سہیل ارشد،نیو ایج اسلام
6 دسمبر 2012
گذشتہ چند مہینوں سے طالبان
کے ترجمان رسالے نوائے افغان جہاد میں ایک قسط وار مضمون شائع ہورہا ہے ۔ اس مضمون
کا عنوان ہے ‘‘ وہ حالتیں کہ جن میں کفّار کے عام لوگوں کا قتل جائز ہوتا ہے ’’۔ اس
مضمون میں طالبان کے کسی عالم شیخ یوسف العبیری
نےطالبان کے ذریعہ عورتوں ، بچوں، ضعیفوں کے قتل کو قرآن کی آیتوں ، احادیث مبارکہ
او رعلماء کرام کے فتاویٰ کی مدد سے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسوسناک بات یہ
ہے کہ طالبان کے غیر انسانی اور غیر اسلامی کارروائیوں کو جائز ثابت کرنے کیلئے قرآن
اور احادیث مبارکہ کی غلط تاویلیں پیش کی گئی ہیں اور ہر اس عمل کو جائز قرار دینے
کی کوشش کی گئی ہے جسے اسلام نے غیر اسلامی اور غلط قرار دیا ہے ۔
افغانستان او رپاکستان میں
ایک گوریلا اور دہشت گرد تنظیم کی حیثیت سے سر گرم طالبان نے روس کے
انخلاء کے بعد وہاں کی غیر مستحکم سیاسی صورت حال کا فائدہ اُٹھا کر اور وہاں کے بھولے
بھالے اور غیر تعلیم یافتہ عوام کو قرآن کی تعلیمات پر مبنی اسلامی حکومت کے قیام
کا سبز باغ دکھا کر 1996 میں اقتدار پر قبضہ جما لیا اور 2001 تک برسر اقتدار رہے ۔ 11 ستمبر 2001 ء کو امریکہ میں
دہشت گردانہ حملے کا انتقام لینے اور اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کے بہانے امریکہ
نے افغانستان پر حملہ کردیا اور طالبان کی
حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اگرچہ امریکہ اور عام لوگوں کا ایقان ہے کہ اسامہ بن لادن
کی دہشت گرد تنظیم القاعدہ ان حملوں کے پس پشت کار فرما تھی اور اسے طالبان نے افغانستان
میں پناہ دے رکھی تھی ۔ مگر مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے کچھ دانشور اس میں سازشی نظرئیے
کا پہلو بھی تلاش کرتے رہے اور اسے یہویوں کی سازش قرار دیتے رہے ۔ مگر نوائے افغان
جہاد کے اس مضمون میں جا بجا ان دہشت گردانہ حملوں کی ذمے داری قبول کی گئی ہے اور
اسے ‘‘ 11 ستمبر کے مبارک حملے ’’ اور معرکہ 11 ستمبر کا مبارک دن’’ قرار دیا ہے ۔
طالبان کا وجود افغانستان
میں 1991 میں عمل میں آیا جس کے بانیان سمیع الحق او رمولانا فضل الرحمٰن ہیں ۔ افغانستان
اور پاکستان میں طالبان ایک ایسی دہشت گرد اور جنگجو تنظیم کی حیثیت سےجانی جاتی ہے
جس کے ذریعہ غیر مسلموں کی بات جانے دیجئے خود مسلمانوں کی سماجی، مسلکی، اور تعلیمی
آزادی چھین لی گئی ہے ۔ افغانستان اور پاکستان میں طالبان کے ذریعہ عورتوں کے ناک
اور کان کاٹ لینے ، عورتوں کو تعلیم کے حق سے محروم کر دینے، انہیں سر سے پاؤں تک
سیاہ برقعے میں محبوس کردینے ، سکھوں اور ہندوؤں کے مذہبی حقوق سلب کر لینے اور انہیں
قتل کردینے کے واقعات مسلسل اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔ پاکستان کے سوات میں لڑکیوں
کی تعلیم گاہوں کو طالبان نے مسمار کردیا ہے ۔ او رلڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا ممنوع قرار دیاہے۔ سوات ہی کی ملالہ نام کی دوشیزہ نے
11 سال کی عمر سے ہی طالبان کے اس غیر اسلامی فتوے کی مخالفت شروع کردی۔ اس کی مخالفت
میں اس نے پریس کانفرنس کئے اور انٹر نیٹ پرمہم چلائی جس کی سزا میں اس پر طالبان نے
قاتلانہ حملہ کیا اور اسے مرتد قرار دیا ہے اور اس کے خلاف موت کا فتویٰ صادر کیا ہے
۔ اپنے اس فعل کو جواز عطا کرنے کےلئے طالبان نے ملالہ کو امریکہ کا جاسوس اور معاون
بتایا ہے تاکہ اس بنا پر اس کے قتل کو جائز قرار دیا جا سکے ۔ افغانستان میں بھی اپنے دور حکومت میں
طالبانیوں نے عوام پر شریعت کی پابند یاں لگائیں اور ا تنے کوڑے لگائے کہ وہ لوگ طالبان
کے اقتدار والے علاقوں سے ہجرت کر کے دوسرے علاقوں میں بس گئے ۔ خود طالبان کے ایک
مخالف لیڈر احمد شاہ مسعود نے 2001ء میں یوروپین
پارلیا منٹ میں کہا تھا کہ طالبان اور القاعدہ نے اسلام کی غلط تشریح پیش کی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان امریکہ کے خلاف
ایک بڑا حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے ۔ احمد شاہ مسعود کی یہ پیش قیاسی صحیح ثابت ہوئی
اور 11 ستمبر کو نیو یارک کے ٹریڈ سنٹر ، پنٹا گن اور وہائٹ ہاؤس پر حملے ہوئے ۔
طالبان جو پر تشدد کارروائیوں
اور مسلم ممالک میں مسلم عوام کے قتل کے لئے امریکہ کی تنقید کرتا ہے خود اپنے دور
حکومت میں افغانستان میں پرُتشد د وحشیانہ کا رروائیوں کے لئے جانا جاتا ہے ۔ اس
نے 1995 سے لیکر 2012 ء تک کی تاریخ میں ہزاروں غیر متحارب افغانیوں او رپاکستانیوں
کا قتل کیا جن میں زیادہ تر مسلمان تھے ۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے 1995ء میں اپنی ایک
رپوٹ میں لکھا تھا ۔
‘‘ گذشتہ چند مہینوں میں پہلی بار کابل کے رہائشی علاقوں میں غیر متحارب
شہریوں پر راکٹ حملے ہوئے ۔’’
اسی طرح اقوام متحدہ نے اپنی
55 صفحاتی رپورٹ میں لکھا تھا ۔
‘‘طالبان نے شمالی اور مغربی افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے
کےلئے منظم طریقے اور منصوبہ بند طریقے سے شہریوں کا قتل عام کیا ۔’’ اسی طرح اقوام
متحدہ کے افسران کے مطابق 1996ء اور 2001ء کے درمیان انہوں نے 15 قتل عام کی وارداتیں
انجام دیں۔ اور ان حملوں میں طالبان کی صفوں میں شامل عرب جنگجو ؤں نے جو لمبے چاقوؤں
سے لیس تھے شہریوں کا قتل عام کرتے تھے ۔ اور ان کی ان وحشیانہ اور غیر اسلامی کارروائیوں
کو ان کے ایک سفیر عبد السلام ضعیف نے ‘‘ ضروری اور ناگریز’’ قرار دیا تھا ۔ بہر حال،
قرآن کی کس آیت اور کس رو سے یہ کارروائیاں ضروری تھیں انہوں نے نہیں بتایا ۔ انہوں
نے 1996 ء اور 2006ء کے درمیان جنگ کے درمیان
‘‘زمین سوختہ ’’ پالیسی (policy Scorched earth) کے تحت شہریوں کاقتل عام کیا ، کھیتوں اور فصلوں کو تباہ کیا اور
اقوام متحدہ کے ذریعہ فاقہ کش عوام کو غذائی اجناس کی سپلائی روک دی ۔ طالبان کے ان
مظالم سے تنگ آکر لاکھوں افراد متحدہ محاذ کے ماتحت علاقوں ، پاکستان اور ایران ہجرت
کر گئے ۔
پاکستان میں بھی طالبان نے
اپنے مقبوضہ علاقے میں شہریوں کی مذہبی ، سماجی
ثقافتی اور تعلیمی آزادی سلب کرلی ہے اور اسلام کی ایک مستند د اور غیر روا
دارشبیہ پیش کی ہے ۔ ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم ممنوع ہے ، ٹیلی ویژن دیکھنا اور
صوفیوں کے روضے کی زیارت بھی ممنوع ہے ۔ پاکستا ن میں طالبانیوں نے شیعوں، احمدیوں
، عیسا ئیوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ حال میں سینکڑوں ہندو خاندان
پاکستان سے ہندوستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جو ایک اسلامی ملک پربدنما داغ ہے۔ گذشتہ
چند پرسوں میں طالبان کے ذریعے مزارات، جلوسوں
اور مسجدوں اور شہری رہائشی علاقو ں میں لا
تعداد خود کش دھماکے ہوئے ہیں جن میں معصوم بچے، بوڑھے اور عورتوں سمیت ہزاروں افراد
شہید ہوئے۔ کیا وہ سب امریکی تھے اور کس حدیث کی رو سے انکا قتل جائز ٹھہرتا ہے؟
طالبان نے جو خود کش حملوں
کو ایک ہتھیار یا حکمت عملی کے طور پر اپنا یا ہے وہ نہ تو قرآن کی رو سے جائز ہے اور نہ ہی حدیث کی
رو سے۔ خود کشی اسلام میں حرام ہے چاہے وہ
نیک مقصد کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-truth-behind-talibn-fatwa/d/9556