حبیب یونیورسٹی سے کمیونیکشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز کے طلباء
28 دسمبر، 2014
ڈاکٹر کرسٹوف گنتھر فی الحال جرمنی میں یونیورسٹی آف لیپزگ کے ایک ریسرچ ٹریننگ گروپ، رلیجس نان کنفارمسٹ اینڈ کلچرل ڈائنامکس (Research Training Group, Religious Non-conformism and Cultural Dynamics)میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور اب ان کی تحقیق کے دائرے میں مذہب اور عوامی زندگی، مذہبی عمرانیات، سول سوسائٹی اور سماجی تحریکیں اور ساتھ ہی ساتھ جدید اصلاحی تحریکیں اور مشرق وسطی میں سیاسی نظریات بھی شامل ہیں۔
وہ یونیورسٹی آف بمبرگ اور قاہرہ یونیورسٹی میں علوم مشرق وسطی، تاریخ اور عربی زبان کے ایک طالب علم رہے ہیں۔ 2010 اور 2013 کے درمیان انہوں نے لیپزگ میں ایک تین سالہ اسکالر شپ حاصل کی اور اپنے پی ایچ ڈی کا مقالہ (The genesis and ideology of the Islamic State of Iraq) کے عنوان سے لکھا ، جسے ایرگن پبلشرز نے جون 2014 میں ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے۔
ڈاکٹر کرسٹوف گنتھر ہم اپنی گفتگو کا آغاز ایک ذاتی سوال سے کرتے ہیں: آپ کس طرح مشرق وسطی میں مذہبی تنازعات (religious conflicts) کے ایک ماہر بنے؟
میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ میں خود کو مذہبی تنازعات (religious conflicts) کا کوئی ماہر نہیں سمجھتا۔ میری توجہ کا مرکز دنیا کے اس خاص علاقے میں مذہبی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی پیشرفت ہے۔ ایک اسکالر کی حیثیت سے جس نے 9/11 کے بعد اپنے تعلیمی کیریئر کا آغاز کیا ہے، میں یہ پاتا ہوں کہ جس طرح عوامی زندگی میں میری ڈسپلن تیار کی گئی ہے اس میں مذہبی تنازعات کا ایک اہم کردار ہے، اس لیے کہ ان کے ارد گرد گھومنے والے سوالات بارہا اپنا سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ یقیناًیہ رجحان خود کافی حد تک ڈسپلن وضع کرتا ہے۔ جہاں تک میرے مقالے کا تعلق ہے، تو "آئی ایس آئی " کی جانب میری توجہ اس کے مذہبی اور سیاسی جواز پر اٹھنے والے سوالات اور ساتھ ہی ساتھ ریاست کی تعمیر کے منصوبوں کی بنیاد پر عملی مضمرات کی وجہ سے گئی۔
ابھی حال ہی میں "آئی ایس" پر آپ کی ایک تفصیلی کتاب شائع ہوئی ہے لیکن یہ ابھی صرف جرمن میں ہی دستیاب ہے۔ کیا آپ ہمیں اس کے مواد اور مرکزی نظریہ کا ایک مختصر جائزہ پیش کر سکتے ہیں؟
میں خود سے ہی یہ سوال کر رہا تھا کہ "آئی ایس آئی" نے کس طرح خود اپنے ہی قیام کا جواز فراہم کیا ہے اور تشدد سے اوپر اٹھ کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے کون سا پیمانہ اپنایا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ 2003 کے بعد سے عراق میں اس جماعت کی مصروفیت کی ایک جامع تصویر پیش کرنے کے لئے اس جماعت کو صدام حسین کی حکومت کے تحت ایک تاریخی پیش رفت کے تناظر میں (خاص طور پر مذہبی اور قبائلی شناختوں کے احیاء نو کا جنہیں انہوں نے اپنی ریاست کو مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ طور پر استعمال کیا تھا) اور 2003 کے بعد سے عراق کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے تناظر میں بھی دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ ایسا کرتے ہوئے میں نے تشدد اور دہشت گردی سے اوپر اٹھ کر اپنی توجہ کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کا ارادہ کیا۔ آئی ایس آئی پر میری توجہ ایک ایسی سماجی تحریک کے طور پر ہے جو ایک ریاست کے طور پر اپنی حیثیت منوانے کے لیے جد و جہد کر تی ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے سامعین کے ثقافتی روایات کا استعمال کرتی ہے۔
آپ کا مقالہ اس بارے میں ہے کہ آئی ایس کی تحریک اپنی علامتوں اور معنویتوں کو مذہبی روایت سے دوبارہ منسلک کر کے دراصل ایک بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں، اور کیا آپ اس کی ایک یا دو اہم مثالیں پیش کر سکتے ہیں؟
ایسا لگتا ہے کہ یہ جماعت اچھی طرح جانتی ہے کہ اسے کس طرح کے سامعین کو متوجہ کرنا ہے اسی لیے یہ ایسی خاص علامات اور معنویات کا استعمال کرتی ہے جس سے ان کے سامعین کے تجربے کے فریم ورک اور ثقافتی اور ذاتی شعور کا اچھی طرح سے اندازہ ہوتا ہے۔ یہ جماعت ایک بامعنی مکالمے میں مشغول ہونا چاہتی ہے اور اسی لیے ایسی علامات اور معنویات کا استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جنہیں اس کے سامعین سمجھ بھی سکیں اور یہ ان کے اپنے مقاصد کے مطابق انہیں متاثر بھی کر سکیں۔
میرے لئے اس کی سب سے اہم مثال وہ سیاہ بینر ہے جس پر اسلامی عقائد لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ بالکل سادگی کے ساتھ اس کا دعویٰ بالکل بنیادی ہےکہ اسلام ہی ایک سچا مذہب اور نظام کائنات ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اور جسمانی ورثے کی نمائندگی کے اس کے دعوی کو سہارا ملتا ہے۔ لہٰذا یہ مدینہ میں سب سے پہلی اسلامی ریاست کے ایک مذہبی اور سیاسی رہنما کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتھارٹی کے علامتی ٹرانسفر کے طور پر کام کرتا ہے۔ اپنے سامعین کو بنیادی مذہبی علم اور ثقافتی شعور سے منسلک کر کے آئی ایس انہیں غیر شعوری طور پر تحریک اور محبت و شفقت فراہم کرتا ہے۔ ایسا کرنے میں وہ عراق میں اور اس سے باہر فکری اور عملی سطح پر "آئی ایس" کے وجود کے قانونی جواز کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
جس گلوبلائزڈ دنیا میں ہم رہتے اس کے پیش نظر کیا آپ کو لگتا ہے کہ مشرق یا مغرب کے درمیان فرق تجزیہ کے لئے نتیجہ خیز یا مددگار ہے؟
عام طور پر اگر ان ثقافتی جغرافیائی تفریق کا استعمال نظریاتی آلات کے طور پر کیا جائے تو اس سے کبھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اس لیے کہ اس سے صرف ایک مشابہت کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر معاملات میں حقیقت کا روپ اختیار نہیں کر سکتے۔
آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ مذہبی عدم تقلید کو نام نہاد مغرب کے خلاف استعمال نہیں بلکہ اندرونی دشمن کے خلاف اور آئی ایس آئی کے معاملے میں بنیادی طور پر شیعوں کے خلاف کیا گیا ہے۔ تو کیا یہ محض مشرق اور مغرب کے درمیان ایک تنازع ہے؟
بے شک یہ ایک سے زیادہ سطح پر ایک تنازع ہے۔ یہ ایک تنازع ہے ان لوگوں کے درمیان جو خود کو مقدمۃ الجیش سمجھتے ہیں اور خدا کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو پوری دنیا میں نافذ کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کے درمیان جن کا موقف ان کے خیالات، اقدار اور معتقدات کے خلاف ہے۔
(یہ انٹرویو حبیب یونیورسٹی کے کمیونیکشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز کے طلباء نے لیا تھا)۔
ماخذ:
http://tribune.com.pk/story/813131/the-faith-of-the-islamic-state/
URL for English article: https://newageislam.com/interview/the-faith-islamic-state/d/100852
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-faith-islamic-state-/d/100884