سلطان شاہین، بانی و ایڈیٹر،
نیو ایج اسلام
25 اپریل 2022
الظواہری، تمہارے حالیہ ویڈیو
بیان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو انتہاپسند بنانے کی تمہاری نصف صدی طویل مہم کی حالت
زار کا پتہ چلتا ہے۔ ایک زمانے میں تمہاری دہشت زدہ عالمی جہادی حکمت عملی جو کہ 11/9 کا معمار تھی، اب ایک ایسی حالت میں
آ چکی ہے جہاں اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہندوستان کی ایک 19 سالہ کالج طالبہ کے
حجاب کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔
1988 میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک تمہاری دہشت گرد تنظیم میں ایک
بھی ہندوستانی مسلمان شامل نہیں ہوا ہے۔ اس کے باوجود تم نے خاص طور پر برصغیر پاک
و ہند کے لیے 2014 میں القاعدہ کی ایک شاخ قائم کی۔
تم نے ہندوستانی مسلمانوں
کو بھی اپنی خود ساختہ جہاد میں شامل ہونے کے لیے اکسایا لیکن تمہیں اس میں کوئی کامیابی
نہیں ملی۔ پھر بھی تم اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ اب،
تم حالیہ حجاب تنازع میں اپنے لیے ایک موقع دیکھ رہے ہو۔ تم کہتے ہو کہ کرناٹک کی طالبہ
مسکان خان کا اپنی درسگاہ میں شرکت کے دوران اپنے سر کو ڈھانپنے کے حق کے لیے جدوجہد
کرنا ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان "جذبہ جہاد" میں ایک نئی روح پھونک دے
گا ۔ تم کہتے ہو کہ اپنے انسانی حقوق کے لیے اس کی لڑائی نے ہندوستانی جمہوریت اور
انسانی حقوق کے لیے ہمارے احترام کا بھرم توڑ دیا ہے۔
الظواہری، تم ہندوستانی اسلام
اور ہندوستانی جمہوریت دونوں کی طاقت سے کس قدر ناواقف ہو۔ تم جعلی پاسپورٹ پر کئی
مسلم ممالک کا سفر کر چکے ہو۔ لیکن تم نے کہیں بھی جمہوریت کو عملی شکل میں نہیں دیکھا
ہے۔ تمہارے لیے ہندوستان میں جمہوری اداروں کی طاقت کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ ہمارے
پاس ازالے کے کئی طریق کار ہیں۔ ہاں، یہ صحیح ہے کہ مسکان ایک عدالت میں اپنا مقدمہ
ہار چکی ہیں، لیکن انہوں نے اب عدالت عظمیٰ
کا رخ کیا ہے۔ اگر وہ وہاں بھی اپنا مقدمہ ہار جاتی ہیں تو وہ خوش دلی کے ساتھ فیصلے
کو قبول کریں گی۔ ایک جمہوری ملک کا شہری ایسا ہی کرتا ہے۔
بہر حال، اس نے اب تک ہماری
کھلی بحث سے یہ جان لیا ہوگا کہ حجاب اس کے مذہب کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ زیادہ تر مسلم
خواتین برقعہ یا حجاب نہیں پہنتیں ہیں۔ جی ہاں، یہ ہندوستانی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔
ہر مذہب سے تعلق رکھنے والی بہت سی ہندوستانی خواتین اپنا سر ڈھانپتی ہیں۔ ذاتی طور
پر، مجھے لگتا ہے کہ اگر ایسا کرنے میں انہیں راحت ملتی ہے تو انہیں اس کی اجازت دی
جانی چاہیے۔ لیکن، آخر کار، ہم سب عدالتی فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔
الظواہری، میں اپنی ہنسی نہیں
روک پاتا، جب میں تمہیں "مقدس اور پاکیزہ امت مسلمہ اور اس کے مدمقابل فاسد اور
ناپاک مشرک اور ملحد دشمنوں کے درمیان اختلافات"
کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنتا ہوں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تم رہتے کس دنیا
میں ہو؟ تم جن اختلافات و تنازعات کی بات کر رہے ہو وہ آخر چل کہاں رہے ہیں؟ ہاں، چند
اسلام پسند دہشت گرد ہیں جو فرقہ وارانہ بنیادوں پر کچھ لوگوں کو بلکہ زیادہ تر مسلمانوں
کو قتل کر رہے ہیں۔ جب سے تم لوگوں نے دہشت گردی کی مہم شروع کی ہے لاکھوں مسلمان مارے
جا چکے ہیں جن میں چند ہزار بے گناہ غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ لیکن تم تو خون کے پیاسے
ہو، اس پر تمہیں نہ تو شرمندگی محسوس ہوگی اور نہ ہی تمہارے اندر کوئی احساس جرم پیدا
ہوگا۔
اور یہ مقدس اور پاکیزہ امت
کیا ہے؟ یہ کہاں پائی جاتی ہے؟ شامی عرب جب خانہ جنگی میں بے گھر ہوتے ہیں تو وہ پڑوسی
ملک ترکی اور عیسائی یورپی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ برائے نام بھی کوئی
