New Age Islam
Wed Dec 17 2025, 07:31 AM

Urdu Section ( 4 Oct 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Essence Of Wisdom In Hindu Scriptures: Can Hindus Be Considered Ahl-e-Kitab? ہندو صحیفوں میں حکمت کے جواہر پارے: کیا ہندوؤں کو اہل کتاب مانا جا سکتا ہے؟

 سلطان شاہین، فاؤنڈنگ ایڈیٹر، نیو ایج اسلام

 11 ستمبر 2024

علماء اسلام کو ہندوؤں کو اہل کتاب تسلیم کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہندو صحیفوں سے لاعلم ہیں۔ اگر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ہندو صحیفوں میں موجود علم و حکمت کی باتیں ان دشواریوں کو یکسر ختم کر دیتی ہیں۔ علماء ہندوؤں کو اسی طرح ایک مشرک قوم سمجھتے ہیں، جس طرح اہل حدیث اور دوسرے سلفی زیادہ تر صوفی مسلمانوں کو مشرک قوم یا کافر سمجھتے ہیں۔ وہ علماء جنہوں نے ہندو صحیفوں کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کیا ہے اور جو ہندو تصوف کی گہرائی اور وسعت سے انکار نہیں کرتے، وہ بھی انہیں اہل کتاب کہنے سے انکاری ہیں، بلکہ انہیں "شبہ اہل کتاب" کہتے ہیں۔

میں نے ہندو صحیفوں کا تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے اور انہیں الہامی سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہمیں بتایا ہے کہ روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نہیں، جس میں رسول نہ بھیجے گئے ہوں۔

 وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (قرآن 5:48)

 ’’اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی اور ان پر محافظ و گواہ تو ان میں فیصلہ کرو اللہ کے اتارے سے اور اسے سننے والے ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر، ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کردیتا مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے تو بھلائیوں کی طرف سبقت چاہو، تم سب کا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جس بات میں تم جھگڑتے تھے۔"

 ‏ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ( قرآن: 16:36)

 ’’اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا کہ اللہ کو پوجو اور شیطان سے بچو تو ان میں کسی کو اللہ نے راہ دکھائی اور کسی پر گمراہی ٹھیک اتری تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا۔‘‘

 اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے:

 ’’اور جو کوئی گروہ تھا سب میں ایک ڈر سنانے والا گزر چکا ۔‘‘ (قرآن، 35:24)

 ایک اور آیت میں فرماتا ہے:

 ’’اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول بھیجے کہ جن میں کسی کا احوال تم سے بیان فرمایا اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا۔‘‘ (قرآن، 40:78)

 اور جن انبیاء کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے، وہ صرف پچیس ہیں:

آدم، اخنوخ، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، داؤد، سلیمان، ایوب، الیاس، یونس، حزقیال، الیشع، زکریا، یحی العمدانی، عیسیٰ، اور محمد، سلام اللہ علیہم اجمعین۔ ان سب پر ایمان لانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

 "یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو اتارا گیا ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ و اسحاقؑ و یعقوبؑ اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کئے گئے موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ اور جو عطا کئے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے ہم ان پر ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہیں۔" (قرآن، 2:136)

اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انبیاء اللہ کے دین کی دعوت میں، آپس میں بھائی بھائی ہیں، حالانکہ ان میں سے ہر ایک کا تعلق ایک خاص قوم اور ایک خاص دور سے تھا۔

 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:

 "انبیاء، ایمان میں بھائی بھائی ہیں، ان کی مائیں مختلف ہیں، لیکن ان کا مذہب ایک ہے۔" (بخاری و مسلم)

 اور خدا کی طرف سے کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا گیا، جسے وحی نہ دی گئی ہو۔

 ’’اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے۔‘‘ (قرآن، 16:43)

اور جب ہم وحی جمع کرتے ہیں تو وہ کتابیں بن جاتی ہیں۔ لہٰذا، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندو صحیفے یا ان کے کچھ حصے، جو واضح طور پر وحی معلوم ہوتے ہیں، خدا کے پیغمبروں یا رسولوں پر نازل کیے گئے تھے۔ میرے ذہن میں ایک الجھن یہ ہے کہ کیا ان کتابوں کے لکھنے والے پیغمبر تھے، یا ان کتابوں میں خدائے تعالیٰ کے اوتار کے طور پر پیش کیے گئے بہادر کردار پیغمبر تھے؟ ہمیں انہیں کیسے سمجھنا چاہیے؟ لیکن پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا یہ اتنا اہم ہے؟

ہمیں لغوی متن یا دیگر تنازعات میں الجھنے کے بجائے ان کتابوں میں موجود حکمت کے جواہر پاروں سے مطلب رکھنا چاہیے۔ قرآنی آیات کی روشنی میں، ہمارے برصغیر کے لیے، جو اب ہندوستان، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، برما، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ میں منقسم ہے، یہ ناممکن ہے کہ یہاں انبیاء کرام نہ بھیجے گئے ہوں، کیونکہ ہر قوم میں نبی بھیجے گئے۔ تاریخی طور پر، یہ وسیع خطہ کئی قوموں اور ریاستوں پر مشتمل رہا ہے۔

ہندوستانی صحیفے اتنے زیادہ ہیں اور صوفی ادب اتنا وسیع ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے اس کا درست حساب پیش کرنا مشکل ہوگا۔ تو، میں نے مشینی ذہانت کی طرف رجوع کیا۔ میں ذیل میں وہ سب پیش کر رہا ہوں جو میں نے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) سے چلنے والے چیٹ بوٹ ChatGPT سے سیکھا ہے۔ یہ کتنا درست ہے، وہی بتا سکتا ہے جس نے زندگی بھر ان صحیفوں کا مطالعہ کیا ہو۔ لیکن میری محدود معلومات کے مطابق، یہ مجھے کافی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔ اس کھلی سائٹ پر موجود ہر چیز کی طرح، یقیناً، اس پر بھی سوالات کا دروازہ کھلا ہے۔ کمنٹ سیکشن اسی کے لیے ہے۔

میں خاص طور پر مسلم علماء سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کا مطالعہ کریں اور اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔

 چیٹ جی پی ٹی

 ویدوں اور دیگر ہندو صحیفوں میں فطرت اور خدا کا تصور

ہندو مت میں خدا کا تصور پیچیدہ اور متنوع ہے، جو اس مذہب کی بھرپور تنوعات کی عکاسی کرتا ہے۔ ہندومت کوئی ایک واحد، معیاری نظام دین نہیں ہے، اور ہندو فلسفہ کے اندر مختلف مکاتب فکر خدا کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں۔ وید، اپنشد، اور دیگر ہندو صحیفے اس کثیر جہتی تفہیم میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہندو صحیفوں میں خدا کی حقیقت اور تصور کے کچھ اہم پہلو حسب ذیل ہیں:

 1. ویدوں میں برہمن:

 • ویدوں میں سب سے قدیم، رگ وید: بھجن پر مشتمل ہے، جس میں برہمن نامی ایک اعلیٰ، ہمہ گیر حقیقت کے لیے تعظیم کا اظہار کیا گیا ہے۔

• برہمن: کو اکثر نیرآکار، لامحدود، اور تمام صفات سے بالاتر قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اس حتمی، غیر متغیر حقیقت کے لیے ہے جو پوری کائنات پر محیط ہے۔

ویدوں میں ذاتی دیوی دیوتا:

• ایک ماورائی برہمن پر زور دیتے ہوئے، ویدوں میں بے شمار دیوی دیوتاؤں کو بھی تسلیم کیا گیا۔ یہ دیوتا مختلف قدرتی قوتوں، کائناتی اصولوں، اور دِویہ پہلوؤں کی تمثیلیں ہیں۔

• اندرا، اگنی، ورون، اور دیگر کو ویدوں میں مخصوص صفات اور افعال کے ساتھ طاقتور دیوتاؤں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ہینوتھیزم (نیم توحیدی) اور پولیتھیزم (شرک پرستی):

• وید میں ہینوتھیزم (نیم توحیدی) کے عناصر بھی پائے جاتے ہیں، جہاں دوسرے دیوتاؤں کے وجود سے انکار کیے بغیر ایک بڑے دیوتا کی پوجا کی جاتی ہے۔ یہ پولیتھیزم (شرک پرستی) کے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ پایا جاتا ہے، جہاں متعدد دیوی دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی ہے۔

• مختلف بھجن میں مختلف معبودوں کو سب سے بڑا معبود کہا جا سکتا ہے، جس سے متنوع نقطہ ہائے نظر کی عکاسی ہوتی ہے۔

بھگود گیتا اور ذاتی خدا:

• ہندوستانی داستان مہابھارت کے اندر ایک عظیم صحیفہ، بھگود گیتا، میں بھگوان کرشن کو خدا کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کرشن خود کو کائنات کے پیچھے ایک حتمی حقیقت قرار دیتے ہیں۔

• گیتا میں بھکتی یوگا کا تصور پیش کیا گیا ہے، روحانیت حاصل کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر، ایک ذاتی خدا کی بھکتی پر زور دیا گیا ہے۔

تریمورتی (برہما، وشنو، شیو):

• بعد کی ہندو روایت میں، تریمورتی کا تصور پیدا ہوتا ہے، جو بھگوان کے تین پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے: برہما (خالق)، وشنو (حفاظت کرنے والا) اور شیو (تباہ کرنے والا)۔

• یہ تینوں کائنات میں تخلیق، تحفظ، اور تحلیل کے چکر کا مظہر ہیں۔

ویدانت میں ایشورا:

• ویدانت کا فلسفہ، خاص طور پر جیسا کہ اپنشدوں میں بیان کیا گیا ہے، ایشورا کا تصور پیش کرتا ہے، جو کہ کائنات پر حکمرانی کرنے والے بھگوان کا ایک ذاتی پہلو ہے۔

• ایشورا کو تخلیق کائنات کا ماخذ مانا جاتا ہے، لیکن یہ ماورائی اور لازوال ہے، جس میں خدا کے ذاتی اور بے نیرآکار پہلو دونوں شامل ہیں۔

 7. سگونا اور نرگونا برہمن:

• ہندو فلسفہ میں، سگونا برہمن (صفات کے ساتھ برہمن) اور نرگونا برہمن (صفات کے بغیر برہمن) کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔

• سگونا برہمن ذاتی دیوتاؤں کے ساتھ منسلک ہے، جب کہ نرگونا برہمن تصور سے ماورا، نیرآکار اور بے صفات حقیقت ہے۔

بھکتی روایت میں تصورات:

• بھکتی روایت میں، بھکت اکثر اپنی عقیدت کا مجسم سمجھ کر کسی خاص دیوتا پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ رادھا اور کرشن، رام اور سیتا، شیو اور پاروتی بھکتی لٹریچر میں مقبول و معروف دِویہ جوڑے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھگود گیتا

بھگود گیتا، جسے اکثر گیتا کہا جاتا ہے، 700 شلوکوں پر مشتمل ایک ہندو صحیفہ ہے، جو ہندوستانی داستان مہابھارت کا حصہ ہے۔ یہ راجہ ارجن اور دیوتا کرشنا کے درمیان مکالمے کی شکل میں ہے، جو ان کا رتھ بان ہے۔ بھگود گیتا میدان جنگ میں ارجن کو درپیش اخلاقی اور فلسفیانہ الجھنوں کو دور کرتی ہے اور عظیم تعلیمات پر مشتمل ہے۔ بھگود گیتا کا لب لباب اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے:

کرم اور دھرم: گیتا میں، نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنے کرم (دھرم) کو انجام دینے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ گیتا سکھاتی ہے کہ انسانوں کو معاشرے میں اپنے کردار کو ادا کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں بے لوثی اور ذمہ داری سے کام کرنا چاہیے۔

بے لوثی: کرشنا ارجن کو لاتعلقی کے ساتھ کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، یعنی کامیابی یا ناکامی کی پرواہ کیے بغیر اپنے فرائض کی انجام دہی۔ بے لوثی انسان کو مشکل ترین حالات میں ذہنی اطمینان و سکون فراہم کرنے میں مدد کرتی ہے۔

نجات کے راستے (یوگاس): گیتا روحانیت کے حصول کے مختلف راستے بیان کرتی ہے، جنہیں یوگا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان میں کرما یوگا (بے لوث عمل کا راستہ)، بھکتی یوگا (بھکتی کا راستہ)، جننا یوگا (علم کا راستہ) اور راجہ یوگا (مراقبہ کا راستہ) شامل ہیں۔ ہر فرد ایک ایسا راستہ منتخب کر سکتا ہے جو اس کے مزاج اور میلان کے مطابق ہو۔

ارواح کی برابری: گیتا یہ تصور واضح کرتی ہے کہ روحانی سطح پر تمام مخلوقات بنیادی طور پر یکساں ہیں، اور ذات، جنس یا سماجی حیثیت جیسے اختلافات سطحی ہیں۔ تمام ارواح کے درمیان اس وحدت کا ادراک روحانی ترقی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

خود شناسی اور نجات (موکش): زندگی کا حتمی مقصد، بھگود گیتا کے مطابق، خود شناسی اور پیدائش اور موت کے چکر سے نجات (سمسارا) حاصل کرنا ہے۔ یہ روح (آتما) کی شکل میں اپنی حقیقت اور تمام وجود کی دِویہ وحدت کو سمجھنے سے حاصل کیا جاتا ہے۔

عقیدہ اور بھکتی: گیتا زندگی کے تمام پہلوؤں میں دِویہ موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک اعلیٰ طاقت پر ایمان اور اس کی بھکتی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ بھکتی کو روحانیت اور نجات حاصل کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ مانا جاتا ہے۔

لچک اور قوت ارادی: گیتا ہمت اور لچک کے ساتھ چیلنجوں کا سامنا کرنے کی اہمیت واضح کرتی ہے۔ ارجن کو زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے شکوک و شبہات سے بالاتر ہو کر مضبوط ارادے اور یکسوئی کے ساتھ اپنا فرض ادا کرے۔

بھگود گیتا کی تعلیمات کا ہندو فلسفے پر گہرا اثر ہے، اور اس کی عالمگیر حکمت کو بھی سراہا گیا ہے، کیونکہ اس نے دنیا بھر کے مفکرین اور رہنماؤں کی بھی رہنمائی کی ہے۔

رامائن کی تعلیمات کا نچوڑ

قدیم ہندوستانی داستانوں میں سے ایک، رامائن، بابا والمیکی سے منسوب ہے، اور اس میں بھگوان رام کی زندگی اور مہم جوئی کو بیان کیا گیا ہے۔ رامائن کی تعلیمات میں اخلاقی، معنوی اور روحانی اصول جابجا موجود ہیں۔ یہاں کچھ اہم پہلو بیان کیے جاتے ہیں:

دھرم (تقوی): رامائن انسان کی زندگی میں دھرم یا تقویٰ پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اس میں بھگوان رام کو دھرم کا مجسم مانا گیا ہے، اور اخلاقی اصولوں، فرض، اور اخلاقی طرز عمل پر ان کی پابندی اس کا مرکزی موضوع ہے۔

بھکتی اور وفاداری: بھگوان رام اور ان کے عقیدت مندوں، خاص طور پر ہنومان اور سیتا کے درمیان تعلق، غیر متزلزل بھکتی اور وفاداری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ رام کے لیے ہنومان کی بے لوث بھکتی سے ہر کوئی واقف ہے، جو خدا کے ساتھ مخلص اور سرشار تعلق کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔

خاندانی اقدار: رامائن خاندانی اقدار کی اہمیت، والدین کے تئیں فرض، اور خاندان کے ہر فرد کی ذمہ داریوں کو واضح کرتی ہے۔ رام کی اپنے والدین سے گہری محبت اور احترام کے ساتھ ساتھ، ایک ذمہ دار بیٹے، شوہر، اور بھائی کے طور پر ان کا کردار مثالی خاندانی ڈھانچے کے لیے ایک نمونہ ہے۔

قربانی اور بے لوثی: رامائن کے کردار، خاص طور پر رام، سیتا، اور لکشمن، قربانی اور بے لوثی کا نمونہ ہیں۔ دھرم کو زندہ رکھنے کی عظیم ترین نیکی کے لیے ذاتی راحتوں اور اپنے تخت کو قربان کرنے پر رام کی آمادگی ایک مضبوط سبق ہے۔

برائی پر اچھائی کی فتح: اس داستان میں اچھائی (جس کی نمائندگی رام کرتے ہیں) اور برائی (جس کی نمائندگی راون کرتا ہے) کے درمیان ابدی جنگ کو پیش کیا گیا ہے۔ برائی پر اچھائی کی فتح نیکی، سچائی اور ایمانداری کی فتح کی علامت ہے، جو یہ پیغام دیتی ہے کہ آخرکار جیت نیکی کی ہی ہوتی ہے۔

معافی کا سبق: متعدد چیلنجوں اور دھوکہ دہی کا سامنا کرنے کے باوجود، بھگوان رام بخشش و درگزر سے کام لیتے ہیں۔ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو بھی معاف کرنے کی ان کی صلاحیت، جیسے توبہ کرنے والا وبھیشنا، معافی کو ایک عظیم اخلاقی معیار کے طور پر پیش کرتی ہے۔

زندگی کی حقیقت کو سمجھنا: رامائن زندگی کی عارضی نوعیت، تبدیلی کی ناگزیریت، اور وجود کے دور اور تسلسل کو بیان کرتی ہے۔ یہ انسانوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ ہم آہنگی اور مادی خواہشات سے لاتعلق ہو کر زندگی گزاریں۔

فطرت کا احترام: یہ داستان فطرت کے لیے احترام کا احساس بھی پیش کرتی ہے۔ وانروں (بندروں کی فوج) کے ساتھ رام کا اتحاد، اور لنکا تک پل کی تعمیر میں ان کا تعاون، ماحول کے ساتھ ہم آہنگی کے رشتے کی عکاسی کرتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ، رامائن صالح زندگی، بھکتی، خاندانی اقدار، قربانی، معافی، اور اچھائی اور برائی کے درمیان ابدی جدوجہد کے حوالے سے لازوال حکمت فراہم کرتی ہے۔ اس کے بیانیے، کرداروں، اور خاص طور پر بھگوان رام کے مثالی طرز عمل سے متاثر ہو کر ایک نیک اور بامعنی زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 یوگا وسسٹھ یا وسسٹھ رامائن کی تعلیمات کا خلاصہ

"یوگا وسسٹھ"، جسے "وسسٹھ رامائن" بھی کہا جاتا ہے، ایک فلسفیانہ کتاب ہے جو حقیقت، وجود، اور روحانی نجات کے راستے سے متعلق بصیرت افروز تصورات پر روشنی ڈالتی ہے۔ یوگا وسسٹھ کی کچھ کلیدی تعلیمات اور موضوعات حسب ذیل ہیں:

اس دنیا کی بے حقیقتی (مایا): یوگا وسسٹھ مایا کے تصور کو بیان کرتا ہے، اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا ناپائیدار اور ہمہ تن تبدیلی پذیر ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ مادی دنیا ایک وہم اور عارضی ہے، اور اس کی اصل حقیقت تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ظاہری حقیقت سے اوپر اٹھ کر اسے دیکھا جائے۔

دماغ اور شعور: اس کتاب کا ایک اہم حصہ ذہن اور شعور کی نوعیت کے لیے وقف ہے۔ اس میں دنیا کا وہم پیدا کرنے میں دماغ کے کردار، اور روحانی ترقی میں ذہن کو سمجھنے اور اس سے ماوراء ہونے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

نجات کے راستے (موکشا): یوگا وسسٹھ میں آزادی کے مختلف راستوں پر بحث کی گئی ہے، بشمول علم کے راستے (جننا یوگا)، بھکتی (بھکتی یوگا)، اور مراقبہ (دھیان یوگا) کے۔ یہ اس بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے کہ کس طرح انسان حتمی آزادی حاصل کرنے کے لیے پیدائش اور موت کے چکر کو عبور کر سکتا ہے۔

نفس (آتما) کی حقیقت: اس کتاب میں نفس (آتما) کی فطرت اور حتمی حقیقت (برہمن) کے ساتھ اس کے تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ نفس کی اصل فطرت کا ادراک سمسار کے چکر (پیدائش اور موت کے چکر) سے نجات کا باعث بنتا ہے۔

بے لوثی اور ترک: یوگا وسسٹھ میں دنیاوی لالچوں اور خواہشات سے لاتعلقی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں انسانوں کو خوشی اور غم کے اتار چڑھاؤ پر قابو پانے اور روحانی مقاصد کے حصول میں ثابت قدم رہنے کے لیے لاتعلقی کا احساس پیدا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

گرو اور شِشیہ کا کردار: بھگوان رام اور بابا واستھا کے درمیان تعلق، گرو اور شِشیہ کی روایت کی ایک مثال ہے۔ گرو کی طرف سے شِشیہ کو فراہم کردہ رہنمائی روحانیت کے راستے پر ایک دانشمند گرو سے علم حاصل کرنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

کہانیاں اور تمثیلیں: یوگا وسسٹھ میں تعلیمات اکثر کہانیوں، تمثیلوں، اور فلسفیانہ مکالموں کی شکل میں پیش کی گئی ہیں۔ یہ بیانیے پیچیدہ فلسفیانہ تصورات کو سہل اور قابل فہم انداز میں پیش کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔

وقت اور کائناتی نظام: یوگا وسسٹھ میں وقت کی نوعیت اور کائناتی نظام پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور اس میں تخلیق، تحفظ، اور تحلیل کے چکر کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ اس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ حقیقت کی ابدی نوعیت کو سمجھنے کے لیے وقت کی حدود سے اوپر اٹھنا ضروری ہے۔

خلاصہ یہ کہ، یوگا وسسٹھ وجود کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک جامع رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور روحانیت تلاش کرنے والوں کو ایک عملی بصیرت پیش کرتا ہے۔ اس کی تعلیمات فلسفیانہ تحقیقات پر مبنی ہیں، اور ان کا مقصد انسان کو مادی دنیا کے فریب سے نکال کر خود شناسی اور نجات کی طرف لے جانا ہے۔

 -------

ویدوں کی حکمت کا خلاصہ

وید، جسے ہندو مت کا قدیم ترین مقدس صحیفہ سمجھا جاتا ہے، زندگی کے مختلف پہلوؤں، فلسفے، رسومات، اور روحانیت پر مشتمل ایک وسیع علم فراہم کرتا ہے۔ ویدوں کی حکمت کی تلخیص، ان کے وسیع مواد کی وجہ سے ایک مشکل کام ہے، مگر یہاں کچھ اہم موضوعات اور تعلیمات پیش کی جا رہی ہیں جو ویدک حکمت کا لب لباب ہیں:

کائناتی نظام (ریتا یا ارتا): ویدوں میں ریتا یا آرتا کے تصور پر زور دیا گیا ہے، جو کائناتی نظام اور اس کی ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کائنات کے قدرتی نظام اور توازن کی نشاندہی کرتا ہے اور تخلیق کے تمام پہلوؤں کے باہمی ربط کو اجاگر کرتا ہے۔

دھرم (فرض): دھرم ویدوں کا ایک مرکزی موضوع ہے، جو اخلاقی اور معنوی فرائض و ذمہ داریوں کو بیان کرتا ہے، جنہیں انسان کو قائم رکھنا چاہیے۔ دھرم پر چلنا ذاتی بہبود، سماجی ہم آہنگی، اور روحانی ترقی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

یوگ (قربانی کی رسومات): ویدوں میں مختلف یجنوں یا قربانی کی رسومات کا ذکر ہے، جن کا مقصد کائناتی نظام کے ساتھ ہم آہنگی فراہم کرنا ہے۔ یجنوں کو دِویہ شکتیوں کا شکریہ ادا کرنے، برکت حاصل کرنے، اور کائنات میں توازن برقرار رکھنے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

چار پروشارتھ (زندگی کے اہداف): ویدوں میں زندگی کے چار بنیادی اہداف بیان کیے گئے ہیں، جنہیں پروشارتھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ چار پروشارتھ ہیں: دھرم (تقوی)، ارتھ (دولت اور خوشحالی)، کام (خواہش اور لذت)، اور موکش (پیدائش اور موت کے چکر سے نجات)۔ ان اہداف میں توازن کو ایک مکمل اور بامقصد زندگی کی کلید مانا جاتا ہے۔

منتر اور بھجن: وید مقدس منتروں اور بھجنوں سے بھرے ہوئے ہیں، جو رسومات اور پوجاؤں کے دوران پڑھے جاتے ہیں۔ ان منتروں کا ایک تبدیلی اور تزکیہ کرنے والا اثر سمجھا جاتا ہے، جو انسان کو خدا سے جوڑتا ہے اور روحانی توانائیوں میں اضافہ کرتا ہے۔

رہمن (حتمی حقیقت): وید میں ایک ایسے برہمن کا تصور پیش کیا گیا ہے، جو ایک حتمی، نیرآکار، اور ماورائی حقیقت ہے، جو پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ برہمن کو سمجھنا اور اس کی معرفت حاصل کرنا اعلیٰ ترین روحانی کامیابی مانا جاتا ہے۔

اپنشد کی حکمت: ویدوں کے اختتامی حصے، جنہیں اپنشد کہا جاتا ہے، نفس (آتما) کی حقیقت اور برہمن کے ساتھ اس کے تعلق کے حوالے سے گہری فلسفیانہ تحقیقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اپنشد خود شناسی اور خدا کی معرفت پر زور دیتے ہوئے، ویدانت کے فلسفے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

گروکل نظام اور گرو-شِشیہ روایت: ویدوں میں گروکل نظامِ تعلیم بیان کیا گیا ہے، جہاں طلباء ایک گرو کے ساتھ رہتے ہیں تاکہ علم اور اخلاقی و روحانی رہنمائی حاصل کر سکیں۔ ویدک ثقافت میں گرو-شِشیہ کی روایت انتہائی قابل احترام ہے۔

تخلیق اور تحلیل کا دائرہ: ویدوں میں کائنات کے تخلیق و تحلیل کے دائرے کا نظام بیان کیا گیا ہے، جس میں تخلیق کے ادوار (سرشتی)، تحفظ (ستھتی)، اور تحلیل (سمہارا) شامل ہیں۔ یہ عمل کائناتی قوانین کے تحت جاری رہتا ہے اور وجود کی ابدیت کی عکاسی کرتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ویدوں میں زندگی کے حوالے سے ایک جامع اور مربوط نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے، جو رسومات، اخلاقی طرز عمل، روحانیت، اور کائناتی نظام کی گہری تفہیم پر مشتمل ہے۔ ان تعلیمات کا مقصد انفرادی زندگی کو وسیع تر عقل کل کے ساتھ ہم آہنگ کرنا، توازن کو فروغ دینا، اور روحانی ارتقاء کو آسان بنانا ہے۔

 ---

 اپنشد کی حکمت کا لب لباب

اپنشد، ویدک لٹریچر کا اختتامی حصہ، فلسفیانہ تحریروں کا ایک مجموعہ ہے جو وجود کے گہرے اور مابعدالطبیعاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اپنشدوں کی حکمت کثیر جہتی ہے، لیکن یہاں کچھ اہم موضوعات پیش کیے جاتے ہیں جو ان کی تعلیمات کا نچوڑ ہیں:

حتمی حقیقت (برہمن) کی نوعیت: اپنشدوں میں برہمن، جو ایک حتمی، نیرآکار، اور ماورائی حقیقت ہے، پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ برہمن کی معرفت کو زندگی کا مقصد اور نجات (موکش) کا راستہ سمجھا جاتا ہے۔

آتما کا تصور: اپنشدوں میں آتما، یعنی انفرادی نفس یا روح، کی وضاحت کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آتما برہمن سے مماثل ہے، اور انفرادی روح کی عقل کل کے ساتھ وحدت پر زور دیا گیا ہے۔

نیتی نیتی (نہ یہ، نہ وہ): اپنشدوں میں برہمن کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے نفی کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے، جسے "نیتی نیتی" کہتے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ برہمن کی تعریف کسی خاص صفات سے نہیں کی جا سکتی اور اسے صرف نفی کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے۔

علم کی اہمیت (جننا): اپنشدوں میں نجات کے حصول میں علم کے کردار پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں علم سے مراد صرف فکری یا عام علم نہیں، بلکہ حتمی سچائی کا براہ راست ادراک ہے۔ یہ ذہن اور انا کی حدود سے اوپر اٹھنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

مایا کا تصور (وہم): مایا، اپنشدوں میں ایک اہم موضوع ہے، جو مادی دنیا کے فریب اور بدلتی ہوئی فطرت کو بیان کرتا ہے۔ مایا کو سمجھنا اور اس سے ماوراء ہونا ازلی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

مراقبہ اور غور و فکر: اپنشدوں میں ذہن اور حواس کی حدود سے اوپر اٹھنے کے مختلف مراقبہ کے طریقے اور غور و فکر کی تکنیکیں بیان کی گئی ہیں، جو خود اور برہمن کا براہ راست تجربہ حاصل کرنے کا مقصد رکھتی ہیں۔

نجات کے راستے (موکش): اپنشدوں میں نجات کے مختلف راستوں کی وضاحت کی گئی ہے، جیسے علم کا راستہ (جننا یوگا)، بھکتی کا راستہ (بھکتی یوگا)، اور نظم و ضبط کے عمل کا راستہ (کرما یوگا)۔ یہ راستے مختلف مزاج اور میلان رکھنے والوں کے لیے موزوں ہیں۔

تمام وجود میں وحدت: اپنشدوں میں تمام وجود کی وحدت کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کائنات میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ روحانیت اور اخلاقی زندگی کے لیے اس باہمی ربط کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔

دوئیت سے بالاتر ہونا: اپنشدوں میں اچھے اور برے، خوشی اور غم، اور کامیابی اور ناکامی جیسی دوئیت سے اوپر اٹھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ حقیقی حکمت ان دوئیت سے بالاتر، بنیادی وحدت کو تسلیم کرنے میں مضمر ہے۔

گرو اور شِشیہ کا رشتہ: اپنشدوں میں روحانی رہنمائی کے لیے گرو اور شِشیہ کے تعلق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ گرو رہنمائی فراہم کرتا ہے، علم بانٹتا ہے، اور شِشیہ کو معرفت کے راستے پر چلنے میں مدد کرتا ہے۔

خلاصہ: اپنشدوں میں حقیقت، خودی، اور نجات کے راستے کے حوالے سے گہری بصیرت فراہم کی گئی ہے۔ ان کی تعلیمات متلاشیوں کو مادی دنیا کی حدود سے اوپر اٹھنے، خود شناسی حاصل کرنے، اور اس ابدی جوہر کو پہچاننے کی ترغیب دیتی ہیں، جو تمام وجود میں سمایا ہوا ہے۔ ہندو صحیفے خدا کی ایک متنوع اور جامع تفہیم پیش کرتے ہیں، جس میں ویدوں کے نیرآکار برہمن سے لے کر ذاتی دیوی دیوتاؤں اور بعد کی روایات کے تریمورتی تک شامل ہیں۔ ہندومت کی لچک انسان کو ان طریقوں سے خدا تک پہنچنے کے قابل بناتی ہے جو ان کے روحانی رجحانات اور ثقافتی پس منظر کے مطابق ہیں۔

-------------

English Article: Essence Of Wisdom In Hindu Scriptures: Can Hindus Be Considered Ahl-e-Kitab?

URL: https://newageislam.com/urdu-section/essence-wisdom-hindu-scriptures-ahl-kitab/d/133353

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..