By Sohail Arshad, NewAgeIslam.com
Quran prohibits disgracing other religions and their gods. The Quran advocates multicultural society where believers of all other religions live in peaceful co-existence. Today the Muslim community and especially where they are in majority have risen in to violent groups, in the name of religion and establishment of the rule of Allah on earth. They are involved in suicide bombing.
قرآن پاک۔ ایک پر امن تکثیری معاشرے کا امین
سہیل ارشد
اسلام میں ایمان ایک جزو یہ
بھی ہے کہ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ تمام انبیائے علیہ السلام اجمعین اور ان پر نازل
ہونے والے صحیفوں ااور کتابوں پر بھی ایمان لائے۔اسلام کی الہامی کتاب قرآن مجید
نے دوسرے مذاہب او ران کے معبودوں کو برابھلا کہنے سے منع کیا ہے۔ اس طرح قرآن ایک
تکثیری سماج کی وکالت کرتاہے جہاں تمام مذاہب کے پیروکار پر امن بقائے باہم میں یقین
رکھنے والے لوگ ہوں۔ اللہ نے آدم اور حوا کو زمین پر اتارا ا ور ان سے انسانی نسل
کو پھیلایا۔ پھر انسانوں کی مختلف نسلیں پیدا کیں جن کی جسارت،ڈیل ڈول اور رنگ
مختلف رکھے۔ ان میں قبیلے اور مختلف لسانی قومیتیں پیدا کیں۔کیونکہ اللہ اس وسیع و
عریض دنیا کو یک رنگی سے بچاناچاہتا ہے۔”اللہ جمیل ہے او رجمال کو پسند فرماتا
ہے۔“ لہٰذا حسن یک رنگی اور یکسانیت میں ہیں بلکہ کثیررنگی اور تنوع میں ہوتا ہے۔
اس لئے اس نے نباتات اور حیوانات کی لاکھوں قسمیں پیدا کیں۔انسانوں کو بھی مختلف
قد کاٹھی، شکل و صورت اور رنگوں میں پیدا کیا تاکہ دنیا ایک رنگی کی شکار نہ
ہوجائے۔ قرآن کہتا ہے۔ ”اور کیا تونے دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم
نے نکالے اس سے میوے طرح طرح کے ان کے رنگ او رپہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور
سرخ طرح طرح کے ان کے رنگ اور بھجنگے کالے۔اور آدمیوں میں اور کیڑوں میں اورچوپایوں
میں کتنے رنگ ہیں اسی طرح۔“(فاطر:27)
اسی طرح انسانی نسل کو بھی
یک رنگی سے بچانے کے لئے ان نسلیں،ذاتیں اور قبیلے اللہ نے پیدا فرمائے۔ اس میں
اللہ کو انسان کا امتحان مقصود تھا تاکہ وہ دیکھے کہ انسان اپنے نفس کے خلاف اللہ
کے احکامات کی تعمیل کرتاہے یا نہیں۔قرآن میں اللہ کہتا ہے:
”اے آدمیوں! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں
تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو۔ تحقیق عزت اللہ کے یہاں اسی کی بڑی
جس کو ادب (تقوی) بڑا،اللہ سب کچھ جانتا ہے خبردار۔“ (الحجرات:13)
یعنی انسانوں کے قبیلے،ذاتیں
اور نسلیں تخلیق کرنے کے بعد اللہ فرماتاہے کہ انسانوں میں عظیم المرتبت وہی ہوگا
جس میں پرہیزگاری زیادہ ہوگی اور پرہیزگاری وہی ہے جو حقوق العباد پوری طرح ادا
کرتاہے، مخلوق پر رحم کرنا ہے۔ ظلم او رانصافی کے خلاف صدائے حق بلند کرتا ہے او
ربرے کاموں سے دور رہتا ہے۔قبیلے اور ذاتیں تو صرف پہچان کے لئے ہیں۔
اس کی کثرت اور تنوع کے
باوجود قرآن کریم پوری نوع انسانی کو ایک دھاگے میں باندھ کر ایک پرامن تکثیری
سماج کی بنیاد ڈالنے کی سعی مندرجہ ذیل خطوط پر کرتا ہے۔
(1) تمام انبیائے کرام اور صحیفوں کی تصدیق اورتمام مذاہب کا
احترام
قرآن ایک امتیازی شان یہ
ہے کہ ایک طرف تویہ مذہب اسلام کے پیروکاروں کے لئے ایک وطیرہ حیات ہے تو دوسری
طرف اس کا مقصد دنیا کی تمام قوموں میں محبت، یگانگت اور اتحاد پیدا کرنا ہے۔ یہ
اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے کسی بھی دوسرے آسمانی صحیفے کی نفی نہیں کرتا اور انہیں
نہیں جھٹلاتا بلکہ ان کی تصدیق کرتاہے کیونکہ تمام انبیائے کرام اللہ کے بھیجے
ہوئے قاصد تھے اور اللہ نے ان پر وحی نازل کی تھی۔ گویا آدم سے لیکر حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیائے ایک مذہب لے کر آئے اور بنیادی طور پر سبھوں کا پیغام
ایک تھا توحید کی اشاعت اور شرک کی مخالفت۔ اس لئے قرآن کہتا ہے کہ اس کا پیغام
پچھلی تمام الہامی کتابوں سے مختلف نہیں بلکہ اس کی تفسیر و تکمیل ہے۔ قرآن کے
متعلق اللہ فرماتا ہے:
”اور جو ہم نے تجھ پر اتاری کتاب(قرآن) وہی ٹھیک ہے، تصدیق کرنے
والی اپنے سے اگلی کتابوں کی۔“(فاطر۔31)
دوسری جگہ اللہ فرماتا
ہے:
”اور اس سے پہلے کتاب موسیٰ کی تھی راہ ڈالنے والی اور رحمت او ریہ
کتاب ہے اس کی تصدیق کرتی۔“(الاحقاف:12)
ایک اور جگہ فرماتا ہے:
”پھر دی ہم نے موسیٰ کوکتاب واسطے پورا کرنے نعت کے نیک کام والوں
پر اور واسطے تفصیل ہر شئے کے اور ہدایت اور رحمت کے تاکہ وہ لوگ اپنے رب سے ملنے
کا یقین کریں“۔ (الانعام:154)
سورہ آل عمران میں بھی
قرآن کے متعلق ذکر ہوا ہے۔
”اتاری تجھ پر کتا ب سچی تصدیق کرتی ہے اگلی کتابوں کی اور اتارا
توریت اور انجیل کو اس کتاب سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لئے۔“(آل عمران:13۔4)
حضرت داؤد علیہ السلام پر
زبور نازل ہوا۔ قرآن اس کی بھی تصدیق کرتاہے۔
”اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین پر
مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔“(الانبیا،:105)
مندرجہ بالاآیات کے
مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن گذشتہ تینوں الہامی کتابوں کی تصدیق کرتاہے۔ اس کے
علاوہ وہ تمام انبیائے کرام کی نبوت اور صداقت کی بھی گواہی دیتاہے۔
”اور ہم نے دی تھی موسیٰ اور ہارون کو قصیدے چکانے والی کتاب او
رروشنی او رنصیحت ڈرنے والو کو۔(الانبیاء:48)
”اور آگے دی تھی ہم نے ابراہیم کو اس کی نیک راہ(شریعت) اور ہم
رکھتے اس کی خبر۔“(الانبیا’:51)
”ہم نے وحی بھیجی تیری طرف جیسے وحی بھیجی نوح پر اور ان نبیوں پر
جو اس کے بعد آئے اور وحی بھیجی ابراہیم پر اور اسمٰعیل پراور اسحٰق پر او ریعقوب
پر اور اس کی اولاد پر اور عیسیٰ پر اور ایوب پر اور یونس پر اور ہارون پر اورسلیمان
پر اورہم نے دی داؤد زبور اور بھیجے ایسے رسول کہ جن کا احوال سنایا تجھ کو اس سے
پہلے او رایسے رسول جن کا احوال نہیں سنایا تجھ کو اور باتیں کیں اللہ نے موسیٰ سے
بول کر۔“(انساء:164)
اس طرح دیگر انبیائے علیہ
السلام اجمعین کا ذکر بھی قرآن میں مختلف مقامات پر آیا ہے۔ ان پیغمبر وں نے سبھی
انسانوں کو گناہوں سے باز رہنے،اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے اور شرک اور کفر سے
باز رہنے کی تعلیم دی۔ اس طرح قرآن واضح کردیتاہے کہ اس کی تعلیمات نئی نہیں ہیں
اور وہ جو دین لے کر آیاہے وہ نیا نہیں ہے بلکہ گزشتہ اذیان کا نقطہ عروج اور نقطہ
تکمیل ہے۔لہٰذا، وہ مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ وہ تمام انبیاء پر ایمان لائیں اور
ان کے صحیفوں،زبور، تورات اور انجیل پر بھی ایمان لائیں اور ان انبیاء کے مذاہب کے
متعلق بد گوئی نہ کریں کیونکہ اس سے قرآ ن کے تمام امتوں کو متحد کرنے کی کوششوں
پر منفی اثر پڑتا ہے۔
”اور تم لوگ برانہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے
سوا،ایسی وہ براکہنے لگیں گے اللہ کو بے ادبی سے بدون سمجھے۔“(الانعام:108)
قرآن کہتا ہے کہ دنیا کی
ہر قوم کسی نہ کسی رسول کی امت ہے کیونکہ اللہ نے اپنا پیغام ایک لاکھ چوبیس ہزار
پیغمبروں کی مدد سے دنیا کے ہر انسان تک پہنچا کرتمام محبت کردیا ہے۔“
”ہرفرقہ کا ایک رسول ہے۔“(یونس:47)
اس لئے دنیا کی مختلف
قوموں کے درمیان اتحاد، اتفاق کے قیام کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک نبی کی امت دوسرے
نبی کا احترام کرے۔قرآن خود بھی گزشتہ نبیوں کی تعریف و توصیف کرتاہے۔ وہ حضرت موسیٰ
اور حضرت عیسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے کرتاہے۔
حضرت عیسیٰ اور عیسائیوں
کا ذکر قرآن میں
قرآن میں بارہا حضرت عیسیٰ
اور ان پر نازل ہونے والی مقدس کتاب انجیل کا ذکر بڑے ہی اچھے پیرائے میں پیش کیا
گیا ہے اور ا ن کے پیروکاروں (عیسائیوں) کی اعلیٰ انسانی صفاف ذکر بھی اچھے الفاظ
میں کیا گیا ہے سورہ المائدہ میں مرقوم ہے۔
”جب کہے گا اللہ اے عیسیٰ ابن مریم یاد کر میرا احسان جو ہوا ہے
تجھ پراور تیری ما ں پر جب مدد کی میں نے تیری روح پاک سے تو کلام کرتاتھا لوگوں
سے گود میں اوربڑی عمر میں اور جب سکھائی میں نے تجھ کو کتاب اور تہ کی باتیں اور
توریت اور انجیل اور جب تو بناتا تھا گارے سے جانور کی صورت میرے حکم سے پھر پھونک
مارتا تھا اس میں تو تو ہوجاتا اڑنے والا میرے حکم سے اوراچھا کرتا تھا اورمادر
زاد اندھے کو اورکوڑھی کو میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتاتھا مردوں کو میرے حکم
سے اور جب روکا میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے جب تولے کر آیا ان کے پاس نشانیاں تو
کہنے لگے جو کافر تھے ان میں اورکچھ نہیں ہے تو جادو ہے صریح۔“
مندرجہ بالا سطور میں
قرآن بڑی فراخدلی سے حضرت عیسیٰ کے معجزوں کا ذکر کرتاہے جو انہوں نے اللہ کے حکم
سے دکھائے۔ انہوں نے اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا، اندھوں کی بینائی اورکوڑھیوں
کو شفا عطا کی، یہاں تک کہ پرندے کی مورت بنا کر اس میں جان پھونکی تاکہ لوگ اللہ
کی وحدانیت اور قدرت پرایمان لائیں مگر کافروں نے ایمان لانے سے انکار کیا۔ بہر
حال حضرت عیسیٰ کے ماننے والوں میں آج بھی وہی خصوصیات پائی جاتی ہے۔ ان کے پیروکار(عیسائی)آج
بھی پوری دنیا میں فلاحی کاموں کے لئے جانے جاتے ہیں۔بیماروں کاعلاج،کوڑھیوں کی
خدمت،مجبوروں او ربے سہاروں کی مدد اور دیکھ بھال ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔
لہٰذا،ان کی رحم دلی او رمہربانیوں کا ذکر قرآن واضح الفاظ میں کرتاہے۔
”اور ہم نے بھیجا نوح کو اورابراہیم کو اورٹھہرا دی دونوں کی اولاد
میں پیغمبری اور کتاب،پھر کوئی ان میں راہ پر ہے او ربہت ان میں نافرمان ہیں۔پھر پیچھے
بھیجے ان کے قدموں پر رسول اور پچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو اور اس کو ہم
نے دی انجیل اور رکھ دی اس کے ساتھ چلنے والوں کے دل میں نرمی او رمہربانی۔“ (الحدید:
27۔26)
اسی طرح قرآن چاہتا ہے کہ
دوسری امتیں بھی قرآن کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اور مسلمانوں کی تصدیق
اور ان کااحترام کریں۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں کی
واضح نشانیاں تورات اورانجیل میں بیان کردی گئی ہیں۔
”محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا اور جو لوگ اس کے ساتھ
ہیں زور آور ہیں کافروں پرنرم دل آپس میں،تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں
ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی نشانی ان کی ان کے منہ پر ہے سجدہ کے اثر
سے یہ شان ہے ان کی تورات میں اور مثال ان کی انجیل میں۔“(الفتح:29)
(2) تمام مذاہب الہیہ میں کچھ اقدار مشترک
قرآن کہتا ہے کہ دین عیسیٰ،دین
موسیٰ اور دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے قبل کی امتوں میں کئی دینی
ارکان مشترک ہیں۔ جیسے نماز، روزہ،زکوٰۃ،حج اور قربانی۔ ان کے طریقوں،میعاد اور
وقت کے تعین میں فرق ہوسکتا ہے۔ اسلام چونکہ تمام گزشتہ انبیاء اور ان کی مقدس
کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور احترام کرتاہے۔ لہٰذا، اس نے گزشتہ تمام پیغمبرو ں کو
سنتوں کو بھی دین کے ارکان میں شامل کیاہے۔ اس طرح یہ ارکان میں شامل کیا ہے۔ اس
طرح یہ ارکان تمام امتوں کو ایک کڑی میں جوڑ نے کاکام کرتی ہیں۔ قرآن میں کئی آیتیں
اس ذیل میں آئی ہیں:
نماز اور زکوٰۃ
”اور مذکور ہ کتاب میں اسمٰعیل کا وہ تھا وعدہ کا سچا اور تھا رسول
نبی او رحکم کرتا تھا اپنے گھروالوں کو نماز اور زکوٰۃ کا اور تھا اپنے رب کے یہاں
پسندیدہ۔“ (مریم:55)
”اور لے چکا ہے اللہ عہد نبی اسرائیل سے اورمقرر کئے ہم نے ان میں
بارہ سردار کہااللہ نے میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم رکھوگے نماز اور دیتے
رہوگے زکوٰۃ اور یقین لاؤگے میرے رسولوں پر اور مدد کروگے ان کی۔“(المائدہ:12)
روزہ
”اے ایمان والو،تم پر فرض کیاگیا روز جس طرح روزہ فرض کیاگیا تھا
تم سے پہلے کے لوگوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ۔“(البقرہ:183)
قربانی
”اور ہر امت کے واسطے ہم نے مقرر کردی ہے قربانی کہ یاد کریں اللہ
کے نام ذبح پرچوپایوں کے جوان کو (اللہ نے دیئے)۔(الحج:34)
حج
”اے پروردگار ہمارے اورکرہم کو حکم بردار اپنا او رہماری اولاد میں
بھی کرایک جماعت فرمانبردار اپنی اوربتلا ہم کو قاعدے حج کرنے کے اور ہم کو معاف
کر، بے شک توہی توبہ قبول کرنے والا ہے مہربان۔“(البقرہ:128)
(3)امت ایک بندگی کے طریقے الگ الگ
جب سارے نبیوں نے ایک ہی
پیغام یعنی توحید کی اشاعت کی تو سارے انبیاء کی امتیں اجتماعی طور پر ایک امت
قرار پائیں۔ چونکہ انبیاء کرام انسان تھے او رانہیں ایک طبعی عمر عطا ہوئی تھی۔لہٰذا،ایک
نبی کے بعد اللہ کے پیغام کی اشاعت کے لئے دوسرا نبی اللہ کے حکم سے اس ذمے داری
کونبھانے کے لئے مبعوث ہوتاہے۔ بہر حال،ہر امت کی بندگی کے طریقے اللہ نے مصلحتاً
مختلف رکھے۔ اور انسانوں نے بھی آپس میں اختلافات کی بنا پر اپنے اپنے دین میں نئی
راہ نکالی۔قرآن کہتا ہے۔
”سو ایک ہی امت ہیں پیچھے جداجدا ہوگئے۔“(یونس:19)
دوسری جگہ قرآن کہتا ہے
”یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب کے سب ایک دین پر اور میں ہوں رب
تمہارا سو میری بندگی کرو اورٹکڑے ٹکڑے بانٹ لیا لوگوں نے آپس میں کام سب ہمارے
پاس پھر آئیں گے۔“(الانبیا:93)
جو دین باقاعدہ حضرت
ابراہیم علیہ السلام پر اترا یہ دین ابراہیمی کہلایا او رسارے مذاہب بشمول اسلام
حضرت ابراہیم کا دین کہلائے۔ اس دین کے ماننے والوں کو مسلمان کہا گیا۔لہٰذا،قرآن
واضح لفظوں میں کہتا ہے۔
”اے ایمان والوں رکوع کرو اور سجدہ کرو اور بندگی کرو اپنے رب کی
اور بھلائی کروتاکہ تمہارا بھلا ہو اور محنت کرو اللہ کے واسطے جیسی کہ چاہتے اس
کے واسطے محنت۔ اس نے تم کو پسند کیا او رنہیں رکھی تم پردین میں مشکل، دین تمہارے
باپ ابراہیم کا اسی نے نام رکھا تمہارا مسلمان پہلے سے اور اس قرآن میں تاکہ رسول
ہو بتانے والا تم پر او رتم ہو بتانے والے لوگوں پر۔ سو قائم رکھو نماز اور دیتے
رہو زکوٰۃ او رمظبوط پکڑو اللہ کو وہ تمہارا مالک ہے سو خوب مالک ہے اور خوب
مددگار۔“(الحج:78۔77)
قرآن دین ابراہیمی کے
ماننے والوں کو مسلمان کہہ کر پکارتا ے۔مسلم کا معنی ہے فرماں بردار یعنی جو اللہ
کا فرماں بردار ہو وہ مسلم ہے۔
دین میں زور زبردستی نہیں
ایک اور بات جس پر قرآن
زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ دین میں زور زبردستی روا نہیں۔ دنیا میں مختلف مذاہب ہیں
جن کے پیروکار اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرتے ہیں۔ اسلام نے بھی اپنے پیروکار وں
کو تبلیغ دین کا حکم دیا ہے اور امت مسلمہ کو بہترین امت اور دین اسلام کو بہترین
دین قرار دیا ہے۔ امت مسلمہ کو بہترین امت اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو
بھلائی کی تلقین کرتی ہے اور بری باتوں سے منع کرتی ہے۔حضرت موسی کی قوم میں بھی ایک
جماعت تھی جو لوگوں کو اچھے کاموں کی طرف بلاتی تھی۔
”تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اچھے
کاموں کا او رمنع کرتے ہو برے کاموں سے اورایمان لاتے ہو اللہ پر“۔(آل عمران:115)
لیکن جیسا کہ اللہ خود
کہتا ہے کہ دنیا میں مختلف فرقے اور مذاہب میں اس کی مصلحت ہے تاکہ اس کے ذریعے سے
وہ انسانوں کو آزمائے۔ وہ اگر چاہتا تو ساری دنیا صرف ایک مذہب ہوتا او رکوئی بھی
خدا کا منکر نہ ہوتا۔ سارے لوگ خدا کی پرستش کرنے والے اور کفر و شرک سے بچنے والے
ہوتے۔ اس نے دنیا میں انسانوں کی آزمائش کے لئے نیکی و بدی، علم اورجہالت،عدل و
ظلم،اندھیرا اوراجالا دونوں رکھا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ بد نہ صرف اپنے فرائض منصبی
ایمانداری او رمحنت سے ادا کرتا رہے او رنتیجے او رانسانوں کی ہدایت کی فکر اس پر
چھوڑ دے۔قرآن کہتا ہے:
”اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی فرقہ کردیتا لیکن راہ بچلاتا
ہے جس کو چاہے اور سجھاتا ہے جس کو چاہے اور تم سے پوچھ ہوگی جو کام تم کرتے
تھے۔“(النحل:93)
ایک دوسری جگہ قرآن اسی
مضمون کو یوں بیان کرتا ہے۔
”ہر ایک کو تم میں سے دیا ہم نے ایک دستور اور راہ اللہ چاہتا تو
تم کو ایک دین پر کردیتا لیکن تم کو آزمانا چاہتا ہے اپنے دیئے حکموں میں سو تم ڈر
کر لو خوبیاں،اللہ کے پاس تم سب کو پہنچنا ہے پھر جتادے گا جس بات میں تم اختلاف
تھا“۔(المائدہ:48)
مذہبی پولیس مین مت بنو
لہٰذا، قرآن گمراہ
لوگوں،ظالموں،شرک اور کفر کا ارتکاب کرنے والوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کاپر امن
راستہ اختیار کرنے کا درس دیتا ہے کیونکہ ہدایت دینا صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں
ہے اس لئے بے جا ظلم و جبر سے سوائے نقصان کے او رکچھ حاصل نہیں ہونے والا اور اس
سے مختلف فرقوں میں باہمی رنجش،تصادم اور قتل و خوں ریزی واقع ہونے کا امکان رہتا
ہے جو قرآن کے مجوزہ تکثیری معاشرے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن ہر حال میں
انسانوں کو مذہبی داروغہ بننے سے منع کرتا ہے۔
”اور اگر تیرا رب چاہتا بے شک ایمان لے آتے جتنے لوگ کہ زمین میں ہیں
سارے تمام۔اب کیا تو زبردستی کرے گا لوگوں پر کہ ہوجائیں با ایمان۔ اے اور کسی سے
نہیں ہوسکتا کہ ایمان لائے مگر اللہ کے حکم سے او ر وہ ڈالتا ہے گندگی ان پر جو نہیں
سوچتے۔“(یونس:100)
ایک دوسری جگہ اللہ قرآن
میں فرماتا ہے۔
”اور کہہ دے کتاب والوں کو او ران پڑھوں کو کہ تم تابع ہوئے ہو؟
پھر اگر تابع ہوئے تو انہوں نے سیدھی راہ پائی اور اگر منہ پھیریں تو تیرے ذمہ صرف
پہنچا دیا ہے اور اللہ کی نگاہ میں ہیں بندے۔(آل عمران:20)
ایک جگہ او راللہ واضح
طور پر انسانوں کو مذہبی داروغہ بننے سے روکتا ہے۔
”اور اگر اللہ چاہتا تو وہ لوگ شرک نہ کرتے او رہم نے نہیں کیا تجھ
کو ان پرنگہبان او رنہیں ہے تو ان پرداروغہ“۔(الانعام:107)
اسی سورہ میں اس سے قبل
اللہ فرما چکا:
”اور اس کو جھوٹ بتلایا تیری قوم نے حالانکہ وہ حق ہے تو کہہ دے میں
نہیں ہوں تم پر داروغہ“۔(الانعام:66)
لہٰذا،مندرجہ ذیل بالاآیتوں
کے مطالعے سے قرآن کا مؤقف بالکل واضح ہوگیا کہ وہ دین کے معاملے میں جبر وتشدد کے
قطعی خلاف ہے۔ اسلام دین کے معاملے میں صبر و تحمل،حکمت اوراستقلال کی تلقین کرتا
ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج کے مسلمانوں کے ایک طبقے کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے جو غیر
مسلموں کو جبر وتشدد کے ذریعہ داخل اسلام کرنا چاہتا ہیں یا پھر مسلمانوں کے ہی دیگر
مسلک کے افراد کو بے دریغ قتل کرنے کو دین کی خدمت تصور کرتے ہیں جو کہ اصلاً خلاف
دین ہے اور قرآن کے احکام کے منافی ہے۔ قرآن ایسے ہی تشدد میں یقین رکھنے والے
مسلم گروہوں کے متعلق کہتاہے۔
”اور جب کہا جاتا ان کو فساد نہ ڈالو ملک میں تو کہتے ہیں ہم تو
اصلاح کرنے والے ہیں، جان لو وہی ہیں خرابی کرنے والے مگر نہیں
سمجھتے“۔(البقرہ:11۔12)
آگے چل کر قرآن بھی تلقین
کرتا ہے
”کھاؤ اور پیو اللہ کی روزی اورنہ پھر و ملک میں فساد
مچاتے۔“(البقرہ:60)
آج مسلم معاشر ہ میں اور
خاص کر جہاں مسلم اکثریت میں ہیں مسلمانوں میں ایسے متشدد اور انتہا پسند گروہ پیدا
ہوگئے ہیں جو مذہب کی اشاعت اور زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنے کے نام پر
قتل،خون ریزی،اغوا، خود کش دھماکے اور غیر مسلموں کو جبراً مسلمان بنانے جیسے غیر
اسلامی اور وحشیانہ فعلوں کا ارتکاب کررہے ہیں،۔ اس سے بین مذاہب دوری بھی بڑ ھ رہی
ہے اور اسلام کی شبیہ بھی ایک ایک تشدد مذہب کے طور پر بن رہی ہے۔ جب کہ قرآن
مذاہب کے مابین تصادم یا Clash of Civilisations کے بالکل خلاف ہے۔
وہ صرف اللہ کے پیغام کو بندوں تک پہنچادینے کے حق میں ہے اس کے بعد اسے ماننا او
رنہ ماننا بندے پر چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ حق کو ماننے میں اسی کی بھلائی ہے۔جوجیسا
کرے گا ویسا پھل پائے گا۔لہٰذا وہ کہتا ہے ہم میں تم میں کوئی جھگڑا نہیں:
”اللہ رب ہے ہمارا اور تمہارا، ہم کو ملیں گے ہمارے کام اور تم کو ملیں
گے تمہارے کام۔ کچھ جھگڑا نہیں ہم میں او ر تم میں۔“(الشوریٰ:15)
اسی طرح مسلمانوں میں
مسلکی اختلاف بھی اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ ہر مسلک کے پیروکار دوسرے مسلک کے
لوگوں کو کافر اوردشمن اسلام قرار دے کر انہیں جہنم کا مستحق تصور کرتے ہیں۔ اسی
پربس نہیں بلکہ وہ انہیں دنیا ہی میں قتل کر کے جہنم رسیدکرنے کو اسلامی عمل اور
کارثواب سمجھتے ہیں جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں
مسلمان ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدس کتاب اور قیامت کے
دن پر اور تمام انبیاء کرام پر ایمام لانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس کے بعد بھی جو
لوگ مسلکی اختلافات کی بنیاد پر مسلمانوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں قرآن انہیں سخت
الفاظ میں عذاب کی پیشن گوئی کرتا ہے۔
”اور جو لوگ جھگڑا ڈالتے ہیں اس کی بات میں جب لوگ اس کو مان چکے،
ان کا جھگڑا باطل ہے ان کے رب کے یہاں،ان پرغصہ ہے اور ان کو سخت عذاب ہے۔“(الشوریٰ:16)
لہٰذا،قرآن مجید کے
مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآن پر امن بقائے باہم پر
مبنی ایک مہذب انسانی معاشرے کی تشکیل پر زور دیتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے مذہب
کا احترام کریں، ایک دوسرے کے پیغمبروں کااحترام کریں اور دین کی تبلیغ و اشاعت
اور گمراہ لوگوں کی اصلاح کا کام زور زبردستی نہیں بلکہ محنت، محبت،صبر و تحمل اور
تدبر سے پر امن طریقے سے کریں کیونکہ قرآن کہتا
ہے۔“لکم دینکم ولی دین“ (تمہارا دین تمہارے ساتھ اور میرا دین میرے ساتھ)
(الکفٰرون:6)۔
URL for English Article: https://newageislam.com/islam-pluralism/holy-quran-basis-civilised,-pluralistic/d/5208
URL: https://newageislam.com/urdu-section/quran-protector-multicultural-society/d/5258