سمت پال، نیو ایج اسلام
20 اپریل 2022
سبزی خوروں کو غیر سبزی خور
ہونے یا نہ ہونے پر مسلمانوں کی توہین، مذمت اور تنقید کرنے کا کوئی اخلاقی حق حاصل
نہیں ہے۔
میں کچھ مخصوص نسلوں، قوموں
اور معاشروں کے حوالے سے ہمارے کچھ ٹھوس افکار و نظریات سے بیزار ہونے کے ساتھ ساتھ
خوش بھی ہوں۔ حال ہی میں جے این یو میں طلباء کے ایک گروپ کا رام نومی پر نان ویج کھانا
ایک ایسی ہی مثال ہے جس نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ تمام مسلمان 'بڑے
سخت غیر سبزی خور' ہیں جو گوشت کھائے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتے۔ اس سے محض خوراک
کی بنیاد پر پورے مسلم معاشرے کی بدنامی ہو رہی ہے۔ بہ الفاظ دیگر، یہ مسلمانوں کے
بارے میں غیر مسلموں کے کھانے پینے کے حوالے سے ایک خاص مزاج پیدا کر رہا ہے۔ یہ ہماری
غلطی ہے کہ ہم نے یہ سوچ لیا ہے کہ گوشت کھانا کسی حد تک اسلام کا جزو لازم ہے۔ نہیں،
ایسا بالکل نہیں ہے۔ نان ویجیٹیرین کھانا اسلام میں لازم و ضروری نہیں ہے۔ میں نے اپنی
زندگی میں کئی ایسے مسلمانوں سے ملاقات کی جنہوں نے نان ویج سے مکمل پرہیز کیا ہے یہاں
تک کہ انڈے کو بھی کبھی ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ ورنہ انڈا کبھی بھی مسلمانوں کی اور خاصاص
طور پر برصغیر کے مسلمانوں کی پسندیدہ غذا کا حصہ نہیں رہا ہے، جنہوں نے 1498 عیسوی
میں واسکو ڈی گاما کے ہندوستان پہنچنے کے بعد اسے استعمال کرنا شروع کیا۔ پرتگالیوں
نے، انناس، آلو اور جھینگا مچھلی کے ساتھ انڈے کو بھی برصغیر میں متعارف کرائے تھے۔
عربوں نے اسپین پر مسلمانوں کے حملے کے بعد انڈوں کا مزہ لینا سیکھا (711 عیسوی/الہیگیرہ
92)۔ مگر یہ کہانی کسی اور دن ۔
شہزادہ دارا شکوہ ایک کٹر
سبزی خور تھا۔ ان کے فارسی مقالے 'مجمع البحرین' (دو سمندروں کا ملاپ) میں سبزی خور
کے روحانی اور اخلاقی فوائد پر ایک مکمل باب موجود ہے۔ اس نے اپنے والد شاہجہان کو
ویج فوڈ کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں قائل کیا اور شاہجہان بھی سبزی خور ہو گیا! دلچسپ
بات یہ ہے کہ عرب، جنہیں کٹر گوشت خور سمجھا جاتا ہے، جزیرہ نما عرب میں سبزیوں کی
کمی کے باوجود وہ سبزی خوری کے فوائد سے بھی واقف تھے، خاص طور پر اسلام کے وجود میں
آنےکے بعد۔ 11ویں صدی میں ابن سینا کی کتاب 'دی کینن آف میڈیسن'، 10ویں صدی میں الرازی
کی کتاب 'ڈائیٹ تھیراپی'، 12ویں صدی میں ابن حبل کی کتاب 'سلیکشن آف میڈیسن'، 13ویں
صدی میں ابن النفیس کی کتاب 'آرٹ آف میڈیسن'، اور 13ویں صدی میں سمرقندی کی کتاب 'فوڈ
اینڈ ڈرنک آف ہیلدی پیپل' میں باضابطہ ایسے ابواب ہیں جن میں لوگوں کو ضرورت سے زیادہ
گوشت کھانے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ رازی خود سبزی خور تھے۔
فارسی صوفیاء میں بھی اکثر
سبزی خور ہی تھے۔ رابعہ بصری نے کبھی گوشت نہیں کھایا۔ حکیم سنائی، جامی اور نظامی
مشہور سبزی خور تھے جنہوں نے کبھی گوشت کھانے کی کوشش نہیں کی۔ امیر خسرو 27 سال کی
عمر کے بعد سبزی خور ہو گئے۔ رومی نے اس وقت گوشت کھانا ترک کر دیا جب ان کے دوست اور
روحانی استاد شمس تبریزی نے رومی کو گوشت ترک کرنے کی تاکید میں ایک شعر لکھ بھیجا
تھا۔ میری عربی کی پروفیسر اور مربی ڈاکٹر زائفہ اشرف نے کبھی گوشت اور انڈے نہیں کھائے،
حالانکہ وہ ایک سابق مسلمان تھیں جنہوں نے سترہ سال کی عمر میں اسلام اور تمام انسان
ساختہ مذاہب کو ترک دیا۔ کہنے کا مقصدیہ ہے کہ کھانا خالصتاً ایک(ذاتی) آزادی کا معاملہ
ہے۔ سبزی خوروں کو غیر سبزی خور ہونے یا نہ ہونے پر مسلمانوں کی توہین، مذمت اور تنقید
کرنے کا کوئی اخلاقی حق حاصل نہیں ہے۔ ہمیں کسی کے بارے میں فیصلہ کرنے کی کوئی ضرورت
نہیں ہے۔ اتنی غذائی پختگی تو ہم سب کو ہونی ہی چاہیے۔ کھانے کی قسمیں ماضی میں کبھی
کوئی مذہبی مسئلہ نہیں رہی ہیں۔ یہ اب نزاع کی ایک جڑ بن چکا ہے۔ لوگ جس دن جو چاہیں
انہیں کھانے دیا جائے۔ اب آخری بات ، میرے زیادہ تر غیر مسلم دوست سخت غیر سبزی خور
ہیں اور میں سبزی خور ہونے کے باوجود ان کے ساتھ بغیر کسی تعصب کے کھانا پسند کرتا
ہوں۔
English
Article: Islam And Vegetarianism
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism