ثریا بتول علوی
29 نومبر، 2013
انسانی معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے لئے تعلیم و تربیت، علم و آگہی اور شعور بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ طبقۂ نسواں معاشرے کا نصف حصہ ہے لہٰذا اس طبقہ نسواں کی تعلیم و تربیت معاشرے کی صلاح و فلاح کے لئے از بس ضروری اور نا گزیر ہے۔
لفظ تعلیم و تربیت دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ایک تعلیم ، یعنی زندگی گزارنے کے لئے بنیادی اوصاف کا شعور دینا ، سکھانا ، پڑھانا اور معلو مات بہم پہنچانا ہے اور دوسرا لفظ تربیت ہے جس سے مراد پرورش کرنا، اچھی عادات ، یعنی فضائل اخلاق سکھانا اور ذائل اخلاق سے بچانا اور بچوں میں خدا خوفی اور تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ لہٰذا تعلیم اور تربیت دونوں اسلام میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
اسلام نقطۂ نظر
اسلام نے علم اور تقویٰ کو یعنی تعلیم و تربیت کو ابتداء ہی سے بنیادی اہمیت دی۔ شریعت اسلامیہ نے مرد و عورت دونوں پر یکساں حقوق و فرائض عائد کئے ہیں اور دونوں ہی اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لئے یکساں مکلف اور ذمہ دار ہیں ۔یہ واضح امر ہے کہ جب تک اپنے فرائض سے متعلق کما حقہ واقفیت نہ ہو، کوئی اپنے فرائض سے متعلق صحیح طور پر عہدہ بر آ نہیں ہوسکتا ، لہٰذا جب تک علم دین حاصل نہ کیا جائے تب تک دین کے احکام پورا کرنا ناممکن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے حصولِ علم کو مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں لازمی قرار دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
‘‘ ہر مسلمان ( مرد اور عورت) پر علم حاصل کرنا فرض ہے’’۔(طبرانی :10/240)
قرآن کریم اور احادیث ِ نبویہ میں علم کی بے مثال فضیلت بیان کی گئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حصول علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
‘‘ در حقیقت اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں’’۔ (سورہ فاطر:28)
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس کا آغاز بھی لفظ اقراء ( یعنی پڑھو) سے ہوا تھا ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ علم والے لوگوں کا مقابلہ علم سے بے بہرہ جاہل لوگ کیسے کرسکتے ہیں ۔ اس لئے اسلام نے حصول علم کی بہت تاکید کی ۔ مثلاً قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
‘‘ ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں’’ (سورہ الزمر:9)
مندرجہ ذیل ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم حدیث کی متعدد کتب میں موجود ہے:
‘‘ عبادت گزار کے مقابلے میں عالم کو وہی فضیلت حاصل ہے جو چودہویں رات کو چاند کو عام تاروں پر۔’’
‘‘ علماء انبیا کے وارث ہیں، کیونکہ انبیاء نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑ ے بلکہ علم چھوڑا ہے ۔ سو جس نے علم حاصل کرلیا اس نے نبوی ترکہ میں سے و افر حصہ حاصل کر لیا۔’’ ( صحیح ترمذی للالباای :2159)
علم کی اہمیت کے بارے میں بطورِ نمونہ چند آیات اور احادیث پیش کی گئی ہیں جن سے علم کی بے پایاں فضیلت ثابت ہورہی ہے ۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ علم کے جتنے فضائل بیان ہوئے ہیں، صرف اسی عالم کے لئے ہیں جو خود اپنے علم کا پابند ہے، اس پر مکمل عمل کرتا ہے، اس علم کے ذریعے اللہ کی رضا جوئی میں مصروف رہتا ہے ، اس کے اوامر بجا لاتا ہے اور اس کے نواہی سے دور رہتا ہے کیونکہ علم بغیر عمل کے وبال ہوتا ہے۔
اسلام میں خواتین کی تعلیم و تربیت کاخصوصی اہتمام
