New Age Islam
Sat Mar 22 2025, 01:36 AM

Urdu Section ( 6 Aug 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Suhail Anjum’s Response to Subramaniam Swamy’s anti-Muslim Tirade in DNA سوامی کی زہر افشانی کا جواب

By Suhail Anjum

Swamy uses blatant lies when he writes about the Hindu-Muslim riots. He says, ‘Muslims triggered all the riots after the independence’, it means riots before that were triggered by Hindus.

This allegation of Muslims triggering all the riots is a part of a very nefarious design. It is the Muslims who fell prey to the riots. It is they who lose everything they have. They have to bear all the brunt. And it is the Muslims who are arrested. How is it possible then that it is the Muslims who trigger riots?

URL of Subramaniam Swamy’s Article: http://www.newageislam.com/urdu-section/اسلامی-دہشت-گردی-کاخاتمہ-کیسے-ہو؟/d/5073

URLof English Translation of the Urdu Article by Suhail Anjum: http://www.newageislam.com/muslims-and-islamophobia/suhail-anjum’s-response-to-subramaniam-swamy’s-anti-muslim-tirade-in-dna/d/5199

URL: https://newageislam.com/urdu-section/suhail-anjum’s-response-subramaniam-swamy’s/d/5200

سہیل انجم

جنتا پارٹی کے صدر اور اس کے واحد لیڈر سبرامنیم سوامی کا اشتعال انگیز مضمون زہر میں بجھا ہوا ایسا تیر ہے جو نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے دلوں میں پیوست ہوگیا ہے بلکہ اس نے اس ملک کے سیکولر عناصر کے دلوں کو بھی چھلنی کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مضمون پر مسلمانوں سے کہیں زیادہ غیر مسلم دانشوروں ، صحافیوں اور قلمکاروں نے احتجاج کیا ہے اور سوامی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ سوامی کا مضمون ، مضمون نہیں بلکہ ایک ایسا خطر ناک بم ہے جس کی زد پر اس ملک کا چین وسکون آگیا ہے اور اگراس زندہ بم کو ناکارہ نہیں کیا گیا تو اس کے بڑے ہی خطرناک اور تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ سوامی کے اس مضمون کو دیوانے کی بڑ کہہ کر نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی جو ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کرانے کے درپے رہتے ہیں اور جو بقا باہم کے اصول کے مخالف اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے تحریک میں سرگرم شمولیت رکھتے ہیں ۔سوامی نے اس مضمون میں نام نہاد’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ کو ختم کرنے کے طریقے سجھائے ہیں لیکن حقیقتاً ان کا یہ مضمون ملک میں ایک خاص قسم کی دہشت کو پروان چڑھانے والا اور مسلم دشمن جذبات کو ہوا دینے والا ہے ۔ یہ مضمون بذات خود دہشت گردی کی ایک شکل ہے اور اس کا تعلق اس سلسلے سے ہے جس کی پرورش وپرداخت کے نمونے سوامی اسیما نند ، سودھو پرگیہ ، کرنل پروہت اورپروین توگڑیا جیسے لوگوں میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ سوامی کے اس مضمون کا پوائنٹ وائز جواب دیا جاسکتا ہے لیکن یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے اس کے کچھ خاص نکات کا پوسٹ مارٹم کیا جارہا ہے۔