عرب مسلم ملک ان کے لیے اپنے دروازے نہیں کھولتا۔ چین میں ایغور مسلمانوں پر ظلم و
ستم کی مذمت میں بھی آواز بلند کرنے والے صرف مغربی عیسائی ممالک ہی ہیں۔ جب کوئی
مسلمان کسی مغربی عیسائی ملک میں قانونی طور پر چند سال زندگی گزار لیتا ہے تو اسے
شہریت کے مکمل حقوق حاصل ہو جاتے ہیں، لیکن اگر کوئی مسلمان نصف صدی تک بھی کسی عرب
مسلم ملک کی خدمت میں گزار دے، تب بھی اسے محض مستقل رہائش کے حقوق بھی نہیں ملتے
۔
ظواہری کیا تم جانتے ہو کہ امت مسلمہ کا تصور بالکل غلط اور بے بنیاد ہے، لیکن
پھر بھی تم اسی کا راگ الاپتے رہتے ہو، کیونکہ تمہارے پاس دہشت گردی کی اس مہم کو جاری
رکھنے کے لیے کوئی اور دلیل نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مدینہ
کے اندر 622 (عیسوی) میں تیار کیے گئے ایک آئین کے تحت جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے،
ایک امت تشکیل دی اور مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں، مشرکوں اور ملحدوں پر مشتمل ایک
کثیر مذہبی ریاست کی بنیاد رکھی۔ ہم ہندوستانی مسلمان اپنے آئین کے پابند ہندوستانی
امت کا حصہ ہیں جسے دنیا میں سب سے بہترین امت تصور کیا جاتا ہے۔
میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کیوں تمہاری جہادی مہم ہندوستانی مسلمانوں کو انتہاپسند بنانے میں نہ تو کامیاب ہوئی اور نہ ہی کبھی کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہندوستان صوفی سنتوں، بزرگوں، اور بھکتی شاعروں کی سرزمین ہے۔ ہماری زمین ایک جامع ثقافت کی سرزمین ہے جسے گنگا جمونی تہذیب کہا جاتا ہے۔ کیا تم نے گرو نانک اور گرو گرنتھ صاحب کے بارے میں سنا ہے؟ نہیں، تم نے بالکل نہیں سنا؟ یہ صحیفہ ہندوستان کی صوفی اور بھکتی روایات کا جامع ہے۔ اس نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے اور اب بھی اس کا یہ عمل جاری و ساری ہے۔ ہندوستان رشیوں اور منیوں، صوفیوں اور سنتوں کی سرزمین ہے جنہوں نے ہم سب کو ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہنا سکھایا ہے۔ ہندوستان کا سناتن دھرم، جسے ہندو مت بھی کہا جاتا ہے، واسودھیوا کٹمب کم کے تصور پر مبنی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا ایک خاندان ہے۔ ہندومت تمام مذاہب کو خدا تک پہنچنے کا ایک درست روحانی راستہ مانتا ہے۔ ایکم ست وپرا بہودھا ودنتی اوپنیشد کا ایک بیان ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایک ہی خدا کی مختلف ناموں سے پوجا کی جاتی ہے۔ یقیناً مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے قرآن ہے جو یہ تعلیم دیتا ہے کہ یہ دنیا ایک ہے۔ خدا نے لوگوں کو مختلف رنگوں اور نسلوں میں صرف اس لیے تقسیم کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔ اسلام ہمیں قرآن پاک میں بار بار یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمام انسان ، نسل، طبقے یا قومیت سے قطع نظر خدا کے نزدیک برابر ہیں۔ مسلمانوں نے ان تعلیمات کو اپنایا ہے، جنہیں امیر خسرو جیسے صوفیائے کرام نے بھی اپنی شاعری کے ذریعہ عام کیا ہے، جو کہ ہندوستانی زبانوں اور فارسی کا حسین امتزاج ہے۔
الظواہری، تم ایک تنگ کنویں میں
رہتے ہو۔ تمہارے افکاروخیالات کا مرکز و محور صرف ابن تیمیہ، ابن عبد الوہاب اور سید
قطب جیسے لوگ ہیں۔ چار دہائیوں میں اربوں پیٹرو ڈالر کی مدد سے مسلم دنیا میں ان کے
ناپاک، تفوق پرست اور پرتشدد تعلیمات کو پھیلایا گیاہے۔ اگرچہ ہندوستانی علمائے کرام
کے ذہنوں پر کسی حد تک اس کا اثر ہوا ہے، لیکن اب تک مسلم عوام کا ذہن ان تعلیمات سے
زہرآلود نہیں ہوا ہے۔ وہ اب بھی اپنے ہندو،
سکھ اور عیسائی بھائیوں کے ساتھ مل کر ہنسی خوشی جیتے ہیں اور ایسے ہی جیتے رہیں گے،
تم جو بھی تفرقہ انگیز حربے آزمانا چاہو آزما لو۔
------
English
Article: Sultan Shahin's Open Letter To Al-Qaida Chief Ayman
Al-Zawahiri: Your Pathetic Braying Is Not Going To Have Any Impact On Indian
Muslims
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism