مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(آخری حصہ)
30دسمبر،2022
اب سوال یہ ہے کہ اس
مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اس سلسلہ میں چند نکات پیش کئے جاتے ہیں
نوجوان فضلاء کو سوچ سمجھ
کر دینی خدمت کے میدان میں قدم رکھنا چاہئے، ان کے سامنے اپنے معاصرین اور بزرگوں
کے تجربات ہیں، اگر وہ اس کو برداشت کر سکتے ہیں، تب تو دینی خدمت کے راستہ میں
آئیں، نہیں تو معاش کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کر لیں اور حسب سہولت اپنے علم
و عمل کے ذریعہ لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔ دینی خدمت کی حیثیت ان کیلئے ایک ضمنی
کام کی ہو، اصل کام کی نہ ہو، اپنی مرضی سے اس راہ میں آنا اور پھر دوسروں سے
شکوہ سنج ہونا کوئی معقول بات نہیں ہے اور
اس سے طبقہ ٔ علماء کا وقار مجروح ہوتا ہے۔
دینی خدمت کرتے ہوئے الگ
سے کوئی چھوٹی موٹی تجارت یا صنعت کو اختیار کرلیں، اس سے ان شاء اللہ معاشی تنگ
حالی کا تدارک ہو سکتا ہے۔ سلف صالحین کے یہاں اس کی ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں،
امام قدوریؒ جیسے فقیہ ہانڈی بنانے کا کام کرتے تھے، امام ابو بکر جصاصؒ کو تو
چونے کا کام کرنے کی وجہ سے ہی جصّاص کہا جاتا ہے۔ زیّات کا معنی تیل نکالنے والا یا
فروخت کرنے والا کا ہے، اسی نسبت سے امام زیات معروف ہیں جو بڑے عالم تھے۔ امام
ابو حنیفہؒ ریشمی کپڑوں کے تاجر تھے۔ اس سے اوپر جائیں تو حضرت ابو بکر صدیقؓ،
حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا شمار بڑے تاجروں میں تھا اور حضرت
عمرؓ بھی تجارت کرتے تھے ۔ اس سے اور اوپر جائیں تو بہت سے انبیاء کے بارے میں بھی
منقول ہے کہ وہ صنعت و حرفت سے فائدہ اٹھاتے تھے، حضرت آدم علیہ السلام زراعت
کرتے تھے، حضرت ادریس علیہ السلام خیاطی کرتے تھے، حضرت داؤد علیہ السلام زِرہیں
بنایا کرتے تھے اور مویشی پالن کا کام ارشاد نبویؐ کے مطابق تقریباً تمام ہی
انبیاء کرام ؑنے کیا ہے۔ آپ ﷺ نے ہنر جاننے والے مسلمان کی تعریف فرمائی ہے: ان
اللہ یحب المؤمن المحترف (الترغیب والترہیب، حدیث نمبر: ۲۳۳۵، بحوالہ طبرانی)۔ سرکار
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے:
المؤمن القوي خیر من المؤمن الضعیف (مسلم، حدیث نمبر: ۲۶۶۴) طاقت صرف جسمانی ہی نہیں
ہوتی، علم وفضل اور ہنر کی بھی ہوتی ہے، گویا آپ ؐکے اس ارشاد میں ہنر مند مسلمان
کی بھی تعریف کی گئی ہے۔
موجودہ دور میں بہت سے
پیشہ ورانہ کورسیز شروع ہوئے ہیں، جن کو مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے خدام گھنٹے
دو گھنٹے لگا کر انجام دے سکتے ہیں، جن علماء کے لئے اپنی خدمت کا مقررہ معاوضہ
کافی نہیں ہے، وہ ایسے ہنر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہم لوگوں نے اپنے طالب علمی
میں دیکھا ہے کہ بعض اساتذہ عصر کے بعد اپنے کتب خانہ میں بیٹھ کر کتابیں فروخت
کرتے تھے اور بعض کتابت کرتے تھے، بعض جلد سازی کرتے تھے اور بعض دیسی علاج سے
لوگوں کی خدمت کرتے تھے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے اب تو ہنر کا میدان اور وسیع
ہو گیا ہے، جس کے ذریعہ کوئی بھی آدمی اپنی آمدنی میں مناسب اضافہ کر سکتا ہے، بڑھاپے
کی عمر میں کسی نئی چیز کا سیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے؛ لیکن جوانی کی عمر میں سیکھنا
مشکل نہیں ہوتا۔ اب یہی دیکھئے کہ کتابت کی جگہ کمپوزنگ نے لے لی اور کمپیوٹر کے
ذریعہ کتنے سارے کام کئے جا سکتے ہیں، کتابت کے، ڈیزائننگ کے، بحث وتحقیق کے،
ترجمہ کے وغیرہ وغیرہ، اسی طرح آن لائن تدریس اور آن لائن تجارت کا راستہ کھل
گیا ہے، جس سے بہت سے نوجوان علماء وابستہ ہیں، اور میں نے سنا کہ یہ کام بہت کم
پیسوں میں اور بہت کم وقت میں ہو جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس طرح کے بہت سارے
کام موجودہ دور میں پیدا ہو گئے ہیں جو خادمین دین کے لئے تقویت کا باعث ہو سکتے
ہیں۔
اس سلسلہ میں سب سے اہم
ذمہ داری اولیاء اور سرپرستوں کی ہے۔ جو شخص اپنے بچوں کو دینی تعلیم میں لگاتا ہے
تو یقیناً اس پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مستقبل میں اس کی یہ اولاد معاشی اعتبار
سے کمزور ہوگی تو اس کو چاہئے کہ وہ اگر تجارت یا کاروبار میں ہے تو یا تو اپنی اس
اولاد کو آئندہ عملی طور پر کاروبار میں شریک کرلے، یا اپنی طرف سے ایک حصہ جیسے
پندرہ فیصد، دس فیصد اس کو ہبہ کر دے اور نفع کا اتنا حصہ اس اولاد کو دے، اور
دوسرے بچوں کو سمجھادے کہ چوں کہ تمہارا یہ بھائی آگے چل کر دین کی خدمت کرے گا
اور اس کا ثواب ہم سبھوں کو پہنچے گا؛ اس لئے تم اس کا برا نہیں مانوگے تاکہ وہ اپنے تمام بھائی بہنوں کے ساتھ سر
اُٹھا کر زندگی گزار سکے۔ جہاں ہم دینی تعلیم دلانے کی ترغیب دلاتے ہیں، وہیں سرپرستوں
کو اس کی ترغیب بھی دیں اور اگر کوئی شخص اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ کسی خاص
مصلحت کی وجہ سے اولاد میں سے کسی ایک کو ہبہ کر دے تو اس کی گنجائش ہے۔
ان سب کے علاوہ مدارس کی
انتظامی کمیٹیوں کو بھی خوشنما اور پُر شکوہ تعمیرات اور عظیم الشان جلسوں کے
انعقاد کے بجائے یا اُن کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی ضروریات پر توجہ دینی چاہئے، ان کی
تنخواہیں بڑھائی جائیں، ان کے لئے فیملی کے ساتھ رہائش کا انتظام کیا جائے تاکہ وہ
کرایہ کے بوجھ سے بچیں، چھوٹی موٹی
بیماریوں کے علاج کے لئے یا تو مدرسہ میں کلینک کھولا جائے یا کسی پرائیویٹ کلینک
سے رابطہ رکھا جائے جہاں سے ان کو سستی دوا فراہم ہو سکے، جہاں غلہ کی وصولی طلبہ
کی خوراک سے بڑھ کر ہوتی ہو وہاں رعایتی نرخ پر اساتذہ کو غلہ فراہم کیا جائے، اسی
طرح ایسا فنڈ مقرر کرنے کی کوشش ہو جس سے اساتذہ چھوٹےموٹے کاروبار کیلئے قرض حاصل
کر سکیں اور اس کو آسان قسطوں میں ادا کر سکیں۔
مساجد کا تعلق چونکہ براہ
راست عوام میں صاحب ثروت شخصیتوں سے ہوتا ہے؛ اس لئے ان کو اور زیادہ توجہ کی
ضرورت ہے۔ وہ جزوی طور پر ائمہ کو تجارت کیلئے سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں، مثلاً
مسجدوں میں اکثر ملگیاں بنائی جاتی ہیں، کوشش کی جائے کہ وہاں دو ملگیاں خدام مسجد
کو دی جائیں، اس کی کرایہ داری ان کے نام منتقل نہ کی جائے؛ کیونکہ آج کل مساجد
کی املاک کو لوگ اپنی ملکیت سمجھنے لگتے ہیں، اگر کرایہ داری ان کے نام کر دی جائے
اور خادمین مسجد وہاں سے استعفاء دے دیں تو واپس لینا دشوار ہو جائیگا اور جن دیگر
حضرات سے یہ خدمت متعلق ہوگی پھر وہ اس سہولت سے محروم ہو جائیں گے؛ اسلئے امام و
مؤذن کو زبانی طور پر کرایہ دار بنائیں اور ان سے رعایتی کرایہ لیں۔
مدارس کو اس بات پر غور
کرنا چاہئے کہ وہ تعلیم کو مختلف مراحل میں تقسیم کریں اور ہر مرحلہ کے لئے الگ
الگ سند جاری کریں، جیسا کہ بعض درسگاہوں میں ہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو ذہنی
صلاحیت اور مالی استطاعت کے لحاظ سے فضیلت تک پڑھنے کے لائق نہیں ہونگے، وہ نیچے
کے مرحلہ کو مکمل کر کے ایسی دینی خدمت میں مصروف ہو جائیں گے، جس کے لئے ان کی یہ
استعداد کافی ہو جائے، یہ بات قابل غور ہے کہ نورانی قاعدہ اور عربی وفارسی کی
ابتدائی کتاب پڑھانے والوں کو تفسیر وحدیث کی اعلیٰ کتابوں کے پڑھنے کا مکلف کیوں
بنایا جائے؟ وہ کوئی ہنر سیکھ کر بے تکلف اس کو اپنا ذریعۂ معاش بھی بنا سکیں گے،
ایسی صورت میں ان کو اپنی نسبتاً کم تنخواہ پر قناعت کرنا آسان ہوگا اور حالانکہ پیشہ ورانہ کاموں میں کوئی بے عزتی
نہیں ہے؛ لیکن رواج اور ماحول کے لحاظ سے وہ جو شرمندگی محسوس کرتے ہیں، وہ بھی
نہیں ہوگی۔
ضرورت ہے کہ مدارس میں بھی
فنی تعلیم دی جائے۔ دارالعلوم دیوبند میں اس کے لئے پہلے دارالصنائع قائم تھا، جس
کے تحت مختلف فنی تعلیم کا نظم تھا مثلاً طبیہ کالج بھی تھا، جس سے بہت سے فضلاء
نے طب یونانی کی تعلیم حاصل کی، اب نہ صرف ان شعبوں کو واپس لانے کی ضرورت ہے؛
بلکہ فنی ماہرین کے مشورہ سے اضافہ کی ضرورت بھی ہے تاکہ جب طلبہ فارغ ہوں، ان ہیں
کم تنخواہ پر ملازمت ملتی ہو تو ان
صلاحیتوں سے کچھ زائد آمدنی کا انتظام ہو سکے۔حاصل گفتگو یہ ہے کہ:
دینی مدارس ہمارے ملک میں
اسلام کے بقا کا ذریعہ ہیں اور اساتذہ اسکی روح ہیں؛ اسلئے ہر قیمت پر ہمیں مدارس
کو تقویت پہنچانی چاہئے۔
مدارس کے انتظامیہ کو چاہئے کہ طلبہ و اساتذہ کی ضروریات
کو اپنی توجہات کا اولین ہدف بنائیں۔
فضلاء کو چاہئے کہ وہ
تعلیمی ودینی ضرورت کیلئے مدارس اس طرح قائم نہ کریں کہ لوگوں کو خیال ہو کہ بطور
ذریعۂ معاش یہ ادارے قائم ہورہے ہیں۔
جن میں اس راہ کی دشواریوں
کو انگیز کرنے کی طاقت نہیں، وہ اس راستہ کا انتخاب نہ کریں؛ بلکہ دوسرا ذریعۂ
معاش اختیار کر کے موقع اور صلاحیت کی مناسبت سے دینی خدمت انجام دیں۔
اخبارات میں یا سوشل میڈیا
پر اپنی معاشی تنگ دستی کا ذکر کر کے اپنے وقار کو ٹھیس نہ پہنچائیں، اس کی وجہ سے
کوئی مدد کیلئے ہاتھ تو نہیں بڑھائے گا؛ لیکن خود اپنی رسوائی ہوگی اور علماء کی
قدرومنزلت عوام کے دل میں کم ہو جائے گی۔
خاندان کے لوگ بھی اپنی
صف سے اٹھنے والے عالم دین کے ساتھ خصوصی ہمدردانہ سلوک کریں اور ان کو معاشی
اعتبار سے تقویت پہنچائیں۔
موجودہ حالات میں مدارس کے
وسائل آمدنی کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چرم قربانی کی آمدنی تقریباً
ختم ہوگئی، مدارس کی اصل آمدنی تاجروںسے ہوتی ہے، ان کا کاروبار متاثر ہے۔ دینی
کاموں کی سرپرستی میں انہیں قانونی دشواری بھی ہونے لگی ہے؛ اسلئے اصحابِ خیر کا
فرض ہے کہ وہ پہلے اداروں کی بابت مفصل تحقیق کر لیں ، اگر ممکن ہو تو خود جا کر
دیکھ لیں اور مطمئن ہونے کے بعد پھر زیادہ سے زیادہ اُن کا تعاون کریں۔
30 دسمبر،2022، بشکریہ: انقلاب،نئی
دہلی
----------
Urdu Part: 1- The Problem of
Livelihood for the Religious Servants – Part-1 دینی
خدمتگاروں کا مسئلہ ٔمعاش
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism