صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی
اگر کسی قوم کی نفسیات کو سمجھنا ہوتو اس کامذہبی رویہ، انداز سیاست ، نظام معیشت اور طرز معاشرت دیکھ لیا جائے ،اندازہ ہوجائے گا کہ یہ قوم کیا ہے؟ رحمدل ہے یا خونخوار ، منصف مزاج ہے یا ظالم ، مثبت قدروں کی امین ہے یا منفی رویوں کی حامل، حوصلہ مند ہے یا اتھلے پن کی مریض ،سنجیدہ ہے یا کھلنڈری ، علم پرور ہے یا جہالت مآب ، مستقل مزاج ہے یا ‘‘ ڈنگ ٹپاو’’ امن پسند ہے یا مار دھاڑ کی رسیا، ماضی پرست ہے یا مستقبل بین صاحب حال ہے یا صاحب قال، پہلو میں دل رکھتی ہے یا فقط کھال مست ، فکر فرداکی عادی ہے یا محض محو غم دوش ، روایات کی پاسبان ہے یا خرافات میں گم؟
تمام تر خوش فہمی کے باوجود بد قسمتی سے ہماری قوم رفتہ رفتہ دامن صبر اپنے ہاتھ سےچھوڑ رہی ہے اور انجام کا ر ایک پیش پا افتادہ حقیقت ہے، جس کا بہت جلد سامان کرنا پڑے گا، سقراطی بکھیڑ ے او ربقراطی بگھارے بغیر یہ حرف برہنہ کہنا پڑرہا ہے کہ میزان عمل میں ہمارا منفی پلڑا جھکتا او رمثبت پلڑا اٹھتا دکھائی دیتا ہے، ابھی وقت ہے کہ جذبات ، حسد حرس ، ہوس اور اندھے شوق کی لگام قابو میں کرلیں ورنہ ہاتھ باگ پر رہ جائے گا اور نہ پاؤ ں رکاب میں!
حالیہ برسوں میں جہاں ہماراملک افراط کی لپیٹ میں آیا ہے، سیاسی استحکام کا شکا رہوا ہے، بے راہ روی کا شکار ہوا ہے، مانگے تانگے کی معیشت کا عادی بنا ہے، قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے ، او رعلم و فضل سے محروم ہوا ہے وہاں سب سے زیادہ سنگین مرض اسے یہ لاحق ہوا ہے کہ رفتہ رفتہ فرد اور سوسائٹی کی قوت برداشت میں خوفناک حد تک کمی ہوئی ہے، جو کسی طور اچھی علامت نہیں، مذہب جس کا بنیادی فریضہ مہذب بناناہے سب سے زیادہ غیر مہذب زبان اہل مذہب کے ہاں رائج ہے ، کفر، شرک ، بدعت، واجب القتل ، مرتد ، ملعون ، گستاخ ایسے الفاظ کے منہ سے روز مرہ محاور ے کے طور پر نکلتےہیں ، جلسہ گاہ میں اسٹیج کے عقب میں ‘‘ یا اللہ مدد’’ ‘‘ المدد یانبی’’ اور ‘‘ یا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدد’’ کے بڑے بڑے بینر آویزاں ہوتےہیں لیکن اسی جگہ رونق افروز منبر بزرگ کے دائیں بائیں ‘‘کلاشنکوف بردار’’ محافظ ایستا دہ ہوتے ہیں۔
موضوع سخن حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و در گذر ہوتا ہے اور خطیب شہر اپنے مخالفوں کے قتل کے فتوے جاری او رقتل کرنے والے کےلئے جنت کے ٹکٹ بانٹ رہے ہوتےہیں، اشتہار میں مقرر کے نام کے ساتھ ‘‘شیریں بیاں’’ لکھا ہوتاہے اور اسٹیج پر اسی مقرر کی چیخم دھاڑے کان کے پردے اور لاوڈ اسپیکر کے بگل پناہ مانگ رہے ہوتےہیں۔
عنوان تقریر ہوتا ہے ‘‘ اسلام تلوار سےنہیں اخلاق سے پھیلا ہے’’ او رجلسے کا اختتام خشت باری بلکہ بعض اوقات گولی چل جانے پر ہوتا ہے ، اور مسجد و محراب کے وارث کم از کم ایک رات حوالات میں ضرور گزارتے ہیں ، زوال فکر و عمل کی حدیہ ہے کہ بازار او رمسجد کے اندر انداز گفتگو میں کوئی فرق محسوس نہیں ہورہا ہے، یہ قوت برداشت کی کمی نہیں تو او رکیا ہے کہ مذہب کے نام پر ملک کا ہر دوسرا شہر ‘‘بدر وحنین’’ کانمونہ بناہوا ہے، پہلے جس طرح کفر اور اسلام برسر پیکار تھے آج دونوں جانب کلمہ گو مورچہ بند ہیں اور ایک دوسرے کو اللہ اور رسول کے نام پر قائل نہیں بلکہ قتل کررہے ہیں ، اور لادین عناصر کو ٹھٹھے اور استہزاء کا ایک مستقل موضوع ہاتھ آگیا ہے۔
وحدت و اتحاد کی ہزار بنیادیں موجود ہونے کے باوصف لڑائی کاایک بہانہ پانی پت کا ایک محاذ کھول دیتا ہے ، ہمارے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا چونکہ اسلام پر کچھ خرچ نہیں آیابلکہ الٹا اسلام نے ہمیں بہت کچھ دیاہے شاندار خانقا ہیں ، سنگ مر مر کے دارالعلوم ، قالین اور فانوس سے آراستہ مسجدیں، جلسوں کے لئے سجے سجائے پنڈال ،نعروں کی گونج ، نذرانوں کی بہتات ، یہ سب کچھ اسلام کا صدقہ ہے ، چونکہ خرچ کچھ نہیں اٹھا اس لئے دین اور رجال دین کے بے وقعتی ،غریب الوطنی اور کمزوری پر ہمیں کوئی ترس نہیں آتا جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ، فقہا، صوفیاء اور علماء نے جانیں لڑا کر دین کا رعب جمایا او راس کی آبرو کو بچایا تھا اسی لئے ان کے ہاں برداشت ، رواداری ، حوصلہ ، تحمل ، عفو، گریز، ایسے اوصاف موجود تھے ، انہوں نے ایک ایک کرکے مسلمان بنایااو رمشکل سے ایک امت تشکیل پائی ۔ ہمیں کروڑوں مسلمان بیک وقت مل گئے اس لئے انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی فکر میں لگے رہتےہیں مفت اور فالتو مال کےلئے واقعی دل بے رحم بن جاتا ہے ،محنت کی کمائی پر آدمی اتنادھیان دیتا ہے جس طرح چیل اپنے بچوں پر پہرہ دیتی ہے، اگر مذہبی حلقے برداشت کھو بیٹھے تو انسانیت کو تہذیب کا درس کون دے گا ‘‘ جہاں تک کو چہ سیاست کی بات ہے تو اس میں اتنی کیچڑ بھر گئی ہے کہ کوئی شریف آدمی اپنے کپڑے جتنے چاہے سمیٹ لے آلودہ ہونے سے نہیں بچا سکتا ’’ ہمارا سیاسی ‘‘ کلچر ’’ صد فی صد ‘‘کیچڑ ’’ بن کر رہ گیا ہے ، نجانے گالی اور سیاست میں چولی اور دامن کا ساتھ کیوں بن گیا ہے؟ جس طرح کسی زمانے میں ملک فتح ہوتے اور فوجیں شہر میں داخل ہوتیں تو ہر کوئی اپنےگھر کے کواڑ بن کرلیتا تھا کیونکہ قتل، غارت، لوٹ مار اور ہر شے کو تہس نہس کردینا یہ فاتح فوج کا حق اور فیشن سمجھا جاتا تھا اسی طرح آج اگرکہیں سیاسی مظاہرہ اور جلوس جلسہ ہوتو بازار ، سڑکیں او رمکان وہی منظر پیش کرتے ہیں اس لئے کہ مظاہرےکامطلب توڑ پھوڑ ، جلوس کا مقصد ہلڑ بازی او رجلسے کا مفہوم گالم گلوچ ہے ، جو نہی کہیں مظاہرے کا آغاز ہوتاہے ہر کوئی اپنی دکان کے شٹر گرانے لگ جاتاہے ، لوگ اپنی اپنی سواریاں بھگالے جاتےہیں، گھروں کے دروازے بند ہوجاتےہیں ، مائیں اپنےبچوں کو ڈھونڈ کر گھر لاتی ہیں اور ورد زبان ہوتاہے۔
جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو ۔ جب مظاہرہ او رجلوس ختم ہوتاہے تو باہر نکل کر آدمی یوں محسوس کرتا ہے کہ یہا ں سے کوئی سیاسی لیڈر اپنا جلوس لے کر نہیں گزرابلکہ بھوت بلاؤں کا ایک غول تھا جو یہاں سے ہوکر گیا کیونکہ سڑک پر ٹائروں کا دھواں ، روڑے، پتھر او راینٹوں کا انبار ، کاروں، ٹریفک سگنلز ، سائن بورڈ کے شیشوں کی کرچیاں ،ٹوٹی پھوٹی سائیکلیں ، الٹی ہوئی ریڑھیاں نظر آتی ہیں کوئی شخص جی کڑا کرکے سڑک کے کنارے کھڑا ہوکر مظاہرے اور جلوس کا منظر دیکھے اور نعروں کی زبان سنے تو گویا وہ جلوس نہیں قوم کے اخلاق کا ‘‘فلوس’’ نکلا ہوتا ہے، فلاں کتا ہائے ہائے، زانیو ، شرابیوں ، پیٹ پھاڑ دو، سر توڑ دو، زبان کھینچ لو، ٹانگیں کاٹ دو، ہاتھ مروڑ دو ، وغیرہ قسم کے مختلف نعرے رونق زبان ہوتے ہیں، اور اس طرح قوم کی سیاسی تربیت ہورہی ہوتی ہے او رلیڈر صاحب درمیان میں بتیسی نکال کر فاتحانہ مسکراہٹ بلکہ ‘‘غراہٹ ’’ فرمارہے ہوتے ہیں، اور اپنی سیاسی کار کردگی کی داد آنکھوں ہی آنکھوں میں وصول کررہے ہوتے ہیں ، اور ساتھ ہی ساتھ فرمارہے ہوتے ہیں کہ ہمارا یہ جلوس پر امن ہے، ہم نے اب تک بہت برداشت کیا ہے، ہمیں احتجاج کا جمہوری حق ہے ، معلو م نہیں امن کی یہ کون سی قسم ہوتی ہے کہ بجز لیڈر کے سب کی جان اور دکان خطرے میں ہوتی ہے او ران کی برداشت ثبوت تو آتش زدہ بسیں ٹوٹی ہوئی دکانیں اور دھوئیں سےبھری ہوئی سڑکیں ہوتی ہیں۔
راستے میں کوئی سیاسی مخالف نظر آیا تو اب نہ اس کی ٹوپی سلامت او رنہ ٹانگیں محفوظ ! اس کی دکان دکھائی دی تو پل بھر میں تہس نہس ، گھر راہ پڑا تو ‘‘ سیاسی کارکن’’ اس پر پل پڑے، دفتر سامنے آیا تو بورڈ کی خیر اور نہ کرسی میز کی خبر ! ہمارے ارباب سیاست بتائیں گے کہ قائد اعظم اسی طرح سیاسی رہنما بنے تھے؟ لیاقت علی خان کے یہی اطوار تھے؟ مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ اسی زبان میں بولتے تھے؟ مولاناابوالکلام رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح سیاست کرتے تھے؟ مولاناحسرت موہانی رحمۃ اللہ علیہ کے جلوس اسی رنگ کے ہوتےتھے؟ مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ کا لب و لہجہ یہی ہوتا تھا ؟ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی تو سیاسی لیڈر تھے ان کا شیوہ کیا تھا؟ نواب بہادر یار جنگ رحمۃ اللہ علیہ کی خطابت کایہی رنگ ہوتا تھا؟ شیر بنگال مولوی فضل الحق رحمۃ اللہ علیہ کچا کھا جانے کی بات کرتے تھے ؟ منٹو پارک کا جلسہ قرار لاہور اسی طرز کا تھا؟ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم اسی ڈھنگ کی تھی؟ ہر گز نہیں۔
یہ سب بدعات ہمارے ان ا تھلے ، کچے پکے، او ربے صبر ے سیاسی لیڈروں کی ایجاد ہیں جو صلاحیت سےنہیں اپنی قوت سے لیڈر بننا چاہتے ہیں، علم و فضل سےنہیں روپے پیسے پر سیاست کرنا چاہتے ہیں ،قومی مسائل کےحوالے سےنہیں ذاتی محرومیوں کی بنیاد پر سیاسی دکان چمکا نا چاہتے ہیں ، کہاں وہ سیاست جو ‘‘شیورہ پیغمبری ’’ ہے او رکہاں یہ سیاست جس کا شجرہ نسب تک معلوم نہیں، ہم نےانگریز سےوطن کیا لیا لوٹ مار کا پرمٹ لے لیا ہے، آزاد کیا ہوئے قوم کے لئے ‘‘آزار ’’ بن گئے ، خود مختاری کیا حاصل کی ‘‘ مردم بیزاری’’ کو شیوہ بنا لیا، ہندوؤں سے نجات کیا ملی ‘‘غنڈوں’’ سے پالا پڑ گیا۔
ہماری سیاسی دنیا کی قوت برداشت کا یہ حال ہے کہ پارلیمنٹ مباحثے کا فورم ہے ہم نے اسے ‘‘مجاد لے’’ کا مرکز بنا دیا ہے ، جمہوریت ڈائیلاگ کا نام ہے ہم نے اسے ‘‘ایلیکیشن’’ بنا ڈالا ہے ، مظاہرہ ‘‘جذبات’’ کےاظہار کے لئے ہوتا ہے ہم نے اسے ‘‘مغظات ’’ کا اشتہار بنا ڈالا ہے، جلوس بطور احتجاج ہوتا ہے ہم نے اسے ‘‘تاخت و تاراج ’’ بنا ڈالا ہے، سیاست دراصل مسائل کو سمجھنے کا نام ہے او رہم نے اسے فقط ‘’الجھنے’’ کانام دے ڈالا ہے، ارباب اقتدار اپنے پانچ سالوں میں دوسروں کو تہس نہس کرنے کے عزائم رکھتے ہیں اورحزب اختلاف پانچ برس تک ٹانگ کھینچنے میں لگارہتا ہے ، سیاسی حوالے سے عدم برداشت کا یہ عالم ہےکہ جنرل الیکشن ہو یا کوئی ضمنی انتخاب، ہر دو طرف سے فوج کی نگرانی میں انتخاب کامطالبہ ہوتاہے اور فی الواقع الیکشن کے روز پولیس ، رینجرز ،فوج اور ریزروفورس کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آج ووٹ نہیں ڈالے جارہے بلکہ کسی دشمن کا فوجی حملہ روکا جارہا ہے اگر ایسا نہ ہوتو کشتوں سے پشتے لگ جانا عین ممکن ہے،سیاسی میدان اگر بے صبری اور عدم برداشت کا یہ منظر پیش کرے تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں رواداری کیسے آئے گی؟۔
کچھ یہی حال ہمارے نظام معیشت کاہے قناعت ، کفایت ، بچت، ضبط ، دیانت، یہ سب الفاظ ا س نظام کی لغت سے خارج ہوچکے ہیں ، ہم کسی کاروبار میں منافع کےلئے ایک برس انتظار نہیں کرسکتے، ہم کاروبار کو جائز حدود میں رکھنے کے لئے ذرا حوصلہ نہیں دکھا سکتے ، ہم تجارت میں دیانت کا صبر آزما تجربہ نہیں کرسکتے ، قدم قدم پر ہماری قوت برداشت جواب دے جاتی ہے، خواہ اس کےساتھ ساتھ دیانت ، ایمانداری، ضمیر، انسانیت ، خیر سبھی جواب دے جائیں، منافع منشیات فروشی سے ملتاہے تو یہ کام ہمیں مرغوب ہوگا، کاروبار کو ناجائز حدود تک لے جانے میں اگر رشوت دینی پڑے تو دےدیتے ہیں ، تجارت میں دیانت اگر تھوڑا منافع دے تو دیانت کو رخصت کردیتے ہیں۔
ذخیرہ اندوزی ، ملاوٹ، نمبر دو مال، اسمگلنگ اور چور بازار ی یہ سب ہماری عدم برداشت کےمکروہ مظاہر ہیں ، بالکل معمولی سطح پر ہمارے کھانے پینے کے انداز میں قوت برداشت کی کمی نمایا ں ہوتی ہے ، شادی بیاہ میں کھانے کی تباہ کاریاں ، دھکم پیل ہلڑ بازی اور چھینا جھپٹی ہماری حد سے بڑھی ہوئی ہوس کا پتہ دیتی ہے کہ شائد یہ کھانا زندگی کا آخری کھانا ہے اس کے بعد ملے کہ نہ ملے! اربوں روپے کی فیکٹری سے لے کر چھوٹی ریڑھی تک کےنظام میں ایک بے حوصلگی ، اور عدم رواداری کے عناصر داخل ہوگئے ہیں، خدا وند عالم اپنے پاس تمام طاقتیں رکھنے کے باوجود ایک پودے ، بوٹے اور درخت میں مہینوں اور برسوں کے بعد پھل ، پھول اور میوہ اُگاتا ہے مگر ہم ایک ہی دن میں ہر ٹہنی پر پھل اُگا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں خواہ وہ کتنا ہی مصنوعی کیو ں نہ ہو؟۔
رہی ہماری معاشرت تو اللہ کی پناہ! ایام جاہلیت تو ویسے بد نام ہوگئے وہ دور ہم سے زیادہ کینہ پرور ، منتقم ، خون آشام، تھڑ دلا، کم ظرف، جفا کش او ر مغلوب الغضب تو نہیں ہوگا، آج کسی ہمسائے کے گھردو کرسیاں زائد نظر آگئیں ، تو ہمارے پیٹ میں قراقر اُٹھ پڑتا ہے، کسی کے ہاں قالین بچھ گیا تو ہمارے ہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے ، کسی کے گھر کا کنگرہ ذرا اونچاہوگیا تو ہماری ناک فوراً نیچی ہوجاتی ہے، کسی کے گھر شادیانے بج گئے ہمارے ہاں مرثیے شروع ہوگئے، کسی کو رزق کی فراخی مل گئی تو ہمارے دل تنگ ہونے لگ جاتے ہیں، کسی چہرے پر لالی دیکھی تو ہمارا منہ فوراً زرد ہو جاتا ہے، آخر یہ سب کچھ کیوں ہوتاہے؟ وہی عدم برداشت کی بیماری ، جس نے ہمارا سکون چاٹ لیا ہے، وڈیرا مزار عوں کے خون کا پیاسا ، چودھری غریبوں کی عزت کا ڈاکو ، افسر ماتحت کی عزت نفس کادشمن ، کارخانہ اور مزدوروں کی معاش کا قاتل، بڑا چھوٹے کا حریف ، یہ نقشہ کس معاشرے کاہے؟ یہ ہمارے معاشرے کا ہے جو روز بروز ذہنی اور نفسیاتی پر سکڑتا ہے اور سمٹتا جا رہا ہے ، اور کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم خود اپنے وجود میں سمانا چاہیں تو ہمارا وجود ہی ہمیں اپنے اندر سمو سکے ، تنگی اس قدر بڑھ چکی ہے۔
سواریاں کنڈیکٹر سے الجھی ہوئی او رطلبہ ڈرائیور سےدست و گریباں ! دس روپے کے لین دین پر قتل اور فساد؟ مرغوں کی لڑائی پر انسانوں کی جنگ، گاڑی کے آگے نکالنے پر اسلحہ نکال لینا، آنکھیں دکھانے پر جان نکال لینا، بات کرنے پر زبان کھینچ لینا ، ہاتھ اٹھانے پر کلاشنکوف اٹھا لینا، ہنسی مذاق پر سینہ چاک کردینا ، یہ سب کیا ہے؟یقیناً قوت برداشت کی کمی ہے، دور جاہلیت میں بھی تو پانی کی باری پر قتل ہوتے تھے اور آج بھی ہوتے ہیں، جاہلیت کے دور اور سائنسی عہد میں کیا فرق رہا؟ زمانہ تاریک میں ناک اور مونچھ کا مسئلہ تھا آج عہد جدید میں بھی یہی مسئلہ ہے اتنی صدیوں کے ارتقا ء کا فائدہ ہوا؟۔
آخر ہم کب تک کسی کاپکا مکان دیکھ کر اپنا کچا کوٹھا گراتے رہیں گے؟ کسی کا بیٹا دیکھ کر اپنی بیٹی زندہ در گور کرتےرہیں گے؟ کسی کی عزت دیکھ کر اپنی ذلت کا سامان کرتے رہیں گے؟ کسی کا نام دیکھ کر خود کر بد نام کرتےرہیں گے؟ کسی کو ہنستا دیکھ کر آنسو بہاتے رہیں گے؟
کوئی فرعون آج تک عمر بھر ‘‘ بنی اسرائیل’’ کواپناغلام نہیں رکھ سکا ہم کیوں ہر ایک غلام بنائے جانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں؟ کوئی نمرود کسی ‘‘ ابراہیم’’ کو نذر آتش نہیں کرسکا ہم کیوں ہر ایک کے لئے جہنم دہکائےبیٹھے ہیں؟ کوئی قارون کسی ‘‘موسیٰ‘‘ کے رزق کو نہیں روک سکاہم کیوں ہر ایک کی روزی پر پھن پھیلائے بیٹھے ہیں ؟ کوئی امیہ بن خلف کی ‘‘بلال’’ کو زیر نہیں کرسکا ہم کیوں ہر ایک کے لئے زنجیریں سجائے بیٹھے ہیں؟ کوئی جہانگیر کسی ‘‘مجدد’’ کا راستہ نہیں روک سکا ہم کیوں ہر ایک لئے باڑ لگائے بیٹھے ہیں؟ جب یہ سب تاریخ کے مستند حوالے ہیں تو ان حوالوں سے ہم کیوں منہ چھپائے بیٹھے ہیں؟ مذہب اپنے اندر ‘‘تبلیغ’’ سیاست اپنے اندر ‘‘تدبیر’’ معیشت اپنے اندر ‘‘تنظیم’’ اور معاشرت اپنے اندر ‘‘تہذیب’’ پیدا کرےاسی سے انسان ‘‘خلیفہ الارض’’ قرار پاتا ہے ، تبلیغ ہو یا تدبیر ، اور اس طرح تنظیم ہو یا تہذیب یہ ساری چیزیں برداشت سےمنسلک ہیں ، اگر کسی سوسائٹی میں قوت برداشت ہی نہ رہے تو پھر رہے نام اللہ کا !
نومبر 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/take-notice!-tolerance-coming-end/d/100998