New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 08:08 PM

Urdu Section ( 14 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Sunset of Israel... اسرائیل کا غروب۔۔۔

ودود ساجد

11 فروری،2024

اسرائیل کی شیطانی جنگ کے تناظر میں امریکہ جو امید لے کر سعودی عرب گیا تھا اس امید پر سعودی عرب نے پانی پھیر دیاہے۔ ہر چند کہ فلسطین کے بے قصور بچوں، عورتوں اور مردوں پر جو افتاد آئی ہے وہ زیادہ بڑی اور زیادہ خوفناک ہے تاہم سفارتی سطح پر اسرائیل پرآنے والی افتاد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ غزہ کی تکلیف دہ صورتحال سے قطع نظر تل ابیب کی خوفناک صورتحال مظلوموں کے لئے زیادہ اطمینان بخش ہے۔حالیہ چند برسوں میں اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو سعودی عرب کو سب سے زیادہ قابل اعتبار اور محسن وغم خوار ملک کے طور پر متعارف کراتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ 7فروری کو امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان واضح طورپر کہہ دیاہے کہ اسرائیل سے اس وقت تک سفارتی مراسم کی استواری کے تعلق سے کوئی بات نہیں ہوگی جب تک وہ حملے روک کر فلسطین سے مکمل طور پر نہ نکل جائے اورجب تک فلسطین ایک مکمل اور خود مختار ریاست نہ بن جائے۔سعودی عرب نے واضح طور پر بھی کہہ دیاہے کہ قضیہ فلسطین کے تعلق سے دہائیوں سے جاری اس کی مستحکم پالیسی میں کسی تبدیلی کا کوئی سوال ہی نہیں۔امریکی وزیر خارجہ اس لئے محمد بن سلمان سے ملنے گئے تھے تاکہ ان سے یہ ضمانت لے لیں کہ سعودی عرب جنگ ختم ہونے کے بعد اسرائیل سے مراسم قائم کرنے کے لئے گفتگو شروع کردے گا۔

اب اسرائیل کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس شیطانی جنگ کو کیسے روکے۔ محض اپنی سیاسی بقاء کے لئے نتن یاہو کے سر پر ایک ہی بھوت سوار ہے کہ وہ حماس کو ختم کرکے ہی دم لیں گے۔اسرائیل کے مقابلہ میں صفر طاقت رکھنے والے جانبازوں نے اسرائیل کی تمام ہتک آمیز شرائط کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیاہے اور اپنی طرف سے جنگ بندی کی جو شرائط اسرائیل کو بھیجی ہیں انہیں نتن یاہو اپنی ہتک سمجھ رہے ہیں۔یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ حماس نے اسرائیل کے چوطرفہ جابرانہ اورظالمانہ محاصرہ کے 17برسوں میں جو کچھ جمع کیاہے وہ اسرائیل سے مقابلہ کے لئے ہی کیاہے۔ لیکن اسرائیل نے جو کچھ بھی جمع کیاہے وہ کھونے کیلئے نہیں کیاہے۔ لیکن اس جنگ میں اسرائیل اب تک کئی اربوں ڈالرس کانقصان اٹھا چکاہے۔ اسے تاریخ کی جو سب سے بڑی فوجی قیمت ادا کرنی پڑی ہے وہ الگ۔دنیا بھر میں سفارتی، معاشی، تکنیکی اور عسکری سطح پر اس نے جو شبیہ بنائی تھی اس کے بھی کئی ٹکڑے ہوگئے ہیں۔نتن یاہو کے بس میں نہیں ہے کہ ان ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ کر اسرائیل کی وہ شبیہ واپس دلوادیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اب وہ پہلے والی شبیہ واپس آنے کے امکانات سرے سے معدوم ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر سے جو یہودی اسرائیل میں لاکر بسائے گئے تھے ان میں سے کئی لاکھ اپنی اصل ملکوں کو واپس جاچکے ہیں او راب ایسے ملک میں واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جہاں زندگی 24گھنٹے خطروں کے سائے میں رہتی ہو۔

اسرائیل کے نیم سرکاری اخبار’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ نے تارکین وطن کی آبادی کا حساب کتاب رکھنے والے سرکاری ادارے ’عالیہ‘ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ 7اکتوبر 2023 کے بعد سے دسمبر 2023تک 4لاکھ 70ہزار یہودی اسرائیل چھوڑ کر چلے گئے ہیں او راس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ اسی طرح دوسرے ملکوں سے اسرائیل آکر بسنے کی خواہش رکھنے والے درخواست گزاروں کی تعداد میں 70 فیصد کی کمی آگئی ہے۔پہلے ہر مہینے 4500 درخواستیں آتی تھیں، اب محض ایک ہزار ہی آرہی ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو جب حماس کے جانبازوں نے ’طوفان الاقصی‘ نامی آپریشن کے تحت غزہ سے متصل اسرائیلی بستیوں پر دھاوا بولا تھا تو اسی دن ہزاروں اسرائیلی شہری بدحواس ہوکر ایرپورٹ کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت سے اب تک باہر جانے والوں کاسلسلہ جاری ہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 7اکتوبر 2023 کے حماس کے حملوں سے کافی پہلے سے اسرائیلی شہریوں نے ’فارن پاسپورٹ‘ کے لئے درخواستیں دینی شروع کردی تھیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ شہری وزیر اعظم نتن یاہو کی اس پالیسی سے ناراض تھے جس کے تحت وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی کرناچاہتے تھے۔ بعد میں سپریم کورٹ نے نتن یاہو کی اس قرار داد کو کالعدم کردیا تھا۔ 80 فیصد اسرائیلی شہریوں کا خیال تھا کہ اگر عدلیہ کے اختیارات کم کردیئے گئے تو اس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد اسرائیلی شہریوں میں یہ خوف دوگنا ہوگیاکہ اگر صورتحال مزید خراب ہوئی تو اسرائیل سے ’منفی نقل مکانی‘ شروع ہوسکتی ہے۔ یعنی جو لوگ اپنے اپنے ملکوں سے یہاں آکر آباد ہوگئے تھے وہ اپنے اپنے ملکو ں کو واپس جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ 20ویں صدی میں مختلف ملکوں سے سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے منتقل ہوجانے کے سبب ہی اسرائیل کاقیام عمل میں آیا تھا۔ اب ان یہودیوں کی دوسری اور تیسری نسل کے اندر خوف جاگزیں ہوگیاہے۔’فارن پاسپورٹ‘ کے لئے درخواست جمع کرنے والوں کی تعداد میں 80 فیصد کااضافہ ہوگیاہے۔ فارن پاسپورٹ کامطلب یہ ہے کہ بعض ملکوں کے نئے ضابطوں کے مطابق اسرائیلی شہری دوہری شہریت کے لئے ان ملکوں میں سے کسی ایک کا پاسپورٹ بھی بنواسکتے ہیں۔ ایسے شہریوں کو ان ملکوں میں جاکر بس جانے کے لئے پیشگی ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بہت سے اسرائیلی شہریوں کا خیال ہے کہ اسرائیل میں ان کی اگلی نسلوں کامستقبل محفوظ نہیں ہے اس لئے وہ پیش بندی کے طور پر امریکہ اسپین اورجرمنی جیسے ملکوں کے پاسپورٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اسرائیل کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہے۔ اسے مختلف محاذوں پرافرادی قوت کی قلت کابھی سامنا ہے۔ مثال کے طور پر اس کے ہزاروں غیر ملکی زرعی مزدور اسرائیل سے بھاگ گئے ہیں۔ ان میں سات ہزار تھائی لینڈ کے بھی مزدور ہیں۔حماس کے جانبازوں نے اسرائیلی شہریوں کے ساتھ دو درجن تھائی شہریوں کو بھی اغوا کرلیاتھا۔ اس کے علاوہ تین درجن تھائی مارے بھی گئے تھے۔ اسی طرح فلپائن کے بھی بہت سے مزدور اپنے ملک کو واپس چلے گئے ہیں۔ اب تعمیراتی سیکٹر کے لئے ہندوستان سے بھی مزدوروں کی بھرتی کی جارہی ہے۔ اسرائیل کا زرعی سیکٹر بھی بری حالت میں ہے۔ جو پھل اسرائیل کی گھریلو ضرورت کو پورا کردیتے تھے اب وہ دوسرے ملکوں سے درآمد کئے جارہے ہیں۔اس ضمن میں پھلوں کی سب سے بڑی کھیپ ترکی سے آتی ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ زراعت کے میدان میں اسرائیل نے دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ملکو ں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔بہت سے ملکوں کو اسرائیل نے اپنی زرعی تکنالوجی سے فیضیاب بھی کیا تھا۔ ان میں ہندوستان کا صوبہ ہریانہ بھی شامل ہے۔لیکن اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثر یہی شعبہ ہواہے۔ اس کے علاوہ جن شعبوں کو جنگ نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں تیل، گیس’سیاحت، طبی سہولیات، رٹیل اورتکنالوجی وغیرہ شامل ہیں۔ اسرائیل کے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یہ تمام شعبے ایک طویل مدت تک سنبھل نہیں سکیں گے۔ زراعت کے شعبہ کا حال یہ ہے کہ فصلیں نومبر سے تیار کھڑی ہے لیکن انہیں کاٹنے والا کوئی نہیں ہے۔ زیادہ تر کھیت فوجی گاڑیوں کے لئے پارکنگ کا کام رہے ہیں۔

اسی طرح اسرائیل میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تکنالوجی کے میدان میں غیر ملکی سرمایہ کاری 40 فیصد کم ہوگئی ہے۔ اسرائیل کا بجٹ خسارہ 6.6 فیصد ہوگیا ہے۔وزارت خزانہ کے حوالہ سے آنے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق حماس کے حملے سے بھی پہلے ستمبر میں اسرائیل میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں 60 فیصد کی کمی آگئی تھی۔اس سے اسرائیل کو 2.6 بلین ڈالر کا خسارہ ہوا تھا۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ حماس کے حملوں کے بعدوہاں کیاحال ہوگا۔ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق تکنالوجی کے میدان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 80فیصد تک کی کمی آگئی ہے۔ اب تک مجموعی طور پر اسرائیل کو اس محاذ پر 4.76 بلین ڈالر کانقصان ہوچکاہے۔ غیر ملکی کرنسی میں لین دین میں بھی زبردست کمی آئی ہے۔ 2022 میں تنہا امریکہ سے ہی 22بلین ڈالر س کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی کرنسی ’شیکل‘ کی قدر میں بھی زبردست گراوٹ آئی ہے۔ اسے سنبھالنے کے لئے اسرائیل کے سنٹرل بینک نے 8بلین ڈالرس فروخت کردئے ہیں۔ایک اوررپورٹ کے مطابق اسرائیل کی اقتصادی تنزلی 14سال پہلے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

اسرائیل نے جب غزہ میں جنگ شروع کی تھی تو اس نے اس کے لئے 200بلین ڈالر س مختص کئے تھے۔ جلد ہی اسے احساس ہوا کہ یہ جنگ 200 بلین ڈالر س سے نہیں جیتی جاسکتی۔نومبر 2023 تک اس کے یہ 200 بلین ڈالرس ختم ہوچکے تھے۔ اس کے بعد امریکہ نے بھی 14 بلین ڈالرس کی مدد کی لیکن ماہرین جنگ کا اندازہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے جو قیمتی ٹینک تباہ کئے ہیں ان سے ہی اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے لہذا یہ 14بلین ڈالرس بھی ختم ہوگئے ہوں گے۔ میں نے اپنے پچھلے مضامین میں عرض کیا تھاکہ اسرائیل کے ایک میر کا فاٹنک کی قیمت 35لاکھ ڈالر ہے۔حماس کے جانباز اب تک 1100 سے زائد مختلف قسم کے ٹینک تباہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ سے جو ہزاروں چھوٹے بڑے میزائل اسرائیل کی طرف داغے گئے ہیں اور جن میں سے بیشتر کو اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ ایک حملہ کو ناکام کرنے کے لئے جو وار کرتاہے اس پر بھی 60ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔ماہرین جنگ کا خیال ہے کہ ابھی اسرائیل کو کئی بلین ڈالرس کی ضرورت ہوگی اور جنگ ختم ہونے کے بعد اس کی تلافی کئی برس تک نہیں ہوسکے گی۔ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس بار کی جنگ پچھلی تمام جنگوں سے مختلف ہیں۔بہت سے ملکوں کی ایرلائنز نے اسرائیل کو جانے والی اپنی معمول کی پروازیں بھی روک دی ہیں۔ ایک اسرائیل ماہر اقتصادیات نے رپورٹ دی ہے کہ 2006 میں حزب اللہ اور 2014 میں حماس کے خلاف لڑائی کے بعد اسرائیل کی گھریلو شرح نمومیں اعشاریہ پانچ فیصد ہی کا خسارہ ہوا تھا لیکن اس بار یہ خسارہ 3.5 فیصد تک پہنچنے کااندازہ ہے۔ دوسرے پچھلی جنگوں میں صرف سیاحت کی صنعت متاثر ہوئی تھی لیکن اس بار تمام محاذ متاثر ہوئے ہیں۔

ایک او ررپورٹ کے مطابق لبنان سے متصل اسرائیل کے بہت سے شہر اور قصبات میں ہوکا عالم ہے۔ ڈھائی لاکھ لوگوں سے ان کے مکانات خالی کرا لئے گئے ہیں اور انہیں ہوٹلوں یا رشتہ داروں میں پناہ لینی پڑی ہے۔ تین لاکھ 60ہزار ریزرو فوجیوں کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح جن کمپنیوں میں یہ لوگ حالت امن میں کام کررہے تھے وہ کمپنیاں بندہونے کے دہانے پر ہیں۔ 150 بڑی کمپنیوں نے اپنی بقا کی خاطر بڑے سرمایہ کاروں سے مدد طلب کی ہے۔الغرض افراتفری کا ایسا عالم ہے کہ جو اسرائیل نے اپنے وجود کے 75 برسوں میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب تک 28 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں لیکن حماس کے جانباز بھی اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ لگا کر ماررہے ہیں۔ اس صورتحال سے نپٹنے میں اسرائیل ابھی تک ناکام نظر آتاہے۔

11 فروری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sunset-israel/d/131713

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..