قبل از اسلام جاہلی معاشروں میں عورت ہر قسم کے حق سے محروم تھی ۔ جہاں عورت زندگی کے حق سے ہی محروم ہو، وہاں اس کے پڑھنے لکھنے کے حق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔مگر اسلام نے جہاں عورت کو اعلیٰ و ارفع مقام دیا ہیں اس پر ایک احسان یہ بھی فرمایا کہ اسے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت میں مردوں کے برابر مکلف قرار دیا ۔ چونکہ شریعتِ اسلامی کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں ، دینی احکام دونوں پر واجب ہیں اور روزِ قیامت مردو ں کی طرح عورتیں بھی ربّ العالمین کے سامنے جواب دہ ہیں لہٰذا عورتوں کے لئےبھی حصولِ علم جو اُن کو بنیادی دینی اُمور کی تعلیم دے اور احکام اسلامی کے مطابق زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھائے وہ ان کے لئے فرضِ عین قرار دیا گیا ۔ فرضِ عین سے مراد یہ ہے کہ اسے سیکھنا لازمی ہے اور اگر عورت یا مرد اس میں کوتا ہی کرے تو وہ عند اللہ مجرم ہے۔
چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء ہی سے خواتین کی تعلیم کی طرف متوجہ فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ البقرہ کی آیات کے متعلق فرمایا :
‘‘ تم خو د بھی ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاؤ’’۔ (سنن دارمی :3390)
تربیت کے لئے اپنی خدمت میں حاضر ہونے والے و فود کو آپ تلقین فرماتے کہ :
‘‘ تم اپنے گھر وں میں واپس جاؤ، اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو ، ان کو دین کی تعلیم دو اور ان سے احکام دینی پر عمل کراؤ۔’’ (صحیح بخاری :63)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
‘‘ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی، ان سے حسن سلوک کیا، پھر ان کا نکاح کردیا تو اس کے لئے جنت ہے’’۔ (ابوداؤد:5147)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغی مشن میں ہفتہ میں ایک دن صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے مخصوص ہوتا تھا ۔ اس دن خواتین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف قسم کے سوالات اور روز مرہ کے مسائل پوچھتیں ۔ نماز عید کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے الگ سے خطاب کرتے۔ اُمہات المومنین کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے رکھا تھا کہ وہ مسلم خواتین کو دینی مسائل سے آگاہ کیا کریں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لئے کتاب یعنی لکھنے کی بھی تاکید فرمائی ۔ حضرت شفاء بنت عبداللہ لکھنا جانتی تھیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تم اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کو بھی لکھنا سکھا دو۔ چنانچہ انہوں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کو بھی لکھنا سکھا دیا۔ آہستہ آہستہ خواتین میں لکھنے اور پڑھنے کا اہتمام اور ذو ق و شوق بہت بڑھ گیا ۔عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلفائے راشدین کے مبارک دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف بھر پور توجہ دی گئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا :
‘‘ اپنی خواتین کو سورۃ النور ضرور سکھاؤ کہ اس میں خانگی اور معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل و احکام موجود ہیں۔( الدرالمنثور :5/18)
تعلیم نسواں کی اہمیت
اسلام میں تعلیم نسواں کے بارے میں کبھی دورائیں نہیں ہوسکتیں ۔ ایک ہی محکم او رپختہ حکم ہے اور وہ ہے عورتوں کو زیورِ تعلیم سے لا زماً آراستہ کرنے کا کیونکہ بے علم اور جاہل عورت معاشرے کی پسماندگی اور ابتری کا باعث بنتی ہے۔ جاہل عوتوں کو نہ کفر و شرک کی کچھ تمیز ہے ، نہ دین و ایمان سے کچھ واقفیت ۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ و مقام سے ناواقف بعض اوقات شان ِ خداوندی میں بڑی گستاخی و بے ادبی سے گلے شکوے کرتی رہتی ہیں ۔ اسی طرح شانِ پیغمبری میں بڑی بے باکی سے زبان طعن دراز کرتی ہیں ۔ احکام شرعیہ کی حکمت اور افادیت سے واقف نہ ہونے کی بنا پرالٹی سیدھی باتیں کرتی ہیں، اس کے علاوہ ہر طرح کے فیشن ، بے حجابی و عریانی اور فضول رسم و رواج کے پیچھے بھاگتی ہیں، اولاد و شوہر کے بارے میں طرح طرح کے منتر جھاڑ پھونک اور جادو ٹونے میں ملوث ہوتی رہتی ہیں ۔ شوہروں کی کمائی اسی طرح کے غلط اور باطل کاموں میں ضائع کردیتی ہیں ۔ شوہر سے ان کی بنتی ہے نہ سسرال رشتہ داروں سے ، انہیں اپنے بہن بھائیوں ، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے حق حقوق کے ذرا خبر نہیں ہوتی ۔ لڑائی جھگڑا اور گالی گلوج ، زبان درازی و لعن طعن کر کے سب سے بگاڑ کر خوش رہتی ہیں۔ وقت کی بھی اس کو قدر نہیں ہوتی ۔
غرض اکثر عورتوں کی جہالت کے کون کون سے نقصانات گنوائے جائیں : شوہر، بچے ، گھر ، اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ، کسی بھی بات کا ان کو احساس نہیں ہوتا ۔ ان کی زندگی قرآن پاک کے الفاظ میں خَسِرَ الدُّنیَا وَالآ خِرَۃِ کامصداق ہوتی ہے، یعنی ان کی دنیا بھی برباد اور آخرت بھی تباہ ہوگئی ۔ اس طرح کی خواتین یقیناً معاشرے کی تباہی و بربادی کا ہر دل دستہ ثابت ہوتی ہیں کہ اپنی گودوں میں پلنے والی اولاد کی تربیت ہی نہ کرسکیں ۔ جیسی گنوار خود تھیں ، ان کی اولاد یعنی نسل نو بھی اسی طرح گمراہ جاہل اور گنوار ثابت ہوئی ۔ اس طرح وہ قوم کو جرائم کی دلدل میں پھنساتی چلی جاتی ہیں۔
اس کے برعکس علم دین رکھنے والی خاتون صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، جائز اور ناجائز کی حدود کو جانتی اور پہچانتی ہے اور وہ اپنی زندگی کے پیش آمدہ مسائل کو خوش اُسلوبی سے نمٹا لیتی ہے ۔ یہ علم دین اس کو شائستہ او رمہذب بناتا ہے ۔ وہ اپنے بچوں کی بھی صالح تربیت کر کے صالح معاشرہ تعمیر کرنے کا باعث ثابت ہوتی ہے۔
تعلیم نسواں کا مقصد
تعلیم نسواں کی اسلام نے بہت تاکید کی ہے اور مغربی تہذیب بھی تعلیم نسواں پر بڑا ز ور دیتی ہے مگر دونوں کے مقاصد میں زمین و آسمان کافرق ہے ۔ مقاصد مختلف ہونے کے بنا پر دونوں تعلیموں کی نوعیت و کیفیت بھی جداگانہ ہے۔
صحیح بخاری او رصحیح مسلم کی ایک اہم حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘‘ سنو! تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے ( روز قیامت) اپنی اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ایک مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگراں ہے، اس سےان کے بارےمیں سوال ہوگا ۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ سنو! تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔’’( بخاری :893)
اس لحاظ سے عورت کی تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو اس کو صالح بیٹی، وفا شعار بہن، فرما نبردار بیوی اور باکردار و ہمدرد ماں بنا سکے ۔ ابتدائی تعلیم بہت ہی اہمیت کی حامل ہے ۔ابتدائی پانچ سال میں ایک لڑکے اور ایک لڑکی کی ابتدائی تعلیم اسلامی نقطۂ نظر سے یکساں ہونی چاہیئے ، یعنی ہر مسلم بچے کو یہ سبق دینا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق و مالک ہے، اس نے اپنی تمام مخلوق کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں ، ہمیں اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا لازم ہے۔ ہر مسلمان بچے کے دل میں عقیدۂ تو حید، رسالت، عقیدہ آخرت اور قرآن و سنت کی اہمیت راسخ کی جائے، نیکی اوربھلائی کے کاموں کی پہچان کروائی جائے ۔ سچائی، صفائی، وقت کی پابندی ، محبت ، ہمدردی اور ایثار کا سبق دیا جائے، پسندیدہ عادات و اطوار ان کو اس طرح ذہن نشین کروائے جائیں کہ وہ اس ابتدائی تعلیم و تدریس کیے بنا پر ستھر ی اور پاکیزہ زندگی بسر کرسکیں ۔
29 نومبر، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/importance-female-education-/d/34652