New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 09:23 PM

Urdu Section ( 5 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Superiority of 'Psychological Warfare' نفسیاتی جنگ‘ کی برتری’

ودود ساجد

2فروری،2025

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نفسیاتی جنگ میں حما س نے اسرائیل پربرتری حاصل کرلی ہے۔کم و بیش 16 مہینوں کی وحشیانہ جنگ کے دوران دوسری مرتبہ ہونے والے جنگ بندی کے معاہدہ کے تحت حماس کی قید سے جتنے بھی یرغمال چھوٹ کر گئے خوش وخرم اور اچھی صحت کے ساتھ گئے لیکن اسرائیل کی جیلوں سے جتنے بھی فلسطینی قیدی واپس آئے اپنی جبینوں اور اپنے جسموں پر ظلم و جبر کی درجنوں داستانیں لکھ کر لائے۔ 7اکتوبر 2023 کو حماس کے حملہ کے بعد جو جنگ شروع ہوئی تھی اس پرعارضی طو رپرایک ہفتہ کے لئے نومبر2023میں بریک لگا تھا۔اس وقت حماس نے سو سے زائد اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کردیا تھا۔ ان کے عو ض میں تین سو کے قریب فلسطینی اسرائیل کی جیلوں سے رہا ہوئے تھے۔ لیکن اس کے بعد جاری ہونے والی جنگ نے وحشیانہ ظلم وجبر کے سارے ریکارڈ توڑ دئے۔ اتنے عرصہ کے بعد اب 19 جنوری 2025 سے نافذ ہونے والی 42روزہ جنگ بندی نے صرف فلسطینی عوام کے لئے ہی امید کی نئی شمع روشن نہیں کی ہے بلکہ اس سے اسرائیل کے عوام بھی راحت محسوس کررہے ہیں۔ چوتھے مرحلے میں چھوٹ کر جانے والے اسرائیلی یرغمالوں کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ دونوں طرف رہا ئی کے عمل سے ’انسان کی روح‘ کی کامیابی ہوئی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنگ مستقل طور پربند کی جائے۔ ان میں 30 وہ ہیں جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

دوسری طرف 16مہینوں کی درندگی میں 61ہزار سے زیادہ لوگوں کو شہید،ایک لاکھ سے زیادہ کو زخمی اور 90فیصد غزہ کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد اسرائیلی فورسز اب مغربی کنارہ کے شہر ’جنین‘ اور جنین کیمپ پر حملے کررہی ہیں۔ ان حملوں میں اب تک 30سے زیادہ لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔اسی طرح رفح میں بھی اسرائیلی فورسز نے حملے کرکے دس سے زیادہ لوگوں کو شہید اور درجنوں کوزخمی کیاہے۔اس کے علاوہ بے قصور فلسطینیوں کی گرفتاری بھی جاری ہے۔ یہاں یہ اعادہ ضروری ہے کہ فلسطین اس وقت موٹے طور پر تین حصوں میں منقسم ہے۔ مغربی کنارہ پر فتح کے سربراہ محمود عباس کا انتظام ہے جسے فلسطینی اتھارٹی کہاجاتاہے۔لیکن یہاں بھی اسرائیلی فورسز موجود ہیں۔ جس علاقہ میں بیت المقدس واقع ہے اس کا مکمل انتظام اسرائیلی فورسز کے پاس ہے۔ جب کہ غزہ پر ابھی تک حماس کی حکومت ہے۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اسرائیل نے تینوں حصوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا ہے اور خود ان تینوں کے درمیان بس گیاہے۔ یہ دراصل اس کی منظم حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت اس نے اپنی دانست میں اہل فلسطین کی طاقت کو کمزور کرکے خود کو مضبوط کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے اس طرح ان تینوں حصوں میں مسلسل اپنے ناجائز قبضوں کی توسیع میں بھی آسانی ہوگئی ہے۔ وہ اپنی سرحد کے چاروں طرف ان یہودیوں کی کالونیاں تعمیر کررہاہے جنہیں دنیا بھر سے لایا گیا ہے۔ ان میں بیشتر تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی سرشت انتہائی خطرناک ہے اور جن میں ناپسندیدہ عناصر کی اکثریت ہے۔ انہیں اسرائیل نے خطرناک ہتھیار بھی فراہم کررکھے ہیں۔ یہ شرپسند اہل فلسطین سے مسلسل جارحانہ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ یہ داستان بہت طویل ہے لیکن بس اتناسمجھنا کافی ہے کہ ان شرپسندوں کے خلاف اکثر اسرائیل کی عدالتیں تک اسرائیل پولیس کو احکامات جاری کرتی رہتی ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر جوبائیڈن نے تو ان پر پابندی عائد کردی تھی۔

حماس نے جنگ بندی کے اس دوسرے مرحلہ کے چاروں ادوار میں اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کو جس طرح عوامی تقریبات میں تبدیل کیا اس پر اسرائیل شدید ہزیمت کا شکار ہے۔ رہائی کے ان مواقع پر حماس کے سینکڑوں بندو ق برداروں نے جس طرح غزہ کی مختلف سڑکوں اور تباہ شدہ مکانات کے ملبوں پر اپنی طاقت تدبر اور سفارتی شعور کامظاہرہ کیاہے اس سے بھی اسرائیل اور خاص طور پر نتن یاہو شدید برافراوختہ ہیں۔ چاروں مرحلوں میں جس طرح جگہ بدل بدل کر اوراسٹیج لگا کر یرغمال فوجی خواتین کی حوالگی کے دستاویزات پر دستخط کئے گئے اس نے پوری دنیا میں اسرائیل کو رسوا کیا۔ چاروں مرحلوں میں حماس نے رہائی کا مقام بدل کر نہ صرف اپنی طاقت عزم اور بے خوفی کا مظاہرہ کیاہے بلکہ یہ بھی بتادیا ہے کہ ہم پوری طرح سے غزہ میں ہی موجود ہیں۔ اسرائیل کے لئے اس سے بڑی ہزیمت کیا ہوگی کہ اتنی تباہی برپاکرنے کے باوجودوہ ان چند ہزار بندوق برداروں کو نہ پا سکتا۔الجزیرہ کے مشہور تجزیہ کار ’مروان بشارہ‘ نے درست کہا ہے کہ حماس 95 فیصد نفسیاتی جنگ لڑرہاہے ’ہتھیار وں کی جنگ محض پانچ فیصد ہے۔ یہ بھی نفسیاتی حربہ ہی تھا کہ ایک اسرائیلی فوج خاتون کو حماس کے شہید قائد یحییٰ سنوار کے مکان کے باہر رہا کیا گیا۔ پیچھے جو بڑے بڑے بینر لگائے گئے ان پر عربی اور عبرانی زبان میں نعرہ لکھا گیا۔ نعرہ تھا کہ ”صیہونی کبھی کامیاب نہیں ہونگے“۔ جس کو ساری دنیا نے دیکھا اورپڑھا۔

فلسطین کے ایک اہم رہنمااو رمشہور دانشور مصطفی برغوثی نے زور دے کر کہاہے کہ اس وقت سب سے پہلی ضرورت خود فلسطین کے تمام متحارب گروہوں کے اتحاد کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر تمام گروہوں میں اتحاد نہ ہوا تو مسئلہ فلسطین کبھی حل نہیں ہوگا۔حماس نے کہاہے کہ ہم صیہونی اقدامات کے عواقب سے خبردار کرتے ہیں اور ہماری سرزمین پرقبضہ کرنے والی صیہونیت سے نپٹنے کے لئے فلسطینی گروہوں سے اپنی صفوں میں اتحاد کی اپیل کرتے ہیں۔ اسرائیل اب ا لگ فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔اسرائیل کے وزیر رومن ڈرمرنے واضح طور پر کہاہے کہ ہم نے سعودی عرب سے الگ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کاکوئی وعدہ نہیں کیاہے۔ اس بیان کی اس لئے اہمیت ہے کہ یہ خبریں آرہی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خوشگوار مراسم قائم کروانے کے لئے کوششیں شروع کردی ہیں۔ ٹرمپ کا وہ بیان تو پوری دنیا نے حیرت سے سنا جس میں انہوں نے کاہے کہ ہم نے عربوں کے لئے اتنا کچھ کیاہے اب انہیں بھی ہمارے لئے یہ کرناہوگا کہ غزہ کی پوری آبادی کو اپنے یہاں بسانا ہوگا۔ انہوں نے خاص طور پر اردن اور مصرپرزور دیا ہے کہ وہ تباہ شدہ غزہ کے اجڑے ہوئے مکینوں کو اپنے یہاں بسالیں۔لیکن ایک طرف ان ملکوں نے بھی انکار کردیا ہے اور دوسری طرف خود اہل غزہ بھی اپنی سرزمین چھوڑنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔

جنگ بندی کے تازہ مرحلہ نے ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے اسرائیل کی درندگی اور حماس کی انسانی حمیت کو اجاگر کردیاہے۔حماس کے قبضہ سے رہا ہونے والی خواتین فوجیوں کے ساتھ حماس نے جو حسن سلوک کیا اس کا اندازہ ان خواتین کی ظاہری صحت کو دیکھ کر لگا یا جاسکتاہے۔خود اسرائیل کے سرکاری ہسپتال نے ’جہاں ان خواتین کو لے جاکر ان کاچیک اپ کرایا گیا‘کہا ہے کہ یہ سب فوجی خواتین ایک سال سے زیادہ عرصہ تک قید وبند میں رہنے کے باوجود چاق وچوبند او رذہنی وجسمانی طور پر فٹ ہیں۔جس وقت انہیں غزہ میں حماس کی گاڑیوں سے ریڈکراس کی گاڑیوں میں منتقل کیا گیا تو اس وقت بھی رہا شدہ اسرائیلی خواتین کے چہروں پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔ ان میں سے ہر ایک کو ان کے مسلح محافظوں نے ایک ایک تھیلا پیش کیا جن میں کچھ کھانے کی اشیاء پانی اور ان یرغمال خواتین کے وہ تمام فوٹو تھے جو غزہ میں دوران قید کھینچے گئے تھے۔ رہا شدہ خاتون ایملی ڈیماری نے اسرائیل پہنچ کر کہا کہ میں روئے زمین پر سب زیادہ خوش انسان ہوں۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل کی قید سے رہا ہوکر آنے والی فلسطینی خواتین نے بتایا کہ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا اور انہیں اس وقت تک ضروری دوائیں نہیں دی گئیں جب تک انہوں نے اسرائیل عدالتوں سے احکام حاصل نہ کرلیے۔ غزہ سے بہت تشویشناک خبریں آرہی ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے کہاہے کہ اسرائیل کی جیلوں سے واپس آنے والے بیشتر لوگ متعدی قسم کی خطرناک بیماریاں لے کر آئے ہیں۔ مزید براں یہ کہ اسرائیل نے جو بمباری کی ہے اس کے نتیجہ میں خود غزہ میں نہ صرف فضا بلکہ خاک بھی بارود آمیز ہوگئی ہے۔غزہ میں حماس انتظامیہ کے میڈیا آفس نے کچھ تفصیلات جاری کی ہیں۔ ان کے مطابق غزہ میں شہدا ء کی تعداد 61ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ان میں ان لوگوں کی تعداد بھی شامل کرلی گئی ہے جن کی لاشیں جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد برآمد ہوئی ہیں۔ان میں جو لوگ غائب ہیں انہیں بھی شہید تسلیم کرلیا گیا ہے۔ 470ایام میں اسرائیل نے 10ہزار 100بار قتل عام مچایا۔2092 فلسطینی خاندان ایسے ہیں کہ جن کے گھر کا ہر فرد شہید ہوگیا ہے۔ 4889 فلسطینی خاندان ایسے ہیں کہ جن کے ایک یادو فرد کو چھوڑ کر باقی افراد شہید ہوگئے ہیں۔ 12ہزار 316 خواتین اسرائیل کی شدید بمباری میں شہید ہوئیں جس کے نتیجہ میں لاتعداد بچے بغیر ماں کے اوران گنت شوہر بغیر بیوی کے رہ گئے۔ 38ہزار 495 بچے ایسے ہیں جو اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کے بغیر زندگی گزاررہے ہیں۔ظاہر ہے کہ بچوں کی یہ نسل جب بڑی ہوگی تو اس کے ذہن ودل پر کیا اثرات ہوں گے او رپھر اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ اسی طرح 16ماہ کی جنگ کے دوران غزہ کے 17ہزار 835 بچے مارے گئے۔ ان میں 808 بچے وہ تھے جن کی عمر محض ایک سال تھی۔ 7اکتوبر، 2023 کے بعد پیداہونے والے 214 بچوں کو بھی قتل کیا گیا۔ 1155 کی تعداد میں میڈیکل اسٹاف شہید ہوا۔ 94 ڈیفینس کے رضا کار مارے گئے۔ 1992 کے بعد اسرائیل نے اس جنگ میں 205 صحافیوں او رکیمرہ مین کو شہید کیا۔ ان میں بڑی تعداد قطر کے معتبر ترین چینل الجزیرہ سے متعلق عملہ کی تھی۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر ان پر نشانہ لگاکر انہیں شہید کیا۔

اسرائیل کی جیلوں سے اب تک 30کم سن بچے بھی چھوٹ کر آئے ہیں۔ 60فیصد تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں کئی کئی بار عمر قید کی سزا سنائی گئی اورجو جیلوں میں بیس بیس اور تیس تیس سالوں سے بند تھے۔ تجزیہ نگار زیویرعید نے بتایا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل نے 1967 سے اب تک دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کیا اس کامطلب یہ ہے کہ تقریباً ہرخاندان کا یک فرد گرفتار ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کبھی منصفانہ شنوائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ اب تو اسرائیلی جیلوں میں ٹارچر اورعصمت ریزی تک کے واقعات ہورہے ہیں۔لہٰذا ایسے میں یرغمالوں کے عو ض ایسے قیدیوں کی رہائی اہل فلسطین کے لئے ایک قومی خوشی سے کم نہیں ہے۔ 19جنوری2025 سے اب تک نتن یاہو ایک سے زائد بار اپنی کابینہ کی میٹنگ کرکے جنگ بندی کامعاہدہ توڑنے کی دھمکی دے چکے ہیں لیکن اسرائیل کے عوام کے دباؤ کے سبب وہ ایسا نہیں کرسکے۔

رہائی کے تیسرے دور میں حماس کے بندوق برداروں کے ہاتھوں میں جدید ترین اسرائیلی ہتھیار تھے۔ جب کہ چوتھے دور میں ان کے پاس خود غزہ میں بنائی گئی ’غول‘ نامی اسنپررائفل تھیں۔ حماس کے عسکری ونگ قسام نے 2014 میں پہلی بار ویڈیو جاری کرکے بتایا تھا کہ اس نے غزہ میں اپنی بنائی گئی اسنپررائفل کا استعمال شروع کردیا ہے۔ آج ان رائفلوں کو سینکڑوں بندوق برداروں کے ہاتھو ں میں دیکھ کر نتن یاہو کو ضرور نفسیاتی جھٹکا لگا ہوگا۔ اگرانتہائی کمزور، قلاش او رمظلوم قوم اتنی بڑی دنیاوی طاقت کو جھٹکے دے رہی ہے تو یہ برتری کے سوا کچھ نہیں ہے۔

2فروری،2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/superiority-psychological-warfare/d/134523

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..