سوامی نے اپنے مضمون کا عنوان رکھا ہے‘‘اسلامی دہشت گردی کے کیسے ختم کیا جائے’’ ۔ یہ عنوان ہی سرے سے غلط ہے۔ کیونکہ دنیا میں اسلامی دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایک خطرناک منصوبے کے تحت یہ اصطلاح گھڑی گئی ہے جو کہ پوری طرح گمراہ کن او ربے بنیاد ہے۔ جسے اسلامی دہشت گردی کہا جارہا ہے وہ دہشت گردی تو ہوسکتی ہے اسلامی دہشت گردی قطعی نہیں ہوسکتی، کیونکہ اسلام میں نہ تو دہشت گردی کے لئے کوئی جگہ ہے اور نہ ہی کوئی گنجائش ۔ یہ بات بہت پہلے سے ہی کہی جارہی ہے اور اب کی بہت زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے آگے لکھا ہے کہ ہندوستان میں ہر ماہ کم از کم چالیس دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ کی رپورٹ ہوپاتی ہے کچھ کی نہیں ، لیکن سوامی نے اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی حوالہ دیا ہے۔ ہاں اگر اس میں صداقت ہے تو یقینی طور پر اس کے زیادہ ترنشانہ مسلمان بنتے ہیں کیونکہ جن میں ’’ ہندودہشت گرد‘‘ ملوث ہوں۔ ابھی گزشتہ دنوں ناندیڑ کی ایک چھوٹی سی جگہ پر ایک ڈاکٹر کے دواخانے میں جو بم دھماکہ ہوا ہے اس پر میڈیا نے کوئی توجہ نہیں دی جبکہ اس کا تعلق دہشت گردی سے بھی ہوسکتا ہے ۔ البتہ اگر وہ دھماکہ کسی مسلمان کے یہاں ہوا ہوتا تو اب تک آسمان سرپر اٹھا لیا گیا ہوتا۔ سوامی نے ممبئی کے تازہ حملے کے حوالے سے کہا ہے کہ ہندو حلال طریقے سے ذبح کیے جانے کو برداشت نہیں کرسکتے ۔ اس کا جواب تو کچھ اور بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر ہم سوامی کی زبان میں جواب دیں تو یہی کہنا پڑے گا کہ اسلام میں انسانی ذبیحہ ہے ہی نہیں ۔ جہاں تک جانوروں کو ذبح کرنے کا تعلق ہے تو صرف انہی جانوروں کا ذبیحہ ہوتا ہے جو حلا ل ہوں، حرام جانوروں کا ذبیحہ نہیں ہوتا ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ 2012تک پاکستان پر طالبان کا قبضہ ہوجائے گا اور اس کے بعداسلام اپنے نامکمل مشن کی تکمیل کے لئے ہندو ازم سے مقابلہ کرے گا۔اسے سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی دیوانے کی بڑے ہے۔ اسلام کا کوئی مشن نامکمل نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو اسے مکمل کرنے کیلئے اسے ہندو ازم سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل ان کے دعویٰ کا جواب ان کے اگلے پیر اگراف میں ہی موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام نے جس ملک کو بھی فتح کیا وہاں دودہائیوں کے بعد سو فیصد تبدیلی مذہب ہوگئی اور سب کے سب مسلمان ہوگئے لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی آٹھ سوسالوں کی حکومت کے بعد بھی 1947میں غیر منقسم ہندوستان میں 75فیصد ہندو تھے۔ گویا ان کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اسلام زبردستی لوگوں کو مسلمان بناتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو دودہائیوں ہی میں ہندوستان کو سو فیصد اسلامی یا مسلم ملک بن جانا چاہئے تھالیکن ایسا نہیں ہوا۔یعنی اس ملک کے مسلم حکمرانو ں نے کوئی زور زبردستی نہیں کی اور سب کو اپنے اپنے مذاہب اور اپنی اپنی تہذیب پر عمل پیرا رہنے کی پوری پوری آزادی دی تھی۔ سوامی ہندوستان میں ہندومسلم فسادات کے حوالے سے انتہائی دروغ بیانی سے کام لیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ 47کے بعد جو بھی فسادات ہوئے وہ مسلمانوں نے شروع کیے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے کے فسادات ہندوؤں نے شروع کیے ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کی جانب سے فسادات کے آغاز کی کہانی ایک انتہائی منظم سازش کا حصہ ہے۔ ایسی صورت حال میں جبکہ فسادات کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہی ہوتے ہیں ، انہی کو مارا جاتا ہے، انہی کی املاک تباہ ہوتی ہیں اور انہی کو گرفتار بھی کیا جاتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے باوجود فسادات کی ابتدا مسلمان ہی کریں۔ اس سلسلے میں صرف اتنا عرض ہے کہ وہ سینئر پولس افسران وی این رائے کی کتاب Communal Conflicts Combatingاور ایس ایم مشرف کی کتاب Karce Who Killedکا مطالعہ کرلیں ، ان کی آنکھوں پر تعصب کا جو چشمہ لگا ہوا ہے وہ ہٹ جائے گا۔ وہ گجرات فساد کے حوالے سے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا آغاز مسلمانوں نے 56ہندوؤں کو ٹرین میں آگ لگا کر ماردینے سے کیا تھا ۔ اس سلسلے میں حقائق کیا ہیں وہ منظر عام پر آچکے ہیں اور یو سی بنرجی رپورٹ اور دوسری متعدد رپورٹوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جاچکا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہندوستان کے تمام فسادات دہشت گردی ہی ہیں۔ ان کی یہ بات صحیح ہے اور انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فسادات کی ابتدا ہندوؤں کا ایک طبقہ کرتا ہے اور وہ مسلمانو ں کے خلا ف کھلی ہوئی دہشت گردی ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان ہندوؤں پر اس لیے حملہ کرتے ہیں تاکہ ان کو Demoralizeکیا جائے یعنی ان کے حوصلے پست کیے جائیں ۔ اس ملک میں جہاں مسلمانوں کے حوصلے مختلف حیلوں بہانوں سے قدم قدم پر پست کیے جارہے ہوں وہاں بھلا مسلمانوں میں اتنی جرأت کہاں سے پیدا ہوجائے گی کہ وہ ہندوؤں کو پست کرنے کے لئے حملہ کریں اور وہ بھی جبکہ ہندو اکثر یت میں ہیں اور تمام اہم اور کلیدی عہدوں پر وہی فائز ہیں اور سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ انہیں اس بات کا بھی بڑا قلق ہے کہ ہندو کسی ایک پارٹی کے پرچم تلے جمع نہیں ہورہے ہیں، اگر وہ ہوجائیں تو پارلیامنٹ اور اسمبلیوں میں ایک اصلی ہندو پارٹی اکثریت میں آجائے ۔ وہ دراصل آر ایس ایس کی بغل بچہ پارٹی بی جے پی کے حق میں تحریک چلا رہے ہیں لیکن ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ کھل کر بی جے پی کا نام لے سکیں ۔ جہاں تک ایک پارٹی کے پر چم تلے جمع ہونے کی بات ہے تو اس کی سب سے زیادہ ضرورت مسلمانوں کو ہے۔ وہی الگ الگ خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اگر مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آجائیں تو ان کے نصب مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف تمام ہندوؤں کو متحد ہوکر کھڑا ہونا ہوگا اور مل کر جواب دینا ہوگا۔ اس میں وہ مسلمان بھی شامل ہوسکتے ہیں جو ہندوؤں کے بارے میں سوچتے ہوں۔سبرامنیم سوامی کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ دہشت گردی کے شکار ہندوبھی ہیں اور مسلمان بھی اس کے ا تنے ہی خلاف ہیں جتنے کہ ہندو ۔ اسے بار بار ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر سوامی یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف تمام ہندوستانیوں کو متحد ہوکر لڑنا ہوگا تو یہ بڑی بات ہوتی لیکن وہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو متحد کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح ملک میں ہندو مسلم فساد کرانے کے درپے ہیں۔ اس سے ایک طرف وہ مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف ہندو دہشت کے پشت پناہی کرتے ہیں ۔ انہوں نے دارالحرب اور دارالامن کی بحث چھیڑ کر بھی مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کی کوشش کی ہے اور ایک وراٹ یا برہن ہندوستان کی وکالت کی ہے ۔ یعنی آر ایس ایس ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی جو مہم چلارہا ہے ، سوامی اس آگ میں گھی ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سبرامنیم سوامی ہندوؤں کو جو مشورہ دے رہے ہیں یا وہ نام نہاد اسلامی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جو تجاویز پیش کررہے ہیں ان کے مطابق کشمیر سے متعلق دفعہ 370ختم کردی جائے اور صرف ہندوؤں کے لیے پنن کشمیر بنایا جائے ، جوابی کارروائی کے طور پر گیا وائی مسجد سمیت تین سو مسجدوں کو منہدم کردیا جائے ، مسلمانوں سے اس وقت تک ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے جب تک کہ وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر اور اپنے آبا وجد اد کو ہندو تسلیم نہیں کرتے، یونیفارم سول کوڈ لاگو کیا جائے،سنسکرت کی تعلیم اور وندے ماترم گانا لازمی قرار دیا جائے، ہندوستان کو ہندو راشٹر گھوشت کیا جائے، ہندوؤں کی تبدیلی مذہب کو غیر قانونی قرار دیا جائے، بنگلہ دیش سے جتنے ’’درانداز‘‘ یہاں آکر وہ رہے ہیں اتنے تناسب میں بنگلہ دیش کی زمین چھین لی جائے اور مدرسوں،مسجدوں اور چرچوں میں ہندؤں کے خلاف جو تعلیم دی جاتی ہے اسکے جواب میں ہندو ذہینت پیدا کی جائے۔ انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ اگر اس حکمت عملی کو روبہ عمل لیا جائے تو ہم پانچ سال کے اندر دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پاسکتے ہیں ۔ اس حوالے سے انہوں نے یہودیوں کی مثال دی ہے اور ان سے سبق سیکھنے کی تلقین کی ہے۔

اس طرح یہ پورا مضمون زہر میں بجھا ہوا ہے اور آر ایس ایس کے خطرنا ک نظریات کی تبلیغ ہے۔ اگر اس قسم کی حرکتوں پر روک نہیں لگائی گئی تو ملک کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑسکتے ہیں۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/suhail-anjum’s-response-subramaniam-swamy’s/d/5200

Loading..

Loading..