غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
(انگریزی سے ترجمہ)
دہشت گردانہ افعال کو انجام دینے کے لئے خودکش بم دھماکے کا استعمال شرعا جائز ہے یا ناجائز؟یہ بات اب مخفی نہیں کہ داعش کا نام نہاد ’’جہاد‘‘ فساد ہے جہاد نہیں، لیکن کیا شریعت مطہرہ نے جہاد کے دوران خود کش حملے کو جائز قرار دیا ہے ، جیساکہ کچھ وہابی نظریات کے حاملین بعض حالات میں اس کے جواز کا دعوی کرتے ہیں؟ خود کش حملے کے نظریات کو فروغ دینے والوں کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے؟ خود کش حملہ دہشت گردوں کا سب سے اہم ہتھیار بن چکا ہے۔ ۲۸ جون ۲۰۱۶ کو دہشت گردوں نے استنبول کے اتاترک ہوائی اڈے پر تین خودکش حملوں کو انجام دیا جس میں تقریبا پینتالیس سے زائد افراد ناحق مارے گئے۔ عراق کی سرزمین میں یوں تو ہر روز خود کش حملے ہوتے ہیں ، یہ ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں مسلمانوں پر داعش کے ذریعہ ہونے والے ظلم و ستم کی طرف لوگوں ، میڈیا اور خاص طور پر مغربی ممالک کے افراد کی توجہ بہت کم ہی جاتی ہے ، یہاں تک کہ اس سال دنیا کا سب سے زیادہ خوفناک خود کش حملہ ۳ جولائی کو عراق میں ہوا جس میں تقریبا ۲۱۵ سے زائد عراقی مسلمان اور شہری قتل کئے گئے، پھر بھی عوام اور میڈیا خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیا اسلام نے ان حملوں کا جواز کلی طور یا کسی مخصوص حالت میں دیا ہے جیسا کہ داعش کے وہابیہ اور لیڈران بلا دلیل دعوی محض کرتے رہتے ہیں؟ خود کش حملے کو انجام دینے والے جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟
اس سے پہلے کہ ہم قرآن و حدیث میں جواب تلاش کریں ، ہمیں اس موضوع کی اہمیت کا احساس ضرور ہونا چاہئے کیونکہ خود کش حملہ داعش کے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے جس کا استعمال وہ ان تمام مسلمانوں اور غیر مسلموں کے قتل کرنے کے لئے کر رہے ہیں جو ان کے انتہا پسند وہابی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے ۔ موجودہ ۲۰۱۶ کے جون کے مہینہ میں پانچ ہزار سے زائد عراقی شہری اور سیکیورٹی فورس کے ارکان داعش کے ذریعہ کئے گئے خودکش حملوں میں بے ناحق قتل کئے گئے۔ عراقی شہریوں کو ہدف بنانے والا خودکش حملہ اتنی کثرت سے مصروف عمل ہے کہ لوگ عراق میں ہونے والے تشدد اور بے گناہوں کے قتل عام کے واقعات کے سامنے مردہ دل اور بے حس ہو چکے ہیں۔ نہ تو کسی مغربی اخبار کے صفحات پر متاثرین کا ریکارڈ او ران کی زندگی کی داستان موجود ہے اور نہ ہی ان حملوں پر کوئی ہیش ٹیگ۔
بی بی سی کے اطلاعات کے مطابق، اس سال سرزمین بغداد اور عراق کے دوسرے شہروں میں داعش کے ذریعہ ہونے والے خود کش بم دھماکوں اور حملوں میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
3 جولائی 2016: بغداد خودکش بم حملے میں تقریبا 215 افراد قتل کئے گئے اور دیگر 200 سے زیادہ لوگ زخمی کئے گئے ۔ یہ عراق کی سرزمین پر ہونے والے مہلک ترین حملوںمیں سے ایک تھا ۔
9 جون 2016: بغداد اور اس کے ارد گرد علاقوں میں ہونے والے دو خود کش حملوں میں کم از کم 30 افراد مارے گئے ۔ ان حملوں کے ذمہ داری داعش نے قبول کی ۔
17 مئی 2016: بغداد میں داعش کے ذریعہ کئے گئے چار بم دھماکوں میں 69 افراد کی جان گئی۔
11 مئی 2016: بغداد میں ہونے والے کار بم میں 93 لوگ مارے گئے ۔
1 مئی 2016: عراق کے سماوہ کے جنوبی شہر میں کئے گئے خود کش حملہ نے تقریبا 33 افراد کی جان لی ۔
26 مارچ 2016 : خود کش حملے نے اسکندریہ کے مرکزی شہر میں ہونے والے فٹ بال میچ کو نشانہ بنایا جس میں 32 لوگ مارے گئے ۔
6 مارچ 2016: حلہ کے مرکزی شہر کے قریب چوکی پر ایندھن کے ٹینکر کو دھماکے سے تباہ کیا گیا جس میں 47 لوگ مارے گئے ۔
28 فروری 2016: دو خودکش بم حملوں نے صدرشہر کے ایک مارکیٹ کو ہدف بنایا جس میں 70 لوگ مارےگئے۔
خودکش حملہ اسلام میں قطعا حرام ہے
اسلام نے کبھی بھی اور کسی بھی وجہ سے خود کش حملوں کا جواز نہیں دیا، نہ تو کسی جنگ اور نہ تو کسی جہاد کے دوران، بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو ہمیشہ اس فعل سے روکا ہے ۔ اس کے باوجود داعش اس فعل کواندھا دھندطریقہ سے انجام دے رہے ہیں۔ داعشی وہابی اپنے بانیوں کی نظریات کے آئینے میں جنگ کے حربہ کے طور پر خودکش حملہ کے استعمال کا جواز پیش کررہے ہیں، لیکن اسلام کے مطالعہ سے یہ امر قطعی طور پر واضح ہے کہ اسلام نے خود کشی اور خود کش حملہ کو قطعا حرام قرار دیا ہے ۔ خودکش بمبار یا حملہ آور اللہ رب العزت کے احکام اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی کھلی نافرمانی کر رہے ہیں۔ قرآن کریم اور متعدد احادیث کی روشنی میں ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ خود کش حملہ آور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔
خود کش حملہ حرام ہے : قرآن کریم کی روشنی میں
دیگر افراد کے قتل کے لئے یا کسی بھی وجہ سے خودکش حملے کو قرآن مجید نے سختی سے منع فرمایا ہے
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو"۔(4:29)
اللہ تعالی کا یہ حکم مومنوں کے لئے ہے۔ یہ امر بالکل واضح ہےکہ فرمانبردار مومن ہی اس حکم پر عمل کریں گے۔ صرف نافرمان بندے ہی خود کو ہلاکت میں ڈالیں گے۔ اس آیت میں خودکش حملوں کی ممانعت بالعموم ہے۔ کسی خاص وجہ سے قطع نظر خود کش حملے کی اجازت نہ تو انفرادی سطح پر ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر ہے۔
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت (4:29) کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"اس آیت "خود کو ہلاک نہ کر" سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلماً خود کو ہلاک کرنا یا کسی اور کو ہلاک کرنا ناجائز ہے (امام رازی، تفسیر کبیر، 57:10
خودکش حملے کو آیت 4:29 میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور اس کی اگلی آیت (4:30) ہی میں اللہ تعالی نے خود کش حملہ آوروں کے لیے سزا کا قانون مرتب کیا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پرآسان ہے"۔(4:30)
اسلامی فقہاء کے درمیان اس بات پر بالعموم اتفاق ہے کہ جب اللہ تعالی بالعموم کوئی قانون مرتب فرماتا ہے تو ثبوت کی عدم موجودگی میں حدود لگانا درست نہیں ہے۔ اسی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کے لیے نام نہاد 'جہاد' کے نام پر خود کش حملوں کا جواز پیش کرنا ناجائز ہے اور صریح طور پر شریعت اسلامیہ کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا نام نہاد 'جہاد' مسلمانوں اور غیر مسلموں سمیت بے گناہ شہریوں کے قتل سے موسوم ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ کی صورت میں اسلامی جہاد کی اجازت صرف ظلم و ستم کے خاتمے اور مسلمانوں کے جان و مال کے دفاع میں ہی تھا۔ یہ صرف ریاستی سطح پر دفاع کے لیے ہی ہمہ گیر ہے۔ لہذا، دہشت گرد تنظیموں کو اپنے عقیدے کی اصلاح کرنی چاہیے کہ جارحانہ حملوں کے لئے کبھی بھی خودکش حملوں کا جواز نہیں پیش کیا جا سکتا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بالعموم خودکش حملوں کی ممانعت فرمائی ہے۔ خودکش حملہ آوروں کا عذاب آتش جہنم ہے۔ لہٰذا دہشت گرد تنظیموں کو اور ان نوجوان کو جن کی منفی ذہن سازی کی گئی ہے کسی بھی مخصوص وجہ سے اس کا پابند نہیں رہنا چاہیے۔
ایک دوسری آیت میں اللہ کا فرمان ہے:
"اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے" (2:195)
اسلامی فقہاء اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت (2:195) کا نزول اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے کے سلسلے میں ہوا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس آیت کو کسی بھی طرح سے خود کو ہلاک کرنے یا خود کش حملوں کے ارتکاب کو حرام قرار دینے کے لیے ایک ثبوت کے طور پر بھی نقل کیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے کی بنیاد اس آیت میں مذکور لفظ (تهلكة) کو بنایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ خودکش حملوں کی ممانعت کے لیے 4:29 اور 4:30 جیسی دوسری آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث کا بھی حوالہ پیش کرتے ہیں۔
امام بغوی نےآیت 4:30 کی تفسیر میں آیت 2:195 کا حوالہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "منقول ہےکہ اس نے خود کو ہلاک کرنے والے مسلمان کے بارے میں ذکر کیا ہے"۔ (تفسیر بغوی المعروف بہ معالم التنزیل: 1:418)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا:
"جہاں تک اس آیت (2:195) کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے سیاق و سباق تک ہی محدود رکھنے کی بات ہے تو اس کے لیے مزید گفتگو درکار ہے اس لیےکہ یہ حکم عموم معنیٰ پر مبنی ہے۔" (فتح الباری: 8/115)
امام شوکانی رحمہ اللہ نےفرمایا:
ابن جریر طبری کا ماننا ہے کہ:"آیت (2:195) کے تعلق سے گزشتہ علماء کرام کے بے شمار آراء و خیالات ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ میں اہمیت اس کے عام معنیٰ کو حاصل ہے کسی مخصوص وجہ کو نہیں۔ دینی اور دنیوی لحاظ سے ہر وہ چیز اس لفظ (تهلكة) تباہی میں شامل ہے جس کا ذکر آیت 2:195 میں ہے۔ "(فتح القدیر: 1/193)
فقہ اسلامی کے اس مشہور اصول کی بنیاد پر کہ "حکم عام معنیٰ پر مبنی ہوتا ہے مخصوص معنیٰ پر نہیں" اسلامی فقہاء اور علماء کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ آیت 2:195 انفرادی یا عوامی سطح پر خودکش حملوں سمیت تمام قسم کی تباہیوں کو ممنوع قرار دیتی ہے۔
چونکہ قرآن کو سمجھنے کا سب سے بہتر طریقہ"تفسیر القرآن بالقرآن" ہے اسی لیے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ آیت 2:195 کی بہتر تفسیر تهلكة کے عمومی معنیٰ کے ساتھ آیت 4:29 کی روشنی میں کی جا سکتی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خودکش حملے حرام ہیں اور اللہ تعالی نے خودکش حملہ آوروں کے لئے جہنم میں مستقل عذاب کا حکم صادر فرمایا ہے۔
لفظ (تهلكة) کے عمومی معنیٰ کو سمجھ لینے اور آیت 2:195 کی تشریح آیت 4:29 کی روشنی میں ملاحظہ کر لینے کے بعد اب اہل ایمان پر یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام میں خود کش حملے سخت حرام ہیں۔ اور اگر کسی شخص کی بنیاد پرست نظریہ سازوں نے اس قدر منفی ذہن سازی کی ہو کہ وہ ان دونوں قرآنی آیات کی حقیقی تشریح تک پہنچنے میں ناکام رہا ہو یا کسی بھی شک یا الجھن کا شکار ہو گیا ہو تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار خوبصورت احادیث کی مدد سے بھی ان کے ذہن و ماغ کو صاف و شفاف کرنا چاہوں گا جن میں سختی کے ساتھ انفرادی یا عوام سطح پر خود کش حملوں کے خلاف ممانعت وارد ہوئی ہے۔
خودکش حملہ حرام ہے: متعدد احادیث کریمہ کی روشنی میں
حضور سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خودکشی کا ارتکاب کرنے والا جہنم میں جائے گااور جہنم ہی اس کا دائمی مسکن ہوگا (صحیح بخاری، کتاب الادویات، "باب: زہر لینا اور طبی علاج کے لئے زہر کا یا ان چیزوں کا استعمال کرنا جن کے خطرناک یا نجس ہونے کا گمان ہو)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'جو شخص خود کشی کے لئے خود کو زخمی کرتا ہے وہ جہنم میں بھی خود کوزخمی کرتا رہے گا۔ اور جو شخص پہاڑ سے کود کر خود کشی کرے گا اسے جہنم میں بھی پہاڑوں سے گرایا جائے گا۔ اور جو شخص پھانسی لگا کر خودکشی کرے گا اسے جہنم میں بھی پھانسی دی جاتی رہے گی۔ (صحیح بخاری، کتاب:حقوق تدفین، باب: خود کشی کرنے والوں کا بیان)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی قسم کھاتا ہے (یعنی اگر وہ یہ کہتا ہے کہ اگر اس کی بات جھوٹ ہے تو وہ غیر مسلم ہے) تو یہ ایسا ہی ہے کہ اس نے کہا ہو کہ اگر اس کا حلف باطل ہے اور جو شخص جس چیز سے خود کشی کرتا ہے اسے جہنم میں اسی چیز سے سزا دی جائے گی، اور کسی مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے، اور جو کوئی کسی مومن پر کفر کا الزام لگاتا ہےتو یہ ایسا ہے گویا کہ اس نے اسے قتل کر دیا ہو۔" (صحیح بخاری، کتاب: اخلاق حسنہ، باب: اگر کسی نے کسی معقول بنیاد کے بغیر اپنے مسلم بھائی کو کافر کہا تو وہ خود کافر ہے، صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص جان بوجھ کسی پہاڑ سے کود کر خود کشی کرتا ہے وہ جہنم میں جائے گا اور ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جو زہر پی کر خود کشی کرتا ہے وہ جہنم کے اندر اپنے ہاتھ میں اپنے زہر کو لیکر چلے اور اسے پیئے گا اور ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا اور جو شخص کسی لوہے کے ہتھیار کی مدد سے خود کشی کرتا ہے وہ جہنم کے اندر اپنے ہاتھ سے اس ہٹھیار کو اپنے شکم پر مارے گا اور ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا ۔ " (صحیح بخاری، کتاب الادویات، "باب: زہر لینا اور طبی علاج کے لئے زہر کا یا ان چیزوں کا استعمال کرنا جن کے خطرناک یا نجس ہونے کا گمان ہو)
خود کش حملے کی دعوت دینے والے رہنماؤں کی اطاعت ممنوع ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج کو روانہ کیا اور ایک شخص کو اس کا کمانڈر مقرر کیا۔ اس کے بعد اس شخص نے آگ بھڑکائی اور فوجیوں کو اس میں داخل ہونے کے لیے کہا کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تبھی کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم اس سے دور بھاگ گئے (یعنی ہم نے خود کو آگ سے بچانے کے لئے اسلام قبول کیا ہے)۔ انہوں نے یہ سارا ماجرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بیان کیا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے آگ میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تھا، فرمایا کہ ''اگر وہ اس میں داخل ہو جاتے تو وہ قیامت تک اسی میں رہتے۔'' پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں سے فرمایا کہ"برے کاموں میں کسی کی بھی اطاعت ضروری نہیں ہے اطاعت صرف نیک کاموں میں ضروری ہے ۔ "(صحیح بخاری، [کتاب: ایک سچے انسان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کو قبول کرنا ، باب: تمام معاملات میں یک سچے انسان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کو قبول کرنا، اور صحیح مسلم کتاب القیادۃ)
اس سے ملتی جلتی دیگر احادیث الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ مختلف کتب حدیث میں مندرج ہیں؛ صحیح مسلم [کتاب: قیادت، باب: ان معاملات میں رہنماؤں کی اطاعت کا وجوب جن میں گناہوں کا دخل نہ ہو ، لیکن گناہوں کے معاملات میں ان کی اطاعت کرنا حرام ہے]، سنن نسائی[کتاب البیعۃ، باب: گناہ کا حکم دینے اور اس کی اطاعت کرنے والوں کے لیے عذاب کا بیان] اور سنن ابی داؤد [کتاب الجہاد، باب: اطاعت کا بیان]۔
اس حدیث کے مطابق، رہنماؤں کی اطاعت صرف اچھے معاملات میں ہی ضروری ہے، برے معاملات میں نہیں، مثلاً: انفرادی یا عوام سطح پر خودکش حملے۔
خودکش حملہ آوروں کے لیے جنت کے ممانعت ہے
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی مسند میں لکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"تم سے پہلے کے لوگوں میں ایک شخص کو زخم ہو گیا تھا۔ اس کا زخم اتنا اذیت ناک تھا کہ اس نے ایک چاقو لیا اور اس سے اپنے زخم کو کاٹ لیا اس سے اس کا خون نکلتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: میرے بندے نے خود میری پیش بندی کی، لہٰذا، میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں مروی ہے [کتاب الانبیاء: اسرائیل کے بچوں کے ذکر کا بیان] ، صحیح مسلم [کتاب الایمان، باب ‘خود کشی کی شدید ممانعت اور اگر کوئی جس چیز کی مدد سے خود کشی کرتا ہے اسے جہنم میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا] اور صحیح میں ابن حبان نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
جہاد کے دوران بھی خود کش حملہ آوروں کے لیے جنت کی ممانعت ہے
قرآن اور حدیث کے مطابق خود کش حملہ بالعموم حرام ہے۔ تاہم، دہشت گرد تنظیمیں نام نہاد 'جہاد' اور 'شہادت' کی بنیاد پر کسی نہ کسی طرح اس کا جواز پیش کر کے نوجوان لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ اس مندرجہ ذیل حدیث کو مسخ کر رہے ہیں اور اسے نظر انداز کر رہے ہیں جس میں اصلی جہاد (یعنی مدافعانہ جہاد) کے دوران بھی خود کشی کو حرام قرار دیا ہے، خود ساختہ 'جہاد' کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔
سہل سے مروی ہے:
اپنے ایک غزوہ کے دوران، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو اسلامی سپاہیوں کو مشرکین کے ساتھ لڑتا ہوا دیکھا اور پھر ان میں سے ہر ایک اپنے فوجی کیمپ میں واپس چلے گئے۔ مسلمانوں (کے لشکر) کے درمیان ایک ایسا شخص بھی تھا جو فوج سے دور دور جاکر ہر کافر کا پیچھا کر رہا تھا اور اس پر اپنی تلوار سے حملہ کر رہا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اتنے تسلی بخش طریقے سے کوئی بھی نہیں لڑ رہا ہے (یعنی، یہ بہت بہادر مسلمان ہے)۔" اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "اگر یہ شخص جہنمی ہے تو پھر تم میں سے کون جنتی ہے؟۔" پھر ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ "میں اس کی پیروی کروں گا اور اس کی تیز اور سست نقل و حرکت میں اس کے ساتھ رہوں گا۔" اسی اثناء وہ بہادر شخص زخمی ہو گیا اور یکلخت موت کی آرزو کرنے لگا ، اور اس نے تلوار کے ہینڈل کو زمین پر رکھا اور اس کی نوک کو اپنے سینے میں پیوست کر کے اس نے خودکشی کر لی۔ اس کی میت کو دیکھنے والا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور کہا کہ: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں"۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "یہ کیا ہے؟" تو اس شخص نے پورا ماجرا بیان کیا۔ یہ سننے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی کا عمل لوگوں جنت کا عمل لگےلیکن در حقیقت وہ جہنم کا عمل ہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا کام لوگوں کو جہنم کا عمل لگ سکتا ہے لیکن در اصل وہ جنتی ہوتے ہیں ۔" (صحیح بخاری [کتاب المغازی باب: غزوہ خیبر]، صحیح مسلم [کتاب العقائد »باب: خود کشی کے خلاف سخت ممانعت کی وضاحت، جو شخص جس چیز سے خود کشی کرتا ہے اسے جہنم میں اسی سے سزا دی جائے گی)
خودکش حملہ آوروں کی نماز جنازہ پڑھنا بھی ممنوع ہے
ایک روایت کے مطابق، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ نہیں ادا کی۔
جابر بن سمورا سے مروی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا جنازہ لایا گیا جس نے ایک کشادہ نوک والے تیر سے کود کشی کر لی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی- (صحیح مسلم [کتاب الجنائز، باب: خود کشی کرنے والوں کے جنازے کی نماز ترک کرنا)
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور متعدد احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک سچا مسلمان جسے کتاب اللہ کے بارے کوئی شک نہیں ہے اور جو حدیث کی حجیت پر یقین رکھتا ہے وہ کبھی بھی خود کش حملوں کا جواز پیش نہیں کر سکتا ۔ وہ کبھی بھی داعش کے ذریعہ کئے گئے خودکش حملوں کا جواز کسی بھی صورت میں پیش نہیں کر سکتا۔ ایک مسلمان جسے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی سچی حلاوت نصیب ہوئی ہو وہ ہمیشہ خود کش حملے کو ناجائز و حرام ہی سمجھے گا۔ ایک سچا مسلمان جسے زندگی کی نعمت عطا کرنے کے لیے ہمیشہ اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے خود کو دھماکے سے اڑا کر اپنی اسی زندگی کو تباہ نہیں کر سکتا۔ وہ خود کش حملوں کے لئے کسی دوسرے مسلمان کو نہیں ابھار سکتا۔ اگر کوئی یہ حرام عمل انجام دیتا ہے تو وہ جہنم میں عذاب کا مستحق ہوگا اور ہر اس راستے سے بھٹک جائے گا جو آخرت میں اللہ اور اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرب کا سبب ہے۔ لہذا، میرے عزیز اور کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں برائے مہربانی کسی بھی خود کش حملوں کی دعوت دینے والے دہشت گرد نظریہ سازوں کا شکار نہ بنیں۔ شام، عراق، پاکستان، نائیجیریا اور لیبیا وغیرہ میں رونما ہونے والے نام نہاد 'جہاد' کی تو بات ہی چھوڑ دیں خودکش حملے حقیقی جہاد کے دوران بھی سخت حرام ہیں ۔ اللہ تعالی نے آپ تمام بنی نوع انسان کو محض اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ "میں نے تمام جناتوں اور انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا کہ وہ صرف میری عبادت کریں (51:56)"۔ قرآن یا حدیث میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ اللہ نے آپ سب کو خود کش حملوں کا ارتکاب کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اللہ کی منشاء یہ ہے کہ آپ سب خودکش حملوں سمیت تمام حرام کاموں سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنے دلوں کو اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نور سے روشن کریں۔
اللہ تعالی ہمارے مسلمان بھائیوں کو دہشت گرد نظریہ سازوں سے بچائے!
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/suicide-attacks-isis-any-other/d/107985
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/suicide-attacks-isis-any-other/d/108121