سلطان شاہین، ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
13 ستمبر 2016
عید قرباں کا دن مسلمانوں کےلیے مقدس ترین دن ہے۔اس دن کو عید قرباں کے یابقر عید کے طور پر جانا جاتا ہےجسے حج کے اختتام پر منایا جاتا ہے۔
عید قرباں عظیم روحانی اہمیتوں اور برکتوں کا حامل ہے۔یہ دن خدا کی مرضی کے آگےحضرتابراہیم علیہ السلام کی مکمل اطاعت شعاری اور فرمانبرداری کی یاد منانے کا دن ہے۔خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنے بیٹےکو قربان کرنے کا حکم دیا تو وہ اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے مجازی طور پر اپنے بیٹے کی قربانی پیش کر دی۔ تاہم، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی جگہ ایک بھیڑکو رکھ دیا گیا جس کی بعد میں قربانی پیش کی گئی۔خدا کو محض قربانی کی نیت کی ضرورت تھی۔
"ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، (قرآن22:35)
اس آیت سے جو امر مستفاد ہوتا ہے وہ بڑا واضح ہے۔ خدا واضح طور پر مسلمانوں سے یہ فرما رہا ہے کہ یہ قربانی نہیں بلکہ ان کا خلوص اور "تقویٰ"اللہ کی رضا کا سبب ہے۔ بدقسمتی سےآج کی قربانی میں قربانی کا یہی پہلو معدوم ہے۔ قربانی کے ذریعہ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی راہ میں کوئی ایسی چیز قربان کریں جو ہمارےلیے عزیز ہے۔قربانی سے مرادمحض یہ رسم نہیں ہونی چاہئے کہ بکری اور بھیڑخرید کر انہیں اتنی بڑی تعداد میں ذبح کیا جائے کہ ان کا گوشت بھی استعمال نہ کیا جا سکے، جیسا کہ سعودی عرب میں ہر سال ہوتا ہے۔
پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کی قربانی پر اپنےموقف کو بڑے واضح انداز میں بیان فرما دیا تھا: "اگر تمہیں جانوروں کو ذبح کرنا ہی پڑے تو اسے اس انداز میں ذبح کرو کہ جو ان کے لیے زیادہ تکلیف دہ نہ ہو"۔بدقسمتی سےپیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کو بھی نظر انداز کر دیاگیا ہے۔حج کے آخر میں جن دو ملین جانوروں کو سعودی عرب میں قربان کیا گیاتھا انہیں انتہائی اذیت ناک حالات میں ملک میں لایا گیا تھاجن میں سے بہت سے راستے میں ہی مر چکے تھے۔
جب میں چند سال پہلے بقرعید کے موقع پر کراچی میں تھا تو میں نے خود ذاتی طور پر جانوروں پر کیے جانے والے تشدد کا مشاہدہ کیا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پورا شہر جانوروں کے مذبح اور مقتل میں تبدیل ہو چکا ہے۔عید سے قبل کے دنوں میں بکری اور بھیڑکی چیخ و پکار کو آسانی کے ساتھ سنا جا سکتا تھا، جب کہ انہیں شہر کے چوک اور چوراہوں میں اور متفرق مقامات پر فروخت کیا جا رہا تھا۔بظاہر جانوروں کو اس بات کا علم تھا کہ ان کا حشر کیا ہونے والا ہے۔وہ ایسا دل خراش منظر تھا کہ میں بھول نہیں سکتا۔بقر عید کامقدس ترین دن قتل و خون کے بازار میں تبدیل ہو چکا ہے،جبکہ اس دن اس"تقویٰ" کا مکمل طور پر فقدان پایا جاتا ہے جس کا اللہ اپنے بندوں سے مطالبہ کرتا ہے۔
جانوروں کے تئیں ہم مسلمان جس سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ دین اسلام جانوروں کے حشر سے بے نیاز ہے۔ درحقیقت اسلام مسلمانوں سے نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق بلکہ حقوق العباد کی پاسداری کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔
اسلام میں حقوق العباد کو اتنا اہم تصور کیا جاتا ہے کہ اسے حقوق اللہ یا خدا کے تئیں ہمارے فرائض اورذمہ داریوں پر بھی فوقیت دی گئی ہے۔اپنی رحمت اور بخشش و مغفرت کے صدقے خدا ہماری خطاؤں کو بخش سکتا ہے جبکہ اس کی مخلوقات قیامت کے دن ہمیں تسلیم بھی نہیں کرے گی۔لہٰذا،ہمیں اسی دنیا میں خدا کی مخلوق کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ضروری ہے اس لیے کہ ہم قیامت کے دن ان سے اپنی بخشش کی امید نہیں کر سکتے۔
مسلمانوں کو رحم دلی کے ساتھ جانوروں کے ساتھ پیش آنے کےپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کو یاد رکھنا چاہیے۔اپنے سفر کے دوران کئی مواقع پرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جانورو کو بوجھ سے آرام دینے اور انہیں کھانا اور پانی دینے کی خاطر اپنی نماز میں تاخیر فرمائی ہے۔ جب تک سب سے پہلے جانوروں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال نہیں کر لی جاتی آپ نماز پڑھانے سے بھی انکار فرما دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے صحابہ کو کتوں یا بلیوںکا خیال رکھنے پر لوگوں کے تمام گناہوں کی معافی کی کئی کہانیاں سنائیں۔امام ابو داؤد کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جانوروں کے چہروں پر مارنے اور انہیں داغنے سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے جانوروں کے تصادم پر مبنی کھیلوں سے بھی منع فرمایا ہے۔
جانوروں کے لئے ایسے رویہ کی متعدد مثالیں قرآن مجید میں بھی پائی جا سکتی ہیں۔قرآن مجید (6:73 اور78 - 7:77) میں مذکور حضرت حالح علیہ السلام کی کہانی میں قوم تلمود کی تباہی کو بیان کیا گیا ہے جو کہ ایک ایسی قوم تھی جس نے صالح علیہ السلام کے حکم کے خلاف ایک اونٹنی کو مار ڈالاتھا۔قرآن مجید میں مذکور طوفانِ نوح کی کہانی میں واضح طور پر حضرت نوح علیہ السلام کو پہلے تمام جانوروں کے ایکایک جوڑےاور پھر ان کے بعد اپنے پیروکاروں کو سوار کرنے کا حکم دیا تھا۔
دور حاضر کے مسلمانوں کو واضح طور پر اپنے صحیفوں سے تعلیم حاصل کرنے،اپنے نبی کی پیروی کرنے اور جانوروں کے اوپر اس ظلم و بربریت کو روکنے کی ضرورت ہے۔
صورت حال میں کم از کم کچھ جگہوں پرہی سہی لیکن بہتری ضرور پیدا ہو رہی ہے۔ کراچی میں خون کے ننگے ناچ سے مفید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں کچھ لوگوں نےجانوروں کی قربانی کو روک دیاہے اور بعض اسلامی علماء کرام کے مشورہ پر روپیہ پیسہ صدقہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ میں ہندوستان میں بھی چند ایسے افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ امید ہے کہ جنوبی ایشیائی مسلم میڈیا کی حوصلہ افزائی سےیہ آخر کارایک رواج بن جائے گا۔
سلطان شاہین دہلی کے ایک ترقی پسند اسلامی ویب سائٹ نیو ایج اسلام ڈاٹ کام (NewAgeIslam.com)کے بانی و ایڈیٹر ہیں
یہ مضمون اس سے پہلے انڈیا ٹودے کے آن لائن اخبار ڈیلیاو(Daily O)میں شائع ہو چکا ہے۔
ماخذ:
dailyo.in/politics/eid-al-adha-sacrifice-animal-slaughter-hajj-prophet-ibrahim-quran-pakistan-saudi-arabia/story/1/12898.html
URL for English article: https://www.newageislam.com/islamic-society/sultan-shahin,-editor,-new-age-islam/don’t-let-baqr-eid-qurbani-descend-into-blood-orgy/d/108545
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/don’t-let-baqr-eid-qurbani/d/108599