سہیل انجم
11فروری،2021
دنیا میں کہیں بھی اگر
کسی ملک ، کسی حکومت یا کسی گروہ کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہو تو وہ
معاملہ صرف اسی ملک تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ بین الاقوامی بن جاتاہے ۔ یہی وجہ
ہے کہ اگر کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کے خلاف پوری دنیا میں
آواز اٹھتی ہے اور ایسے واقعات کی مذمت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی
کرنے والے پرزور دیا جاتا ہے اور ان جرائم سے باز آئے۔ چین میں تقریباً ایک کروڑ
ایغور مسلمان ہیں جو شمال مغربی صوبے سنگیانگ میں آباد ہیں۔ان کے تعلق سے اکثر و
بیشتر تشویشناک رپورٹیں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق کم از کم دس
لاکھ ایغور مسلمانوں کو جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں، حراستی کیمپوں میں
رکھا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق وہاں ان کے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف
ورزی ہوتی ہے۔
یوں تو 2016 سے ہی ایغور
مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں بتدریج اضافہ ہوتا آیا ہے لیکن حالیہ دنوں میں
اس میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ ان کیمپوں کو ’’تعلیم نو‘‘ کے کیمپ کہا جاتاہے
اور چینی حکام کا کہنا ہے کہ وہاں ایغور کمیونٹی کو چین کی مین اسٹریم میں شامل
کرنے کیلئے ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ وہ ان کیمپوں کو نظریاتی تعلیمی ادارے کہتے
ہیں اوران کا دعویٰ ہے کہ وہاںلائے جانے والے افراد کی نظریاتی طور پر تطہیر کی
جاتی ہے ۔ چینی حکومت کا کہناہے کہ جو مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہیں ان کو ان
کیمپوں میں رکھاجاتاہے تاکہ ان کی ذہنیت بدلی جاسکے۔ نیز یہ کہ سنگیانگ میں پیش
آنے والے بیشتر تشدد آمیز واقعات کی وجہ مسلمانوں کی آزاد ریاست کے حصول کی
جدوجہد ہے۔لیکن میڈیا اداروں اور بعض ملکوں کی تیار کردہ رپورٹوں کے مطابق ایغور
مسلمانوں کو مین اسٹریم میں شامل کرنے کے بہانے ان کو ان کے مذہب سے دور کیا
جاتاہے اور انہیں اپنے اسلامی عقیدے ،
مذہبی شناخت اور اپنی تہذیب کو خیر باد کہنے اور چینی قیادت سے وفاداری کا دم
بھرنے کے لئے مجبور کیا جاتاہے۔ صدرشی جن پنگ کے قصیدوں پر مشتمل کتاب پڑھائی جاتی
ہے او راس کے اسباق یاد کرائے جاتے ہیں۔ جو ان کو یاد نہیں کرتا اسے ظلم و جبر کا
نشانہ بنایا جاتاہے۔
جرمن وزارت خارجہ نے
انسانی حقوق کی تنظیموں ،وکلاء، مغربی ممالک کے سفارت خانوں اور بین الاقوامی
تنظیموں سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میںکہا گیاہے کہ
ایغور مسلمانوں کو مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جانا عام بات ہے۔ خواتین کو
جسمانی کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات ان تشدد آمیز
واقعات کی وجہ سے ان کی موت بھی واقع
ہوجاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایغور مسلمانوں کی
صورت حال میں جو تفصیلات دی گئی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ یہ رپورٹ ان کیمپوں
سے باہر آنے والی متعدد خواتین انکشافات پرمبنی ہے۔ ان خواتین کے مطابق چینی
مردوں کی جانب سے خواتین کی منظم انداز میں مسلسل اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے۔ اس
کے علاوہ انہیں ادویات کے سہارے بانجھ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ان کی نس بندی
کی جاتی ہے یا پھر ان کی بچہ دانی نکال دی جاتی ہے تاکہ کوئی اولاد نہ ہوسکے۔ وہاں
جو بھی چینی مرد آتے ہیں وہ نقاب پوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کی خواتین کو لے
جاتے ہیں او ران کی عصمت دری کرتے ہیں۔ باہر آنے والی خواتین کا کہنا کہ بعض
اوقات ایک ساتھ کئی خواتین لے جائی جاتی ہیں ۔ لے جانے سے قبل ان کو بے لباس کردیا
جاتا ہے او ران کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں تاکہ وہ اس اذیت کے دوران
جنبش بھی نہ کرسکیں۔ انہیں جن کمروں میں لے جایا جاتاہے ان کے باہر ان کے چیخنے کی
آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس فعل میں وہاں کے گارڈ بھی ملوث ہوتے ہیں۔خواتین کاکہنا
ہے کہ جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ جسمانی اذیت بھی دی جاتی ہے ۔بجلی کے جھٹکے بھی
لگائے جاتے ہیں اور ادویات کے سہارے ان کے دل ودماغ اور جسمانی نظام کو اس طرح
مفلوج کردیا جاتا ہے کہ انہیں پیٹ بھر کھانے کے علاوہ او رکسی چیز کی فکر نہیں
ہوتی۔
ایک خاتون نے بی بی سی کو
بتایا کہ اس کے ذمہ خواتین کو دوسرے کمرے میں پہنچانے کا کام تھا۔ عصمت دری کے بعد
جب خواتین وہاں سے نکلتیں تو اس سے اس کمرے کی صفائی کروائی جاتی ۔ ان خواتین نے
جو واقعات بیان کیے ہیں وہ انتہائی غیر انسانی اور لرزہ خیز ہیں ۔ ان رپورٹ کے
منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ اوراسٹریلیا نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کا کہناہے کہ اس رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چین نے انسانیت کے
خلاف جرم اور ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کی ہے۔ اس نے چین سے مطالبہ کیاہے کہ وہ
فوری طور پر بین الاقوامی مشاہدین کو ان کیمپوں میں جانے دے تاکہ وہ ان واقعات کی تحقیقات
کرسکیں۔ جب کہ آسٹریلیا کاکہنا ہے کہ وہ سنگیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر
مسلسل آواز اٹھاتا رہا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ان
کیمپوں کے اندر کی کہانیاں مشکل سے ہی ملتی ہیں۔ تاہم متعدد ایسے افراد جنہیں وہاں
بندرکھا گیا اور ایک گارڈ نے بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ انہوں نے وہاں منظم
انداز میں ہونے والی اجتماعی عصمت دری اور تشدد کے واقعات دیکھے ہیں۔ بی بی سی نے
سنگیانگ سے ایک قازق خاتون کا انٹرویو کیا جنہیں 18ماہ تک اس کیمپ میں رکھا گیا۔ او رکہتی ہیں کہ انہیں اس پر مجبور کیا
گیاکہ ایغور خواتین کو برہنہ کریں اور انہیں ہتھکڑیاں لگائیں او رپھر انہیں چینی
مردوں کے سامنے اکیلا چھوڑ دیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ بعد میں وہ کمرے کو صاف کیا کرتی
تھیں ۔ گلزیرہ ایولخان بتاتی ہیں کہ میرا کام تھا کہ خواتین کی قمیض اتاروں او
رپھر انہیں ہتھکڑیاں لگاؤں تاکہ وہ ہل نہ سکیں۔ پھر میں کمرے سے باہر آجاتی تھی
او رکوئی چینی مرد یا پھر کوئی پولیس والا کمرے میں داخل ہوتاتھا۔ میں کمرے کے
باہر خاموشی سے بیٹھی ہوتی تھی اور جب وہ
مرد کمرے سے نکلتا تھا تو میں اس خاتون کو نہانے کے لیے لے کر جاتی تھی ۔ وہ کہتی
ہیں کہ چینی مرد نوجوان قیدیوں اور خوبصورت قیددیوں کو حاصل کرنے کے لئے رقم بھی
ادا کرتے تھے۔
اس کیمپوں کے کچھ اور
سابق قیدیوں نے بتایا کہ انہی گارڈز کی مدد کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا پھر انہیں
سزا دی جاتی تھی۔ گلزیرہ ایولخان کہتی ہیں کہ مداخلت کرنے یا مزاحمت کرنے کی ان
میں طاقت نہیں تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیاو ہاں پر عصمت دری کا ایک منظم نظام
تھا تو انہوںنے کہا ہاںبالکل تھا۔ ایک قازق خاتون تورسنے زیائدین کاکہناہے کہ کچھ
خواتین کو جب لے کر جایا جاتا تھا تو وہ لوٹتی ہی نہیں تھیں۔ کچھ خواتین جو لوٹتی
تھیں انہیں کہا جاتا تھا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ کسی نہیںبتائیں ۔9مارچ
2018کو تورسنے سے کہا گیا کہ وہ ایک مقامی پولیس اسٹیشن جائیں کیونکہ انہیں مزید
تعلیم کی ضرورت تھی۔ انہیں پھر اسی حراستی مرکز میں لے جایا گیا جہاں انہیں پہلے
لے جایا گیا تھا۔ مگر اس مرتبہ وہ جگہ کافی بدل چکی تھی ۔ وہ کہتی ہیں کہ اس مرتبہ
حراستی مرکز کے باہر بسیں کھڑی تھیں اور ان بسوں سے نئے قیدی اتارے جارہے تھے ۔
خواتین سے ان کے زیور چھینے جارہے تھے ۔ ان کے کانوں سے بالیاں ایسے کھینچی گئیں
کہ ان کے کانوں سے خون نکلنا شروع ہوگیا۔ انہیں ایک کمرے میں دیگر خواتین کے ساتھ
دھکیلا گیا جن میں ایک معمر خاتون بھی تھیں ۔ بعد میں تورسنے اور اس خاتون کی
دوستی ہوگئی۔ تورسنے کہتی ہیں کہ گارڈز نے اس معمر خاتون کا اسکارف سرسے کھینچ کر
اتار دیا اور وہ ان پر لمبا ڈریس (مکمل جسم ڈھانپنے والا لباس) پہننے پر چیخنے
لگے۔ لمبا ڈریس پہننا اب ایغور کے لئے ایک ایسا جرم بن گیا ہے جس پر انہیں گرفتار
کیا جاسکتا ہے ۔انہوں نے اس معمر خاتون کے سارے کپڑے اتار دئیے یہاں تک کہ انڈویئر
میں رہ گئیں ۔ وہ اس قدر شرمندہ تھیں کہ ہاتھوں سے خود کو چھپانے کی کوشش کررہی
تھیں۔ اس خاتون کے ساتھ ان کا رویہ دیکھ کر میں بہت روئی۔ ان کے مطابق ہر کمرے میں
14خواتین ہوتی تھیں۔ کھڑکیوں پر سلاخیں تھیں۔ ایک بیسن تھا اور زمین میں ایک سوراخ
بیت الخلا کاکام دیتاتھا۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ خواتین کو رات کے وقت کمروں سے
لے جانے کا عمل دیکھا توانہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہورہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ
میں سمجھی انہیں کہیں او رلے جایا جارہا ہے۔
یغور ہیومن رائٹس پراجیکٹ
سے بات کرتے ہوئے کلبنیر صادق نے بتایاکہ انہوں نے خواتین کے اندر بجلی کے ڈنڈے
ڈال کر انہیں جھٹکے دینے کی کہانیاں سنی ہیں۔یہ تورسنے کے دعوؤں کی تائید کرتا ہے
۔کلبنیر کہتی ہیں کہ چار قسم کے برقی جھٹکے دیئے جاتے تھے۔ دستانہ ،ہیلمٹ ، کرسی
اور کسی ڈنڈے سے ریپ ۔عمارت میںچیخوں کی آوازیں گونجتی تھیں۔ مجھے کبھی دوپہر کے
کھانے کے دوران آوازیں آتی تھیں ،کبھی کلاس کے دوران ۔ ایک اور استاد جنہیں اس
کیمپس میں پڑھانے پر مجبور کیا گیا،سیراگل سوہئتے نے بی بی سی کوبتاتیا کہ
’’اجتماعی عصمت دری عام بات تھی‘‘ اور گارڈاپنی مرضی کی نوجوان لڑکیاں اور خواتین
کو اٹھاتے تھے اور لے جاتے تھے۔انہوں نے ایک 20سے 21سالہ لڑکی کی خوفناک کہانی
سنائی جس کی اجتماعی عصمت دری کی گئی اور تقریباً 100قیدیوں کے سامنے لاکر کھڑا
کیا گیا اور اس سے زبردستی اقرار جرم کروایا گیا ۔پھر سب کے سامنے پولیس والوں نے
باری باری اس کی عزت لوٹی ۔ اس دوران حکام نے قیدیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی کہ کون
مزاحمت کررہا ہے، کون اپنی آنکھیں بند کررہا ہے ،کون دوسری جانب دیکھ رہاہے ،کون
مٹھیا بند کررہا ہے ۔پھر ان لوگوں کو سزا کے لئے لے جایاگیا۔ سیراگل کہتی ہیں کہ
اس دوران وہ بچی مدد کیلئے پکارتی رہی۔وہ منظر بہت خوفناک تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ
میں مرگئی ہوں۔ میں مردہ تھی۔
اس رپورٹ میں ایسے بہت سے
واقعات بیان کئے گئے ہیں جن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔حالانکہ چین اس
الزامات کی تردید کرتاہے۔ لیکن وہ ان واقعات کی آزادانہ جانچ کی اجازت بھی نہیں
دیتا ۔کئی ملکوں نے آزاد بین الاقوامی مشاہدین کے دورے کی ضرورت پر زور دیا ہیں
ان کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔
11فروری،2021، بشکریہ: روز نامہ آگ، لکھنؤ
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-heartbreaking-story-uighur-muslims/d/124288
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South Asia
News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism