سمت پال، نیو ایج اسلام
6 جون 2022
پدماوت، پانی پت اور اب
'سمراٹ' پرتھیویراج، ان سب کا ایک اور مشترکہ مقصد ہے: غیر ملکی (حملہ آور) بمقابلہ
محب وطن
-----
پرتھویراج III، جو پرتھوی راج
چوہان کے نام سے مشہور ہیں۔
----
Prithviraja
III, popularly known as Prithviraj Chauhan
-----
ہندوستان کے شاندار ماضی
کا گن گان کرنے کے حالیہ رجحان کو برقرار رکھتے ہوئے، پرتھیوی راج چوہان کی زندگی
اور بہادری پر ایک نئی فلم حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے ۔ اس کا بیانیہ قوم
پرستی ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی ۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ سچائی کی خاطر
حقائق کو کھلے لفظوں میں بیان کیا جائے ۔
"دونوں فوجیں 1191
میں دہلی کے شمال میں تقریباً 70 میل (110 کلومیٹر) کے فاصلے پر تاروڑی (اب ریاست
ہریانہ میں) میں آمنے سامنے ہوئیں ۔ شدید لڑائی کے دوران، محمد غوری شدید زخمی
ہوئے، اور ان کی فوج تتر بتر ہو گئی ۔ اس کے بعد محمد غوری نے فارسیوں، افغانوں
اور ترکوں پر مشتمل ایک بہت مضبوط فوج تیار کی اور 1192 میں اس نے تاراوڑی پر دوبارہ
چڑھائی کی ۔ پرتھوی راج نے محمد غوری سے مقابلہ کے لیے ایک بڑی طاقت جمع کی، لیکن
راجپوت خیمے کے اندر آپسی ناچاقی اور دشمنی نے اس کی پکڑ کو کمزور کر دیا تھا ۔
جہاں پہلی جنگ اس عددی قوت پر منحصر تھی جس کی وجہ سے پرتھوی راج کی افواج غوری
فوج کے حملوں کو برداشت کر سکی تھی ، وہیں دوسری جنگی حربے کا شاہکار تھی ۔ محمد
غوری نے پرتھوی راج کی اگلی صفوں کو شکست دینے کے لیے گھڑ سوار تیر اندازوں کا
استعمال کیا ۔ جب پرتھوی راج کی فوج نے تعاقب کے لیے صفیں توڑ دیں، تو انہیں بھاری
گھڑ سواروں نے تباہ کر دیا ۔ حکمت عملی میں تبدیلی نے چوہان کی افواج کو پریشان کر
دیا ، اور پرتھوی راج کو شکست ہوئی ۔
پرتھوی راج میدانِ جنگ سے
بھاگ گیا ، لیکن وہ میدان جنگ سے تھوڑے ہی فاصلے پر پکڑا گیا ۔ بادشاہ اور اس کے
بہت سے جرنیلوں کو بعد میں پھانسی دے دی گئی اور شمالی ہندوستان میں منظم مزاحمت
کے خاتمے کے بعد ایک نسل کے اندر اس خطے پر مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا ۔ "
(پرتھویراج III، الٹرنیٹ ٹائیٹلس: پرتھوی راج چوہان، انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا،
ترمیم شدہ تاریخ ، حال ہی میں کینتھ پلیچر کے ذریعہ نظر ثانی اور اپڈیٹ شدہ)
ہندوستان کے عظیم ترین
مورخوں میں سے ایک ڈاکٹر آر سی مجومدار نے کئی دہائیوں پہلے لکھا تھا، "جب
کسی ملک کی تاریخ یا تاریخ کا ایک واقعہ جان بوجھ کر غیر ملکی بمقابلہ محب وطن کے
زاویے سے لکھا جاتا ہے، تو یہ نسل پرستی کی کہانی میں بدل جاتا ہے ۔ یہ نہ صرف
تاریخ کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ پورے ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہے ۔‘‘
پدماوت، پانی پت اور اب
'سمراٹ' پرتھیویراج سب کا واحد اور مشترکہ مقصد ہے: غیر ملکی (حملہ آور) بمقابلہ
محبان وطن ۔ میں فلم میں تاریخی تضادات اور حقائق کی غلطیوں (جن کی گنتی بہت زیادہ
ہے) میں نہیں جانا چاہتا، میرا مقصد یہاں کچھ اور ہے ۔ ہم کب تک یہی گھسی پٹی بات
کہتے رہیں گے کہ مسلم حملہ آوروں نے 'مدر انڈیا' کو لوٹا، اس کی عصمت دری کی، اس
کا مذہب تبدیل کیا، اس میں لوٹ مار مچائی اور اس کی بے حرمتی کی؟ بس اب بہت ہو گیا
۔ جنگ یا لڑائی ہمیشہ اخلاقیات کے سخت اصولوں کی پابندی نہیں ہو سکتی ۔ درحقیقت،
اگر آپ اخلاقیات کے پابند رہیں تو جنگ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ ان دونوں باتوں
کا ایک ساتھ پایا جانا ناممکن ہے ۔ یہ کہنا کہ محمد غوری نے پرتھوی راج کو پکڑ کر
تشدد کا نشانہ بنایا حقیقتاً غلط ہے ۔ غوری کے حکم پر اس کے سات جرنیلوں کے ساتھ
بغیر کسی تشدد کے اس کا سر قلم کر دیا گیا (پڑھیں سچیدانند سنہا کا طویل مضمون،
'راجپوت بادشاہوں کی غلطی') ۔ مزید یہ کہ اسے ہندو مسلم لڑائی کہنے کی بھی کوئی
وجہ نہیں ہے ۔ 1526 میں پانی پت کی پہلی جنگ میں مؤخر الذکر کو شکست دینے کے بعد
نوجوان بابر نے خود ابراہیم لودھی کا سر قلم کر دیا تھا ۔ دونوں مسلمان تھے اور اس
وقت بابر حملہ آور تھا ۔ کیا آپ لودھی کو محب وطن کہیں گے ، حالانکہ اس کی سابقہ
بھارت میں ایک مضبوط حکومت تھی ؟ اس وقت تو ملک
کا کوئی تصور ہی نہیں تھا ۔
ہم نے ملک کا تصور
انگریزوں سے اخذ کیا ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک افغان پٹھان حکیم خان سوری،
مہارانا پرتاپ کی فوج کا کمانڈر (سیناپتی) تھا؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ اکبر کی مغل
فوج کی قیادت ایک ہندو بادشاہ مان سنگھ کر رہے تھے اور مہارانا پرتاپ کی فوج کی
قیادت ایک مسلمان کر رہا تھا، لہٰذا یہ جنگ ہندو اور مسلمان کے درمیان نہیں بلکہ
حملہ آوروں اور آباد کاروں کے درمیان تھی ۔ ابراہیم خان گردی (وفات 1761) مراٹھا
سلطنت کے ایک مسلمان جرنیل تھے ۔ توپ بازی میں ماہر ہونے کی وجہ سے، مراٹھا سلطنت
کے پیشوا کے لیے کام کرنے سے پہلے وہ حیدرآباد کے نظام کی خدمت پر مامور تھا ۔
مراٹھا سلطنت کے ایک جنرل کے طور پر اس نے 10,000 آدمیوں، پیادہ اور توپ خانے پر
مشتمل ایک فوج کی سپہ سالاری کی ۔ وہ 1761 میں پانی پت کی تیسری جنگ کے دوران
درانی سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر قتل ہوا ۔ احمد شاہ درانی عرف احمد خان
ابدالی نے اپنے سپاہیوں کو گردی کا سر قلم کرنے سے پہلے اس کی آنکھیں نکالنے کا
حکم دیا تھا ۔ کیا دونوں مسلمان نہیں تھے؟ کیا ایک کٹر مسلمان (گردی) اپنے ہندو
آقاؤں (مراٹھوں اور پیشواؤں) کا پکا وفادار نہیں تھا؟
ہم ان سنیمائی داستانوں
کے ذریعے کیا پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ مقصد واضح طور پر، ثنائی اور فرقہ
وارانہ ہے۔ تاریخ کی یہ سوچی سمجھی ہیرا پھیری ایک ایسی کمیونٹی کو حاشیے ہو ڈال
دیگی جو پہلے سے ہی زخم خوردہ اور پریشان حال ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک روایت چل
پڑی ہے جو کافی پریشان کن ہے ۔ یہاں، میں مسلمانوں کو ایک صاف و شفاف کردار والا
نہیں قرار دے رہا ہوں ۔ وہ بھی انتہائی بے ایمان اور بددیانت رہے ہیں لیکن تمام
مسلمانوں کو برا کہنا اور سمجھنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ جو گزر گیا اسے بھول
جائیں ۔ عداوتوں کو مٹائیں اور اتحاد اور دوستی کا ایک نیا باب قائم کریں ۔ ویسے
پرتھوی راج چوہان صرف ایک سردار تھے ۔ انہیں سمراٹ کہنا انتہائی حماقت والی بات ہے
۔ لیکن کیا کیا جائے، 'جدید' ہندوستان اعزازات اور عجیب و غریب القابات کا بھوکا
ہے ۔
English
Article: Bury the Hatchet and Move On
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism