سلطان شاہین، بانی ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
02 مارچ 2017
سپریم کورٹ نے ایک کامن سول کوڈ کے سب سے بڑے سوال سے مسلمانوں کے درمیان مروج فوری طلاق کے معاملے کو علیحدہ کر کے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اس سے اس متنازعہ فیہ مسئلہ کی طرف لوگوں کی توجہ دوبارہ لوٹے گی اور یہ مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (AIMPLB) کو معاملے میں پیچیدگی پیدا کرنے سے بھی روکے گا۔
بہت سے عام مسلمان اور خواتین اسلامی فقہ سے بے خبر ہیں اسی لیے انہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ افاقی طور پر مقبول ایک اسلامی اصول ہے، لہٰذا، انہیں اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ یہ غلط فہمی غلام کے طور پر اپنی بیویوں کے ساتھ سلوک کرنے کے مردوں کے اپنے غیر معقول "حقوق" پر تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی علماء کے درمیا اتحاد کے مظاہرہ سے پیدا ہوتی ہے۔
ہندوستان کی مرکزی حکومت نے یہ کہا ہے کہ تین طلاق کو ایک سیکولر ملک میں 'غلط' انداز میں پیش کیا گیا ہے
اگر چہ علماء معمولی فقہی اختلافات پر آپس میں لڑتے رہتے ہیں، لیکن اس معاملے میں ان کے درمیان مکمل طور پر اتحاد ہے۔ یہاں تک کہ جن علماء کے مسلک میں یہ مذموم عمل جائز نہیں ہے وہ بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس غیر اسلامی موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اہل حدیث بھی سعودی عرب کی طرح حنبلی مسلک کی پیروی کرتے ہیں جس میں ایک ہی نشست میں تین طلاق دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن اہل حدیث کے جنرل سیکرٹری مولانا اصغر علی امام مہدی اس بات پر بضد ہیں کہ "مرکزی حکومت اور عدالتوں کو دین کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔" اور اس معاملے میں یہی موقف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے صدر اور معروف شیعہ عالم دین مولانا قلب صادق کا بھی ہے۔ شیعہ جس فقہ کی پیروی کرتے ہیں یعنی فقہ جعفری میں بھی ایک نشست میں تین طلاق کا عمل ناجائز ہے۔
مغربی بنگال میں ایک شخص تین طلاق پر پابندی کے خلاف بینر بلند کئے ہوئے: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تین طلاق کے خلاف حکومت کی پہل اور ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شیعہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ مولانا صادق نے سنی مسلمانوں کو اس مسئلہ پر نظر ثانی کرنے کا مشورہ دیا ہے، لیکن وہ اب بھی سپریم کورٹ میں انسداد حلف نامہ میں تین طلاق کی تائید کرنے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے ساتھ ہیں۔
ہندوستان میں ایک اور ممتاز مسلم عالم نے بھی اس معاملے اپنے ایک متضاد موقف کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر، جمعیت العلماء سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالحمید نعمانی نے ٹی وی پر ایک مباحثے میں اس بات کا اعتراف کیا کہ: ایک نشست میں تین طلاق کے معاملے میں امام اعظم ابو حنیفہ نے یہاں تک کہا ہے کہ، "جس نے یہ کام کیا وہ حرام فعل کا مرتکب ہوا"۔
امام ابو حنیفہ جو کہ حنفی مکتبہ فکر کے بانی ہیں اکثر ہندوستانی مسلمان انہیں کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ ایک نشست میں تین طلاق کو حرام کہتے ہیں۔ یہ جان کر آپ کو تعجب ہوگا کہ قیام پاکستان کے بعد فوراً ہی پاکستان میں اینگلو محمڈن لاء میں موجود دیگر غیر اسلامی معمولات سمیت اس معمول کو بھی ختم کر دیا گیا، لیکن یہ اب بھی ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے نام مروج ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاءکا بھی موقف تضاد کا شکار ہے۔ اور یہ یقینا ایک انتہائی عجیب بات ہے۔ کیوں کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس کی حمایت بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ہی نشست میں تین طلاق ایک قابل نفرت اور فعل حرام ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قانون کی کتاب مجموعہ قوانین اسلامی کے آرٹیکل (267) میں ہے:
‘‘طلاق بدعت (ایک نشست میں تین طلاق، جو کہ طلاق دینے کا غیر قرآنی طریقہ ہے) ممنوع ہے؛ تاہم، اگر کوئی ایسی طلاق یعنی طلاق بدعت دیتا ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی اور طلاق دینے والا گنہگار ہوگا۔’’
تاہم، قوانین کے آرٹیکل 269 میں تو حماقت کی انتہاء نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ اوسطاً ہر مسلمان یہ مانتا ہے کہ اسلام میں نیت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ جب ایک مسلمان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے کافی نہیں سمجھا جاتا ہے کہ وہ نماز کے اندر ہر چیز کی ادائیگی کر رہا ہے، بلکہ اسے یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ وہ مخصوص طور پر ایک خاص نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اب آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی شریعت کی کتاب کا مطالعہ کریں کہ تین طلاق کے معاملے میں اس کتاب کا کیا کہنا ہے:
‘‘طلاق صریح’’، یعنی طلاق کے لیے واضح اور آسان لفظ کے استعمال سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ اس نے طلاق کا ارادہ کیا ہو یا نہ کیا ہو۔"
یقیناً اس کی بنیاد اس دیوبندی فتوی پر ہوگی کہ جس میں ایک نوجوان مسلم شوہر کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر آپ آن لائن اپنی نئی نویلی بیوی کے ساتھ چیٹ (chat) کرتے ہوئے مذاق میں بھی تین مرتبہ لفظ طلاق لکھ دیتے ہیں تو طلاق واقع ہو جائے گی،اور آپ اس سے اس وقت تک دوبارہ شادی نہیں کر سکتے جب تک وہ حلالہ نہ کروا لے۔ اور حلالہ یہ ہے کہ وہ کسی اور مرد سے شادی کرے اور اس مرد کے ساتھ اس عورت کی خلوت صحیحہ بھی پائی جائےاور پھر اس کے بعد وہ نیا شوہر اسے طلاق دیدے۔
کشمیری شیعہ مسلم خواتین
حلالہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر سب سے زیادہ فحش سماجی معمول ہے جسے علماء کے تمام طبقوں کی حمایت حاصل ہے۔ اگر تین طلاق کا عمل ختم کر دیا جائے یا ایک ہی نشست میں دی جانے والی تین طلاق کو ایک ہی قرآنی طلاق مانا جائے تو یہ سماجی معمول خود بخودختم ہو جائے گا۔ جیسا کہ مراکش، کویت، یمن، افغانستان، لیبیا، کویت، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، شام، اردن، عراق، سوڈان سمیت 22 مسلم ممالک میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ سری لنکا نے بھی اپنے مسلم پرسنل لاء میں اصلاحات کو متعارف کرایا ہے اور اس میں صنفی مساوات کے تناسب میں اضافہ کیا ہے، کہ جہاں مسلمانوں کی آبادی 10 فی صد سے بھی کم ہے۔ صرف ہندوستان ہی اصلاحات کی سمت میں اب تک قدم آگے نہیں بڑھا سکا ہے۔ اگر حکومت اس بات کا انتظار کرتی ہے کہ وہ اس پر علماء کی تائید بھی حاصل کر لے تو ایسا کبھی نہیں ہونے والا۔ علمائے ابھی فوری طور پر قرآن مجید کو اپنا رہنما قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہونے والے۔ان کے لیے شریعت ہی قانون سازی کی اصل بنیاد ہے جو کہ 90 فیصد عرب کے قبائلی روایات پر مبنی ہے۔ وہ شریعت کو الہامی مانتے ہیں، اگر چہ سب سے پہلے اس کی تدوین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 120 کے بعد عمل میں آئی تھی، اور وقت اور زمانے کی مناسبت سے اس میں ہمیشہ تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ اب تمام امیدیں صرف سپریم کورٹ کے ساتھ ہی وابستہ ہیں۔
سلطان شاہین دہلی میں ایک ترقی پسند اسلامی ویب سائٹ NewAgeIsalam.Com کے فاؤنڈنگ ایڈیٹر ہیں۔
اس سے پہلے یہ مضمون 1 مارچ 2017 کو میل ٹوڈے میں شائع ہو چکا ہے۔
URL for English article: https://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/sultan-shahin,-founding-editor,-new-age-islam/how-islamic-is-instant-triple-talaq?/d/110261
URL: https://newageislam.com/urdu-section/how-islamic-instant-triple-talaq/d/110307
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism