سید عزیز حیدر
سعودی عرب سے آئے ایک کے بعد
ایک تین امام حرم کے دارالعلوم دیوبند اور ندوے کے دوروں پر بحث ختم ہونے کا نام نہیں
لے رہی تھی کہ امریکی سفارت خانے کے سیاسی مشیر جیمز پلاذمین اور ان کے معاون ساتھی
دنیش دوبے کے حال میں ہوئے دیوبند کے دورے نے ایک نیا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔
وہابيوں کے علاوہ دیگر فرقوں
سے وابستہ مسلمان دعوی کر رہے ہیں کہ سعودی اماموں کے دورے اور پھر دو سینئر امریکی
سفارت خانے حکام کے دیوبند دورے کا جواز ملک کے مؤثر اور امیر وہابيوں اور دوسرے فرقوں
جیسے اکثریت بریلويو اور شیعوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا ہے اور حکومت کو یہ باور
کرانا ہے کہ یہ وہابی تنظیم تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔
یہ قابل ذکر ہے کہ امریکی
سفارت خانے کے سیاسی مشیر جیمز پلاذمین اور دنیش دوبے (جو سفارت خانے میں مسلم معاملات
کو سنبھالتے ہیں) نے گزشتہ ہفتے دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا جس میں انہوں نے قریب
ڈیڑھ گھنٹے تک دیوبند کے ناظم عبد القاسم نعمانی،
عبد الخالق سمبھلی اور کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ بند دروازے میں میٹنگ کی۔ اس کے بعد
انہیں دارالعلوم کے دورے پر لے جایا گیا اور انہوں نے انتظامیہ اور خدمات کا معائنہ
کیا۔ بعد میں دونوں سہارنپور واقع مظاہر العلوم مدرسہ کے دورے پر گئے۔
مہمانوں کے جانے کے بعد دیوبند
کے نائب منتظم مولانا عبد الخالق مدراسی نے میڈیا کو بتایا کہ ان دونوں لوگوں کے دورے
کا واحد مقصد دارالعلوم کا دورہ کرنا اور اس کی انتظامیہ سے ملاقات کرنا تھا۔ انہوں
نے بتایا کہ امریکی سفارت خانے سے آئے دونوں لوگوں سے واضح الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ
امریکہ کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر مسلم ممالک سے متعلق پالیسی، غلط ہے اور امریکہ
اپنے کو جمہوریت، انصاف اور امن کا حامی ضرور کہتا ہو لیکن اس کے بیان اور عمل میں
تضاد ہے۔ یہ بتایا گیا کہ ناظم عبد القاسم
نعمانی نے ان دونوں سے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے
کے نام پر اسپتالو اور اسکولوں میں ہزاروں معصوموں کو مار دیا۔ عراق کو تباہ کرنے کے بعد وہ دیگر مسلم
ممالک کو کمزور کرنے یا انہیں قابو میں کرنے کا ناپاک منصوبہ بنا رہے ہیں۔ نائب ناظم نے كہا کہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی جانب سے دارالعلوم
دیوبند نے دونوں مہمانوں کو بتا دیا کہ امریکی پالیسیاں مسلم مخالف ہیں اور ان پالیسیوں
کی وجہ سے وہ امریکہ سے کسی بھی طرح کا رشتہ نہیں رکھنا چاہتے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ
ان دونوں مہمانوں کی درخواست پر ہی میڈیا کو دور رکھا گیا تھا۔
لیکن سب لوگ اسے اس نظر سے
نہیں دیکھ رہے جیسا دکھایا جا رہا ہے۔ ممبئی کے صحافی رئیس خاں اس دورے پر کئی سوال
اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:'' یہ ہضم کرنا مشکل ہے کہ امریکی سفارت خانے سے متعلق یہ
دونوں افسران بغیر کسی ایجنڈا کے اور صرف دیوبند کی عمارت اور انتظامیہ کا معائنہ کرنے
آئے تھے۔'' اس کے علاوہ سوال یہ اٹھ رہے ہیں کہ 90 منٹ کی بند دروازے میں ہوئی میٹنگ
میں یہ دونوں مہمان دیوبند کے علماء کے منہ سے صرف ان کی بے اطمینانی اور ان کے الزامات
سنتے رہے اور پھر عمارت اور انتظامیہ کا معائنہ کر چلتے بنے۔ پھر، صرف اگر یہی سب کچھ
کہنا تھا تو بہتر ہوتا کہ ناظم اور ان کے ساتھی عوام کے سامنے ان مسائل کو اٹھاتے۔
میڈیا کو دور رکھنے کی خصوصی درخواست اور علماء کے اس پر متفق ہو جانے پر بھی سوال
اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس دورے کا مقصد اور مکالمے کے حوالے سے کئے گئے دعوے جب ہی میڈیا
کو بتائے گئے جب اسے دورے کے بارے میں پتہ چلا اور اس نے علماء کے سامنے سوال رکھے۔
اس سفر نے ملک کی اکثریت بریلوی فرقے کو غم اور غصے سے بھر دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ
وہابی ملک میں مسلم آبادی کا صرف دس فیصد ہیں لیکن وہ حکومت ہند پر یہ جتانا چاہتے
ہیں کہ وہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کے رہنما ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ ہندوستانی حکومت
کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سعودی حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے، جو دارالعلوم
اور ندوا جیسی اداروں کی بہت حد تک مالی مدد کرتا ہے۔ سعودی ایجنڈا امریکی ایجنڈے کو
فروغ دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا، وہ کہتے ہیں، اور امام حرم پر بھی یہ الزام لگاتے
ہیں کہ وہ اصل میں سعودی عرب حکومت کی طرف سے تنخواہ پاتے ہیں اور انہیں جو تحریری
طور پر دیا جاتا ہے اس سے الگ ایک بھی لفظ بولنے کی انہیں مناہی ہے۔ اگر وہ واقعی میں
مسلمانوں کی حالت کو لے کر فکر مند ہیں تو وہ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں کے بارے
میں ایک بھی لفظ بولنے سے کیوں گریز کرتے رہے اور لیبیا، مصر، یمن اور بحرین جیسے ممالک
میں مسلمانوں کی موجودہ حالت پر کیوں بیان نہیں دیا، وہ پوچھتے ہیں۔
شیعہ پوائنٹ کے ظہیر زیدی
1987 میں حج کے دوران 400 ایرانی مسافروں کے قتل عام کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
مکہ کے مقدس شہر میں جہاں ایک چينٹی یا ایک مچھر مارنے کو بھی منع کیا گیا ہے ان يرانيو
کو صرف اس لئے گولی سے اڑا دیا گیا کہ وہ'' مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل'' (امریکہ
پر موت، اسرائیل پر موت) کے نعرے لگا رہے تھے۔ سعودی حکومت نے اپنے آقا امریکہ کی خوشی
کے لئے مکہ کی پاکیزگی کے بارے میں اسلامی قانون کو نظر انداز کر دیا اور امام حرم سعودی حکومت کی سرگرمیوں کو
خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔
'' سعودی عرب ہندوستان میں امریکی ایجنڈے کو نافذ کرنا چاہتا ہے اور
دیوبند سعودی حکومت کے حکم کی پابندی کر رہا ہے،'' زیدی کہتے ہیں۔ ہندوستان کے سیکولر کردار کی تعریف کرتے ہوئے زیدی کہتے ہیں کہ یہاں
کعبہ کا امام ایسے میدان میں نماز کی امامت کر سکتا ہے جس کا نام رام کے نام پر رکھا
گیا ہو، لیکن یروشلم میں مسجد اقصٰی میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی جس کی طرف منہ کر کے
مقدس پیغمبر نماز پڑھا کرتے تھے۔
'' میں نے امام حرم سے مسجد اقصی، یروشلیم میں نماز پڑھانے کی درخواست
کی تھی پر وہ اس مسجد پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف بولنے کو بھی تیار نہیں، وہ کہتے
ہیں اور متنبہ کرتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کی چلی تو یہ ہندوستان کے سیکولر کردار کو
بھی ختم کر دیں گے۔
خان کہتے ہیں کہ صدام حسین
اور اسامہ بن لادن دونوں شروع میں امریکی ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ جب وہ سر درد
بن گئے تو امریکہ نے ان سے چھٹکارا پا لیا۔ اب انہوں نے قویت اور سعودی عرب کے طور
پر نئے ایجنٹ پا لئے ہیں۔ یہ ہندوستان کے مفاد میں ہے کہ وہ ایسی طاقتوں کو یہاں طاقتور
بننے کی اجازت نہ دے ورنہ ملک کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بشکریہ: آر این آئی نیوز نیٹ
ورک
URL
for Hindi article: https://newageislam.com/hindi-section/dar-ul-uloom,-deoband-eyes/d/7638
URL: