New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 08:55 AM

Urdu Section ( 28 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Role of Sufi Mystical Poets in Religious Harmony ہندوستانی مشترکہ تہذہب کی تشکیل میں صوفی شاعروں کا حصہ

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

28 اگست 2024

ہندوستان میں منظم عامی مذاہب کے متوازی لوک مذاہب کی بھی بہت مستحکم روایت رہی ہے۔ لوک۔مذاہب مذہبی کٹر پسندی ، نمائشی مذہبیت اور ذات پات کی تفریق کے مخالف ہیں اور مذہبی رواداری اور تزکیہ نفس پر زور دیتے ہیں۔ ان لوک مذاہب سے وابستہ زیادہ تر صوفیہ یا سنت شاعربھی تھے جو اپنی عوامی یا لوک شاعری کے ذریعے عام لوگوں کی زبان میں ہی اپنے اصلاحی افکار پیش کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں مذہبی ہم آہنگی ، انسانیت نوازی اور خدمت خلق کا پیـغام ہوتا تھا۔ ان صوفی شاعروں یا سنتوں نے اس وقت کے مذہبی پیشواؤں کی تنگ ذہنی اور ان کی رہاکاری کے خلاف احتجاج کیا اور عبادت میں خلوص اور زندگی میں سادگی کی وکالت کی۔

مذہبی تنگ نظری ، کٹر پسندی اور ذات پات کے خلاف تحریک ہندوستان میں گوتم بدھ نے شروع کی۔ انہوں نے مذہب میں سادگی اور انسانوں کی خدمت کا پیغام دیا اور ذات پات کے نظام کو ختم کردیا۔ لہذا، بودھ مذہب سے وابستہ شاعروں نے بھی اپنی شاعری کے ذریعہ بودھ فکروفلسفے کی اشاعت کی۔ ان کی شاعری کے دو پہلو ہیں۔بودھ فکروفلسفے کی اشاعت اور مذہبی ریاکاری اور مذہبی استحصال کے خلاف احتجاج۔ انہوں نے اپنے دور کے مذہبی نظام کے خلاف طنز کیا ۔ اس طرح کا طنز سب سے پہلے ہمیں بودھ شاعروں میں ملتا ہے۔ بودھ شاعر سراہا پاد کہتے ہیں:

پنڈیا سالا ستا بکھانئی

دیہہ ہی بدھ بسنت نہ جانئی

ابنا گمنا نہ تینا بکھنڈیا

تو بی نلج بھنئی ہو پنڈیا

ترجمہ :پنڈت سارے سوتروں کا بکھان کرتا ہے لیکن یہی نہیں جانتا کہ باطن میں ہی بھگوان بستے ہیں۔ وہ آواگوان کی گرش کو توڑ نہیں پایا پھر بھی بے شرم کہتا ہے کہ میں پنڈت ہوں۔

ایک دوسرے دوہے میں وہ کہتے ہیں:

مٹی کا ایک ڈھیلا ، پانی اور کوس گھاس لے کر وہ جاپ کرتے ہیں

گھر میں بیٹھ کر وہ اگنی کو بھینٹ چڑھاتے ہیں

وہ بے کار میں دھوئیں میں اہنی آنکھیں جلاتے ہیں

سراہا پاد نے اس طرح کے اور بھی دوہے کہے ہیں جن میں عبادت اور ریاضت کے نام پر ریاکاری اور بھولے بھالے عوام کے استحصال پر طنز کرتے ہیں۔

آگے چل کر مذہبی تنگ نظری اور ریاکاری کے خلاف طنز کا یہ رویہ صوفی اور بھکتی شاعروں نے بھی اپنایا۔ کبیر ، میرا بائی ، رحیم اور لالن فقیر کی بھکتی اور صوفیانہ شاعری میں سماجی ناہمواریوں اور مذہبی تنگ نظری اور ریاکاری کے خلاف طنز واحتجاج ملتا ہے۔

صوفی اور بھکتی شاعروں کی شاعری کا دوسرا عنصر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ اور مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت نوازی کی تبلیغ ہے۔ان صوفی اور بھکتی شاعروں نے تمام انسانوں کے ایک خدا کی تخلیق ہونے کی بنیاد پران کو برابر قرار دیا اور ان کے ساتھ محبت ،مساوات اور حسن سلوک اور ان کی خدمت کی تلقین کی۔ انہوں نے مذہب اور پیدائش کی ننیاد پر تفریق و امتیاز کی مخالفت کی اور سب کو گلے سے لگایا۔

بابا فرید ہندوستان کے صوفی شاعروں میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے انکساری ، انسان دوستی اور خلوص کی تبلیغ واشاعت کی۔ وہ سکھ سماج میں بہت ہی قدر اور عقیدت کے حامل ہیں تو مسلمان بھی ان سے بیحد عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سماج کے ہر طبقے کے لئے محبت اور اخوت کا پیغام ہے۔ ان کے افکار سرحدوں اور قومی حدود سے بالاتر ہیں۔ ان کی شاعری تمام۔ہندوستانیوں کا مشترکہ تہذیبی اثاثہ ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :۔

اے فرید خالق مخلوق میں بستا ہے

اور مخلوق خالق میں

تم برا کسے کہتے ہو

۔۔

فرید بدی کے بدلے میں نیکی کرو

اپنے دل کو غصے سے مت ڈھانپو

اس طرح تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی

اور تمہیں سب کچھ مل جائے گا۔

ہندوستان کے صوفی اور بھکتی شاعروں میں ایک نمایاں نام کبیر کا بھی ہے۔ان کا بہت مشہوردوہا ہے۔

:

کبرا کھڑا بزار میں مانگے سب کی خیر

نا کاہو سے دوزتی ما کاہو سے بر

کبیر ہندوستان کے بھکتی شاعروں میں سب سے اعلی مقام پر فائز ہیں۔ انہوں نے اپنی بھکتی یا صوفیانہ شاعری کی مدد سے سماج کے تمام طبقوں کو محبت اور بھائی چارے کے دھاگے میں پرودیا۔ ان کی عام اور سادہ سی زبان میں فلسفیانہ افکار نے عام لوگوں کے طرز فکر کو متاثر کیا۔ انہوں نے ایک طرف سماجی ناہمواریوں کے خلاف شدید طنز کیا تو دوسری طرف خدمت خلق اور انسان نوازی کا پیغام دیا۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کی موت کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں میں انکی آخری رسوم کی ادائیگی کو لے کر تنازع ہوگیا۔

امیر خسرو ہندوستان کے سب سے بڑے عوامی شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ییں۔انہوں نے ایک طرف فارسی میں اعلی شاعری کی تو دوسری طرف ہندوستانی زبان میں لوک شاعری بھی کی۔ ان کے دوہے، کہہ مکرنیاں ، پہلیلیاں اور ڈھکوسلے عوامی شاعری کے بہترین نمونے ہیں۔ ان کی عوامی شاعری نے سماج کے ان پڑھ طبقے کوبھی متاثر کیا اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو فروغ دیا۔ انہوں نے بھی محبت ، بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام دیا۔

خسرو دریا پریم کا الٹی وا کی دھار

جو ابھرا سو ڈوب گیا جو ڈوبا سو پار

چھتری پران کی ایک پہ دلچسپ نظم پیش ہے:

گھوم گھمیلا لہنگا پہنے

ایک پاؤں سے رہے کھڑی

آٹھ ہاتھ ہیں اس ناری کے

صورت اس کی لگے پری

سب کوئی اس کی چاہ کرے ہے

مسلمان ہندو کھتری

خسرو نے یہ کہی پہیلی

دل میں اپنے سوچ ذری

خسرو نے ہندوستان کے عوام کو اتنا متاثر کیا کہ ہندی داں طبقہ انہیں ہندی کا شاعر کہتا ہے تو اردو داں طبقہ انہیں اردو کا پہلا شاعر قرار دیتا ہے۔

میرا بائی ہندوستان کی لوک شاعری میں ایک لیجنڈری شخصیت کی حامل شاعرہ ہیں۔ انہوں نے عشق حقیقی کو اپنے گیتوں میں اتنی شدت اور خلوص سے پیش کیا کہ ان کے گیت صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے گیت اتنے زباں زد خاص وعام ہیں کہ عصری کلچر کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہندوستانی فلمی گیتوں میں ان کے گیتوں کا استعمال کیا گیا ہے جیسے:۔

پگ گھنگھگرو باندھ میرا ناچی تھی

۔۔

پایو رے میں نے رام رتن دھن پایو

لالن فقیر مشرقی ہندوستان کے سب سے بڑے صوفی یابھکتی شاعر ہیں۔انہوں نے بھی سماجی ناہمواریوں ، ریاکاری ، ذات پات کی تفریق اور مذہبی تنگ نظری کے خلاف طنزواحتجاج کیا۔ ان کے یہاں کبیر کی طرح احتجاج اور طنزکی لے تیز ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ انسانیت کی عظمت اور اخوت و محبت کے علم بردار تھے۔انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے نچلے اور کچلے ہوئے طبقوں کو ملا کر ایک لوک مذہب کی تشکیل کی تھی جسے باؤل سماج کہتے ہیں۔انہوں نے اپنے فلسفے اور نظریہء حیات کو اپنے گیتوں میں پیش کیا۔ ان گیتوں کو باؤل گیت کہتے ہیں۔ وہ دنیا کی بے ثباتی ، انسانوں کے مساوات اور انسان نوازی کے گیت گاتے ہیں۔ انہوں نے بنگال کی مذہبی فکر کو بہت گہرائی سے متاثر کیا ہے۔

چنڈی داس بھی بنگال۔کے بھکتی شاعروں میں ایک نمایاں اور قابل احترام نام۔ہے۔انہیں بنگال کا پہلا انسان نواز شاعر کہا جاتا ہے انہوں نے پندرہویں صدی میں ہی آفاقی انسانیت نوازی کا تصور پیش کردیا تھا جو جدید عالمی شاعری کا مقبول عام تصور ہے۔ ان کا ایک مصرع بہت مشہور ہے

سوبار اوپرے مانش ستیہ ، تاہار اوہرے نائی

ترجمہ:۔

انسانیت سب سے بالاتر ہے ، اس کے پرے کچھ نہیں۔

ان کی بھکتی شاعری کا شاہ کار شری کرشن کیرتن ہے جو تیرہ ابواب اور 402 نظموں پرمشتمل ہے۔

ان صوفی اوربھکتی شاععوں کے علاوہ گورکھ ناتھ ، سنت روی داس ، رس خان حسن رضا وغہرہ نے اپنی صوفیانہ اور بھکتی شاعری سے ہندوستان میں مذہبی رواداری ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، بھائی چارہ اور انسان نوای کو فروغ دیا اور ذات پات ، چھواچھوت ، نسلی امتیاز و تفریق،استحصال اور ریاکاری کے خلاف احتجاج کیا۔ ان شاعروں کی مجموعی شاعری ہندوستان کا مقدس تہذیبی سرمایہ ہے جس پر ہندوستانیوں کو بجا طور پر فخر ہے۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sufi-mystical-poets-religious-harmony/d/133063

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..