سید کامران ہاشمی
2جنوری 2015
مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ دہشت گردی کی حمایت نہ تو ایک نظریہ کے طور پر، نہ ہی ایک قوم کے طور پر اور نہ ہی ایک عقیدے کے طور کرتا ہے۔ لیکن کیا تشدد کے خلاف ایک ذاتی نظریہ قائم کر لینا ہی کافی ہے؟
یہ کہہ کر ہم خود کو کب تک بیوقوف بنا سکتے ہیں کہ دہشت گرد غیر ملکی شہری تھے؟ اور ان کی جسمانی (جنسی اعضا) جانچ کی بنیاد پر کب تک یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب کے سب غیر مسلم تھے؟ چند اختلافات کے باوجود، مجھے امید ہے کہ ہم میں سے اکثر پشاور میں قتل عام انجام دینے والوں کو پاکستانی مانیں گے۔ اپنی بندوقوں کے ساتھ ایک قطار میں سکون کے ساتھ بیٹھے سات نوجوان پشتون جو خدا کے نام پر مرنے کے لئے تیار ہیں: ان کی تصویر سب کچھ بیان کرتی ہے۔
تصویروں کے ذریعہ ان کے دماغ کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے مجھے ان کی ظاہری وضع قطع، ان کی داڑھی، ان کی پگڑی، ان کی نسل، ثقافت یا قومیت سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس کے بجائے میرے لیے جو پریشانی کا موضوع ہے وہ ہے ان کی ذہنیت، ان کی تعلیم (یا تعلیم کی کمی)، ان کی تربیت اور شاید ان کا مذہب، کہ جن تمام کی وجہ سے وہ گزشتہ تین دہائیوں میں ایک فرمانبردار بیٹا ایک سنگ دل قاتل بن گیا ہوگا ایک دیکھ بھال کرنے والا بھائی ایک بے رحم خودکش بمبار بن گیا ہو گا اور ایک مشفق دوست سخت دشمن بن گیا ہو گا۔ آرمی پبلک اسکول میں ان کی کارروائی اتنی پرتشدد اور وحشت ناک تھی کہ میں سوچتا ہوں کہ اگر ان کے سینے بھی وہی دل ہے جو ہمارے سینوں میں ہے اور ان کی رگوں میں بھی وہی انسانی خون دوڑ رہا ہے جو ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے تو ہم نے اپنے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ کیا کیا ہے؟ کیا ہم اپنے نوجوانوں میں ہمدردی اور انسانیت کو فروغ دینے میں ایک قوم کی حیثیت سے ناکام ہو چکے ہیں؟ یا اس کا ذمہ دار اسلام ہے، اس لیے کہ الجیریا سے لیکر پاکستان تک جہادی جماعتوں کے اند ایک ہی طرح کا رجحان پایا جاتا ہے؟
ہمیں یہ بات اچھی لگے یا بری، دہشت گردوں کو بھی اسی مذہب سے تحریک و ترغیب حاصل ہوتی ہے جس پر ہم عمل پیراہیں۔ ہم اس واضح حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے۔ ان کی ہی طرح ہم بھی جنگ چھیڑنے سے پہلے اسی خدا کی عظمت کا اعلان کرتے ہیں، تکلیف کے اوقات میں وہی نمازیں ادا کرتے ہیں اور بیمار ہونے پر بھی انہیں قرآنی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور ہماری ہی طرح وہ بھی، رہنمائی کے لئے اسی قرآن و حدیث سے رجوع کرتے ہیں، وہ بھی روز مرہ کے انہیں مسلم معمولات پر عمل کرتے ہیں جن پر ہم عمل کرتے ہیں اور وہ بھی اسی فقہ کا حوالہ دیتے ہیں جس پر ہم عمل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں نے پشاور میں بچوں کو گولی مارنے سے پہلے کلمہ شہادت (لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ) پڑھنے کے لیے کہا۔
لہذا یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ ہم ان دہشت گردوں سے کتنے مشابہ ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کس طرح ہم مذہبی بنیادوں پر دہشت گردوں سے خود کو الگ کر سکتے ہیں۔ اور کیا یہ ممکن بھی ہے؟ دنیا بھر کے مسلمان 2001 سے اس کش مکش کا سامنا کر رہے ہیں اور اس کی مذمت کرنے کی تو بات ہی چھوڑ دیں، اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہم نے کون سا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ دہشت گردی کی حمایت نہ تو ایک نظریہ کے طور پر، نہ ہی ایک قوم کے طور پر اور نہ ہی ایک عقیدے کے طور کرتا ہے۔ لیکن کیا تشدد کے خلاف ایک ذاتی نظریہ قائم کر لینا ہی کافی ہے؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔
9/11 کے بعد دہشت گردی کی ایک سیاسی فلسفہ کے طور پر مذمت کرنا ہی مسلم علماء کی اولین ذمہ داری تھی۔ انہیں اس طرح کے حملوں کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے ذاتی عقائد سے قطع نظر واضح طور پر غیر مسلم قرار دینا چاہیے تھا۔ جس طرح انہوں نے مسلم ممالک میں سور کے گوشت کے استعمال پر اپنے متفقہ موقف کا اظہار کیا تھا اسی طرح انہیں ریاستوں سے ان شرپسند عناصر کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی سفارش کرنی چاہیے تھی، اور عام لوگوں سے مشکوک تنظیموں کی فنڈنگ کو روکنے اور جہادیوں کے ساتھ ہمدردی ختم کرنے کی درخواست کرنی چاہئے تھی۔ اسلام انہیں بنیاد پرستی کو خارج کرنے کے لیے کافی ثبوت فراہم کرتا ہے۔ یقیناً، غلط طریقے سے اس کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے، لیکن خوارج کی منظم شورش سے لیکر حسن ابن صبا سے تربیت یافتہ قاتلوں تک مسلم معاشروں نے اپنی پوری تاریخ میں تشدد اور انتہا پسندی کے اس نظریہ کے خلاف ایک محاذ قائم کیا ہے۔ وہ آج بھی اپنے ایمان کے ساتھ کوئی سمجھوتا کیے بغیر ایسا کر سکتے ہیں۔
بہر حال، اس معاملے پر ایک واضح موقف اختیار کرنے والے چند علماء کرام کے سواء اکثر علماء نے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اگر کہیں انہوں نے کوئی مذمت کی بھی تو اس میں وضاحت نہیں تھی، ان کے پیغام پر تنازعات پیدا ہوئے اور ان کی آواز سرد مہری کا شکار تھی گو کہ خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والے افراد انسان ہی نہیں تھے۔ ان کے خاموش اور متنازعہ فیہ ردعمل کا ہی نتیجہ تھا کہ 5.8 بلین غیر مسلم آبادی نے جو کہ پوری دنیا کی تقریبا 83 فیصد آبادی ہے یہ یقین کر لیا کہ اسلام دہشت گردی کو اگر چہ کھلے طور پر فروغ نہیں دیتا لیکن کسی نہ کسی طرح اس کی اجازت ضرور دیتا ہے، اور یہ ایک ایسا الزام ہے کہ جس کا ہم مذہبی بنیادوں پر اب تک دفاع نہیں کر سکے۔ یہ ہمارے علماء کی بصیرت کی ناکامی کی ایک مثال ہے۔
مسلم ممالک میں حکمران اشرافیہ کو ہماری دفاع کی کوششوں میں اہم معاون ہونا چاہیے تھا۔ تاہم، انہوں نے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے صورت حال کا غلط فائدہ اٹھایا۔ دوہری چال چلتے ہوئے انہوں نے میز پر امریکی موقف کی تو حمایت کی لیکن انہوں نے اندر ہی اندر باغیوں کو بااختیار بنانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس مکاری سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟ ہمیشہ کی طرح، ان کا سب پہلا مقصد اپنی غیر جمہوری حکمرانی کو پھیلانا یا جمود کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو مستحکم کرنا تھا۔ اور ان کا دوسرا مقصد: دنیا میں امیر ترین ممالک سے زیادہ سے زیادہ رقم نچوڑنا تھا۔
صرف مذہبی علما یا ریاست کے حکام ہی نہیں بلکہ مسلم معاشروں نے بھی دہشت گردی سے تقریباً بے اعتنائی برت کر اپنے دامن کو داغدار کیا ہے۔ سراسر نفرت کی بنیاد پر ان میں سے کچھ لوگوں نے امریکی سرزمین پر حملے کا تو جشن بھی منایا۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ جو تلوار ان کے دشمنوں کے گلے کاٹتی ہے وہی تلوار ایک دن خود ان کے بچوں کی گردن کو بھی کاٹے گی اور اس کا نتیجہ مستقبل میں یہ ہوا کہ 2007 سے لیکر اب تک چالیس سے پچاس ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔ ہم دشمنی میں اس قدر اندھے ہو چکے تھے کہ ہم اپنے حقیقی دشمن کا اس وقت بھی مقابلہ نہ کر سکے جو 16 دسمبر 2014 تک ہماری نام کے نیچے طاقتور ہوتا رہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس کے خلاف محاذ قائم کرتے ہیں یا اسے ہندوستان کی ایک سازش کہہ کر پھر اس موقع کو گنوا دیتے ہیں۔
سید کامران ہاشمی امریکہ کے فری لانس کالم نگار۔
http://www.dailytimes.com.pk/opinion/02-Jan-2015/how-do-we-protect-islam-from-terrorists
URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/how-protect-islam-terrorists/d/100812
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/how-protect-islam-terrorists-/d/101223