مجاہد حسین ، نیو ایج اسلام
1 اکتوبر 2024
سنا ہے کہ قریب الرخصت چیف جسٹس آف پاکستان کچھ دن پہلے اسلام آباد میں ایک بیکری پر گئے جہاں ایک ملازم نے اُن کے ساتھ بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ایک چیف جسٹس کے ساتھ ایک ایسے شخص کی تلخ کلامی یا لعن طعن ہے جو کسی بھی حوالے سے کسی مقدمے یا سماعت سے متعلق نہیں اور نہ ہی چیف جسٹس کے ساتھ اُس کا کوئی سماجی ربط ہے، ایک بالکل سیدھا جرم اور ہراسمنٹ ہے جس کی اس کو سزا دی جانی چاہیے۔ لیکن یہ مطالبہ اُس صورت میں جائز تصور ہوگا جب سیاسی و سماجی سطح پر یہ یقین قائم ہو کہ قانون،سماج،سیاست اور دیگر عمومی لوازمات جو کسی معاشرے کے اجزائے ترکیبی کہلاتے ہیں، وہ اپنی جگہ پر ہیں اور سوچنے سمجھنے کی اہلیت ٹھیک طریقے سے کام کررہی ہے۔ جب سے یہ خبر عام ہوئی ہے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بیکری اور اس کے ملازم کو تلاش کررہی ہے تاکہ اس بدتہذیب اور منہ پھٹ شخص کو خراج تحسین پیش کرسکیں،جس نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس پر زبانی حملہ کیا ہے۔ اس تحسین کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ میں بعض ایسے سیاسی مقدمات کی سماعت ہورہی ہے جو ایک سیاسی پارٹی اور اس کی قیادت سے متعلق ہیں۔
ماضی میں پاکستان میں عدالتوں اور پارلیمان پر حملوں کی شروعات اسٹیبلشمنٹ اور بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے سپانسر کی گئی کیوں کہ یہ دونوں کردار مرضی کے فیصلے چاہتے تھے۔ حملہ آور کا انتخاب ملکی مذہبی و مسلکی جماعتوں میں سے کیا گیا جن کی قیادت اپنی تقاریر میں مقدس شخصیات اور واقعات کے حوالوں کو شامل کرکے کسی کو بھی آسانی کے ساتھ دھمکا سکتی تھی۔ مثال کے طور پر اس قسم کی آتش بیانی اور دھمکائے جانے کے اثر کا اندازہ لگانا مقصود ہو تو ذیلی عدالتوں کے ججوں کی بے بسی اور لاچاری کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔توہین مذہب یا توہین رسالت کے کمزور سے کمزور مقدمے کو بھی یہ عدالتیں خارج نہیں کرسکتیں اور پہلی ہی سماعت میں ملزم یا ملزمان کو سزائے موت جیسی حتمی سزا سنا دی جاتی ہے۔ وجہ صرف وہ خوف ہوتا ہے جو احاطہ عدالت کے باہر منڈلا رہا ہوتا ہے۔ یہ وہ خوف ہے جو ریاست کے طاقتور کرداروں نے بڑی محنت سے پروان چڑھایا ہے۔ یہ اسی خوف کے انڈے بچے ہیں کہ ایک گورنر کو اس کے محافظ نے سرعام قتل کردیا اور پورا ملک قاتل کے ہاتھ چومنے کے لیے بے تاب نظر آتا تھا۔ ایک غیر ملکی کو سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین نے زندہ جلادیا تو بظاہر شرمسار نظر آنے والے لوگ دلی طور پر مطمعن اور خوش تھے کہ محنت رنگ لارہی ہے۔اب اس تاریخی ’’محنت‘‘ کا رنگ پوری طرح چڑھ چکا ہے اور ملک بھر میں طیش برداروں کی ٹولیاں تلواریں لیے گھوم رہی ہیں کہ کب کوئی گردن اُٹھے تو اس کو اُتارا جاسکے۔ گذشتہ عید قربان پر پنجاب کے بیشتر شہروں میں ایمان داروں کی ٹولیوں نے عین قربانی کے وقت احمدیوں کے قربانی کے جانور چھین لیے کہ وہ قربانی نہیں کرسکتے۔ ان کی عبادت گاہوں پر نظرآنے والے اسلامی نشانات مٹانے کی مہم زوروں پر ہے اور آئے روز بلوائی مقامی پولیس کی مدد سے ان عبادتگاہوں کو اسلامی مشابہت سے پاک کررہےہیں۔یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کا بنیادی مقصد ریاست کی عملداری کو داغدار اور اس کے آئین کو بے اثر ثابت کرنا ہے۔ میرے خیال میں یہ مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور یہی طرز عمل اب ریاست کی سیاسی جماعتیں اور دیگر کردار بھی اپنا رہے ہیں تاکہ ریاست پر مکمل فتح اور غلبہ حاصل کیا جاسکے۔وہ چاہے کسی سیاسی جماعت کے ورکر ہوں، ٹی وی اینکر ہوں، سوشل میڈیا ورکر ہوں، پولیس کے ملازمین ہوں یا کسی بیکری کے ملازم مطمع نظر ایک ہی ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب اس بیکری کی بکری کئی گنا بڑھ چکی ہے اور بدتہذیب ملازم قومی ہیرو کے درجے پر فائز ہونے کے قریب ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اگر ملک میں اگلے انتخابات ہوئے تو یہ ملازم جس نے چیف جسٹس کے ساتھ بدکلامی کی یہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست بڑے مارجن سے جیتے گا اور پھر اگلے پانچ سال اس کے پاس یہ طے کرنے کے لیے وقت نہیں ہوگا کہ اس کو ٹی وی کے پرائم ٹائم میں کس ٹاک شو پر کب جانا ہے۔ دیگر جو مراعات یا انعامات اس کو ملیں گے اُن کے بارے میں ابھی سے محض اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔اگر خدانخواستہ مذکورہ بیکری ملازم چیف جسٹس پر حملہ کردیتا ، تو یہ بیکری کی درگاہ کی سی حیثیت اختیار کرجاتی اور چاہنے والے اس کو اپنے دل میں بسالیتے۔ وجہ کسی قسم کا سیاسی یا نظریاتی اختلاف ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے ہاں اختلاف کے معانی دشمن داری میں ڈھل چکے ہیں۔ ہم نفرت کے اس قومی کاروبار میں اس حد تک کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں کہ اب ہر چیز نفرت کے پیمانے سے جانچی جاتی ہے۔
ریاست کے طاقتور کردار پوری طرح کوشش کررہے ہیں کہ عام لوگوں کو ایسی خبروں سے دور رکھا جائے جو ریاست کی نقاہت کو نمایاں کرتی ہیں،لیکن اس امر میں اِنہیں کامیابی حاصل نہیں ہورہی۔ سیاسی جماعتیں اور دیگر ریاستی ادارے اس نقاہت کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں اور آگے بڑھ کر مزید طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ ایسے بٹ چکی ہے اور آپسی جنگ کاشکار ہے جیسے کوئی عام سا کرکٹ کلب یا کسی شہرکی انجمن تاجران کے عہدیدار اور اراکین معمولی فوائد کے لیے باہم دست و گریباں ہوتے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ کون کس کے ساتھ ہے اور کیا چاہتا ہے۔ ذاتی فوائد کے لیے بالادستی کے ایسے غیر معمولی مناظر ریاستی سالمیت کے بارے میں لاتعداد سوالات کھڑے کررہے ہیں ،جن کے جواب دینے والا کوئی نظر نہیں آتا۔سب سے اندوھناک بات یہ ہے کہ ہر قسم کےواقعات کے بعد ریاست پہلے سے زیادہ مجروح نظر آتی ہے اور ایسے کردار طاقتور اور عددی طور پر نمایاں نظر آتے ہیں جو ریاست کے مقابل کھڑے ہیں اور رفتہ رفتہ فتح یاب ہورہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت تقریبا ایک درجن کتابوں کے مصنف، مجاہد حسین پاکستان کے ایک معروف اور تحقیقی مزاج رکھنے والے صحافی ہیں ۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/state-conquering-elements/d/133333
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism