New Age Islam
Sun Feb 16 2025, 03:35 PM

Urdu Section ( 9 Feb 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

How Islamic Are ‘Islamic’ Blasphemy Laws? توہین رسالت کے اسلامی قوانین کس طرح اسلامی ہیں؟

سلطان شاہین،فاؤنڈنگ ایڈیٹر، نیو ایج اسلام

15 جنوری 2017

4 جنوریبر صغیر ہندو پاک میں اعتدال پسند مسلمانوں کے لئے ایک یادگار دن بن چکا ہے جوہر سال ہمیں اس بات کی یاددلاتا ہے کہ اسلام کی روح کی باز یافت کے لیے اب تک مناسب جد و جہد کا آغازنہیں ہوا ہے۔ اعتدال پسند، ترقی پسند اور آزاد خیال مسلمانوں کو توہین رسالت کے نام پر قتل کیا جا رہا ہےاور وہ اب بھی ایک مضبوط نظریاتی روایت کی بنیاد پرخود کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں۔

2011 ء میں اسی دن پاکستانی پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ایک ایسی عیسائی خاتون آسیہ بی بی کے لئے ہمدردی کا اظہار کرنے کے جرم میں خود انہیں کے باڈی گاڈ نے قتل کر دیا تھا، جس پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام تھا۔اگر چہ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کوپاکستانی عدلیہ کے فیصلے پر پھانسی دے دی گئی ہے لیکن جنوبی ایشیاء کے لاکھوں لوگوں اور خاص طور پر بیشتر مکاتب فکر کے علماء کی نظر میں اسے ایک صوفی اور شہیدکا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔

آسیہ بی بی کو توہین رسالت کےجھوٹے الزام میں پھنسایا گیا تھا جیسا پاکستان کے اندھے توہین رسالت کے قوانین کے اکثر متاثرین کے ساتھ ہوتا ہے۔پاکستانی پریس کی رپورٹ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف توہین رسالت کے تمام مقدمات کا مقصد یا تو ذاتی حساب برابر کرناہے یا کسی غیر مسلم کی جائداد پر قبضہ جمانا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیائی مسلمان توہین رسالت کے تصور کا غلط استعمال کرنے میں تنہا ءنہیں ہیں۔توہین رسالت کا ابھی ایک مشہور مقدمہ انڈونیشیا میں گورنر اہوک (Ahok) کے خلاف چل رہا ہے،گورنر اہوک (Ahok)ایک عیسائی ہیں اور ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے صرف قرآن کی کچھ آیات کا حوالہ پیش کیا ہےجس پر مسلمانوں میں اس قدر غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی کہ انہوں نے ان کے خلاف اہانت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ان کا ماننا یہ ہے کہ کس طرح کوئی عیسائی ایک واحد حق صحیفہ کا حوالہ پیش کر سکتا ہے؟ (کیا عیسائی ان انڈونیشیائی مسلمانوں کے لئے شیطان کی نمائندگی کرتے ہیں؟)

جرائم پسند اور اسلام مخالف نوعیت پر مبنی اس گمراہ کن نظریہ کے پرستاروں میں اس حماقت نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اور یہ سب کچھ انڈونیشیا میں ہو رہا ہے جسےہم ترقی پسند مسلمان اسلام میں اعتدال پسندی کی ایک مثال کے طور پر پیش کرتے تھے۔کیا آج 21ویں صدی میں ہمیں انہیں فضول باتوں توجہ دینی چاہیے؟اور توہین رسالت کے اسی معروف الزام کی بنا پر لاکھوں لوگوں کو قیدی نہیں بنایا جا سکتا ؛ ہم صرف ان سے اس امید کے ساتھ گفتگو کر سکتے ہیں کہ شاید ان کے ذہن و فکر میں ہماری بات کچھ سما سکے۔

قرآن مجید میں توہین رسالت کے لیے بالکل ہی کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے، جبکہ قرآن میں ایسی متعدد آیتیں ہیں جن میں اس کا بیان ہے کہ کس طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت ان کے مخالفین نظم و نثر کی صورت میں کرتے تھے۔ جیسا کہ ایک مفسر قرآن اور نیو ایج اسلام کے کالم نگار محمد یونس اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ کےدشمن دھوکے باز، دغا باز، دیوانہ (68:51، 44:14، 30:58) او رپاگل شاعر کہتے تھے (37:36)۔اور وہ وحی ٔقرآنی کا مذاق اڑاتے تھے ( 45:9، 37:14، 26:6، 18:56) اور وہ وحیٔ قرآنی کوعجیب و غریب اور ناقابل اعتماد بھی قرار دیتےتھے ، ( 38:5،50:2) اور وہ اسے خواب (21:5)اور قدیم زمانوں کی کہانیاں کہتےتھے (68:15، 46:17، 27:68، 25:5، 23:83، 6:25،83:13) اور انہوں نے پیغمبر اسلام ﷺ پر جھوٹ بولنے اور جادو کرنے کا الزام لگایا ( 38:4، 34:43)،نیز انہوں نے آپ ﷺ پر خدا پر جھوٹ باندھنے،جعل سازی کرنے، کہانیاں گڑھنے ( 46:8، 38:7، 32:3، 11:13) جادو گری کرنے کا بہتان بھی باندھا، ( 74:24، 43:30، 21:3)،انہوں نے آپ ﷺ پر ایسا واضح جادو کرنے کا الزام لگایا جوحیران کن تھا ( 46:7، 37:15، 10:2)،اور انہوں نے آپ ﷺ کو جنوں سے متأثر اور یا ان کے قبضے میں قرار دیا ( 23:70، 17:47، 34:8)۔

وہ مزید لکھتے ہیں: ’’جیسا کہ توہین رسالت کی تعریف کی گئی اسکے مطابق یہ تما م اتہامات وا لزامات توہین رسالت تھے ۔ ایسی توہین کرنے والوں کے خلاف قرآن میں کہیں بھی کسی سزا کی تجویز نہیں کی گئی ۔

اس کے باوجود علماء توہین رسالت کے ایک ناقابل معافی جرم ہونے کے حق میں علماء کرام کی اتفاق رائے (اجماع) کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔اور اگر کوئی شخص ان کے اجماع پر سوال بھی اٹھائے تو اس کا بھی یہی انجام ہوگا یعنی اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔اجماع قرآن مجیدکے اندر کسی مسئلے کے متعلق کسی واضح رہنمائی کی عدم موجودگی میں اسلامی قوانین پر نظر ثانی کرنے اور اس کا حل پیش کرنے کا ایک اصول ہے۔اجماع کا یہ نظریہ پیغمبر اسلام ﷺ کی غیر موجودگی میں اٹھنے والے نت نئے مسائل کا حل تلاش کرنے اور مذہب اسلام کو دور جدید سے ہم آہنگ کرنے کےلیے وضع کیا گیا تھا، نہ کہ دین کو ایام جاہلیت کی طرف واپس لے جانے کے لیے، جیسا کہ آج علماء اس کا استعمال اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نےاجماع کو ایک اتنا مضبوط آلہ کار بنا دیا ہے کہ اگر کوئی قرآنی حکم بھی مسلم فقہاء کے کسی اجماع سے متصادم ہو جائے تو اسے بھی منسوخ سمجھا جائے گا۔" بہتر یہ ہے کہ آیت قرآنیہ کی توضیح و تشریح اس انداز میں کی جائےکہ جس سے ان کی رائے کی توثیق ہو۔" [اسلام میں اجماع کا اصول، احمد حسین، نئی دہلی، 1992، صفحہ16]

مسلم ممالک میں توہین رسالت کے قوانین کے کسی بھی جواز سےقطع نظر ، عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کا نفاذ صرف مسلمانوں پر ہونا چاہیے۔ورنہ توہین رسالت کی اصطلاح کا نفاذ ہر اس شخص پر بھی کیا جا سکتا ہے جو اسلام کو ایک سچا مذہب نہیں مانتا ہے۔ لیکن ان تمام مسلم ممالک میں جہاں ایسے قوانین موجود ہیں توہین رسالت مخالف قوانین کا نفاذ غیر مسلموں پر بھی کیا جاتا ہے۔لہٰذا،بالآخر سوال کا تعلق اس بات سے ہےکہ مسلمان مذہب کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔ واضح طور پر اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے مسلمان مذہب کی آزادی پر یقین نہیں رکھتے، سوائے یہ کہ جب وہ غیر مسلم اکثریتی ممالک میں رہ رہے ہوں۔

اگرچہ قرآن میں سینکڑوں آیات ایسی ہیں جن سے دیگر مذاہب کا حق ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن اسلامی شرعی قوانین و احکام میں اس امر پر بھی ایک اجماع ہے کہ دوسرے مذاہب کا وجود برداشت نہیں کیا جا سکتا۔مسلم علماء اور فقہاء براہ راست قرآن سے متصادم یہ بیان تو نہیں دے سکتے لیکن ان کےاصولوں کا مطلب واضح طور پر یہی ہے۔ مرکزی دھارے کے اسلامی فقہی احکام مکمل طور پر مسلم اور کافر کے درمیان تقسیم پر مبنی ہیں۔اور کافروں کوبالآخر دنیا سے مٹنا ہی ہوگا اور ان کا خاتمہ یا تو انہیں قائل کر کے کیا جا سکتا ہے یا طاقت کے استعمال سے کیاجا سکتا ہے۔اور ان کے لیے اپنی زندگی بچانے کا دوسرا راستہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کاتسلط قبول کر لیں اور اپنے وجود کو بحیثیت ذمی(جزیہ ادا کرنے والےدوسرے درجے کے شہری) تسلیم کر لیں۔

اکثر علماء تو ان لوگوں کی بھی مذہبی آزادی کو تسلیم نہیں کرتے جنہیں قرآن نے اللہ کے سابقہ نبیوں پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اہل کتاب کا درجہ عطا کیا ہے۔جن میں سے کچھ کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور اکثر کا ذکر نہیں ہےاس لیے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، (ایک حدیث مبارکہ کے مطابق سابقہ نبیوں کی تعداد 124،000 ہے)۔اور انہیں اللہ نے وحی دیکر تمام اقوام عالم کی طرف مبعوث کیا تھا۔ قرآن مجیدان تمام اہل کتاب کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت مسلمانوں کو دیتا ہے جو کہ انسانوں کے درمیان سب سے قریبی رشتہ ہے۔اسلام میں ایمانی عقیدہ کے باب میں یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ کے سابقہ تمام ​​انبیاء پر ایمان رکھا جائےاور نبی یا رسول ہونے میں ان کے درمیان کوئی فرق نہ کیا جائے اور ان تمام کو حکم نبوت و رسالت میں حضرت محمد ﷺ کے برار سمجھا جائے۔ "(قرآن 4:164۔ 2:21۔ 35:24؛ 10:47، 21:7)۔

مذاہب کی آزادی کے بارے میں غیر مبہم اور واضح قرآنی حکم کے متعلق فقہاءکے نقطہ نظر کے بارے میں وضاحت کرنے کے لیےمیں حیدرآباد کے ایک بااثر عالم دین مولانا عبدالعلیم اصلاحی کی عبارتوں کو نقل کرتا ہوں۔اب تک کسی ہندوستانی عالم نے بڑے پیمانے پر شائع ہونے والے ان کے اس بیان سے اختلاف رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔

اکثر حوالے کے طور پر پیش کی جانے والی آیت (2:256) پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: "لا اکراہ فی الدین"، "دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔" یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ لیکن اس کا تعلق صرف اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے سے ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہل کفر کو ان کے کفر کے ساتھ زمین پر مکمل طور پر آزاد چھوڑ دیا جائے اور انہیں جوابدہ نہ بنایا جائے۔ اگر یہ سچ ہے تو، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے مذہب (دین) کو دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے، تو اس سے کیا مراد لیتے ہیں؟"

