سمیت پال، نیو ایج اسلام
5 اپریل 2022
عرب لوگ اللہ حافظ نہیں
کہتے۔ بلکہ وہ "مع السلامہ، فی سلامۃ
اللہ، فی امان اللہ" وغیرہ کہتے ہیں۔
اہم نکات:
1. اس نئے ہزاریہ
میں برصغیر کے اسلام اور ساتھ ہی ساتھ
ہندو مت میں سخت مذہبی و لسانیاتی اصطلاحات کا عروج دیکھا گیا ہے
2. چومسکی اور سید دونوں
کا خیال تھا کہ برصغیر کے مسلمان (خاص طور پر سنی مسلمان) مذہبی شناخت اور ظلم و
ستم کے اضطراب کا شکار ہیں
3. عرب " مع السلامہ، فی سلامۃ اللہ، فی امان اللہ"
وغیرہ کہتے ہیں
------
صحیح لفظ (Ramzan) ہے لیکن خلیجی
عرب(ز) کا تلفظ ادا نہیں کر پاتے، اس لیے
وہ (Ramadan) کہتے ہیں۔ کیا ہم
ہندوستانیوں کو غلط روایات کی پیروی صرف اس بنیاد پر کرنی چاہیے کہ اس کا تعلق عرب
سے ہے؟
-شاہد صدیقی
رمضان کا مبارک و مقدس
مہینہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے اور میں
اپنے مسلمان (خاص طور پر سنی اسلام سے تعلق رکھنے والے) دوستوں کو رمضان کی
مبارکباد دینے سے ڈرتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے ان سے جواب میں رمضان کریم
سننے کو ملے۔ اس مسئلے پر غور کرنے سے پہلے، اس کے لسانی پہلو کو سمجھنا ضروری ہے۔
اس مہینے کے نام میں حرف (ض) ہے جس کا تلفظ عربی میں 'د' کی طرح ہوتا ہے۔ فارسی
اور اردو دونوں زبانوں میں یہ لفظ صدیوں پہلے مستعار لیا گیا تھا، لیکن یہ اب اپنے
اصل تلفظ پر باقی نہیں رہا۔ اس کے بجائے اب اکثر بول چال میں اسے 'ز' سے بدل دیا
جاتا ہے۔ چنانچہ اب اس طرح (Ramzan) رمضان لکھا جانے
لگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس
نئے ہزاریہ میں برصغیر کے اسلام اور ساتھ
ہی ساتھ ہندو مت میں بھی سخت مذہبی و لسانیاتی اصطلاحات کا عروج دیکھا گیا ہے۔
لیکن میں سب سے پہلے اکیسویں صدی کے اسلام میں ہونے والی واضح تبدیلیوں پر توجہ
مرکوز کرتا ہوں۔ اب ہر جگہ خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ نے لے لی ہے اور (Ramzan) رمضان کی جگہ (Ramadan) رمضان مروج و متداول ہو گیاہے۔ نوم چومسکی کی
'دی پالیٹکس آف لینگوئج' اور پروفیسر ایڈورڈ ڈبلیو سعید کی 'سب کانٹی نینٹل اسلامک
لنگوسٹک عربی فکشن' (جو پہلی بار دی ڈان، پاکستان میں نائن الیون کے بعد شائع ہوا
تھا) اس رجحان کو غیر جانبدارانہ انداز میں سمجھنے میں معاون گا۔
چومسکی اور سید دونوں کا
خیال تھا کہ برصغیر کے مسلمان (خاص طور پر سنی مسلمان) مذہبی شناخت اور ظلم و ستم
کے اضطراب کا شکار ہیں۔ اسلام کے عظیم ہمدرد پروفیسر سعید نے، جو خود ایک فلسطینی
عیسائی تھے اور اپنی موت سے قبل ملحد ہو گئے تھے، ایک قدم آگے بڑھ کر (رمضان اور
اللہ حافظ) جیسے کلمات خیر میں ہونے والی ان لسانیاتی تبدیلیوں کو عرب بمقابلہ
برصغیر کے مسلمانوں کے شناختی بحران سے منسوب کیا، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا
ہے کہ وہ 'اصل' مسلمان ہیں کیونکہ مکہ اور مدینہ دونوں جزیرہ نمائے عرب میں ہی واقع
ہے اور اسلام کی ابتدا بھی وہیں سے ہوئی ہے۔ عرب ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کو
تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں ہندوی کہتے ہیں۔ عرب کے مسلمانوں اور
برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان مساوات پیدا کرنے کے لیے عرب نژاد ہر چیز کو برصغیر کے مسلمانوں نے بسروچشم قبول کر لیا۔
اسی لیے خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ رواج پا گیا۔ خدا ایک فارسی لفظ ہے اور بنیادی
طور پر اکثر شیعہ مسلمان اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں، خدا کو ترک کر دیا گیا اور اس کی جگہ لفظ اللہ دنیا کے اس حصے کے
مسلمانوں کی زبان و بیان اور لسانیاتی شعور میں گھر کر گیا۔
(Ramzan) رمضان کے بدلے (Ramadan) رمضان کے بڑھتے
ہوئے استعمال کو برصغیر اسلام کی عربی کاری کے تناظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے مسلمانوں کا عرب طرز زندگی
پر سماجی و مذہبی انحصار اور اسلامی اصولوں کی سخت عربی تشریحات خاص طور پر نائن
الیون کے بعد بہت واضح ہوگئیں، جس نے کسی نہ کسی طرح پوری دنیا کے مسلمانوں کو الگ
تھلگ کر دیا تھا۔
ہندوستان اور پاکستان کے
مسلمان اپنے تمام مسائل اور پریشانیوں کے
لیے عرب دنیا کی طرف دیکھنے لگے۔ اس کی وجہ سے ان میں سماجی اور مذہبی کمزوری پیدا
ہوئی۔ ایک کمزور ذہن ہر قسم کے اثرات سے متاثر ہو سکتا ہے خواہ اچھے ہوں یا برے۔ چونکہ اسلام کا عربی
نسخہ قدیم اور سب سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس سے ہم آہنگ وہابی اور
سلفی تحریکوں کو برصغیر کے بے یارومددگار
مسلمانوں نے بھی خاموش تائید سے نوازا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے عرب امداد
یافتہ مبلغین نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس
شرط پر کہ اگر وہ سعودی اسلام کے سخت اور غیرلچکدار اصولوں پر عمل نہیں کرتے، کافر
وملحد کہہ کر حالات مزید خراب کر دیتے۔
ان مبلغین نے اسلام کو
فارسی اور برصغیر کی تمام تر 'خرابیوں' سے 'پاک کرنے' کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔
خدا حافظ کو غیر اسلامی اور (Ramzan) رمضان کو کھلم کھلا
اسلام مخالف کہا گیا! یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ خود عرب بھی اللہ حافظ نہیں کہتے۔
بلکہ وہ " مع السلامہ، فی سلامۃ
اللہ، فی امان اللہ" وغیرہ کہتے ہیں۔ اسی کی دہائی کے وسط میں بنگلہ دیش اور
پاکستان کے غیر عربی بولنے والے برصغیر کے مسلمانوں نے خدا حافظ کے طرز پر اللہ
حافظ وضع کیا۔
پروفیسر اور اسلامک
اسکالر پرنسٹن یونیورسٹی کے آنجہانی برنارڈ لیوس نے اسے (اللہ حافظ کہنے کے رواج)
کو برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی و لسانی خواہش سے جوڑ کر دیکھا ہے۔ اسے
سمجھنے کے لیے تھوڑی تفصیل درکار ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی عربی سمجھ زیادہ اچھی نہیں ہے، اس زبان میں گفتگو کی تو بات
ہی چھوڑ دیں۔ لیکن وہ عربی کو قرآن اور اسلام کی زبان سمجھتے ہیں۔ لہٰذا، لفظ اللہ
کا استعمال ان مسلمانوں کے لیے ایک حوالہ ہے جو اس بات پر مسرت محسوس کرتے ہیں کہ اسلام اور خاص طور
پرفقہی اسلام کا بنیادی لفظ ان کے لیے کسی
حد تک قابل فہم ہے! اور وہ لفظ اللہ ہے۔ لہٰذا، تمام طرح کے کلمات خیر میں اللہ کا
نام لینے کی ان کی شدید خواہش ظاہر ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہندو کہتے ہیں اہم
برہماسمی یا مسلمان کہتے ہیں انا الحق۔ دونوں اصطلاحات کا مفہوم یکساں ہے (میں حق
ہوں) لیکن دونوں ہی برادریاں اصل میں ان دونوں اصطلاحات کے پیچھے فلسفے سے غافل
ہیں جو ان کے اپنے اپنے علم تصوف (روحانیت) سے ماخوذ ہے۔ ہر جگہ اللہ کے نام کے
استعمال کی بے جا تاکیدبھگوان کی طرح جسے ہندو استعمال کرتے ہیں، اللہ حافظ
پر غالب ہو گئی۔ یہی منطق (Ramzan) رمضان کے بدلے (Ramadan) رمضان پر بھی لاگو
ہو سکتی ہے۔ ض کے عربی تلفظ کو سمجھنے سے قاصر برصغیر کے مسلمانوں نے اسے (Ramadan) رمضان سمجھا اور'd' پر زبردستی اصرار
کیا جو کہ غلط ہے۔ کیا وہ لفظ (RiZwan) رضوان کو بھی (RiDwan) رضوان کہنا پسند
کریں گے (جس کا معنی خازن جنت/ خداکی رضا پر راضی ہے) کیونکہ رضوان میں بھی ض جیسا
مشکل حرف ہے؟ مختصراً، یہ ایک لسانی گڈ مڈ ہے جسے دنیا کے اس حصے کے مسلمانوں نے
جنم دیا ہے جو عربی سے بالکل نابلد ہیں۔
نفسیات کا ایمولیشن یا
اپنگ سنڈروم (Ramzan) رمضان کے بجائے (Ramadan) رمضان کی تشہیر کو
سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ چونکہ برصغیر کے مسلمان آنکھیں بند کر کے اور اکثر
غلط فہمی کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ عرب ہم سے برتر اور ہمارے آقا ہیں، اس لیے
ہر وہ چیز جو ایک آقا کرتا ہے اسکی پیروی کرنے کی غلامانہ ذہنیت برصغیر کے
مسلمانوں کے اجتماعی طرز عمل سے عیاں ہے۔ کیا ہم سب نے مشاہدہ نہیں کیا کہ کس طرح
کچھ 'کانونٹ' اسکولوں کے پڑھے لکھے لوگ مصنوعی لب و لہجے میں انگریزی بولتے ہیں
اور جب این آر آئی امریکہ اور برطانیہ سے ہندوستان آتے ہیں تو وہ کس طرح اپنے سفید
فام آقاؤں کی طرح انگریزی بولتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی بھی ذہنی طور پر
انگریزوں اور سفید فاموں کے غلام ہیں۔ ہم شدید طور پر احساس کمتری کا شکار ہیں۔
یہی منطق اس ملک کے
مسلمانوں کی جانب سے لفظ (Ramadan) رمضان کے عجیب و
غریب استعمال پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جو کچھ عرب کرتے ہیں اس کی پیروی ہندوستانی اور
پاکستانی مسلمان بھی کرتے ہیں تاکہ ان کا عمل مذہبی طور پر درست معلوم ہو۔ مزعومہ
اعلی اتھارٹی کے سامنے جھکنے اور اس کی تابعداری قبول کرنے کا یہ سادہ اور بنیادی
اصول ہے۔ اور اعلیٰ اتھارٹی کی بات ہو توعرب اسلام برصغیر کے 'ہندوی' مسلمانوں کے
لیے ایک نمونہ یا ایک بہترین مذہب ہے۔ آخر میں اس الجھن سے بچنے کے لیے میں اپنے
مسلمان دوستوں کو ماہ صیام کی مبارک باد دیتا ہوں۔ بہر کیف ماہ صیام روزے کا مہینہ
ہے، اور (Ramzan) رمضان کا ایک مشترکہ فارسی و عربی مادہ ہے۔ لہذا، محض کلمات خیر
پر کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے! بہر حال، ہم مذہبی طور پر ایک گھٹن کے دور میں جی
رہے ہیں اور ہمیں ہر وقت سیاسی، معذرت چاہتا ہوں، مذہبی طور پر حق بجانب رہنے کی
ضرورت ہے۔ کیا میں غلط ہوں؟
English
Article: How Ramzan Paved The Way For Ramadan In
Subcontinental Islam
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism