صومالی کے چکرورتی، نیو ایج اسلام
26 دسمبر 2015
کچھ کتابیں تعلیم و تعلم کے لیے ہوتی ہیں، کچھ کتابیں تفریح طبع کے لیے ہوتی ہیں اور کچھ کتابوں کا اثر دماغ پر دیر پا ہوتا ہے۔ مولانا وحید الدین خان کی تصنیف (Age of Peaceامن کا دور)، بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جو مؤخر الذکر کے زمرے میں آتی ہے۔
یہ انتہائی معقول، سادہ اور مطمئن انداز میں لکھی گئی اور امن کا پیغام دینے والی تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب نے میرے اس نظریہ کو تبدیل کر دیا ہے کہ سماجی سطح پر امن و سکون کا حصول ہمیشہ ایک مبہم اور پیچیدہ کام ہے جو کہ شاید صرف سحر انگیز کہانیوں کی کتابوں میں ہی ملتا ہے۔
کتاب(Age of Peaceامن کا دور) نہ صرف یہ کہ امن کی ضرورت کو برقرار رکھتی ہے بلکہ یہ امن قائم کرنے کے لیے عقلی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے اور ایسے بنیادی اصولوں کا تعین کرتی ہے جو جس کی بناء پر معاشرے میں امن قائم کرنا ممکن ہے۔
مصنف مولانا وحید الدین خان ایک مشہور و معروف اسلامی اسکالر اور نئی دہلی میں سینٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی کے بانی ہیں، جنہیں بین الاقوامی سطح پر امن عالم میں نمایاں تعاون اور خدمات کے لیے جانا اور مانا جاتا ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ، امن سماج کی تعمیر و ترقی کے لئے شرط اولین ہے۔ امن تمام اچھائیوں کا مصدر و منبع ہے جو کہ کسی بھی منفی اثرات سے خالی ہے۔ مصنف ذہنی اور قلبی امن و سکون کے بارے میں لکھتے ہیں جس کے لیے ذاتی مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، اور سماجی امن و سکون کی بات کی ہے جس کے لیے سماجی مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔
اس مروجہ نظریہ کی نفی کرتے ہوئے کہ امن سماجی انصاف سے ہی قائم کیا جا سکتا ہے، مصنف کا ماننا یہ ہے کہ یہ ایک گمنام نظریہ ہے، اس لیے کہ جب تک ہم امن و سکون کو سماجی انصاف سے ماخوذ مانتے رہیں گے یہ ہمیں ایک پیچیدہ اور مبہم امر معلوم ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امن کو عام صورتحال کی حیثیت سے قبول کیا جائے۔
جس طرح ہم اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل میں اپنے خاندان کے افراد کے تعاون اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں بالکل اسی طرح اگر ہم سکون و اطمینان فراہم کرنے میں بڑے پیمانے پر انسانیت کے تعاون اور اس کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں تو منفی ذہنیت کی جگہ احساس تشکر پیدا ہو جائے گا، جو کہ تشدد کا ایک داخلی محاسبہ ثابت ہو گا۔
امن حالات کو معمول پر لاتا ہے، یہ مواقع کے دروازے کھولتا ہے کہ جس کا اگر فائدہ اٹھایا جائے تو کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ امن کے ساتھ انسان وہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہے جو ایک انسان تشدد کے ساتھ حاصل نہیں کر سکتا۔
اس نظریہ نے امن کے بارے میں میری سوچ کو بدل کر رکھ دیا۔ امن کو ایک عمومی صورت حال تسلیم کرنا، چیزوں سے غفلت نہ برتنا اور پرسکون انداز میں مقصد کے حصول کے لیے جد و جہد کرنا ایک بہت ہی متوازن نقطہ نظر ہے، جس کی وکالت تمام مذاہب نے کی ہے۔
گزشتہ صدیوں سے لیکر جدید دور تک دنیا کے مختلف حصوں سے ان گنت مثالوں کے ذریعہ مصنف نے غیر باغیانہ طریقہ کار، پرامن جد و جہد ، اور تعلیم اور بیداری کے ذریعے امن کا پیغام پھیلانے کی وکالت کی ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے دہشت گردی کی لعنت، مسلمانوں کے سیاسی انتشار، مسلمانوں کو در پیش مسائل، عسکریت پسندی اور خودکش بم دھماکوں کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے 'جہاد' کی غلط ترجمانی جیسے حساس مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔ جوابی نظریہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، مصنف کا کہنا ہے کہ موجودہ عسکریت پسندی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے جنگ کی عبثیت اور بے ثمری پر بھی گفتگو کی ہے اور جنگوں کو ختم کرنے میں تیسرے فریق کے کردار پر بھی زور دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ دور میں لڑائی ایک قدیم اور فرسودہ تصور ہے، اس لیے کہ اس دور میں تشدد کا سہارا لیے بغیر اپنے عزائم کو پورا کرنے کے متبادل لوگوں کے پاس موجود ہیں۔
مذکورہ کتاب سے چند اقتباسات حاضر خدمت ہیں
انسانی دماغ بے انتہا صلاحیتوں کا حامل ہے، لیکن یہ صرف ایک پرامن ماحول میں ہی کام کر سکتا ہے۔ کام کے لئے ایک پرامن ماحول کے بنا دماغی صلاحیت اور قابلیت کا کوئی استعمال نہیں ہے۔
زندگی میں کامیابی کا راز دوسروں کو مجبور کرنے اور نقصان پہنچانے میں نہیں ہے۔ بلکہ زندگی میں کامیابی کا راز کسی کی دسترس کے اندر اندر مواقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے سمجھداری کے ساتھ وقت اور توانائی کی منصوبہ بندی کرنے میں ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگ بغیر جڑ کی درخت کی طرح ہے۔ ایک طوفان مکمل طور پر اس کی بیخ کنی کر سکتی ہے۔ لیکن ایک پرامن منصوبہ اس درخت کی مانند ہے جو اپنی مضبوط جڑوں پر براہ راست کھڑا رہتی ہے اور جس پر طوفان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
تشدد یا دہشت گردی خدا کی تخلیقی منصوبہ بندی کے منافی ہے۔
دہشت گردی ایک غیر فطری عمل ہے۔ نہ تو عقل اور نہ ہی ضمیر کبھی بھی اسے تسلیم کر سکتا ہے۔ دہشت گردی کانتیجہ ہمیشہ ندامت و پشیمانی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔
ایک بلاگر دوست نے مجھے یہ کتاب مرحمت کی جس کا بلاستعاب مطالعہ کرنے کے بعد میں نے یہ پایا کہ اس ہنگامہ خیز دور میں جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ کتاب تمام لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کے لئے انتہائی اہمیت و افادیت کی حامل ہے۔
اس کتاب نے میرے اس یقین کو مزید تقویت دی ہے کہ کوئی مذہب تشدد کی تعلیم نہیں دے سکتا۔ انتہا پسندی، دہشت گردی اور جنگ و جدال یہ تمام باتیں چند لالچی افراد کے اثرات ہیں جو مذہب کی غلط تشریح کرتے ہیں اور ان کا استعمال وہ اپنی سہولیات کے لئے کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے میں بار بار پڑھنا چاہوں گا۔
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/age-peace-enlightening-well-researched/d/105736
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/age-peace-/d/105752