Following the Prophet’s example, in the last century, the great leader of the then united India’s northwest frontier province, which is now known as Pakistan’s province of Khyber-Pakhtunkwa, Badshah Khan devised a strategy that harmonised the demands of a quest for Justice with the interests of peace. He was inspired by the Mahatma and was his greatest, most unflinching ally. But he had worked out his strategy of non-violent struggle and started his unique movement before meeting him. He said he had learnt this from his study of Quran and Hadith. He found his nonviolent strategy in Islam’s call for an unrelenting struggle against injustice and the Prophet’s constant exhortation for patience and perseverance. He brought the two virtues together and thus was born his unique movement of non-violent resistance against British colonial rule. He told his 100,000 strong non-violent army of khudai khidmatgars (Servants of God):
“I am going to give you such a weapon that police and the army will not be able to stand against it. It is the weapon of the Prophet, but you are not aware of it. That weapon is patience and righteousness. No power on earth can stand against it. …tell your brethren that there is an army of God and its weapon is patience….”[xxv]
Many scholars and peace activists who have studied the Khudai Khidmatgar movement in detail consider this as an Islamic model for non-violent struggle against injustice. Let us hope that Muslims all over the world take this as a model that is as relevant today as it was a century ago. -- Sultan Shahin, Editor, New Age Islam speaking on 28 September 2010 at a parallel seminar organised by Al-Hakim Foundation and Himalayan Research in the UN Human Rights Council’s September 2010 session at Geneva on the International Day of non-violence:28 September 2010
عدم تشدد کو عام کرنے میں مذاہب کی اہمیت: امن قائم کرنے
والوں کے لئے غیر معمولی اسلامی وسائل: یو این ایچ آر سی میں جناب سلطان شاہین کا
خطاب
مدیر NEW AGE ISLAM سلطان شاہین کی تقریر، انہوں نے 28ستمبر2010 میں اس تقریر کو جنیوا میں اقوام متحدہ برائے انسانی حقوق کونسل کے ستمبر کے سیشن میں الحکمہ فاؤنڈیشن اور ہمالین ریسرچ سے منعقد کی گئی سیمنار میں کیا تھا۔ عالمی یوم عدم تشدد، 28ستمبر 2010۔
صدر محترم اور سامعین کرام:
میں اپنی تقریر کا آغاز جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام سے کرنا پسند کرونگا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاء میں اکثر کہا کرتے تھے۔
اے اللہ، آپ ہی امن کے اصل ماخذ ہیں، آپ ہی کی وجہ سے امن قائم ہے اور ہر طرح کاامن ہی سے ہے۔اے اللہ امن نصیب فرما اور جنت میں داخل فرمادے، وہی امن کا گھر ہے، اے میرے پروردگار ساری عزت و عظمت آپ ہی کے لئے ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ مذاہب ہی کی وجہ سے امن اور تشدد دونوں قائم رہا ہے، مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے صحیح اور غلط دونوں راستوں کو اپنا یاہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی تعلیمات کی غلط ترجمانی کر کے تشدد کو بہت بھڑکایا گیاہے۔ تمام مذاہب نے آپسی بھائی چارگی اور اخوت و محبت پر بہت زیادہ زور دیا ہے، اور ہر مذہب کا بنیادی مقصدہی ہے کہ انسانی معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے، جہاں امن و آشتی کی بات ہو نہ کہ ظلم و تشدد کی۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور امن کا داعی بھی۔ کچھ نام نہاد مسلمانوں کی وجہ سے اسلام کو کچھ لوگوں نے غلط سمجھ لیا۔ جب دلائی لامہ سے اسلام کے متعلق سوال پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ہر مذہب کے پیروکار یقینا متشدد ہوتے ہیں، حتی کہ بودھ ازم کے پیروکار بھی۔ ظلم و تشدد کو بڑھانے میں اس کے Emptiness نظریہ کی بھی غلط ترجمانی کی گئی ہے۔
پڑوسی ملک پاکستان میں جماعت اسلامی کے معمر رہنما، سید علی گیلانی وادی کشمیر میں دہشت گردی کو جائز ٹھہراتے ہوئے قرآن اور بھگو ت گیتا دونوں کا حوالہ دیتے ہیں، تاہم تمام اسکالرس کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر مذہب میں امن کارکنوں کے لئے بیش بہا وسائل مہیا ہیں، اور لا تعداد امن کے داعیوں نے اس وسائل کے ذریعہ امن و آشتی قائم بھی کی۔
الغرض ہر مذہب میں محبت و الفت کو عام کرنا، ایک دوسرے کی لغزشوں کو معاف کرنا، ہر جاندار کی عزت و احترام کرنا اخلاق حسنہ ہیں، چنانچہ یہ تعلیمات ہر مذہب میں یکساں طور پائی جاتی ہیں، لہٰذا تھیولوجین Mark Juergensmeyer نے تین پہلوؤں کو یکساں بتایا ہے۔
(1) ہر جاندار کی یکساں عزت و احترام کرنا، اور اسے کبھی بھی نقصان اور تکلیف نہ پہنچا نا
(2) سماج میں میل جول سے رہنے والوں کی ہمت افزائی کرنا۔
(3) ہر ضرورت مند شخص کی ضرورت کو پورا کرنا۔
مذکورہ بالاتینوں پہلوان اخلاقی فرائض میں سے ہیں جن پر ہر مذہب زور دیتا ہے، مایہ ناز اسکالر اور امن کارکن Davin Cortright نے ان پہلوؤں کو واضح انداز میں بتانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر مذہب اپنے متبعین کو ظلم و تشدد سے بچنے کی دعوت دیتا ہے۔ بد ھ ازم میں قتل کی ممانعت اس کے پانچ حدود میں سے ایک ہے، ہندو ازم کے مطابق انسانوں کا قتل جنت میں داخلہ کے لئے منع ہے، جین مت کسی بھی جاندار کو قتل کرنے سے سختی سے منع کرنا ہے۔ اگر کوئی کسی جاندار کو قتل کرتا ہے تو اسے گناہ کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔
قرآن کا کہنا ہے، اس جان کو مت قتل کرو جسے اللہ تعالیٰ نے مقدس و محترم بنایا ہے: بائبل کہا ہے، تم کبھی بھی کسی کو قتل مت کرو۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سماجی ہم آہنگی اور باہم امن سے رہنے والے لوگ ہی مثالی ہیں۔ قرآن اور بائبل میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ آگے کہتا ہے کہ گناہ کا کفارہ ادا کرنے و الے اور دوسروں کو تکلیف نہ دینے والوں کی خاطر قربانی دینے او ر تکلیف اٹھانے سے بھی نہ ہچکیں۔ یہ ابراہیمی روایات میں سے ہے۔ تمام مذہبی روایات میں خصوصاً ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کا حکم ہے۔ David Cortright کہتے ہیں، کہ بدھ ازم او ر ہندو ازم کے بنیادی اصول تکلیف زدہ شخص سے ہمدردی اور اس سے محبت کرنا ہے۔اسلام کا ظہور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہوئی، جس میں انہوں نے سماج میں امن و آشتی کو عام کرنے اور کمزور و ناتواں شخص کے ساتھ ہمدردی کرنے کی دعوت دی۔ بائبل میں موسیٰ کے اوصاف کو بتاتے ہوئے کہا گیا کہ وہ ضرورت مندوں کا خیال رکھنے والے اور ان کی حمایت کرنے والے تھے۔ ہر مذہب میں غیروں کا احترام کرنا اخلاقی فرض ہے۔ قوم میں تصادم کو روکنے کا اہم ذریعہ یہی ہے کہ ان کے اخلاقی حدود کو وسیع کریا جائے۔
اس کے علاوہ David Cortrigt دوسرے وسائل کو بھی واضح کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ تخلیقی امن کا رکنوں کے لئے متعدد مذہبی اصولوں میں متعدد بنیادی چیزیں اپنانے کے قابل ہیں، بدھ ازم، ہندو ازم اور جین ازم میں غیر متشدد انہ اقدار عام ہیں۔ ایماندار ی اور خود اعتمادی امن کارکنوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ انسان کے اند ر سے انتقامی جذبہ کو ختم کر دیتا ہے۔
مذہبی تعلیمات سے روشن سماج کے افراد کا منصف مزاج او رامن پسند ہونا ضروری ہے، Taoism، بدھ ازم، جین ازم، ہندو ازم، Judaism، عیسائیت اور اسلام میں امن پسند اور عدم تشدد کی راہ چلنے والوں کے لئے لاتعداد وسائل باتیں بہت ہیں۔ اس قلیل وقت میں ان سب کا احاطہ ممکن نہیں، ہاں اس موضوع پرمتعدد مضامین اور کتابیں چھپ چکی ہیں جس سے آپ مدد لے سکتے ہیں۔
صدر محترم:
اس قیمتی موقع پر میں یہ بھی بتا دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ اسلام امن کا متلاشی ہے۔ او ر امن کارکنوں کے لئے اسلامی و سائل کا استعمال بھی بہت مفید اور انصاف پر مبنی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے اس عہد میں لوگوں کی بڑی تعداد اسلام کی طرف خوف و ہراس کی نظرسے دیکھتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اسلام متشدد انہ مذہب ہے، جب کہ یہ بالکل غلط ہے۔ اس میں صرف ان لوگوں کا یہ قصور نہیں ہے بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان جنگ اور دہشت گردانہ اعمال میں مبتلا ہیں۔ اورمسلسل اسکالرس ان ناپاک سر گرمیوں کو روکنے میں نہ جد وجہد کرتے دیکھائی دے رہے ہیں نہ ہی ان کی مذمت کرتے نظر آرہے ہیں۔ حالانکہ ایسے لوگوں کااسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم امن کے داعی بنیں، قرآن نے امن کے اس طریقہ کو صحیح طریقہ کہا ہے۔
لفظ اسلام سلم سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ہے، ”امن“۔یعنی اسلام کی روح امن کی روح ہے۔ قرآن کی پہلی آیت سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ امن کا داعی ہے۔ لہٰذا اللہ نے فرمایا کہ ”شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے“ اور یہی آیت تقریباؑ 113 بار قرآن میں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام رحم و کرم پر بہت زور دیتا ہے۔ قرآن کے مطابق اللہ کا ایک نام سلام ہے، تاہم قرآن کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ قرآن کے مطابق مثالی سماج وہ سماج ہے جو دارالسلام یعنی امن کا گہوارہ ہو، جس میں انسان امن سے رہ سکے۔
قرآن دنیا کے سامنے امن اور ہم آہنگی کا ایسا نمونہ پیش کرتا ہے جو پوری دنیا کے لئے قابل اتباع ہے۔جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیداکیاتو اس نے اس کے ہر حصہ کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ بغیر کسی سے ٹکڑائے پر امن طریقہ سے اپنا کام انجام دیتا رہا، لہٰذا یہ اپنے کام میں مشغول ہے۔
اسلام میں جارحانہ جنگ کی سخت ممانعت ہے، حالات سے صرف نظر مسلمانوں کو صرف دفاعی جنگ کی اجازت ہے نہ کہ اقدامی جنگ کی،یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔ قرآن میں ہے ”ہم نے تم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو بنی نوع انسان کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے“۔
اسلام ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے، اور ایک جان کی حفاظت کو پو ری انسانیت کی حفاظت بتاتا ہے۔ اسلام انصاف پر بہت زوردیتا ہے، لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں انصاف حاصل کرنے کیلئے تشدد کی راہ اختیار کرنے کی بھی اجازت ہے حالانکہ یہ غلط ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی دو مثالیں اس کی تائید میں کافی ہونگی، پہلا حدیبیہ کا معاہدہ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معاہدہ ایک مقرر ہ مدت کے لئے کیا تھا۔ ظاہری طور پر یہ معاہدہ مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اس سے صحابہ کرام کو بڑی ذلت کا احساس ہوا، کیونکہ وہ اس وقت تک ایک طاقتور قوم کی شکل اختیار کر چکے تھے اور ان کی طاقت و قوت کا ڈنکا پورے عرب میں بج رہاتھا، لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کی صلح کو ترجیح دی۔ دوسرا واقع فتح مکہ کا واقعہ ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر عام معافی کا اعلان فرمایا، حالانکہ انصاف کامطابق مجرمین سزا کے مستحق تھے،لیکن اس معافی نے ظلم و تشدد کی راہ کو بالکل بند کردیا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں امن کی راہ میں انصاف کو لازمی قرار نہیں دیا بلکہ امن کو پسند فرمایا۔
اسی طرح کو پچھلی صدی کے عظیم رہنما بادشاہ دخان نے اپنایا۔ بادشاہ خان پاکستان کے مہاتما گاندھی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی اسٹریٹجی یہ تھی کہ امن کو انصاف سے ہم آہنگ کردیا جائے۔ بادشاہ خان مہاتما گاندھی سے بہت متاثر تھے، اور ان کے حامیوں میں تھے۔ انہوں نے ان سے ملاقات سے پہلے ہی غیر متشدد طریقہ کار سے اپنی بے مثال تحریک کا آغاز بھی کردیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے یہ طریقہ قرآن اور حدیث سے سیکھا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل صبر و تحمل پر زور دیا ہے۔ برطانوی حکمرانی کے خلاف ان کی غیر متشدد انہ دفاع ایک بے مثال تحریک تھی، انہوں نے ایک لاکھ طاقتور اور غیر متشدد انہ فوج کو خدائی خدمتگار کا نام دیا اور ان کے مخاطب ہوکر فرمایا ”میں تمہیں ایک ایسا ہتھیار دے رہا ہوں جس کے سامنے پولیس اور فوج بھی اپنے گھٹنے ٹیک دیں گے، یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ہتھیار ہے، لیکن تم اس سے واقف نہیں ہو، یہ ہتھیار پاگیزگی، نیکی اور صبر کا ہتھیار ہے۔ہندوستان کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے، اپنے بھائیوں کو بتادو کے خدا کی فوج اور اس کا ہتھیار صبر ہے“۔
متعدد اسکالرس اور امن کارکن جنہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کا تفصیلی سے مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ ناانصافی کے خلاف ایک پر امن جنگ اسلامی طریقہ پر تھی۔ مجھے امید ہے مسلمان پوری دنیا میں اس کو اپنے لئے نمو نہ بنائیں گے۔ کیونکہ اس کے پیچھے سچائی اور نیکی کی طاقت کار فرما ہے۔ مہاتما گاندھی کا ستیاہ گرہ بھی ایک معجزاتی اور کرشماتی کام تھا۔مہاتما گاندھی مختلف طریقوں سے جدوجہد کے پر امن طریقہ کار کو اپنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس آج بادشاہ خان کا وہی پاکستان جنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور یہ جنگ وہ مسلمان لڑرہے ہیں جو اپنی کم علمی کی وجہ سے متشدد انہ طریقہ کو اسلامی طریقہ سمجھتے ہیں۔ یہ پوری دنیا کے مسلمانو ں کے لئے ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔
انہیں چاہئے کہ بادشاہ خان کی طرح اسلام کی صحیح ترجمانی کریں اور از سر نو خدائی خدمت گار تحریک کا آغاز بہتر انداز میں کریں۔
Full Text in original English available at: http://www.newageislam.com/interfaith-dialogue/role-of-religions-in-promoting-non-violence--islam’s-valuable-resources-for-peace-making;-sultan-shahin-s-address-to-a-parallel-conference-at-unhrc,-geneva/d/3606
URL for present Article: https://newageislam.com/urdu-section/role-religions-promoting-non-violence,/d/4760
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism