سہیل انجم
20 اکتوبر، 2013
اردو زبان ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی زبان ہے جسے گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ زبان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کسی خاص قوم یا مذہب کی زبان نہیں ہے۔ ہندوستان کی بیشتر تہذیبوں اور ثقافتوں کا علمی ورثہ اس زبان میں موجود ہے۔ اس کی پرورش و پرداخت کسی ایک فرقے یا طبقے یا مذہب کے ماننے والوں نے نہیں بلکہ اس میں تمام ہندوستانیوں کی شرکت رہی ہے۔ لیکن ایک خاص طبقہ ہمیشہ موجود رہا ہے جو اس کی مخالفت کو اپنے لیے عین ثواب سمجھتا ہے او ر اردو اور اہل اردو کو زک پہنچانا باعث فخر تصور کرتا ہے۔
اگر چہ یہ طبقہ چند مٹھی بھر لوگوں پر مشتمل ہے پھر بھی اس کی سازشوں نے سماج میں زہریلے بیج بوئے ہیں اور پیار محبت کو فروغ دینے والی اس زبان کے نام پر دو فرقوں کو لڑا کر ان میں فسادات بھی کروائے ہیں۔ اس کےساتھ ہی کچھ لوگ یہ پروپیگنڈہ کرنے میں ہمیشہ ملوث رہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں بھی ایسے غیر مسلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اردو سے پیار کرتے ہیں ، جنہیں اس سے عشق ہے اور جو اس کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہیں۔ بہت سے غیر مسلموں کی روزی روٹی بھی اسی زبان کی وجہ سے چل رہی ہے۔ اسے لوگ بھلا اس کے دشمن کیوں ہو ں گے اور ایسے لوگوں کی موجودگی کے پیش نظر یہ پروپیگنڈہ کیسے قبول کیا جاسکتا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔
لیکن بہر حال یہ زبان اب زوال پذیر ہے اور حکومتی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں کے باوجود اپنے حقو ق سے محروم ہے۔ اس کو اس کے حقوق سے ہمکنار کرنے کے سلسلے میں بہت سی تنظیمیں اپنی جانب سے حتی المقدور کوشش کررہی ہیں۔ انہیں تنظیموں میں ایک تنظیم ‘‘ اردو ڈپولپمنٹ آرگنائزیشن ’’ بھی ہے جو ایک دوسری تنظیم ‘‘ یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا’’ کے اشتراک سے عالمی یوم اردو کا سالانہ اہتمام کرتی آئی ہے۔ عالمی یوم اردو مذکورہ دونوں تنظیموں کے روح رواں او رمجاہد اردو ڈاکٹر سید احمد خاں کے زر خیز ذہن کی پیداوار ہے ۔ انہوں نے اب سے 17 سال قبل عالمی یوم اردو کاچراغ جلایا تھا جس کی روشنی میں جشن اردو منایا جاتا ہے۔ یہ پروگرام 9 نومبر کو منعقد کیا جاتا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ 9 نومبر ہی کو عالمی یوم اردو کیوں منایا جاتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اس مہم میں شریک ہوں۔اگر ہم اردو سے محبت کرتے ہیں اور اس کی بقا اور تحفظ اور اس کو اس کاحق دلوانے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔ اس بات کی اہمیت نہیں ہوتی کہ کون سی بات کون شخص کہہ رہا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کیا کہا جارہا ہے۔ اسی طرح اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یوم اردو کس تاریخ کو منایا جاناچاہیے ۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم یوم اردو منائیں۔
ملک کے جید اردو صحافی جناب محفوظ الرحمٰن جب تک حیات تھے وہ اس پروگرام کی سرپرستی فرماتے رہے ۔ ان کی رہنمائی میں اس تحریک نے زبردست کامیابی حاصل کی اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں تو یوم اردو 9 نومبرکو منایا ہی جاتاہے دنیا کے ان ملکوں میں بھی منایا جانے لگا ہے جہاں اردو والے منارہے ہیں ۔ اس دن یہ عہد کیا جاتاہے کہ ہم اردو کی بقا اور اس کے تحفظ کی لڑائی جاری رکھیں گے اور خود بھی اردو پڑھیں گے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں گے ۔ مذکورہ دونوں تنظیموں کے پاس اس تعلق سے دنیابھر سے جو رپورٹیں آتی ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ یوم اردو کا چراغ 17 سال قبل جلا یا گیا تھا اس کا اجالا اب دور دور تک پھیل گیا ہے ۔ اردو دشمنی کی تاریکی چھٹ رہی ہے او ر پیار محبت کی روشنی پھیل رہی ہے ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک نیپال میں بھی اب یوم اردو منایا جانے لگا ہے۔
ڈاکٹر سید احمد خاں نے اس سلسلے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے اس مہم کا آغاز کیا تھا تو ان کو یہ اندازہ نہیں تھاکہ اردو سے محبت کرنے والے ان کی اس چھوٹی سی کوشش کی اتنی پذیر ائی اور وہ بھی عملی پذیرائی کریں گے۔کچھ لوگوں نے اس نے سوال کیا تھا کہ آپ کی یہ مہم کیا کوئی رنگ لاسکتی ہے اور یہ کہ جب کوئی کچھ نہیں کررہا ہے اور اردو کے تعلق سے اردو والوں پر بھی جمود طاری ہے تو آپ کیوں خواہ مخواہ سر کھپا رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں نے ایک ننھا سا چراغ جلا یا ہے اگر اس چراغ کی لو سے دوسرے لوگ بھی اپنا چراغ جلاتے ہیں تو مجھے بے حد خوشی ہوگی ۔ اور اگر نہیں جلاتے ہیں تو کوئی بات نہیں ۔ ان کا جوکام ہے وہ اہل سیاست جانیں ، میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔ میں محبت کے اس پیغام کو عام کرنے کی جد و جہد جاری رکھوں گا۔ اگر مخالفین زمانہ کی تندہ تیز آندھیاں اس چراغ کو بجھانا چاہیں گی تو بجھائیں ، لیکن میں اس کے بعد ہی دوسرا چراغ جلانا نہیں بھولوں گا۔
ان کے بقول میں نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ خواہ کچھ ہو جائے میں یوم اردو منانے کا سلسلہ بند نہیں کرونگا ۔ کوئی ساتھ آئے یا نہ آئے ۔ اگر کوئی ساتھ آتا ہے تو مجھے خوشی ہوگی اور اسے بھی اس قافلے میں شامل کرلیا جائے اور اگر کوئی نہیں بھی آتا ہے جب بھی یہ قافلہ رواں دواں رہے گا۔ چاہے اس میں صرف میں ہی اکیلا کیوں نہ رہوں ۔ ڈاکٹر سید احمد خاں کے مطابق محفوظ الرحمٰن صاحب نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور میں نے یہ سلسلہ نا مساعد حالات میں بھی جاری رکھا ۔ کیونکہ میرے نزدیک اردو کی بقا کا سوال تھا، اس کے تحفظ کا سوال تھا اور اس کو اس کا حق دلانے کا سوال تھا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری کوششوں سے کوئی فائدہ پہنچایا نہیں ؟ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میرے ایک چراغ کے جلو میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں چراغ جل اٹھے ہیں اور میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے جو کوشش شروع کی تھی وہ رائیگا نہیں گئی ۔ اسے لوگوں نے شرف قبولیت سے نوازا ہے۔
اردو ڈپولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس جشن اردو کہ موقع پر خادمین اردو کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ وں سے نوازا جاتا ہے۔ شاعری، صحافت ، قومی یک جہتی ، اردو کتابوں کی طباعت اور دیگر شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس موقع پر ایک یادگار ی مجلّہ بھی شائع کیا جاتا ہے ۔ جب تک محفوظ الرحمٰن صاحب زندہ تھے ان کی سر پرستی اور رہنمائی میں اسے تیار کیا جاتا تھا۔ مجلّے کی اشاعت کا کام اب بھی جاری ہے ۔
اور امید ہے کہ آئندہ جاری رہے گا۔مجلّے کو یا تو کسی شخصیت کے نام معنون کیا جاتا ہے یا پھر کسی خاص موضوع پر ایک خصوصی اشاعت کی شکل میں اسے چھا پا جاتا ہے۔ اب تک جن شخصیات پر مجلّہ شائع کیا جاچکا ہے ان میں آزاد ہندو ستان کے عظیم صحافی مولانا محمد عثمان فار قلیط ، جناب محفوظ الرحمٰن اور مولانا محمد مسلم قابل ذکر ہیں ۔ جب کہ عالمی یوم اردو 2013 کے موقع پر جید عالم دین، صحافی ، ادیب و دانشور مولانا عبدالماجد دریا بادی کی حیات و خدمات پر خصوصی اور یادگاری مجلّہ شائع کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر اردو تعلیم کے انتظام اور عالمی اردو صحافت پر بھی مجلّہ شائع کیا جا چکا ہے۔ کئی یاد گاری مجلّے شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبال کے نام بھی شائع کیے جاچکے ہیں جن میں اقبال کی شاعری، ان کے فلسفہ، ان کے نظریات اور ان کے وژن پر مضامین شامل کیے گئے ہیں۔
اردو کے تحفظ اور اس کے حقوق کی لڑائی ان تمام لوگوں کو لڑنی چاہیے جو اردو سے محبت کرتے ہیں یا پھر جن کی روزی روٹی کا سلسلہ اردو کے توسط سے قائم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اردو کی ترویج، اشاعت کے لیے اس مہم میں شریک ہوں۔ ان تمام لوگوں سے گزارش ہے جو اردو سے محبت کرتے ہیں، کہ خدارا اس کاعملی ثبوت بھی دیجئے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اردو سے محبت کا آپ کادعویٰ خلوص پر مبنی نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی نیت پر شک کر نے کا کوئی حق نہیں ۔کیونکہ نیتوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے بس اتنی سی گزارش ہے کہ آپ کی اس قافلےمیں شریک ہوجائیں۔ اردو اخبارات و رسالے خرید کر پڑھیں اور جہاں جہاں بھی اردو کے حقوق کی لڑائی لڑی جارہی ہو اس میں شامل ہوجائیں۔اگر ہم اپنے گھر سے اس لڑائی کو شروع کریں تو ہمیں امید ہے کہ یہ شروعات ایک بین الاقوامی مہم میں بدل جائے گی۔ کیا یوم اردو کے موقع پر ہم یہ عہد کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہم خو د بھی اردو پڑھیں گے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں گے اور زیادہ نہیں اردو کا کم از کم ایک اخبار روزانہ ضرور خریدیں گے؟
20 اکتوبر، 2013 بشکریہ : روز نامہ پرتاپ ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/world-urdu-day-importance-relevance/d/14112