سہیل انجم
12 جون، 2013
امریکی وزارت خارجہ میں سینئر مشیر اور اردو داں ترجمان نیرہ حق گزشتہ دنوں دہلی میں تھیں۔انہوں نے اس موقع کو سود مند بنانے کےلیے اردو میڈیا سے گفت و شنید کا فیصلہ کیا او ر کچھ مخصوص صحافیوں کےساتھ ظہر انے پر ملاقات کی ۔ یہ دیکھ کر انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے اردو میں بات کرنے کو ترجیح دی او رکہا کہ آج وہ صرف اور صرف اردو میں گفتگو کریں گی۔ وہ نہایت شستہ اردو بول رہی تھیں اور ہر سوال کا مدلل اور مفصل جواب دے رہی تھیں۔ یادر رہے کہ نیرہ حق امریکی وزارت خارجہ کی پہلی اردو داں ترجمان ہیں۔ اس حوالے سےیہ سوال فطری طور پر اٹھا کہ امریکی وزارت خارجہ کو اردو بولنے والا ترجمان کیوں مقرر کرنا پڑا؟ انہوں نے اس سوال کےجواب میں جو بات کہی وہ دل کو چھونے والی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم کسی سے اس کی زبان میں گفتگو کریں تو ایک تو یہ کہ ہم اس کے خیالات، احساسات اور جذبات کو آسانی کےساتھ سمجھ سکتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ اپناموقف اس کو آسانی کےساتھ سمجھا بھی سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ دہلی کے اردو صحافیوں سے اردو میں اس لیے گفتگو کرنا چاہتی ہیں تاکہ اردو داں طبقہ کے مسائل کو سمجھ سکیں ، امریکہ کےبارےمیں ان کے کیا خیالات ہیں یہ جان سکیں اور اسی کے ساتھ انہیں مسلمانوں کے بارےمیں امریکی حکومت کا نقطہ نظر بھی سمجھا سکیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں آنا فطری امر تھا کہ امریکہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دوسروں سے ان کی زبان میں بات چیت کرے۔ وہ عالمی سپر پاور ہے اور کسی کو بھی اپنی بات اپنی ہی زبان میں سمجھا بھی سکتا ہے او رمنوابھی سکتا ہے ۔ دراصل کسی بھی ترقی یافتہ قوم کی یہ بھی ایک اضافی خوبی ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے ان کی زبان میں مکالمہ کرتی ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ان کی زبانیں سیکھتی ہے تاکہ اسے اپنا موقف پیش کرنے اور دوسروں کاموقف جاننے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ ا س کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ جیسے کہ انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اردو زبان سیکھی بلکہ اردو کے فروغ کے لیے اداروں کا قیام بھی کیا۔
بہر حال! ان سے پوچھا گیا کہ براک اوبامہ کے صدر بننے کے بعد امریکہ نے یہ کوشش کی ہےکہ عالمی سطح پر مسلمانوں سےربط ضبط بڑھائے اور ان کےمسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے لیکن اس کےباوجود امریکہ کے بارے میں مسلمانوں کے خیالات بہت زیادہ مثبت نہیں ہیں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بڑی صاف گوئی سے کام لیا اور کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ کے بارے میں مسلمانوں کی رائے اچھی نہیں ہے ہاں جتنی مثبت ہونی چاہیے اتنی نہیں ہے ۔ امریکی حکومت بدگمانیوں او ر غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور آج بڑی حد تک امریکہ کے بارےمیں مسلمانوں کے خیالات بدلے ہیں اور مسلمانوں کے بارےمیں امریکیوں کے خیالات بھی بدلے ہیں ۔ آج ایسے امریکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو مسلمانوں کے بارےمیں اچھی رائے رکھتے ہیں ۔
انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہاکہ وہ جہاں رہتی ہیں وہاں کے لوگ کسی ہنگامی موقع پر ان کے پاس آتے ہیں او رپوچھتے ہیں کہ ان کو کوئی پریشانی تو نہیں ہے ۔ انہوں نے زور دے کرکہا کہ امریکہ میں مسلمانوں کےمذہبی جذبات کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور وہاں رہنے والے مسلمان بہت خوش ہیں بات چیت کے دوران دہشت گردی کا بھی مسئلہ اٹھا اور جب راقم الحروف نے یہ سوال کیا کہ اس وقت عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی کی جو جنگ چل رہی ہے اس کےدوران بعض اوقات ایسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جیسے مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے، ٹارگیٹ کیا جاتاہے اس کی کیا وجہ ہے ۔ نیرہ حق نے اس کی تردید کی کہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور امریکہ کی یہ پالیسی با لکل نہیں کہ وہ کسی کو ٹارگیٹ کرے۔ لیکن انہو ں نے یہ شکوہ کیا کہ مسلمان دوسروں کو ٹارگیٹ کرتے ہیں۔
شاید ان کا اشارہ برطانیہ میں ہونے والے اس واقعہ کی طرف تھا جس میں ایک مسلم نوجوان نے ایک فوجی کا سر بر سرعام قلم کردیا تھا ۔ لیکن بہر حال ایسے مسلمان مٹھی بھر ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت دہشت گردی کے حامی نہیں ہے او ر نہ ہی ایسے عناصر کی حمایت یا حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس لیے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے دوران اس بات کا بالخصوص خیال رکھا جانا چاہیے کہ اس جنگ میں گیہوں کے ساتھ گھن نہ پیسے جائیں او ربے قصور وں کو ناکردہ گناہی کی سزا نہ دی جائے ۔ اس کے ساتھ ہی ہم نیرہ حق کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا مسئلہ کسی ایک ملک یا کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہےاور دنیا کے تمام ملکوں کو اس کے خلاف متحدہوکر لڑائی لڑنی چاہیے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج دہشت گردی نے دنیا کو چین و سکون غارت کردیا ہے او راس سے سب سے زیادہ نقصان خود مسلمانوں کا اور اسلام کا ہورہاہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو ایسی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کرنےچاہئیں جو اس عالمی برائی کو کچلنے کے لیے سر گرم ہیں۔ یہ عالمی کینسر ہے اور اس کاعلاج بہر حال موثر انداز میں ہوناچاہیے ۔ نیرہ حق نے ہند امریکہ تعلقات پر بھی گفتگو کی اور عالم اسلام پر بھی ۔
انہوں نے بجا طور پر کہاکہ ہندوستان امریکہ کے مابین تاریخی رشتے ہیں اور جو وقت کے ساتھ ساتھ گہرے او رمضبوط ہوتے جارہے ہیں ۔انہوں نے ہند امریکہ سول نیو کلیائی معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی شعبوں میں بھی تعلقات مستحکم ہونے چاہئیں ۔ دراصل یہ معاہدہ ابھی تک روبہ عمل نہیں ہو پایا ہے ۔ انہوں نے افغانستان سے عالمی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہاکہ آج افغانستان کے حالات پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوئے ہیں ۔ سلامتی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور بہت سے طالبان ہتھیار رکھ چکے ہیں ۔ عوام جنگ و جدال سے عاجز آگئے ہیں اور وہ اب مزید خون خرابہ نہیں چاہتے ۔ نیرہ نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کو ایک پر امن او رمہذب ملک کی حیثیت سے ابھرنے کا پورا حق حاصل ہے ۔ راقم الحروف کے اس سوال پر کہ کیا 2014 کےبعد افغانستان میں طالبان ایک بار پھر بر سر اقتدار آسکتے ہیں ؟
انہو ں نے نفی میں جواب دیا ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان کو چاہیے کہ وہ ہتھیار رکھ دیں ، آئین کی پاسداری کریں اور عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں۔ افغانستان کی تعمیر نو میں انہو ں نے ہندوستان سمیت تمام ملکوں کی سر گرم شر کت پر بھی زور دیا ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ صدر براک اوبامہ نے اقتدار میں آنے کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھالیکن وہ ابھی تک اس محاذ پر کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں؟ تو انہوں نے کہاکہ امریکہ دونوں ملکوں کےمابین مصالحت چاہتا ہے اور دو آزاد ریاستوں کے علاوہ اس مسئلے کا اور کوئی حل نہیں ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس سلسلے میں کافی کوششیں کررہے ہیں لیکن بہر حال ا س مسئلے کو دونوں ملکوں کو بیٹھ کر اور بات چیت کر کے ہی حل کرنا ہے ۔ انہوں نے شام کے بحران کے بارےمیں کہا کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ وہاں ایک عوامی جمہوری حکومت قائم ہو جو عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔
بقول ان کے صدر بشا ر الا سد حکومت کرنے کا جواز کھو چکے ہیں، اب وہاں جمہوری حکومت بہر حال قائم ہونی چاہیے ۔ نیرہ حق نے اردو میڈیا سے گفتگو کے دوران ہندوستان میں اردو صحافیوں کےحالات بھی جاننے کی کوشش کی اور یہ بھی معلوم کرنا چاہا کہ اس ملک میں اردو زبان کے کیا حالات ہیں اور اس کا مستقبل کیسا ہے ۔ انہو ں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ امریکہ میں اپنے گھر پر بھی زیادہ تر اردو ہی بولتی ہیں ۔ بہر حال دہلی کے اردو میڈیا سے ان کی ملاقات اردو صحافیوں کےلیے دلچسپ ثابت ہوئی ۔
ہمارا خیال ہے کہ نیرہ حق کے لیے بھی دلچسپ ثابت ہوئی ہوگی ۔
12 جون، 2013 بشکریہ : اخبار مشرق ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/america’s-dialogue-with-urdu-media/d/12345