دل نشین پیرائے میں کھول کھول کر بیان کردی گئی ہے:( ترجمہ) محقیق مسلمان مرد مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ، اور (اللہ کی) بندگی کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں اور سچائی پر قائم رہنے والے مرد اور سچائی پر قائم رہنے والی عورتیں ،اور صبر کرنے (امتحان کی گھڑی میں ثابت قدم رہنے )والے مرد اورصبر کرنے (ثابت قدم رہنے ) والی عورتیں ،اور خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں ،اور خیرات کرنے والے مرداور خیرات کرنے والی عورتیں ،اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ،اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ،اور کثرت سے خدا کو یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کررکھا ہے۔
ان راشادات ربانی کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ کوئی شخص اس گمان میں مبتلا رہے کہ باعتبار جنس مرد کو عورت پرکوئی برتری حاصل ہے یا مردانہ صفات کو نسوانی صفات پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔جو بھی ابتری یا برتری ہے اس کی بنیاد اعمال ہیں اور اپنے فضل سے اعمال کے دروازے اللہ نے عورت اور مرد، دونوں کے لئے برابر سے کھول دئے ہیں اور ان کے لئے اجر میں بھی کوئی تفریق نہیں رکھی ہے۔جیسا اجر مرد کو ملے گا ویسا ہی عورت کو بھی ملے گا ۔ جس کی نیکیاں فزوں ہونگی ،پلڑا اس کا بھاری ہوگا ۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر مخلوق کو جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے اور خود اس کی ذات یکتا ہے اور اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا جوڑا ہو ۔ اولاد آدم میں جو بھی صفات رحمانی ہیں وہ سب اللہ کی صفا کا پرتوہیں کیونکہ’ اللہ نے آدم کو مٹی سے بنایا اور جب اسے نوک پلک سے درست کردیا، تو اس میں اپنی روح پھونک دی‘ (مجر:۲۹) اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ انسان کو سجدہ کریں۔ یہ سجدہ مٹی کے پتلے کو نہیں ۔ انسان کی ذات کو نہیں بلکہ ان صفات کو ہے جو اللہ نے انسان میں پھونک دی ۔پھر آدم سے ہی حوا کو پیدا کیا ۔ چنانچہ جو پاک روح آدم میں پھونکی گئی وہی حوا میں بھی ہوئی ۔ بیشک وظیھہ حیات کے اعتبار سے دونوں کی ساخت مختلف ہے ، مگر دونوں کی اصل دونو ں کی روح ایک ہی ہے۔ اس لئے مرادنی صفات نہ نسوانی صفات سے افضل ہیں اور نہ نسوانی صفات مردانی سے ارذل ہیں ۔ نسوانیت کی سب سے نمایا ں صفت اس کی ممتا اور بچے کی بے لوث پرورش ہے، جس میں اللہ کی شان ربوبیت کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ماں کے درجے کو باپ کے درجے سے بڑھا کر نسوانیت کو جو شرف بخشا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے معاشرے ، کسی دوسرے نظریہ ،کسی دوسرے دین میں نہیں ملتی۔
ان معروضات کا مقصد یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں خواتین کے بارے میں جو غیر اسلامی نظریات مدت سے جڑپکڑے ہوئے ہیں ان کی اصلاح کی فکر کی جائے۔ واللہ اعلم۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/trinity,-unity-feminism-/d/1520