سید امجد حسین، نیو ایج اسلام
20 ستمبر 2024
1857 کی ہندوستان کی تحریک آزادی میں، ایک صوفی رہنما، مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی، اتحاد، روحانیت، اور انصاف کے لیے ایک مضبوط جدوجہد کے ذریعے برطانوی استعماریت کے خلاف مزاحمت کی ایک مثال بن گئے
اہم نکات:
1. احمد اللہ شاہ کے صوفی پس منظر نے استعماری جبر کے مقابلہ میں، اتحاد اور انصاف کے لیے گہری وابستگی کو فروغ دیا۔
2. اپنے پمفلٹ ’’فتح اسلام‘‘ میں انہوں نے بغاوت کرنے والوں کی حمایت کی اور مزاحمت کو ان کا روحانی فریضہ قرار دیا۔
3. انہوں نے انگریزوں کے خلاف اجتماعی مزاحمت کی وکالت کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ کئی مختلف برادریوں کو اکٹھا کیا۔
4. بڑی بڑی لڑائیوں میں اپنی فوجی حکمت عملی کے ذریعے غیر معمولی قیادت اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔
5. احمد اللہ کی شہادت مزاحمت کی ایک مضبوط علامت بن گئی، جس نے انصاف اور آزادی کے لیے مستقبل کی تحریکوں میں نئی جان ڈال دی۔
-----
مولوی احمد اللہ شاہ کو 2019 میں ڈویژن سطح کی فلیٹلیک نمائش، فیض آباد، اتر پردیش میں خصوصی کور کے ذریعے خراج تحسین۔
------
تعارف
مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی، 1787 میں چنئی میں پیدا ہوئے، 1857 میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے میں ایک غیر معمولی شخصیت بن کر ابھرے۔ ایک قابل احترام اسکالر اور مارشل آرٹسٹ سے، بغاوت کے ایک پرجوش رہنما بننے تک کا ان کا سفر، نوآبادیاتی ہندوستان کے پیچیدہ سماجی و سیاسی منظرنامے کو واضح کرتا ہے۔ اس مضمون میں برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر ان کی زندگی، نظریات، عسکری مصروفیات اور ان کی پائیدار میراث پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
تیلگو مصنف سید نصیر احمد کے مطابق، احمد اللہ شاہ، جن کا اصل نام سید احمد علی خان تھا، چین پٹن (مدراس) کے نواب محمد علی خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ایک متمول سنی مسلم خاندان میں پلے بڑھے، اور آپ مذہبی اور ثقافتی روایات دونوں کے امین تھے، جن سے فیض آباد کی گنگا-جمنی تہذیب کی عکاسی ہوتی تھی۔ ان کی تعلیم و تربیت میں مارشل آرٹس کے ساتھ روایتی اسلامی علوم و فنون بھی شامل تھے، جو انہیں آنے والے ہنگامہ خیز وقت کے لیے تیار کر رہے تھے۔
چھوٹی عمر سے ہی احمد اللہ نے گہری ذہانت اور روحانی اور فلسفیانہ مشاغل میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ ان کے انگلستان، عراق، ایران، اور مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کے سفر نے، جن کا اہتمام نظامِ حیدرآباد نے کیا تھا، ان کے ذہنی افق کو وسیع کیا اور متنوع نظریات کے حوالے سے ان کی سمجھ کو گہرا کیا۔ اس سفر نے نہ صرف ان کے علم میں اضافہ کیا بلکہ ان کے اندر معاشرے میں اپنے کردار کے حوالے سے مقصد کا احساس بھی پیدا کیا۔ ہندوستان واپس آکر، انہوں نے قادریہ صوفی سلسلے کے سید فرقان علی شاہ سے بیعت کی، جس سے ان کے روحانی اور فلسفیانہ نقطہ نظر کو مزید تقویت ملی۔
ایک انقلابی لیڈر
1850 کی دہائی میں، احمد اللہ شاہ نے برطانوی استعماری حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے لوگوں کی حمایت حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ کسی بھی مسلح جدوجہد میں عوام کی شرکت ضروری ہوتی ہے، اسی کے پیش نظر انہوں نے آزادی ہند کی وکالت کرتے ہوئے پورے شمالی ہندوستان میں وسیع پیمانے پر سفر کیا۔ احمد اللہ کا ماننا تھا کہ ایک کامیاب بغاوت کے لیے، سماج کے مختلف طبقات بشمول کسانوں، فوجیوں اور مقامی رہنماؤں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کی ادبی خدمات نے عوامی جذبات کو ہوا دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ احمد اللہ نے فتح اسلام کے نام سے ایک پمفلٹ لکھا، جس میں انہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ اس پمفلٹ میں لوگوں کو نہ صرف مسلح مزاحمت کی دعوت دی گئی، بلکہ استعماری جبر کے خلاف بھی مختلف برادریوں کو متحد کرنے کے لیے، مذہبی جذبات کو ابھارا گیا۔ انہوں نے چپاتی تحریک کے اندر جان ڈالنے میں بھی اہم کردار ادا کیا، جو کہ عوام کے درمیان انگریزوں کے خلاف بڑھتی ہوئی لہر کی علامت تھی۔ اس تحریک میں چپاتیوں کی تقسیم شامل تھی، جو کہ در اصل انقلابی سپاہیوں کے درمیان رابطے کا ایک خفیہ ذریعہ تھا، اور آنے والی بغاوت کا عندیہ۔
ان کی کوششیں ڈھکی چھپی نہ رہ سکیں۔ برطانوی حکام نے انہیں غداری کے الزام میں قید کر دیا، لیکن اس سے انقلابیوں کے درمیان ان کی حیثیت اور بھی دوبالا ہو گئی۔ احمد اللہ کی قید و بند سے ان کی حمایت میں اضافہ ہوا، اور بہت سے لوگوں نے انہیں اس مقصد کے لیے ایک شہید مانا۔ 10 مئی 1857 کو بغاوت شروع ہونے کے بعد، احمد اللہ شاہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ میں ایک سرکردہ شخصیت کے طور پر دوبارہ ابھرے۔
1857 کی بغاوت میں ان کا کردار
جیسے ہی بغاوت کی آگ بھڑکی، احمد اللہ شاہ نے اودھ میں مزاحمت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے نانا صاحب، خان بہادر خان، اور بیگم حضرت محل جیسے بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ مل کر لڑائی کی، اور برطانوی افواج کے خلاف کئی اہم فتوحات میں حصہ لیا۔ ان کی فوجی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت، ان کے اپنے اور مخالفین دونوں تعریف کرتے تھے۔
بغاوت کے ابتدائی مراحل میں، احمد اللہ نے فوجیوں اور شہریوں کے درمیان احترام کا حکم دیا۔ وہ محض ایک فوجی رہنما ہی نہیں تھے، بلکہ ایک متحد کرنے والی شخصیت بھی تھے، جو مذہبی اتحاد اور ثقافتی ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔ ان کی کوششوں نے باغیوں کی اجتماعی شناخت کو مضبوط کرنے میں مدد کی اور مختلف دھڑوں اور برادریوں کے درمیان خلیج کو ختم کیا۔
جارج بروس میلسن اور تھامس سیٹن سمیت برطانوی فوجی حکام نے احمد اللہ کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ سیٹن نے انہیں "عظیم صلاحیتوں کا حامل، بے باک ہمت والا، اور باغیوں میں سب سے بہترین سپاہی" کے طور پر بیان کیا۔ دشمن کا یہ اعتراف، جنگ کے دوران احمد اللہ کی زبردست قائدانہ صلاحیتوں کی تصدیق ہے۔
احمد اللہ کی حکمت عملی لڑائیوں کے دوران، خاص طور پر شاہجہاں پور اور لکھنؤ میں، نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مومنٹم برقرار رکھنے میں کافی اہم تھی۔ چیلنجوں کے وقت میں، ان کی حکمت عملی اور غیر معمولی قائدانہ صلاحیت سے، آزادی کے مقصد سے ان کی وابستگی اجاگر ہوتی ہے۔ انہوں نے کئی کامیاب آپریشنو کی قیادت کی، جس کے نتیجے میں کئی اہم علاقوں پر انقلابیوں کا قبضہ بھی ہوا، جس سے ان کی فوجی صلاحیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
گرفتاری اور شہادت
ابتدائی کامیابیوں کے باوجود بغاوت کا رخ بدلنا شروع ہو گیا۔ لکھنؤ کے سقوط کے بعد، احمد اللہ شاہ شاہجہاں پور واپس چلے گئے، جہاں انہوں نے انگریزوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاہم، نوآبادیاتی قوتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے، مع داخلی اختلاف کے، صورت حال پیچیدہ ہو گئی۔ انگریزوں نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور بغاوت کو کچلنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔
5 جون، 1858 کو، پوائیان کے راجہ جگناتھ سنگھ سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں، احمد اللہ کو دھوکہ دیا گیا۔ انہوں نے راجہ کو بغاوت میں شامل ہونے پر راضی کرنے کے لیے رابطہ کیا تھا، لیکن راجہ کی ہچکچاہٹ ایک المناک تصادم کا باعث بنی۔ احمد اللہ کو جگن ناتھ سنگھ کے بھائی کنور بلدیو سنگھ نے گولی مار دی، اور اس کے بعد ان کا سر قلم کر دیا، جسے غداری کے انعام میں انگریزوں نے 50,000 چاندی کے ٹکڑوں سے نوازا۔ احمد اللہ کے سر کو دوسرے باغیوں کے لیے ایک سنگین انتباہ کے طور پر پیش کیا گیا، جو کہ باغیوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کی علامت تھی۔
احمد اللہ شاہ کے ساتھ غداری اور اس کے بعد ان کی شہادت نہ صرف بغاوت کا نقصان تھا، بلکہ ان کے حامیوں کے حوصلے پر بھی اس کا ایک گہرا دھچکا لگا۔ ان کی موت اس تحریک بغاوت میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، کیونکہ اس سے دوسرے باغیوں میں خوف کا ماحول پیدا ہوا اور بغاوت کے خطرات ظاہر ہونے لگے۔
میراث اور تاریخی اہمیت
احمد اللہ شاہ فیض آبادی کی وراثت، مجاہدِ آزادی اور برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی علامت کی صورت میں، ہندوستان کی تاریخ میں درج ہے۔ مختلف گروہوں کو، اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد کرنے کی ان کی صلاحیت، جبر کے مقابلہ میں اجتماعی کارروائی کی صلاحیت کو واضح کرتی ہے۔ وہ آزادی کے اس جذبے کا ثبوت ہے جس نے 1857 کی بغاوت کو جنم دیا تھا۔
بغاوت کے برطانوی ریکارڈ، خاص طور پر میلسن کی ہسٹری آف انڈین میوٹنی میں، احمد اللہ کا تذکرہ جابجا موجود ہے، جس سے ہندوستان کی جنگ آزادی کی داستان میں ان کی اہمیت کو اجاگر ہوتی ہے۔ 5 جون 1858 کو اپنی شہادت پیش کر کے وہ ایک قومی ہیرو بن گئے، جس سے آنے والی نسلوں کو ان کی آزادی کی جنگ میں تحریک ملی۔ احمد اللہ کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ نوآبادیاتی حکومت کے خلاف جنگ میں لاتعداد افراد نے اپنی جان کی قربانیاں پیش کی ہیں۔
آج کے ہندوستان میں احمد اللہ شاہ کو مزاحمت اور اتحاد کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی اور قربانیوں کو مختلف شکلوں میں یاد کیا جاتا ہے، بشمول ادب، میموریل، اور علمی درسگاہوں کے۔ گنگا جمنی ثقافت کی ان کی داستان، ان تکثیری اقدار کی ایک مثال ہے جو ہندوستانی معاشرے میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
نتیجہ
مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی کی زندگی، ہندوستان میں نوآبادیاتی حکومت کے خلاف لڑنے والوں کی ہمت اور بہادری کی مثال ہے۔ 1857 کی بغاوت میں ان کی قربانیاں نہ صرف ان کی بہادری کی عکاسی کرتی ہیں، بلکہ آزادی کی اس بڑی تحریک کو بھی اجاگر کرتی ہیں، جو پورے برصغیر میں زور پکڑ رہی تھی۔ جیسا کہ ہندوستان میں آزادی کے مجاہدوں کی یاد منانے کا سلسلہ جاری ہے، احمد اللہ کی کہانی انصاف، مساوات، اور بہتر مستقبل کے لیے اجتماعی جدوجہد کی ایک روشن یادگار ہے۔ ان کی میراث تاریخ کا صرف ایک باب ہی نہیں، بلکہ آج کے معاشرے میں سماجی اور سیاسی انصاف کے لیے جاری جدوجہد کے لیے ایک تحریک بھی ہے۔
----
English Article: Maulvi Ahmadullah Shah: A Sufi Voice of Unity and Resistance in 1857
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulvi-ahmadullah-shah-sufi-unity-resistance-1857/d/134455
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism