سید عماد الدین اسد
24 فروری، 2012
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام)
خدمت خلق ، سادہ الفاظ میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے اعمال کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ ہر مذہب میں خدمت خلق کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ اسلام اس سے مستثنی نہیں ہے، در حقیقت اسلامی احکامات صدقہ کے عمل کو واجب قرار دیتے ہیں۔
تاہم، مغرب میں بہت سے لوگوں کے لئے، خدمت خلق کا تصور ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے جس کا اسلام کے ساتھ منسلک ہونے کا امکان ہے۔ رحم دلی، ہمدردی، رحم، سخاوت اور انسانوں سے محبت کے بجائے عام مغربی تشدد، دہشت گردی، عدم روداری ، استبدادیت اور خواتین کے ساتھ جبر و تشدد وغیرہ جیسی خصوصیات کو اسلام کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں، اس سنگین غلط فہمی کے دو وجوہات ہیں: قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روایات سے ان کی نا آشانائی ، اور بعض مسلمانوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ۔ دراصل اسلامی نصوص اچھے اعمال اور اپنے ساتھی انسانوں کی خدمت کرنے کے بے شمار احکامات پر مشتمل ہیں ۔
قرآن کہتا ہے: "بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص .........اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے ": (177 :2)۔ "پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اﷲ کی رضامندی کے طالب ہیں،"(30:38)
اسی طرح، خدمت خلق کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف اقوال ہیں "تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک اعتماد حاصل نہ کر لو اور اس وقت تک تم اعتماد حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔ تم ان لوگوں پر رحم کرو جو زمین پر ہیں تو تم پر اس کے ذریعہ رحم کیا جائے گا جو آسمان پر ہے ۔ خدا اس سے رحم و کرم کا معاملہ نہیں کرتا جو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ درد مندی نہیں رکھتا ۔ "
"دو افراد کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے، اور اپنے چوپایوں اور سا ز و سامان سے کسی انسان کو سہارا دینا صدقہ ہے ، اور صاف الفاظ، جس کے لئے انعامات ہیں اور کسی سائل کا جواب نرمی کے ساتھ دینا صدقہ ہے، اور ہر وہ قدم جو نماز کی طرف بڑھائی جائے صدقہ ہے اور ایسے پتھر اور کانٹوں کو راستے سے ہٹانا جو انسانوں کے لئے تکلیف دہ ہو صاقہ ہے "۔
اسلام میں خدمت خلق کی دو قسمیں ہیں واجب اور اختیاری، واجب خدمت خلق زکوة اور زکوة الفطر یا فطرانہ پر مشتمل ہےجبکہ اختیاری اور رضاکارانہ طور پر خدمت خلق صدقہ اور اور وقف کے اداروں کو شامل ہے ۔
زکوة مال و دولت کا وہ حصہ ہے جو مستفید ہو نے والوں کے ایک متعین زمرے کو دینا مسلمان پر واجب ہے، اگر اس کے اثاثوں کی قیمت ایک معین حد سے زیادہ ہے ۔ زکوة کے مستحقین کا قرآن مجید میں ذکر ہے: بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)"(9:60) ۔ ایک اسلامی ریاست میں زکوة کی وصولی اور اس کی دیکھ بھاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ زکوة الفطر یا فطرانہ وہ صدقہ ہے جس کاادا کرنا ہر اس مسلمان پر ماہ مضان کے آخر میں واجب ہے جس کے پاس ایک مقررہ رقم ہو ۔ زکوة الفطر ہر مسلمان پر نہ صرف اس کی طرف سے لازمی ہے بلکہ ان کی طرف سے سے بھی لازمی ہے جن کا وہ ولی ہے ۔
صدقہ صرف پیسے یا کھانے کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ صدقہ ہر اس عمل کو بھی شامل ہے جو ساتھی انسانوں کے لئے مفید ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ "بھلائی اورخیر کا ہر عمل صدقہ ہے"، اور " صدقہ ہر مسلمان پر لازم ہے ۔ اگر وہ نہیں دے سکتا اس لئے کہ اس کےپاس نہیں ہے تو اسے کام کرنے دیں تاکہ وہ خود کی مدد کر سکے اور صدقہ ادا کر سکے، اگر وہ کام کرنے سے قاصر ہے تو پھر اسے کسی ایسے کی مدد کرنے دیں جسے اس کی مدد کی ضرورت ہے ، اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اسے اچھائی سے منسلک ہونے دیں ، اگر وہ یہ بھی نہیں کر سکتا تو اسے کوئی برائی یا دوسروں کا نقصان نہیں کرنا چاہئے یہ اس کے لئے ایک صدقہ کے طور پر لکھا جائے گا "۔
وقف ایک مسلمان کے ذریعہ کسی بھی جائیداد کا کسی ایسے مقصد کے لئے مستقل طور پر وقف کرنا ہے جو اسلامی قانون کے ذریعہ مذہبی، دین داری یا خیراتی طور پر تسلیم شدہ ہو ۔ وقف چیزوں کی ملکیت کی ایسی منتقلی کا سبب ہے جو خدا کی نذر ہو ۔ لیکن جیسا کہ خدا کسی جائداد کے استعمال کرنے یا اس سے لطف اندوز ہونے سے بالا تر ہے ، اس کے منافع انسانوں کے فائدے کی طرف راجع ہیں اور ان کے لئے وقف ہیں ۔
کوئی بھی جائیداد وقف کی جا سکتی ہے۔ وقف کا جواز ہمیشہ کے فائدہ کے امکان کے ذریعہ ثابت ہے جو اس سے ایسے کسی بھی طریقے سے حاصل کیا جائے جس کی وہ صلاحیت رکھتا ہے، یا اسے کسی اور چیز میں تبدیل کر کے ۔ فرق صرف اس وقت پڑتا ہے جب اسے فائدہ مند استعمال میں تبدیل کرنا بالکل نا مناسب ہو اور وہ نذرانہ ناقص ہو جاتا ہے ۔
وقف کے اسلامی اداروں میں انگریزی قانون میں ٹرسٹ سے کہیں زیادہ وسیع تر گنجائش اور مقاصد ہیں۔ وہ ادارے اسلامی ممالک میں اتنے مقبول اور اہم بن گئے ہیں کہ ان میں سے اکثر میں وقف جائیدادوں کی انتظامیہ کے ساتھ نمٹنے کے لئے ایک خصوصی وزارت قائم کی گئی تھی ۔
اسلام غریبوں کی حمایت پر بہت زور دیتا ہے۔ قرآن و سنت واضح الفاظ میں معاشرے کے محروم طبقوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مالداروں کے سپرد کرتا ہے ۔ مسلمانوں کو صرف اپنے ساتھی انسانوں کے لئے ہی بھلائی کرنے کی ہدایت نہیں دی گئی ہے بلکہ انہیں جانوروں کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آنے اور ماحولیات کے تحفظ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
اگر چہ دوسرے مذاہب بھی خدمت خلق کی تبلیغ کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن اسلام زکوة کی شکل میں اسے لازمی بنا کر اور ایک قدم آگے ہے ۔ اسلام نے اسلامی ریاست کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ لوگ اس ذمہ داری کو انجام دے رہے ہیں ۔ لہٰذا زکوة نہ ادا کرنے والانہ صرف یہ کہ خدا کی ناراضگی کا سزاوار ہے بلکہ اس کے خلاف ریاست کے ذریعہ بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر خدمت خلق کو ایک قانونی فرض بھی بنا دیا گیا ہے۔
مضمون نگار ہارورڈ لاء اسکول کے فاضل ہیں اور یو ٹی ایم لاہور کے اسکول آف لاء اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر ہیں ۔
ماخذ: ڈان، کراچی
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/philanthropy-islam/d/6712
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/philanthropy-islam-/d/13167