’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔(9:33)‘‘۔(اگر ہم قرآن کا یہ فیصلہ تسلیم کر لیں کہ دین میں بالکل ہی جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے) تو پھر اس آیت مطلب کیا ہو گا اور جہاد کی فرضیت کی اہمیت و مطابقت کیا رہ جائے گی۔"

جس طرح اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا واجب اور فرض ہے اسی طرح ادیان باطلہ پر اسلام کو غالب کرنے اور اہل کفر و شرک کو ماتحت اور زیر نگیں بنانے کی جد و جہد بھی فرض ہے۔ اللہ نے جو ذمہ داری شہادت حق اور اظہار دین کے عنوان سے مسلمانوں پر ڈالی ہے وہ صرف وعظ و نصیحت اور دعوت و تبلیغ سے ادا ہونے والی نہیں ہے ورنہ غزوات و سرایا کی ضرورت پیش نہیں آتی ’’اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ جنگ کرتے رہو، یہاں تک کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے‘‘ (8:39)۔

’’جہاد دین (دین) پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اور برائی کے مراکز کو روکنے کے لئے فرض کیا گیا ہے۔ اس کام کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، خدا کے نام پر جہاد کی اہمیت پر قرآن و حدیث میں زور دیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام کفار (کافروں) کے خلاف جنگ کے بارے میں واضح احکام مسلمانوں کے لئے نازل کیے گئے ہیں۔ ’’اور تم (بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) جنگ کیا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر) تم سے جنگ کرتے ہیں، اور جان لو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے‘‘ (9:36)۔

ایسے نظریات و معتقدات پر بھی علماءکا اجماع ہے کہ مکہ میں نازل ہونے والی پرامن اور کثیریت پسندابتدائی آیات کو بعد میں مدینہ میں نازل ہونے والی جنگ و جدال پر مبنی جارحانہ آیتوں نےمنسوخ کر دیا ہے۔اور اِنہیں علماء کی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی اب اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ اجماع کی اہمیت اسلام میں قرآن سے بھی زیادہ ہے اور امن اور تکثیریت پسندی، دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ بقائے باہمی،مشکل حالات میں صبر و استقامت، معمولی بہانوں پر جنگ کرنے میں جلدی نہ کرنے وغیرہ جیسے قرآنی احکام ایک ہزار سال سے بھی پہلے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ علماء غیر مسلم عوام کے سامنے تقیہ بازی کے طور پران آیات کا حوالہ پیش کرتے ہیں، لیکن مسلمانوں کو یہ جاننا ہو گا کہ یہ آیات منسوخ ہو چکی ہیں اور صرف دھوکہ دینے کی حکمت عملی کے تحتان کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔

ترقی پسند مسلمانان پرامن آیات کا حوالہ پیش کرتے رہتے ہیں اس لیے کہ وہ اسلامی اصول و معتقدات اور فقہ میں ماہر نہیں ہوتے۔وہ ابھی تک قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔اور ان میں سے اکثر لوگ اپنی دنیا میں گم  ہیں اور اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کیا چل رہا ہے۔یہ بات ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ تکثیریت پسندی پر مبنی قرآنی آیات کا کوئی اثر اب مسلم عوام پر کیوں مرتب نہیں ہوتا۔اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اب تک وہ اس کے مقابلے میں کوئی مضبوط اور معقول فکری روایت قائم کرنے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں۔

----

سلطان شاہین دہلی کی ایک ترقی پسند اسلامی ویب سائٹnewageislam.com کے بانی و ایڈیٹرہیں

سب سے پہلے یہ مضمون 15 جنوری 2017 کو دی سنڈے گارجین میں شائع ہو چکا ہے۔

URL for English article: https://www.newageislam.com/islamic-ideology/sultan-shahin,-founding-editor,-new-age-islam/how-islamic-are-‘islamic’-blasphemy-laws?/d/109726

URL: https://newageislam.com/urdu-section/how-islamic-‘islamic’-blasphemy-laws/d/110006

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..