New Age Islam
Tue Feb 11 2025, 01:49 AM

Urdu Section ( 14 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tablighi Jamaat and Social Aspect of Religion تبلیغی جماعت اور دین کا معاشرتی پہلو

 

سید جمال الدین وقار

تبلیغی جماعت کو کارکنوں کی تعداد اور جغرافیائی پھیلاؤ کے لحاظ سے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک  کہا جاتاہے ۔ یہ جماعت ہر اس ملک میں متحرک  ہے جہاں مسلمان کسی بھی  قابل لحاظ تعداد میں بستے ہیں۔ اس کی بنیاد 1920 میں شمالی بھارت  کے  علاقے میوات میں رکھی گئی تھی اور اس نے عامۃ الناس سطح پر اسلامی تعلیمات سے آگاہی  اور شعور کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ چند سال قبل بمبئی میں میری ملاقات چند تبلیغی بھائیوں سےہوئی جنہوں نے مجھے تبلیغی کام کے لئے کچھ  وقت نکالنے کی ترغیب دی۔ آئندہ سالوں میں  ، میں نے کئی تبلیغی دورے کیے  اور دور  دراز دیہات  اور قصبوں کا سفر کیا جہاں  میں نے ایسی مسلمان برادریاں بھی دیکھیں جو اسلام کے متعلق  کچھ بھی نہیں جانتی تھیں ۔ کچھ ایسے مسلمان بھی مجھے ملے جو قرار شہادت کے بنیادی  عقیدے یعنی ‘ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ ’ سےبھی واقف نہیں تھے ۔ تبلیغی بھائیوں کے زیر اثر ان مسلمانوں کو بنیاد عقائد مثلاً شہادت، نماز اور روزے وغیرہ کے طریقے کی تعلیم دی جارہی ہے۔ چنانچہ مجھے اس قابل قدر کردار کا احساس ہوا جو تبلیغی  جماعت مسلمانوں کے ان طبقات میں اسلامی شعور پھیلانے کے سلسلے میں ادا کررہی ہے جن تک کسی دوسری مسلمان تنظیم نےابھی تک رسائی اصل نہیں کی۔

تبلیغی جماعت جس بے حد اہم کام میں  مصروف ہے، میں اب اس کی بے حد تحسین  کرتا ہوں ۔ البتہ مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ یہ تحریک اگر اپنے طریق کار میں  چند معمولی تبدیلیا ں پیدا کرلے تو یہ مسلمان کمیونٹی کے معاملات میں پہلے سے زیادہ تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے۔ تاہم میں اس بات کو بھی جانتا ہوں کہ تبلیغی قیادت کے کچھ حلقے کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں او رسمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے مخصوص مفادات پر زد پڑے گی۔

تبلیغی جماعت کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ جماعت کے کارکن بھارت کے اندر اور بیرون ملک  مسلسل متحرک  رہتے ہیں اور اپنے کام کے دوران ان میں ان لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد سے رابطہ قائم ہوتاہے۔ ذرا تصور کریں کہ کارکنوں کے اس نیٹ ورک کو اگر بنیادی اسلامی عقائد اور اعمال کے ساتھ ساتھ  عمومی معاشرتی  شعور، جدید تعلیم خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم اور معاشرتی  ہم آہنگی کے تصورات کے فروغ کے لیے بھی استعمال کیا جائے تو کس قدر عظیم الشان اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ لیکن  جماعت کے کارکن ، اس کے بر خلاف ، ایسا کوئی کام نہیں کرتے۔ بنیادی عقائد کی تبلیغ کے علاوہ ان کے پاس اپنی گرفت میں آنے والے سامعین کو تخیلاتی کہانیاں  اور من گھڑت قصے، جن کی نسبت وہ بے بنیاد طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کردیتے ہیں، بے تکان سناتے چلے جانے کے سوا کوئی کام نہیں ۔ ‘‘ فضائل اعمال’’ کے نام سے تبلیغی جماعت کی بنیادی نصابی کتاب جسے ممتاز تبلیغی عالم مولانامحمد ذکر یا نے تصنیف کیا ہے، کمزور اور موضوع روایات سے بھری پڑی ہے او ربہت سے مسلمان علما اس کے متعلق تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔

‘‘ فضائل اعمال ’’، جسے بہت سے تبلیغی حضرات زبانی تو عملاً ضرور قرآن مجید سے زیادہ بڑی اتھارٹی سمجھتے ہیں، عمومی طور پر اس دنیا سے نفرت اورکراہت  کا پیغام دیتی ہے۔ تبلیغی  کارکنوں کی زبان سےیہ بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ ‘‘ دنیا کی مثال ایک بیت الخلا یا قید خانے کی ہے۔’’ وہ  بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ ‘‘ ان کی گفتگو کاموضوع یا تو وہ چیزیں  ہوتی ہیں جو اوپر آسمان پر ہیں  یا وہ  جو زمین کےنیچے قبر میں ہیں۔ درمیان کی دنیا کےبارے میں وہ کوئی بات نہیں کرتے’’۔ دوسرے لفظوں میں تحریک  کا عمومی جذبہ  ایسا ہے جو دنیا سے بے زار  رہبا نیت کو فروغ دیتا ہے جس کی قرآن  مجید میں صریحاً ممانعت کی گئی ہے۔

دنیا سے نفرت اور کراہت کا نتیجہ  تحریک سے وابستہ افراد میں دوسرے لوگوں کی تکلیفوں کے بارے میں بے حسی  کی صورت میں نکلتا ہے ۔ تبلیغی کا رکن جماعت کے پیدا کردہ مزاج کے باعث لوگوں کی تکالیف اور پریشانیوں  کو اللہ کی طرف سے ان کے گناہوں کی سزا قرار دے کر انسانی مصائب کو کم  کرنے میں ہر قسم کی ذمہ داری سے بآسانی بری الذمہ ہوجاتےہیں ۔ نیز اس طریقے سےمعاشرتی ظلم اور جبر کےاصل اسباب سے بھی توجہ ہٹادی جاتی ہے اور اس طرح ظلم و جبر کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط تر کردیے جاتےہیں ۔ مثال کے طور پر میں نے بہت سے تبلیغی حضرات سے سناہے کہ وہ فلسطین میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل و غارت کو اسلامی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔ صہیونی توسیع پسندانہ عزائم کے مقابلے کے لیے تبلیغی  کارکنوں کے پاس ایک ہی سادہ حل ہے:  اگر فلسطینی مسلمان نمازیں  ادا کرنا، سنت کے مطابق مسواک سے  دانت صاف کرنا اور تبلیغی دوروں پر باقاعدگی سے جانا شروع کردیں تو ان کے سارے دلدر فوراً دور ہوجائیں گے’’۔ چنانچہ اس پر کوئی تعجب نہ ہوناچاہئے کہ جہاں اسرائیل میں دوسری اسلامی تحریکوں کو سختی سے دبا یا جاتاہے ، اسرائیلی حکومت تبلیغی جماعت سے چشم پوشی کرتی ہے جو غالباً نا دانستہ طور پر مسلمانوں کے مابین بےحسی  اور باہمی لاتعلقی کو فروغ دے رہی ہے۔

یہ رویہ اس قدر گہر ا ہے کہ بالکل مقامی سطح پر بھی ، جہاں مصائب کے ازالہ کے لیے مداخلت  سے کسی کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں  ہوسکتا ، میں نے تبلیغی کارکنوں کو مکمل طور پر الگ تھلگ اور لا تعلق  پایا ہے۔ استثنائی مثالیں  موجود ہیں  ، لیکن ان سے عمومی صورت حال ہی کی توثیق  ہوتی ہے۔ میں اپنی بات کو واضح کرنے کےلئے نئی دہلی  کی بستی نظام الدین میں واقغ تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز کی مثال دوں گا۔ اس مرکز کے باہر جسمانی معذوروں ، کوڑھ  کے مریضوں اور نشے کے عادی لوگوں کا ایک جم غفیر درد انگیز طور پر بھیک مانگ رہاہوتاہے ۔ میں نے ایک ممتاز تبلیغی  رہنما سے ، جو اپنا زیادہ تر وقت مرکز میں گزارتے ہیں ، پوچھا کہ تبلیغی  رہنما اپنے دروازے پر پڑے تکلیف سےبے حال ان لوگوں کی مدد کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں بالکل ہی بدھوں ہوں اور کہا : ‘‘ کیسا احمقانہ سوال ہے! تم دیکھتے نہیں کہ ہم ان لوگوں کو دنیا کی سب سے قیمتی دولت سے بہرہ یاب کررہے ہیں؟ ہم انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات سکھا رہے ہیں جو انہیں مرنے کے بعد جنت میں لے جائیں گی۔ وہاں انہیں ہر قسم کی نعمتیں میسر ہوگی ، وہ بڑے بڑے محلات میں بے شکار خادموں کے ساتھ رہیں گے اور ہزاروں حوریں ان کے حبالہ نکاح میں ہوں گی۔ اس سے بڑی دولت انہیں کوئی  کیا دے سکتا ہے؟ ’’

میں نے ان کی جوش اور غضب سےبھر پور تقریر کو اطمینان سے سنا اور پھر انہیں قرآن مجید کی چند آیات  اور دو تین حدیثیں یاد دلائیں جن میں  کہا گیا ہے کہ غریبوں کو آسمانی نعمتوں کامثردہ سنانا اور جنت میں خالی تخیلاتی محل بنانا کافی نہیں بلکہ مادی  لحاظ سے ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے بے لحاظی سےمیری بات کاٹ دی اور کہا : ‘‘ تم چاہتے ہو کہ ہم ان کے لیے اسکول کھول لیں؟  انہیں کاروبار شروع کرنے میں مدد دیں؟ یہ سب کام مسیحی مشنریاں کرتی ہیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ ان سب چیزوں کی کوئی  اہمیت نہیں ۔ ہم انہیں اگلے جہان کی دولت سےنواز رہے ہیں جس کے مقابلے میں وہ سب کچھ جس کی مسیحی مشنریاں پیش کش کرتی ہیں، محض ترس کھا کر کچھ مدد امداد کردینے ( Pathetic Pittance ) کی حیثیت رکھتا ہے۔’’ حقیقی دنیا میں غریبوں کے مصائب سےمکمل بے حسی  کا جواز ثابت کرنے کے لیے اس سے زیادہ ذہانت آمیز کوئی دلیل نہیں گھڑی جاسکتی ۔

تبلیغی حضرات میوات کے علاقے کو ، جہاں  سے تحریک کا آغاز ہوا، اپنی کامیاب ترین تجرباتی  زمین سمجھتے ہیں ۔ میوات جو کہ میو قبیلے کاعلاقہ ہے، ثقافتی لحاظ سے ایک منفرد علاقہ ہے جس میں ہریانہ کےدو ضلعوں گر گاؤں اور فرید آباد اور راجستھان کے دو ضلعوں الور اور بھارت پور کے کچھ حصے شامل ہیں۔ اس علاقے میں تبلیغی جماعت 1920 کی دہائی سےمتحرک ہے۔ جماعت کی محنت کےنتیجے میں میوقوم میں کافی تبدیلی آچکی ہے ۔ وہ بے حد نمایاں غیر اسلامی رسم و رواج اور اعتقادات کو ترک کر چکے ہیں اور علاقے میں بہت سی مسجدیں اور مدرسے قائم ہوچکے ہیں ۔ یہ سب اچھے نتائج ہیں اور بے شمار تبلیغی کارکنوں کی طویل ، صبر آزما اور ان تھا جد وجہد کا نتیجہ ہے۔

تاہم تبلیغی تحریک اگر میو قوم میں مذہبی سطح پر بعض بڑی اصلاحات لانے میں کامیاب ہوئی ہے تو سماجی سطح پراس کی کامیابیاں کم متاثر کن ہیں۔ میو عورتیں  آج بھی کھیتوں میں مویشیوں کی جگہ کام کرتی ہیں، کم و بیش تمام میو عورتیں جائیداد میں اپنے جائز حق سے محروم رہتی ہیں ، جہیز کی لعنت عام ہے، میو قوم میں شرح خواندگی 10 فیصد ہے اور 100 میں سے صرف 2 میو لڑکیاں خواندہ ہیں۔ پوری کمیونٹی مجموعی لحاظ سے بے حد غربت زدہ ہے۔ اس قوم  کی قابل رحم حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے کےبجائے تبلیغی حضرات نے دنیاوی معاملات سے اپنی نفرت کی وجہ سےاسے مزید خراب ہی کیا ہے۔ حالیہ سالوں میں محدود تعداد میں کچھ  این جی اوز  نے تو میوات میں خواندگی اور معاشی  ترقی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن تبلیغی  کارکنوں  نے ایسا  کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ میوات  کے تبلیغی کارکن اکثر یہ بات کہتےسنائی دیتےہیں کہ جب میو لوگ غریب اور نا خواندہ تھے تو اس وقت  نیک اور پرہیز گار تھے لیکن اب جبکہ ان میں  سے کچھ لوگوں نے اپنی مال صورت حال بہتر بنالی ہے، وہ خدا  کو بھول گئے ہیں ۔ یہ بات با لکل درست ہوگی اور مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اس سے یہ بات  بھی واضح ہوتی ہے کہ تبلیغی  حضرات دین کو کوئی ایسی چیز سمجھتے ہیں جو بنیادی  طور پر دنیا کے مخالف ہے،  جب کہ یہ خیال میری رائے میں خود اسلام اور عام دنیاوی معاملات کو دیکھنے کا قطعی  طور پر غیر اسلامی زاویہ نگاہ ہے۔

میرے فہم کے مطابق اسلام غریبوں  کی خدمت پر بہت زیادہ زور دیتاہے ۔ صرف یہ نہیں کہ انہیں اسلام کی خوبیاں  اور جنت کی نعمتیں سنا دی جائیں، خاص  طور پر حوریں جن سے تبلیغی حضرات کو خبط  کی حد تک دلچسپی  ہے،بلکہ مادی لحاظ سے بھی ان کی مدد کی جائے ۔ یہ اپنے پیروکاروں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے حقوق بھی پوری کریں اور بندوں  کے حقوق بھی ادا کریں ۔ مجھے  یقیناً اعتراف کرناچاہیئے کہ تبلیغی حضرات  حقوق اللہ کی تبلیغ میں زبردست خدمت انجام دے رہے ہیں ، لیکن حقوق العباد کو انہوں نے مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ  وہ دوسروں کی مدد کرنےکے فضائل بیان کردیتے ہیں ، لیکن اس عملاً اس قسم کی کوئی خدمت سر انجام نہیں دیتے ۔ آپ تصور کریں  کہ اگر نظام الدین دہلی مرکز میں تبلیغی حضرات ایک ماڈل اسکول قائم کرلیں اور اس میں اسلامی اور عصری تعلیم دینا شروع کردیں یا غریبوں کے لیے ایک ہسپتال قائم کردیا جائے یا بے روزگار لوگوں کے لیے صنعتی تربیت کا کوئی مرکز  بنا دیا جائے تو یہ ایک تجربہ  عالمی سطح پرکن اثرات ونتائج کا حامل بن سکتا ہے ۔ وہ لاکھوں تبلیغی کارکن جو ہر سال نظام الدین مرکز میں آتے ہیں، اسلام کی سماجی اخلاقیات کو عملی صورت میں دیکھیں گے اور اس سے ان کو ترغیب ملے گی کہ وہ واپس اپنے  علاقوں میں جاکر اسی طرح کے منصوبے شروع کریں ۔ تاہم جیسا کہ میں نے شروع میں عرض  کیا ہے، نظام الدین کے تبلیغی رہنما اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے  جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان پر اپنے بالکل قریب تڑپتی اور سسکتی انسانیت کے دکھوں کا سرے سےکوئی اثر ہی نہیں  ہوتا ۔

جہاں تک میں نے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا ہے،  میں اس بات کا شدت سےقائل ہوں کہ جنت کاراستہ صرف مسلسل دعاؤں اور ( تبلیغی انداز میں)  مناجات کرنے میں نہیں ہے بلکہ فرض  رسوم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ  غریبوں اور ضرورت مندوں کی مادی اور روحانی ضروریات کے لیے  جد و جہد کرنے میں ہے۔ اس سےمیری مرادیہ  نہیں  کہ غریبوں  کو خیرات دے دی جائے۔ یہ طریقہ غربت کے خاتمے میں بالکل معاون نہیں بلکہ اس کو مزید پختہ  کردیتا ہے ۔ غریبوں کی حقیقی خدمت یہ ہے کہ ان کے ساتھ تعاون کرکے انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے تاکہ وہ مستقبل میں اپنے سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کی خدمت کے قابل ہوسکیں ۔ لیکن یہ منطق تبلیغی جماعت کے ذہنی مزاج کے لیے با لکل اجنبی ہے ۔ جیسا کہ بہت سےتبلیغی سمجھتےہیں ، اگر کوئی شخص پابندی سےتبلیغی دورے کرتاہے، لمبی داڑھی رکھ لیتا ہے ، مسلسل تسبیح کے دانے گھماتا رہتا ہے اور سنت کے مطابق مسواک سے دانت صاف کرتا ہے تو جنت میں اس کا داخلہ پکا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ذاتی پسند اور نا پسند کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے چند ظاہری اعمال کی نقل کرکے وہ جنت میں اپنی جگہ پکی کررہے ہیں ۔ ایک  مثال لیجئے  ۔ حال ہی میں مجھے پاکستان کے ایک تبلیغی  مصنف   کی ایک کتاب دیکھنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے کسی ثبوت کےبغیر یہ بلند بانگ دعویٰ کیا ہے کہ اگر کوئی شخص  پابندی سے تبلیغی  جماعت کے دوروں پر نکلتا رہے تو جنت میں اس کا داخلہ یقینی ہے جہاں ، دوسری لذتوں کے علاوہ، اسے تین لاکھ  حوروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملے گا۔ اس  طرح کی گھٹیا ذہنی رشوتیں تبلیغی  جماعت سے وابستہ ہونے والے لوگوں کو باقاعدگی سے دی جاتی رہتی ہیں  اور ایک لحاظ  سے دیکھیں تو اس  سے جماعت کے اس قدر و سیع پیمانے پر فروغ کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے۔

تبلیغی حضرات کے نزدیک بنیادی فرائض کی ظاہری رسوم کی مسلسل ادائیگی سے جنت میں داخلہ یقینی ہوجاتاہے ۔ جنت جب اس طرح آسانی سے مل رہی ہوتو فطری طور پر بہت کم لوگ غریبوں اور مجبور و مقہور لوگوں کے لیے کچھ کرنے میں دلچسپی لیں گے جو کہ میری رائے میں دونوں جہانوں میں اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا حقیقی  ذریعہ ہے۔ قرآن مجید بار بار اہل ایمان سے یہ کہتاہے کہ نجات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اتباع میں  مضمر ہے۔ تبلیغی حضرات اس سے اختلاف نہیں کرتے لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو محض چند ظاہر ی اعمال تک محدود کردیتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ بس ان کی پیروی کرنے سے آدمی سیدھا جنت میں جا سکتا ہے ۔ چنانچہ تبلیغی پمفلٹوں اور کتابچوں میں اس بات کی اہمیت  بے تکان اجاگر کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے کیسے تھے، مسکراتے کیسے تھے، دھوتے کیسے تھے ، دانت کیسے صاف کرتے تھے، جوتے کیسے پہنتے اور اتارتے تھے، مونچھیں  کیسے تراشتے اور داڑھی کو کیسے بڑھاتے  تھے وغیرہ ۔ یوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے دائرے میں صرف  یہی  چند شخصی اعمال آتے ہیں ۔سنت کو ان اعمال تک محدود کرکے اور اس کی محض ظاہری شکل میں محصور کر کے وہ سنت کو اس کی اصل اور حقیقی روح سےمحروم کردیتےہیں۔

میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ تبلیغی  قیادت میں خود تنقیدی اور خود احتسابی یا اپنا  طرز عمل  تبدیل کرنے پر آمادگی کی کوئی علامات پائی جاتی ہیں ۔ چونکہ جماعت کاطریق تبلیغ اور اس کا بنیادی نصاب یعنی ‘‘ فضائل اعمال ’’ اس کی تعارفی خصوصیات بن چکی ہیں او رانہوں نے جماعت کا ایک مخصوص امتیازی تشخص قائم کیا ہے، اس لیے بالکل واضح  طور پر تبلیغی قیادت جماعت کے تشخص کے کمزور پڑنے کے ڈر سے اس میں کوئی قسم کی تبدیلی قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ۔ اس سےمآل کار خود ان کی اتھارٹی کا دعویٰ کمزور ہوجائے گا۔ تبلیغی کارکن اور واعظ  با صرار یہ کہتے ہیں کہ یہ  طریق تبلیغ کسی انسان کی ایجاد نہیں بلکہ  اللہ تعالیٰ کی جانب سےالہام کے ذریعے سے براہ راست بانی جماعت مولانا محمد الیاس علیہ الرحمہ کو سمجھا یا گیا ۔ اس وجہ سے ان کا اصرار ہے کہ اس میں کسی تبدیلی کامشورہ دینا اللہ کی مرضی او رحکم کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اس طریقے سے وہ ہر قسم کی تنقید ، اور  اصلاح کی دعوت سے پیچھا چھڑا لینا چاہتے ہیں ۔

اپنے بے حد مخلص او رمحنتی تبلیغی بھائیوں کو میرا مشورہ ہے کہ آپ مسلمانوں کو اسلام کے بنیادی عقائد کی تعلیم دینے کے زبردست کام میں بے  شک لگے رہیں کیونکہ بہت کم مسلمان یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں ، لیکن  جیسا کہ قرآن مجید ہمیں بار بار ترغیب دیتا ہے، اپنی عقل و فہم کو بھی استعمال کیجئے او رکوئی کام صرف اس وجہ سے نہ کرنا شروع کر دیجئے کہ اس آپ کے بڑے ( تبلیغی  اصطلاح میں ‘‘بزرگ’’) کرتے ہیں ۔ اس کی صحت کو قرآن مجید کی روشنی  میں پرکھیے ۔ اپنی رہنمائی کا ماخذ قرآن مجید کو بنائیے نہ کہ کسی انسان کی لکھی ہوئی کتاب کو ( خواہ وہ ‘‘فضائل اعمال ’’ کے مصنف کی طرح کوئی شیخ الحدیث ہی کیو ں نہ ہو)۔ تب آپ پر واضح ہوگا کہ اللہ کی رحمت کے حصول کا صحیح  طریقہ دعا اور عبادات کا ذوق و شوق بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ  ساتھ غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا بھی  چاہئے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، خدا کی رحمت کے حصول کاذریعہ ہے۔

25 جون ،  2005  بشکریہ : روز نامہ جنگ

URL: https://newageislam.com/urdu-section/tablighi-jamaat-social-aspect-religion/d/100005


Loading..

Loading..