طالبان موجودہ دور کے خارجی
ہیں اورانکا وجود قرآن، حدیث اور فقہ کی رو
سے غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے
سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
قبل اس کے کہ افغان طا لبان
کے فتویٰ کا تجزیہ کیا جائے قرآن ، حدیث اور
فقہ کی روشنی میں خود طالبان کے وجود، اس کے طرز عمل اور اس کے نظریات کا تجزیہ کریں۔
افغان طالبان اور تحریک طالبان
پاکستان، افغانستان اور پاکستان کی غیر قانونی
اور دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو افغانستان اور پاکستان کی آئینی حکومتوں کو نہیں
مانتیں اور ان کے خلاف گوریلا جنگ میں مصروف
رہتی ہیں ۔ افغانستان میں یہ تنظیم وہاں کی آئینی حکومت سے بر سرپیکار رہتی ہے اور
وہاں کے فوجی سفارتی اور شہری مقامات کو پنی پرُ تشدد کارروائیوں کا نشانہ بناتی رہتی
ہے جن کے نتیجے میں فوجیوں اور عام شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے ۔یہ تنظیم
جمہوریت میں یقین نہیں رکھتی اور اپنی ایک متوازی حکومت چلاتی ہے ۔ روس کے انخلاء کے
بعد جب احمد شاہ مسعود کی رہنمائی میں افغانستان میں ایک متحدہ حکومت کی تشکیل ہوئی
تو شمولیت کی دعوت کو طالبان نے ٹھکرا دیا کیونکہ اس کی نظر میں ان کے علاوہ باقی سبھی
پارٹیاں غیر اسلامی اور غیر شرعی تھیں لہٰذا حکومت کرنے کا اختیار صرف انہیں تھا ۔
پاکستانی طالبان جو نظریئے ، طرز عمل اور سیاسی مقاصد کے اعتبار سے افغانستان طالبان
سے مختلف نہیں ہیں پاکستانی حکومت کے خلاف
دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیتے رہتے ہیں ۔پاکستان کے فوجی اداروں اقلیتی اداروں
اور معصوم اور نہتے شہریوں کے خلاف خود کش حملے کے ذریعے بے انتہا جانی و مالی نقصان
کا سبب بنتے ہیں باوجود اس بات کے کہ پاکستان اور افغانستان میں اکثریت مسلمانوں کی
ہے اور وہاں مسلمانوں کی منتخب حکومت ہے ۔لہٰذا اس طرح کے ملک کی آئینی حکومت کونہ
ماننے والے جنگ جو گروہوں کو قرآن اور حدیث کے مطابق باغی جماعت کہا جاتا ہے اور ان
کے خلاف قرآن حدیث اور فقہ میں انتہائی سخت احکام ہیں ۔ لہٰذا قرآن اور فقہ کی روشنی
میں ان کے وجود ان کے طرز عمل اور نظریات کا تجزیہ ذیل میں پیش ہے ۔
طالبان ایک باغی اور غیر شرعی
جماعت ہے ۔
امام عبدا لرحمان الجزاری
اپنی کتاب الفقہہ المذاہب الاربعہ صفحہ 419میں فرماتے ہیں :
‘‘ اگر ایک جماعت (کسی ملک کی ) مسلم حکومت کے خلاف بغاوت کرتی ہے اور
خدا یا انسانوں کے حقوق کے عملدر آمد میں مانع ہوتی ہے یا حکومت کے احکام کو ماننے
سے انکار کرتی ہے اور اس کا تختہ الٹنے کا
ارادہ رکھتی ہے اس اس عذر کی بنا پر کہ وہ حکومت غیر منصفانہ ہے تو حکومت کو یہ لازم
ہے کہ ان باغیوں کو وارننگ دے لیکن اگر اس کے باوجود اگر وہ اطاعت کرنے سے انکار کردیں
تو تلوار سے ان سے جنگ کرے۔’’
اسی طرح طالبان جیسی باغی
جنگجو تنظیموں کےمتعلق امام مرغنانی رقم طراز ہیں۔
‘‘جب مسلمانوں کا ایک گروہ کسی علاقے پر قبضہ جمالے اور وہاں کی مسلم
حکومت کے خلاف بغاوت کردے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ انہیں قوم کی اصل دھارا میں شامل
ہونے کی دعوت دے اور ان کے پرُ فریب دلائل کا رد کر ے ٹھیک جس طرح حضرت علی نے جنگ
سے قبل حارورہ کے خارجیوں کے ساتھ کیا تھا ۔ مرید برآں ، یہ دو متبادل میں سے آسان
بھی ہے تاکہ شاید اس سے برائی کو روکا جاسکے۔
سو، پہلے حکومت انہیں واپسی کی دعوت دے اور جب تک وہ جارحانہ کارروائی نہ کریں تب تک
جنگ کی شروعات نہ کرے۔ اور جب وہ متشدد کارروائیاں شروع کریں تو ان سے جنگ کرے اور
ان کے فوجیوں کو منشتر کرے ( اور ان کی طاقت کو کچل ڈالے )’’
لہٰذا ، طالبان جیسی دہشت
گرد اور مسلم حکومت کی اطاعت سے انکار کرنے والی اور کشت و خون اور جدال وقتال کے نظریے
میں یقین رکھنے والی تنظیم کے متعلق فقہا و علماء کا مؤقف یہ ہے کہ یہ غیر اسلامی
اور غیر شرعی تنظیمیں ہیں اور ان کے ساتھ مسلم حکومتوں کو سختی سے پیش آنا چاہئے اور
ان کا قلع قمع کر کے ملک میں امن و امان کی راہ ہموار کی جائے ۔ جس طرح حضرت علی رضی
اللہ عنہ نے حار ورہ کے خارجیوں کے ساتھ سلوک کیا تھا ۔ قرآن میں بھی ان کے متعلق
واضح آیتیں ہیں جو ان کے اس متشدد نظریات
و اعمال کی مذمت و مخالفت کرتی ہیں اور ان کی سر کوبی کا حکم دیتی ہیں۔ سورہ بقرہ میں
اللہ فرماتا ہے ۔
‘‘ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت مچاؤ تو وہ کہتے ہیں
کہ ہم تو اصلاح کرنےو الے ہیں ۔ بیشک وہی ہیں فساد کرنے والے مگر وہ سمجھتے نہیں
’’ (البقرہ :11۔12)
ایک دوسری جگہ قرآن کہتا
ہے
‘‘اور اگر دو فرقے مسلمانوں کے آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں ملاپ کرادو
۔ پھر اگر چڑھا جائے ایک ان میں دوسرے پر تو لڑواس چڑھائی والے سے ، جب تک پھر آوے
اللہ کےحکم پر پھر اگر پلٹ آیا تو ملاپ کراؤ ان میں برابر اور انصاف کرو۔ بے شک اللہ
کو پسند ، میں انصاف والے ’’۔ (سورہ الحجرات : 9)
لہٰذا ، طالبان کی باغیانہ
روش کی مذمت اور مخالفت قرآن حدیث اور فقہ واضح طور پرکرتے ہیں اور اسے گمراہ لوگوں
اور قزاقوں کی جماعت سے تعبیر دیتے ہیں اور ان کے لئے وہی سزا تجویز کرتے ہیں جو لیٹروں
اور مفسدوں کے لئے تجویز کی جاتی ہے ۔
امام ابو جعفر طحاوی فرماتے
ہیں
‘‘ ہم امّت کے خلاف تلوار کے
استعمال کی حمایت نہیں کرتے ۔ سوائے اس کے لئے جس کے لئے تلوار کا استعمال ضروری
ہے ۔ ہم اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ان کے خلاف جن کے ذمےّ ہمارے معاملات ہیں ۔ باوجود
اس کے کہ وہ غیر منصف ہیں ۔ ہم نہ ان کے خلاف حکم جاری کرتے ہیں اور نہ ان سے اپنی
اطاعت موقوف کرتے ہیں۔ ’’ (الطحاوی ۔ العقائد الطحاویہ ص 71۔72)
مندرجہ بالا اقتباس سے واضح
ہوتا ہے کہ اگر مسلمان حکومت غیر عادل و غیر مصنف بھی ہوتو بھی اس کے خلاف مسلح بغاوت کرنا او رملک میں بد امنی ، افراتفری اور
قتل و غارت گری کرنا ممنوع ہے بلکہ اس کے لئے پرُ امن اور جمہوری طریقے اپنانے کی ہدایت
دی گئی ہے ۔ کیونکہ ملک میں بہت سے انصاف پسند
اور نیک لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ ملکر
حکومت کے اندر پھیلی ہوئی نا ہموار
یوں اور نا انصافیوں کو دور کیا جاسکتا ہے ۔
لہٰذا ،اپنی کتاب الفقہہ الابساط
میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
‘‘ اسلئے باغیوں کے خلاف ان کے باغیانہ روش کی وجہ سے جنگ کرو، ان کے
عقیدے کی وجہ سے نہیں ۔ انصاف پسند اور اعتدال پسند جماعت کا ساتھ دو اور باغی جماعت
کے ساتھ مت رہو ۔ اگر اصل دھارا کی اکثریت والی جماعت میں ظالم او ربدعنوان افراد ہوتے
ہیں تو ان میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں جو ان ظالموں اور بدعنوان افراد کے خلاف تمہاری
مدد کریں گے ۔ ہا ں اگر جماعت یا اکثریت بھی بغاوت کی حالت میں ہوتو اس صورت میں دوسروں
کے پاس مدد کے لئے جاؤ۔ خدائے بزرگ و برتر کہتا ہے کہ ‘‘ کیا خدا کی زمین وسیع نہیں
تھی کہ تم اس حالت میں وہاں سے ہجرت کر جاتے ۔؟ ( سورۂ النساء : 97)
مندرجہ بالا اقتباسات اس امر
کی دلالت کرتے ہیں کہ اسلام میں مقبول اور منتخب عوامی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے اور
صرف خود کو ہی جماعت بر حق قرار دینا اور اس بنا پر بے قصور عوام کو خون خرابہ او ربد
امنی کی دلدل میں دھکیلنا خلاف شرع فعل ہے اور ایسے لوگوں اور جماعتوں کے خلاف عوام
کو بھی حکومت کا ساتھ دینا چاہئے ۔ کیونکہ اس طرح کی جماعتیں فتنہ ہیں جس طرح حضرت
علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں خارجی ایک فتنہ تھے ۔
امام النووی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں
‘‘امام البغوی کی رائے ہے کہ یہ لوگ فاسق اور ذلیل ہیں جو بغاوت کرتے
ہیں اور ان کے متعلق وہی حکم ہے جو ڈاکوؤں اور قزاقوں کا ہے ۔ یہ حکم قانونی مکتب
اور متن کے بیان کے مطابق ہے او رجمہور کا یہ مذہب ہے ۔ امام (البغوی ) کی خارجیوں
کو ایمان سے خارج قرار دینے کے متعلق دورائیں ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہم ان کے خلاف
کفر کے تحت حکم نہیں لگاتے تو ان کے ساتھ مرتدوں
کے متعلق حکم کے تحت سلوک کیا جائے گا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ باغیوں کے
لئے محفوظ فتوی کے تحت بھی سلوک کیا جاتا ہے ۔ (امام النووی : روضۃ الطالبین 10: 51۔52)
طالبان جیسی باغی تنظیم کی
حضرت عابدبن الشامی نے اپنی کتاب ردّ المحتار
( 4:262) میں تعریف اس طرح پیش کی ہے ۔
‘‘باغی جماعت ہر وہ فرقہ ہے جس کے پاس اسلحہ ہو اور اس کا مقصد اقتدار
حاصل کرنا ہو۔ وہ ایک غلط تشریح و تاویل کی بنا پر اہل عدل سے جنگ کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ ’’ ہم حق پر ہیں اور یہ
کہ ‘‘ہم ہی شرعی طور پر حقیقی حاکم ہیں ’’۔
اپنی معرکتہ الارا کتاب المغنی میں
امام ابن قدامہ المقدسی (۹۔۴)فرماتے ہیں:
‘‘محدثین کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ باغی افراد کافر اور مرتد ہیں،
اور انکا حکم بھی مرتد کے حکم کے اس طرح برابر ہے کہ انکا خون اور انکی دولت حلال ہے۔
اگر وہ لوگ ایک مخصوص مقام پر محبوس ہو جاتے ہیں اور قوت اور فوج جمع لر لیتے ہیں تو
وہ دوسرے کفار کی طرح اہل الحرب (جنگجو) قرار پاتے ہیں ۔ اور اگر وہ حکومت کی قید میں ہوں تو
ان سے توبہ اور تاسف کیلئے کہا جائے جس طرح
مرتد سے توبہ کے لئے کہا جاتا ہے ۔ اگر وہ توبہ کرتے ہیں (تو انکے حق میں بہتر ہے)
ورنہ ان کو قتل کر دیا جائے اور انکی دولت کو فئے (بغیر جنگ کے ہاتھ آیا ہوا
مال غنیمت) قرار دیا جائے۔اور انکے ورثا کا اس میں سے کچھ حصہ نہیں ہو گا۔’’
URL of
the Part 1 of the series: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-truth-behind-talibn-fatwa/d/9556
URL : https://newageislam.com/urdu-section/the-truth-behind-taliban-fatwa/d/9573