سلطان شاہین، فاؤنڈنگ ایڈیٹر،
نیو ایج اسلام
17 اپریل 2017
ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی علماء اپنی حماقتوں سے باز نہیں آنے والے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی لکھنؤ میٹنگ سے یہ واضح ہے کہ وہ ایمانداری کے ساتھ خود احتسابی کرنے اور حالات کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلم خواتین اور کمیونٹی کے لبرل عناصر کی جانب سے تبدیلی کے لئے مسلسل مطالبات کے پیش نظر بورڈ مسلسل اس بات پر مصر ہے کہ مسلمانوں کو ان کے پرسنل قانون کی پیروی کرنے کا "آئینی" حق حاصل ہے۔ یقیناً انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ لیکن انہیں اس بات کا مطالبہ کرنے کا بھی "آئینی" حق حاصل ہے کہ اس قانون کو قرآن سے ہم آہنگ کیا جائےجو کہ ان کے لیے مذہب کی بنیادی کتاب ہے۔ میں نے اس سلسلے میں اپنی گزشتہ تحریر میں اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ کس طرح اس ملک میں مسلم پرسنل لاء کے نام سے مروجہ اینگلو محمڈن لاء کے ساتھ یہ معاملہ بالکل نہیں ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا ولی رحمانی یہ کہہ کر اس معاملے میں پیچیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ " اگر اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے تو قانون کو تبدیل کرنے کے بجائے اس میں اصلاحی اقدامات اٹھائے جانے چاہئے۔" اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ قانون قرآن مجید اور ساتھ ہی ساتھ فطری انصاف اور صنفی مساوات کے مطالبات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ جب یہ قانون ایک ہی نشست میں تین طلاق کی اجازت دیتا ہے اور مسلمان مرد بھی معاملات میں غور و فکر کیے بغیر ہی بیویوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اس استحقاق کا استعمال کرتے ہیں جنہیں اکثر علماء کی کھلی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے تو پھر اس قانون کے "غلط استعمال" کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ "نکاحِ حلالہ،" کا انتہائی گھٹیا اور فحش عمل جو کہ اب صرف ہندوستانی مسلمانوں میں ہی مروج ہے، اس قانون کا ایک براہ راست نتیجہ ہے جو معاملات پر غور کئے بنا ایک ہی نشست میں تین طلاق کی اجازت دیتا ہے۔ اگر قرآن میں دیئے گئے قانون کے مطابق اچھی طرح سوچ سمجھ کر طلاق دیا جائے تو خواتین کو اس قدر ذلت و رسوائی کے مراحل سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
بورڈ ایک نشست میں تین طلاق دینے والے کے لئے سماجی بائیکاٹ جیسے "اصلاحی" اقدامات کی تجویز پیش کر رہا ہے۔ یہ ایک نادانی اور مضحکہ خیز تجویز ہے۔ آج کے دور میں سماجی بائیکاٹ کی پرواہ کون کرتا ہے، اور اگر کبھی ایسی کوئی صورت حال پیدا ہو بھی گئی تواس معاشرے میں ان معاملات کی نگرانی کون کرے گا اور جو لوگ معاشرے میں ایسے لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات جاری رکھیں گے انہیں کیا سزا دی جائے گی۔ نیز، اس کی سزا کون دے گا اور اس کا نظم و ضبط کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگا۔ بورڈ کے علماء کی اس تجویز سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ 7ویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں اس طرح کے قرون وسطی کی سزا مؤثر ہو سکتی تھی۔ قرآن مجید اگر چہ 7ویں صدی میں نارل ہونے والا صحیفہ ہے مگر یہ بھی ایسی کوئی سزا تجویز نہیں کرتا ہے۔ اور نہ ہی خلیفہ دوم حضرت عمر نے بھی کبھی ایسا کیا جنہیں بنیاد بنا کر علماء ایک نشست میں تین طلاق کا جواز پیش کرتے ہیں اس لیے کہ ان کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی اس قانون کو غیر متبدل مان لیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بھی ہر اس شخص کو کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا جو ایک نشست میں تین طلاق دیتا۔
تاہم یہ معاملہ برے قانون کا ہے، اس کے غلط استعمال کا نہیں۔ حالآنکہ اس برے قانون کو بھی ایک ٹیکسٹ میسج اور انٹرنیٹ چیٹ وغیرہ کے ذریعے یک طرفہ طور پر تین طلاق کی صورت میں ناعاقبت اندیش فتوں کی حمایت حاصل ہے۔
علماء کے لئے اس مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے اسلامی مذہبی فکر جمود و تعطل کا شکار ہے۔ جب کہیں نئے حالات پیدا ہوں تو قدامت پسند اسلام کا موقف یہ ہے کہ ایک تخلیقی انداز میں مسائل پر از سر نو غور و فکر کی جائے۔ اور اسے اجتہاد کہا جاتا ہے۔ اور اس پر امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل وغیرہ جیسے عظیم فقہا عمل پیرا رہے لیکن ان کے بعد اجتہاد کے دروازے بند کر دئے گئے۔ اور یہ کہا گیا کہ اب ان فقہی معاملوں میں تازہ غور و فکر کی ضرورت ختم ہو چکی ہے۔ کسی کو بھی اجتہاد کے دروازے کو بند کرنے کا اختیار نہیں تھا لیکن علماء نے اسے تسلیم کر لیا۔ اور امت میں سب سے بڑے مسئلے کی جڑ یہی ہے۔ ہندوستانی علماء شاید آج سب سے زیادہ قدامت پسند ہیں۔ وہ اسے بھی تسلیم نہیں کریں گے جو پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے کر دکھایا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی پریشانی کی بنیاد یہ ہے کہ اس سے منسلک علماء امام ابو حنفہت کی تقلید کرتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ وہ امر مسلم کو جائز تسلیم کرتے ہیں اگر چہ وہ امر حرام ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ امام مالک، امام شافعی اور امام حنبل جیسے دیگر فقہاء ایک حرام فعل کو جائز تسلیم نہں کرتے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہمیشہ یہی دلیل پیش کرتا ہے کہ ایک نشست مںا تین طلاق دینا حرام ہے لکن اگر ایک نشست میں تین طلاق دے دیا گیا تو پھر وہ واقع ہو کر ہی رہے گا؛ یہ ایک امر مسلم ہے اور اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جا سکتااسے جائز ہی تسلیم کرنا ہوگا۔
مفتیوں کو دیوبند اور بریلی کے مدارس میں یہی تعلیم دی جاتی ہے اور جب ان سے اس طرح کے مسائل پر فتوی طلب کیا جاتا ہے تو وہ اسی کا قول کرتے ہیں۔ شیعہ اور اہل حدیث اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجود آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں شامل ان فرقوں کے ارکان کمیونٹی کی یکجہتی کے مفاد میں بورڈ کے موقف کی حمایت کرتے ہیں، اگرچہ یہ موقف ان کی فقہی تفہیم اور معمولات کے برعکس ہے۔ جب چند دنوں قبل بورڈ کے شیعہ رکن مولانا قلب صادق نے جب اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ بورڈ ایک یا دیڑھ سالوں کے اندر تین طلاق کے گھناؤنے عمل کو ختم کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے تو کچھ لوگ لکھنؤ اجلاس سے کسی مثبت نتیجے کی توقع کر رہے تھے۔ لیکن بظاہر بورڈ کے شیعہ اور اہل حدیث اراکین نے بھی کسی تبدیلی پر کوئی اصرار نہیں کیا۔
تاہم،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ حضرت عمر یا امام ابو حنیفہ جیسے ایک فقیہ کا موقف خواہ جو بھی ہو اللہ کی نظر میں ایک حرام فعل کو جواز دینے کا مسلمہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال ظہار کا عمل ہے جو کہ قبل از اسلام کا ایک ایسا معمول ہے جس پر کچھ مسلمان اسلام قبول کرنے کے بعد بھی عمل پیرا تھے۔ ظہار یہ ہے کہ اپنی زوجہ کو طلاق دینے کی خواہش رکھنے والا شوہر اسے صرف یہ کہتا تھا کہ تم میری ماں کی طرح ہو اور اس سے اس کی منشاء یہ ہوتی تھی کہ اسے بالواسطہ طور پر طلاق تسلیم کر لیا جائے گا۔
ان کے اس عمل پر اللہ نے قرآن میں زبردست غصے کا اظہار کیا۔ لہٰذا، اللہ نے قرآن مجید کی سورت المجادلہ کی آیات 2 تا 4 میں اس عمل کو گھٹیا اور باطل اور ایک جھوٹ قرار دیا ہے، اور اس عمل کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سزا تجویز کی۔
"تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کر بیٹھتے ہیں (یعنی یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ تم مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہو)، تو (یہ کہنے سے) وہ اُن کی مائیں نہیں (ہوجاتیں)، اُن کی مائیں تو صرف وہی ہیں جنہوں نے اُن کو جَنا ہے، اور بیشک وہ لوگ بری اور جھوٹی بات کہتے ہیں، اور بیشک اﷲ ضرور درگزر فرمانے والا بڑا بخشنے والا ہے: (سورہ المجادلہ: آیات2)
میں نے اس نکتے کی وضاحت اپنی حالیہ تحریر میں بھی کی ہے۔ اگر چہ اس سے تکرار لازم آتا ہے لیکن اسے دوبارہ ذکر کرنا ضروری ہے اس لیے کہ اس کے مضمرات کو بہتر طریقے سے نہیں سمجھا گیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی کہ اللہ کے نزدیک ظہار کے ذریعہ طلاق دینے کے معاملے میں امر مسلم کی دلیل قابل قبول نہیں ہے: اس فعل قبیح کا ارتکاب کرنے والوں سے قرآن کا خطاب یہ ہے کہ ‘‘بیوی ماں نہیں ہو سکتی’’، تو کیوں ‘‘امر مسلم’’ کی دلیل ایک نشست میں تین طلاق کے سلسلے میں قابل قبول ہے؟ ہمارے علماء اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں کہ تین طلاق کا عمل انتہائی گھٹیا اور قابل نفرت ہے۔ لیکن وہ ان ظالموں کے لئے کوئی سزا کیوں نہیں تجویز کرتے؟وہ سماجی بائیکاٹ جیسے قرون وسطی کی فرسودہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ جسے اگر سزا کی ایک جائز صورت تسلیم کر بھی لی جائے تو بھی آج اسے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
پوری دنیا کے علماء کی طرح ہمارے علماء کو بھی اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ 21ویں صدی کے اندر انٹرنیٹ کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ صرف قرآن بلکہ مختلف فقہاء کی اختلاف رائے بھی آج تمام مسلمانوں کو دستیاب ہیں۔ آج دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے اسلامی صحیفوں اور ساتھ ہی ساتھ کتب فقہ کا پڑھنا بھی انتہائی آسان ہو چکا ہے۔
تین طلاق مستقل طور پر ہماری خواتین کے اوپر لاحق ہونے والے ایک خطرے کی طرح ہے۔ یہاں تک کہ ایک مکمل طور پر پرامن ازدواجی رشتے میں بھی اس خطرے کا شعور موجود رہتا ہے جس سے رشتوں میں فساد پیدا ہوتا ہے۔
ترقی پسند مسلمان مرد اور عورتیں اب مزید اس صورت حال کو برقرار رکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پوری مسلم دنیا فوری اور یکطرفہ تین طلاق کی غیر اسلامی فطرت کو تسلیم کر چکی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ کے سامنے جو دلائل پیش کئے ہیں پہلے ہی اسلام کی مذہبی کتابوں میں غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ اب تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اور انہیں اسے ایک امر مسلم کے روپ میں تسلیم کر لینا چاہیے۔
سلطان شاہین دہلی میں ایک ترقی پسند اسلامی ویب سائٹ NewAgeIslam.com کے فاؤنڈنگ ایڈیٹر ہیں۔ ان سے sultan.shahin@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
(یہ مضمون سب سے پہلے قدرے اختصار کے ساتھ FirstPost.com میں شائع ہو چکا ہے اور انگریزی میں یہ مضمون firstpost.com/india/triple-talaq-row-mullahs-are-subverting-islam-and-misleading-the-supreme-court-3386432.html پر موجود ہے)
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/triple-talaq-row-/d/110998
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism